Wednesday, January 25, 2012

وحدتِ اُمت کے بنیادی اصول

0 تبصرہ جات

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم
وحدتِ اُمت کے بنیادی اصول
بھائیوں اور بہنوں اس مضمون میں کچھ باتیں سخت بھی ہیں لیکن ان کے بغیر بات واضح کرنا مشکل تھا اس امت کی وحدت وقت کی اہم اور بنیادی ضرورت ہے ہم قرآن و صحیح حدیث کے علاوہ تیسری کسی بھی چیز پر کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتے۔
اگر کسی بھائی بہن کو میری کوئی بات اچھی نہ لگے یعنی قرآن و سنت کے خلاف لگے تو مجھے سمجھائے کیونکہ میں کوئی عالم نہیں ہوں بس اسلام کا ایک طالب علم ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا
اب مضمون کی طرف آتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٠٢؁وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔اور تم سب مل کر حبل ِاللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو۔
(سورۃآلِ عمران۔۱۰۳)
اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو مرتے دم تک صرف مسلم (فقط اللہ کے اطاعت گذار) رہنے کا حکم دینے کے ساتھ حبل اللہ یعنی کتاب اللہ کی بنیاد پر وحدت میں ڈھلے رہنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مومنین کوباہم وحدت کاحکم دیا ہے توساتھ وحدت کے اُصول بھی بتائے ہیں جن میں سے درج ذیل اُصول ’’بنیادی اُصولوں‘‘ کے طور پرسامنے آتے ہیں۔
وحدت اُمت کاپہلا اُصول
صرف اللّٰہ کی عبادت کرنا
اوراس کے لئے صرف اللّٰہ کے دین
کی ’’خالص اتباع ‘‘ کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ ﴿﴾
وَ تَقَطَّعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ ﴿﴾

درحقیقت تمہاری یہ اُمت ’’اُمت ِواحدہ‘‘ ہے اور میں تمہارارب ہوں پس تم صرف میری ہی عبادت کرومگر انہوں نے اپنے اس امرکو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، آنا سب کو ہماری طرف ہی ہے ۔
(سورۃ الانبیاء ۔۹۲،۹۳)
آیت سے واضح ہوتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی بناپر سب لوگ ایک ہی اُمت تھے لیکن جب اُنہوں نے اس امرکو توڑدیا اور غیراللہ کی بھی عبادت میں مبتلاہوئے تو اپنے اپنے الٰہ غیراللہ کے پیچھے الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ کی کتاب سے اہل ِ ایمان کو اُن کی وحدت کا پہلا بنیادی اُصول یہ سامنے آتا ہے کہ ہر طرح کی عبادت صرف اللہ ہی کی اختیار کی جائے اوراس کے لئے ’’ اتباع ‘‘ بھی خالصتاً اللہ کے نازل کردہ دین اسلام یعنی ’’قرآن وسنت‘‘ہی کی اختیار کی جائے اوراس کے ساتھ غیراللہ کی اتباع(اللہ کے ساتھ شرک)کو شامل نہ کیا جائے۔ اس اُصول کو توڑنے کا نتیجہ اُمت میں تفرق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
انسان جب اتباع (اطاعت وپیروی )خالصتاًصرف اللہ کے دین ہی کی اختیار کرتے ہیں تواس اتباع (جوکہ بنیادی عمل ِعبادت ہے)میں دیگرہرطرح کی عبادت بھی صرف اللہ کے لئے اختیار کرتے ہیں یوں عبادت کے حوالے سے اُن کی وحدت کااہتمام ہوتا ہے اور وہ تفرق سے بچتے ہیں لیکن جب وہ اللہ کے دین کی اتباع کے ساتھ ساتھ غیراللہ کے ادیان (اللہ کی وحی کی دلیل سے عاری اُصول،فلسفے ، نظریے ،ازم ،قانون ، فہم وفقہ ِدین ،طریقہ زندگی وغیرہ) کی اتباع کاتفرق اختیار کرتے ہیں تو غیراللہ کی اتباع میں دیگراعمال ِ عبادت(مثلاً رکوع،سجدہ،پکار ،دعا، نذر، نیازوغیرہ) بھی مختلف غیراللہ کے لئے کرنے لگ جاتے ہیں اور جن کی اتباع (عبادت) اختیار کرتے ہیں اُس کے پیچھے متفرق بھی ہوجاتے ہیں جیسا کہ آج کل افرادِ اُمت کی حالت ہے ۔
آج بعض لوگ دعویٰ ِ ایمان کے بعدخالصتاً’’کتاب وسنت کی اتباع ‘‘اختیارکرکے خالص’’ مسلم ‘‘بن کر رہنے کی بجائے غیراللہ کے وضع کردہ سیکولرازم کی اتباع اختیارکرکے سیکولر مسلم بن بیٹھے ہیں،بعض کیمونزم اورسوشلزم کی اتباع اختیار کرکے کیمونسٹ مسلم اور سوشلسٹ مسلم بن چکے ہیں، بعض جمہوریت کی اتباع اختیار کر کے جمہوری مسلم بن گئے ہیں ، بعض آئمہ کے فہم وفقہ کی اتباع اختیار کرکے سلفی مسلم، مالکی مسلم، شافعی مسلم، حنبلی مسلم اور حنفی مسلم بن گئے ہیں یوں اللہ کے دین میں غیراللہ کی اتباع کاتفرق اختیار کرکے فرقوں میں بٹ کر اُمت کو بدترین تفرق میں مبتلا کرچکے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
اِنَّآاَنْزَلْنَآاِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِاللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ ﴿﴾
اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط

یقینا ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں دین کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار !اللہ تعالیٰ کیلئے (قابلِ قبول) صرف دین ِ خالص ہے۔
(سورۃ الزمر۔۲،۳)
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَا طِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَبِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴿﴾
اور (کہیے) کہ یہی(قرآن) ہے میری راہ جو سیدھی ہے سو اسی پر چلو اور مت چلو (دوسرے) راستوں پر کہ تمہیں اُس کی راہ سے ہٹا کر متفرق کر دیں گے۔یہ وہ باتیں ہیں جن کی تم کو اللہ نے ہدایت کی ہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
(سورۃالانعام۔۱۵۳)
وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ Ć۝ۭوَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ Ĉ۝ۭاور نہیں تفرق میں پڑے وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی مگر بعد اس کے کہ اُن کے پاس واضح احکام آگئے تھے، اور اُنہیں یہی حکم دیا گیا تھا کی اللہ ہی کی بندگی کریں دین کو اُس کے لئے خالص رکھتے ہوئے، ہر طرف سے کٹ کر، یکسو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی سیدھا دین ہے۔
(۹۸: البیّنۃ۔۴،۵)
فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَاط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ا لدِّیْنُ الْقَیِّمُ لا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَا لنَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴿﴾مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَ ا تَّقُوْہُ وَاَقِیْمُواالصَّلٰو ۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴿﴾لا مِنَ ا لَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ کَا نُوْا شِیَعًا ط کُلُّ حِزْبٍ م بِمَالَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ﴿﴾
پس ہر طرف سے کٹ کر یکسو ہو کر اپنا رُخ اس دین(قرآن وسنت )کی سمت قائم کردو۔(قائم ہو جاؤ) اس فطرت(اسلام) پر جس پر اللہ نے انسانوں کوتخلیق کیا،اللہ کی بنائی ہوئی ساخت تبدیل نہیں ہو سکتی ،یہی دین ِقیَم ہے لیکن لوگوں کی اکثریت کو پتہ نہیں ہے۔(قائم ہو جاؤ اس پر) اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے، اور اُس سے ڈرو اورصلوٰۃ قائم کرو اور نہ ہو جاؤ مشرکین میں سے ،اُن میں سے جنہوں نے اپنے دین میں تفرق اختیار کیا اور گروہوں میں بٹ گئے ، اب جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی پر وہ اِترا رہا ہے ۔
(۳۰: الروم۔۳۰․․․۳۲)
وحدت اُمت کادوسرا اُصول
اللّٰہ کی عبادت کے لئے
اللّٰہ کے دین کی ’’مکمل اطاعت ‘‘ کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی ا لسِّلْمِ کَآ فَّۃً ص وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴿﴾
اے ایمان والو ! تم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی مت کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
(سورۃ البقرہ۔۲۰۸)
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَا نُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَی ءٍ ط
جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا اور گروہوں میں بٹ گئے ان کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں ۔
(۶: الانعام ۔۱۵۹)
اللہ کی عبادت کے لئے اللہ کے دین کی’’ مکمل اطاعت ‘‘کرنا وحدت اُمت کا دوسرا اُصول ہے، جبکہ کتاب اللہ کی بعض باتوں کو ماننااوربعض کا انکار کرنا دین میں واضح تفرق اختیارکرناہے مثلاًاللہ پر ایمان لانا مگررسول اللہﷺ پرایمان سے انکار کردینا یا اللہ اور رسول اللہ ﷺ پرایمان لانامگرصلوٰۃ چھوڑ دینا یا صلوٰۃ قائم کرنامگر زکوٰۃ سے انکار کردینا اسی طرح دعوت ِ دین دینا مگر جہاد سے انکار کردینا یا جہاد کرنا مگر امامت ِ شرعی سے انکار کردینا وغیرہ۔ بعض لوگ جب اللہ تعالیٰ کے بقیہ احکامات کوچھوڑ کر کسی ایک حکم کے پیچھے لگ جاتے ہیں تودین میں اس تفرق کے نتیجے میں اُمت میں تفرق کا باعث بنتے ہیں جیساکہ آج کل ہے کہ مثلاًبعض لوگ صرف دعوت وتبلیغ کا کام اختیار کرنے کی بناپر مختلف امیروں کی قیادت میں تبلیغی جماعتیں بنائے ہوئے ہیں اور بعض لوگ صرف جہاد کرنے کی بناپرالگ الگ امیروں کی قیادت میں جہادی پارٹیاں بنا ئے ہوئے ہیں اسی طرح سے دین کے ہر حکم پر الگ پارٹی کے سلسلے میں اُمت میں پارٹیوں کی انتہا نہیں ہے جبکہ اللہ کے دین میں اُمت کی وحدت کا نشان امام ِ شرعی ’’خلیفہ‘‘ دین کے تمام احکامات کونافذ کرنے کا اکیلاذمہ دار ہوتاہے۔ اس سے پہلے اہل ِکتاب بھی دین میں اسی طرح کا تفرق اختیارکرنے کی بناپر اُمت کومتفرق کرنے کا باعث بنے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
وَقُلْ اِنِّیْ ٓ اَنَا ا لنَّذِیْرُالْمُبِیْنُ﴿﴾ کَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ ﴿﴾
الَّذِیْنَ جَعَلُوا ا لْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ ﴿﴾ فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ﴿﴾عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴿﴾
اور کہو کہ بے شک میں صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں جیسی( تنبیہ)ہم نے اُن تفرقہ پردازوں کی طرف بھیجی تھی جنہوں نے (اپنے ) قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا تھا۔پس قسم ہے تمہارے رب کی ہم ضرور باز پرس کریں گے ان سب سے ان کاموں کی جو وہ کرتے رہے ہیں۔
(۱۵: الحجر۔۸۹․․․۹۳)
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ ا لْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَیَوْمَ ا لْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط وَمَااللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴿﴾
کیا تم کتاب کے بعض حصوں کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو۔ تو جو ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا میں ذلیل و رُسوا کیا جائے اور آخرت میں سخت ترین عذاب کی طرف پھیر دئیے جائیں۔اور اللہ ان باتوں سے غافل نہیں ہے جو تم کرتے ہو۔
(سورۃ البقرہ۔۸۵)
وحدت اُمت کاتیسرا اُصول
اللّٰہ کی عبادت کے لئے
صرف محمد ﷺ کا طریقہ اختیار کرنا
اور صرف آپ کے بتائے ہوئے امام کی اقتداء اختیار کرنا
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے ارشادات ہیں کہ!
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُ ﴿﴾
(اے نبیﷺ) کہہ دیجیے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو،اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کی مغفرت کرے گا۔وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔
(سورۃآل عمران ۔۳۱،۳۲)
اِنَّ اَصْدَقَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَاَحْسَنَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍﷺ وَ شَرُّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٍ وَکُلُّ بِدْعَۃٍضَلَالَۃٌ وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ
سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے سب سے بہترین طریقہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بری چیزیں نئی باتیں ہیں، ہر نئی بات بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے ، اور ہرگمراہی آگ میں جانے والی ہے۔
(النسائی:کتاب صلاۃ العیدین۔جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ )
کَانَتْ بَنُوْ ا اِسْرَائِیْلَ تَسُوْ سُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہ‘ نَبِیّ ٌ وَ اِنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَآءُ
بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا تو اس کے بعد نبی ہی آتا تھا، میرے بعد کوئی نبی(اُمت کی سیاست کاذمہ دار) نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے۔
(بخاری: کتاب احادیث الانبیاء۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
اِنَّمَا الْاَمَامُ جُنَّۃٌ یُّقَاتَلُ مِنْ وَّرَآئِہٖ وَیُتَّقٰی بِہٖ
امام (خلیفہ)ڈھال ہے اسی کی قیادت میں قتال کیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ دفاع کیا جاتا ہے۔
( بخاری:کتاب الجہاد و السیر ۔ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
اللہ کی عبادت صرف محمدرسول اللہﷺ کے طریقے (سنت ِنبی ﷺ)پر اورصرف آپ ﷺ کے بتائے ہوئے امیروامام (خلیفہ)کی اقتداء میں کرنااُمت کی وحدت کاتیسرا اُصول ہے ، جب تمام افرادصرف محمدﷺ کے طریقے پر اور صرف آپﷺ کے بتائے ہوئے امیروامام کی اقتداء میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو مجتمع رہتے ہیں لیکن جب وہ اللہ کی عبادت کے نئے نئے طریقے(بدعات )اختیار کرتے ہیں اورالگ الگ امیروامام بناتے ہیں تو اپنے اپنے طریقے اوراپنے اپنے امیروامام کی اقتداء میں متفرق ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کے لئے فقط محمدرسول اللہ ﷺ کی سنت کا پابند کیا ہے وہیں اعمال ِعبادت(مثلاًصلوٰۃ ، دعوت ، جہاد) کی امامت کے لئے فقط مسلمین کے امام یعنی ’’خلیفہ‘‘ سے لازماًوابستگی پابند کیا ہے اور اہل ِتفرق گروہوں اوراماموں سے اعتزال کا حکم دیا ہے ۔ نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ
مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَ مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَاْیَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَِغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْ یَدْعُوْا اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ
جو شخص (خلیفہ کی )اطاعت سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے اور مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا۔ جو شخص اندھا دھند ( اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی گروہ کے لئے غضب ناک ہو ، یاگروہ کی طرف دعوت دے یا گروہ کی نصرت کرے اور قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے۔
(مسلم:کتاب الامار ہ۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ قُلْتُ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَھُمْ جَمَاعَۃٌ وَلَٓا اِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّھَا وَلَوْ اَنْ تَعَضَّ بِاَصْلِ شَجَرَۃٍحَتّٰی یُدْرِکَکَ الْمُوْتُ وَ اَنْتَ عَلٰی ذٰلِکَ۔
مسلمین کی جماعت اور ان کے امام(خلیفہ)( سے وابستگی ) کو لازم پکڑنا، میں نے عرض کی اگر ان کی جماعت اور امام نہ ہوں تو؟ فرمایا : تو ان سب فرقوں سے الگ ہوجانا ، چاہے تمہیں درخت کی جڑیں کیوں نہ چبانی پڑ جائیں تا آنکہ تجھے موت آ جائے اور تمہاری وہی حالت ہو۔
( بخاری: کتاب الفتن۔حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ )
افراد ِ اُمت جب تک اہل تفرق گروہوں اوراماموں سے وابستہ رہیں گے دین اور اُمت کے تفرق میں مبتلا رہیں گے مگر جب وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی اطاعت میں دین میں اہل ِتفرق گروہوں اور اماموں سے الگ ہو جائیں گے تو یہ اُمت کی وحدت کی طرف اُن کا پہلا قدم ہوگا، اس کے بعدمسلمانوں کے امام سے لازماًوابستہ ہونے کے حکم ِرسولﷺ کی اطاعت اور اللہ کی عبادت کے اجتماعی اعمال کی امامت کے لئے صرف شرعی امام کی ضرورت انہیں مسلمانوں کے شرعی امام ’’خلیفہ ‘‘کی تلاش پرمجبورکردے گی پھران سب کو خلیفہ کی بیعت واطاعت میں باندھ کراللہ کی مطلوب وحدت میں ڈھال دے گی اِن شاء اللہ۔
٭٭٭

0 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔