Wednesday, February 5, 2014

انتہائی جاہلانہ سوچ!!!

1 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم


انتہائی جاہلانہ سوچ
اکثر لوگوں کی سوچ ہے کہ اگر کوئی شخص خوبصورت(نورانی) ہو تو یہ اس بندے کی حق پر ہونے کی دلیل ہوتی ہے!!!
یہ لوگ جب اپنے کسی پیر یا مولوی کی تعریف کرتے ہیں تو پہلی بات ان کی یہی ہوتی ہے کہ دیکھا جی ان کے چہرے پر کیسا نور برس رہا ہے!!!
یعنی خوبصورت (نورانی) ہونا ان کے نزدیک حق پر ہونے کی دلیل ہے، اور کوئی بدصورت ہو اور ہو بھی مخالف عقیدے کا تو ان کا قول ہوتا ہے دیکھا کیسی لعنت برس رہی ہے اس کے چہرے پر!!!
یعنی خوبصورتی ایمان کی نشانی بنادی گئی ہے اور بدصورتی کفر کی علامت!!!
اب ان پڑھے لکھے جاہلوں کے اقوال و واقعات لکھتا ہوں۔
1۔ میرے ایک رشتہ دار بزرگ کہنے لگے کہ ایک دفعہ میرا ایک دوست جو میرے مخالف عقیدے کا تھا مجھے اپنی مسجد میں لے گیا وہاں میں نے جتنے لوگ دیکھے بدصورت ان کے چہروں پر عجیب لعنت برس رہی تھی میرا وہاں(مسجد) میں دم گٹنے لگا!!! اور وہاں سے بھاگنے کی کی!
اب ان کو کون سمجھائے یہ جو گِن  آپ کو آئی اور آپ کا دم گٹنے لگا، یہ آپ کے دل میں  بسی اس  نفرت، کدورت اور تعصب کی ہے جو آپ نے ان لوگوں کے بارے اپنے دل میں بسا رکھی ہے!اس میں کسی کے عقیدے کا کوئی قصور نہیں ہے۔

2۔ ایک دوست کہتا ہے میرے پیر صاحب اتنے پُر نور چہرہ رکھتے ہیں کہ میں ان کے چہرے کو چند سیکنڈ سے زیادہ دیکھ ہی نہیں سکتا۔
اب اس کو کون سمجھائے کہ چہرہ نہ دیکھ سکنا نور کی وجہ سے نہیں بلکہ دل میں بسائی اندھی عقیدت کا کمال ہے، اگر خوبصورتی کو دیکھنے کو دل نہیں کرتا یا دیکھ نہیں سکتا تو یہ پاگل پن ہے کیونکہ خوبصورت چہرہ دیکھیں تو اک سکون آتا ہے نہ کہ دیکھا ہی نہ جائے!!!

3۔ ایک دفعہ میرے چچا جان مجھے دعوت دے رہے تھے کہ میں دوبارہ ان کے عقیدے میں آ جاؤں تو وہ دلیل کس چیز کو بناتے ہیں پڑھیں۔
کہنے لگے دیکھو بیٹا  ہمارے فلاں پیر صاحب اور فلاں پیر صاحب کتنے پُر نور چہرہ رکھتے ہیں ایسا چہرہ کسی مومن کا ہی ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
میں نے  چچا جان سے کہا کہ چچا جی اگر آپ کسی بھی مزدور کو جو دھوپ میں کام کر کر کے کالا ہو گیا ہو  اس کو ایک کمرے میں بٹھا دیں جہاں ائیرکنڈیشن لگا ہو اور اس  مزدور کو وہی کھانا دیں جو آپ کے پیر صاحب کھاتے ہیں  تو آپ دیکھیں گے صرف ایک  دو مہینوں میں ہی وہ پُر نور چہرے کا مالک بن جائے گا، پھر کہا چچا جان حق کا معیار یہ نہیں ہے جو آپ پیش کر رہے ہیں بلکہ حق کا معیار قرآن اور صحیح حدیث ہے جو بھی ان کے مطابق ایمان و عمل بنائے وہ حق راہ پر ہے۔
یہاں اپنا ایک واقعہ بیان نہ کرنا زیادتی ہو گی آپ بھی پڑھیں
میرا ایک بچپن کا دوست ہے وہ ایک دفعہ میرے ساتھ مظفرآباد گیا میری عمر اس وقت بمشکل 16 سال ہوگی اور وہاں ہم جس تنظیم کے ساتھ تھے وہ وہابیوں کی تھی میں بھی صرف جہاد کے لیے ان کے ساتھ وابستہ تھا ورنہ تو میں بھی بریلوی ہی تھا،
جس دن ہم وہاں پہنچے غالباً  اسی رات دوست مجھے کہنے لگا کہ مجھے یہ قاری صاحب سنی (بریلوی) لگتے ہیں میں نے کہا یار خاموش رہو یہاں کوئی بھی سنی نہیں ہے سبھی وہابی ہیں، وہ کہنے لگا نہیں یار یہ سنی  (بریلوی )ہی ہے دیکھو اس کے چہرے پر کتنا نور ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی وہابی کے چہرے پر اتنا نور ہو میں نے پھر اس کو منع کیا کہ وہ خاموش رہے کہنے لگا تم اس سے پوچھو کہ کیا  یہ سُنی ہے؟؟؟ میں نے کہا میں پاگل نہیں ہوں میں ان کے ساتھ ایک سال سے ہوں یہ سب وہابی لوگ ہیں اس لیے تم رہنے دو مگر وہ باز نہ آیا اور خود ہی ان قاری صاحب کے پاس چلا گیا جو کہ ہم سے چند قدم پر بیٹھے تھے دوست نے جا کر سلام کیا اور پوچھا قاری صاحب آپ سنی ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سنی کیا ہوتا ہے؟ دوست بولا قاری صاحب سنی ، سنی ہوتا ہے، وہ قاری صاحب کشمیری تھے وہ اس کی بات کو نہ سمجھ پا رہے تھے تو میں نے کہا قاری صاحب  یہ پوچھ رہا ہے کہ کیا آپ سنی یعنی بریلوی ہیں؟ جیسے ہی انہوں نے بریلوی سنا تو "لا حول ولا قوۃ الا باللہ"  پڑھا اور کہا نہیں میں بریلوی بدعتی اور۔۔۔۔۔ہرگز نہیں ہوں الحمد للہ، اور  میرا دوست اپنا سا منہ لے کر آپس میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔
ان قاری صاحب کا تعارف بھی کرواتا چلوں ان کا نام قاری عبد اللطيف  تھا اور یہ مقبوضہ کشمیر کے شہر سرینگر کے  رہنے والے تھے اور آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ کشمیری کتنے خوبصورت ہوتے ہیں مگر اللہ نے ان کو حسن کمال کا دیا ہوا تھا چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی اس حسن کو چار چاند لگا رہی تھی۔

بھائیو اگر ان لوگوں کی یہ منطق مان لی جائے کہ خوبصورتی ایمان کی نشانی ہے اور بدصورتی بدعقیدتی کی علامت ہے تو اس طرح ہر خوبصورت چہرے کا مالک انسان مومن و مسلم ہے چاہے وہ عیسائی، یہودی، ہندو، شیعہ، قادیانی ہی کیوں نہ ہو اور ہر بدصورت چہرے کا مالک انسان بدعقیدہ اور کافر ہے تو اس طرح ایک مسلم و مومن بندہ کافر قرار پا جائے گا، یہ سوچ بالکل جاہلانہ سوچ ہے جو ایک صحیح العقیدہ مسلمان اپنا ہی نہیں سکتا اس لیے بھائیو کسی کے ایمان کا معیار خوبصوتی نہ بناؤ اور نہ ہی کسی کی بدصورتی کو اس کے بدعقیدہ کی دلیل بناؤ۔
ایک بدصورت انسان ایک اچھا اور سچا مسلم ہوسکتا ہے اور ہیں بھی، اور ایک خوبصورت پُر نور چہرے والا کافر اور مشرک بھی ہوسکتا ہے بلکہ ہیں۔

اب کچھ ان آیات پر بھی تبصرہ ہوجائے جس کو یہ  لوگ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ   12ۚ
(قیامت کے) دن تو دیکھے گا کہ ایماندار مردوں اور عورتوں کا نور انکے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا  آج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جنکے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں ہمیشہ کی رہائش ہے۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ الحدید آیت نمبر 12

يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّٰهُ النَّبِيَّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۚ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ    Ď
جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما  اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے۔ التحریم آیت نمبر 142

 ان آیات میں  بیان ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے ایمان اور  نیک اعمال کے مطابق انہیں نور ملے گا جو قیامت کے دن کے ان کے ساتھ ساتھ رہے گا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان میں بعض کا نور پہاڑوں کے برابر ہو گا اور بعض کا کھجوروں کے درختوں کے برابر اور بعض کا کھڑے انسان کے قد کے برابر سب سے کم نور جس گنہگار مومن کا ہو گا اس کے پیر کے انگوٹھے پر نور ہو گا جو کبھی روشن ہوتا ہو گا اور کبھی بجھ جاتا ہو گا (ابن جریر)
 حضرت قتادہ  فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے بعض مومن ایسے بھی ہوں گے جن کا نور اس قدر ہو گا کہ جس قدر مدینہ سے عدن دور ہے اور ابین دور ہے اور صنعا دور ہے۔ بعض اس سے کم بعض اس سے کم یہاں تک کہ بعض وہ بھی ہوں گے جن کے نور سے صرف ان کے دونوں قدموں کے پاس ہی اجالا ہو گا۔
حضرت ضحاک فرماتے ہیں اول اول تو ہر شخص کو نور عطا ہو گا لیکن جب پل صراط پر جائیں گے تو منافقوں کا نور بجھ جائے گا اسے دیکھ کر مومن بھی ڈرنے لگیں گے کہ ایسا نہ ہو ہمارا نور بھی بجھ جائے تو اللہ سے دعائیں کریں گے کہ یا اللہ ہمارا نور ہمارے لئے پورا پورا کر۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اس آیت سے مراد پل صراط پر نور کا ملنا ہے تاکہ اس اندھیری جگہ سے با آرام گذر جائیں ۔ 
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن  جو نور یعنی روشنی ایک مومن کو ملے گی وہ بھی چہرے کی خوبصورتی نہیں ہوگی  بلکہ وہ روشنی ہوگی جس کی وجہ سے ایک مومن جنت تک کا سفر آسانی سے کرسکے، اگر پھر بھی کوئی بضد ہے کہ نہیں چہرے کا نور مراد ہے تو پھر منافق کو بھی وہی نور دیا جا رہا ہے مگر وہ عارضی ہوگا پل صراط پر وہ ختم ہوجائے گا۔