Wednesday, September 4, 2013

1 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم

 
یوسف علیہ السلام کا ایک کافر بادشاہ سے عہدہ مانگنے کی دلیل پکڑنے والوں کی تاویلات کا رَد

سب سے پہلے ایک اصول ذہن نشین کرلیں کہ پہلے انبیاء و رسل کے جو حالات و واقعات قرآن میں اللہ نے ذکر کیئے ہیں ان کے کئی ایک مقاصد ہوسکتے ہیں مگر جو قوانین اور حکم ہیں ان میں سے بعض تو شریعت محمدی ﷺ میں ویسے کے ویسے ہیں اور کچھ قوانین دینِ محمد ﷺ میں تبدیل ہوچکے ہیں مثلاً سورہ یوسف میں ہی اللہ تعالیٰ یوسف علیہ السلام کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ

قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ سورۃ یوسف آیت نمبر 50


پہلی شریعتوں میں اپنے مالک، آقا کو رب کہنا جائز تھا مگر دینِ محمد ﷺ میں اس کی ممانعت ہے

ولا يقل العبد ربي ولكن ليقل سيدي، کوئی غلام اپنے مالک کو میرا رب نہ کہے بلکہ میرا سردار کہے۔۔۔صحیح مسلم


اسی سورہ میں چور کی سزاء جو دینِ یعقوب علیہ السلام میں تھی وہ بیان کی گئی ہے کہ
قَالُوْا جَزَاۗؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ 75؀
::یوسف کے بھائی::بولے اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے اسباب میں ملے وہی اس کے بدلے میں غلام بنے ، ہمارے یہاں ظالموں کی یہی سزا ہے ۔ یوسف: آیت:75

مگر اب شریعت محمدیﷺ میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے

یوسف علیہ السلام کی شریعت میں امارت یا عہدہ مانگنا جائز تھا
قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ 55؀
یوسف علیہ السلام نے کہا ، ’’ ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے ، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘ (55)
مگر دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی ممانعت ہے جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ ہے کہ
ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا اے اللہ کے رسول ﷺہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دئیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔

(مسلم:کتاب الامارۃ۔ابی موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ)



اس فرمانِ رسول ﷺ کے بعد امارت مانگنا حرام قرار پاتا ہے۔

یوسف علیہ السلام کی شریعت میں تعظیمی سجدہ جائز تھا جیسا کہ اسی سورہ کی آیت ہے کہ
وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا ۚ
اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اسکے سامنے سجدے میں گر گئے 100
لیکن دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تعظیمی سجدہ حرام ہے اور یہاں بھی جو لوگ اسی حرام کام کو جائز سمجھتے ہیں وہ انہی آیات کو دلیل بناتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا اس بارے کیا حکم ہے کہ جن کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں مگر اپنا باطل عقیدہ کو سندِ جواز دینے کے لیئے وہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں سے دلائل لے کر آتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ ہمارے لیئے قابلِ عمل دین صرف دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

اس طرح کے اور بھی بہت سے قوانین ہیں جو شریعت محمدی ﷺ میں وہ نہیں ہیں جو پہلے انبیاء و رسل کی شریعتوں میں تھے اس لیئے اب ہمیں اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیئے پہلے انبیاء کے قوانین نہیں لینے بلکہ دین محمد ﷺ میں جو قوانین ہیں ان پر عمل کرنا ہے۔

اب معاملہ آتا ہے یوسف علیہ السلام کا کافر بادشاہ سے عہدہ مانگنا، جب تک یوسف علیہ السلام کی زندگی بارے مکمل آگاہی نہیں ہوگی تب تک اس مسئلے کو نہیں سمجھا جاسکتا اس لیئے پہلے کچھ تفصیل بیان کردی جائے۔

اس معاملے کی وضاحت ایک مفسر کی اچھی لگی وہی آپ بھائیوں کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔



اس سے پہلے جو توضیحات گزرچکی ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو کسی طالبِ جاہ نے وقت کے بادشاہ کی اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کردی ہو۔ درحقیقت یہ اس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف ؑ کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشونما پاکر ظہور کے لیے تیار ہوچکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹھونکے ہی کا محتاج تھا۔ حضرت یوسف ؑ آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے۔ اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کردیا تھا کہ وہ امانت، راستبازی، حِلم، ضبط نفس، عالی ظرفی، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی کجال نہ رہی تھی۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں۔ دل ان سے مسخر ہوچکے تھے۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ اُن کا ”حفیظ“اور”علیم“ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لاچکے تھے۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف ؑ خود حکومت کے اُن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کردی۔ ان کی زبان سے اس مطالنے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسروچشم قبول کیا وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا۔ (تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی)۔

یہ اختیارات جو حضرت یوسف ؑ نے مانگے اور ان کے سونپے گئے ان کو نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ”خزائن ارض“کے الفاظ اور آگے چل کر غلہ کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ، یا افسر مال، یا قحط کمشنر، یا وزیر مالیات، یا وزیر غذائیات کی قسم کا کوئی عہدہ ہوگا۔لیکن قرآن، بائیبل، اورتلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف ؑ سلطنت مصر کے مختار کل (رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا۔قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب ؑ مصر پہنچے ہیں اس وقت حضرت یوسف ؑ تخت نشین تھے (ورفع ابویہ علی العرش)۔ حضرت یوسف ؑ کی اپنی زبان سے نکلا ہُوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ”اے میرے رب، تو نے مجھے بادشاہی عطا کی“(رَبَّ قداٰ تَیتنی مِنَ الملک)۔ پیالےکی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف ؑ کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں(قالو انفقد صواع الملک)۔ اور اللہ تیالیٰ مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان فرماتا ہے کہ ساری سرزمین مصر اُن کی تھی (یتبو أ مِنھا حیث یشآء)۔ رہی بائیبل تو دہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف ؑ سے کہا:

”سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ……… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پاوٴں نہ ہلانے پائے گا۔ اور فرعون نے یوسف ؑ کا نام ضَفِنَات فَعِیحَ (دنیا کا نجات دہندہ)رکھا“۔ (پیدائش ۴١:۳۹ - ۴۵)

اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف ؑ کے بھائیوں نے مصر سے واپس جاکر اپنے والد سے حاکم مصر (یوسف ؑ )کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا:

”ہم اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدا سب سے بالا ہے۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اسی کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرمانروائی کرتی ہے۔ کسی معاملہ میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی“۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انہوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظام تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ مخشری نے اپنی تفسیر ”کشاف“میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”حضرت یوسف ؑ نے اجعلنی علیٰ خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں جس کے لیے انبیاء بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے“۔

اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظام کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جاکر ٹھیرتا ہے، یعنی یہ کہ حضرت یوسف ؑ ایک راستباز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راستباز تھے تو کیا ایک راستباز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ”بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے“، اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کردے کہ تمہارے اِن بہت سے متفرق خود ساختہ خداوٴں میں سے ایک یہ شاہ؟ مصر بھی ہے، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ”فرمانروائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے“، مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اس نظامِ حکومت کا خادم، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ”فرمانروائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں“تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورالخطاط کے مسلمانوں نے کچھ اُسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کچھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گراکر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اورزیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انہیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علمبرداروں کی بلندی دیکھ کر انہیں شرم آئی، لہٰذا اس شرم کو مٹنے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انہیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپارسکتا ہے، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتاہے) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے۔
.............................................................................................
ایک بھائی صاحب نے دوران مباحث کہا کہ

جو کچھ بھی ہو حضرت یوسف نے وزارت خزانہ ہی مانگی تھی قرآن کے الفاظ بھی یہی کہہ رہےہیں


اب ہم قرآن کی وہی آیات پر تفصیل سے بات کرتے ہیں جن میں عہدہ مانگنے کا ذکر ہےتاکہ اس مانگنے کی وضاحت ہو جائے، ان شاءاللہ
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖٓ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِيْ ۚ فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ 54؀
بادشاہ نے کہا انہیں میرے پاس لائو ’’ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں۔‘‘ جب یوسف نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا ’’ اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔‘‘ (54)

اس آیت سے بات واضح ہو رہی ہے کہ بادشاہ کا اپنا بھی ارادہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کو اپنے لیئے خاص کرلوں، اور پھر یوسف علیہ السلام سے کہا کہ اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔۔۔ اب اس ساری پوزیشن کو دیکھتے ہوئے یوسف علیہ السلام نے کہا کہ



قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ 55؀
یوسف علیہ السلام نے کہا ، ’’ ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے ، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘ (55)
اگر آپ اس آیت سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ نے صرف وزارتِ خزانہ مانگی تھی تو یہ آپ غلط سمجھ رہے ہیں آگے کی آیات بھی پڑھ لیں اور پھر خود انصاف کریں کہ اس سے مراد صرف وزارتِ خزانہ ہے؟؟؟
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ ۭ
اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا کہ وہ جہاں کہیں چاہے رہے سہے

اور اس طرح ہم نے یوسف کو اقتدار سے نواز دیا اس سرزمین میں، اس میں آپ جہاں چاہیں رہیں سہیں
اور یوں قدرت دی ہم نے یوسف کو اس زمین میں جگہ پکڑتا تھا اس میں جہاں چاہتا
اس طرح ہم نے یوسف کو سر زمین (مصر) میں اقتدار بخشا کہ اس میں جہاں چاہے رہے سہے

اور ہم نے اس طور پر یوسف کو اس ملک میں بااختیار بنا دیا کہ اس میں جہاں چاہے رہے

اس طرح ہم نے اس سر زمین میں یوسف کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی ۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے

اور یوں ہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے

اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں اقتدار عطا کیا، وہ جہاں چاہتے رہتے

اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں
اور اسی طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف کو اقتدار عطا فرمایا، اس میں سے جہاں چاہتا جگہ پکڑتا تھا۔
اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جہاں چاہیں رہیں
لو بھائیو یہ گیاراں علماء کے تراجم آپ کے سامنے ہیں ان میں سے ایک بھی اس بھائی کے موقف کی تائید نہیں کر رہا کیا یہ سب غلط اور یہ بھائی ٹھیک ہیں؟؟؟

اسی سورہ میں آگے چل کر اللہ کا ارشاد ہے کہ
قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاۗءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيْمٌ 72؀
انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ کا کٹورا نہیں ملتا جو اسے لا ئے گا ایک اونٹ بھر کا غلہ پائے گا اور میں اس کا ضامن ہوں
قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا
انہوں نے کہا اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّرُّ
پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے 88
وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا ۚ
اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اسکے سامنے سجدے میں گر گئے 100
رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۚ
اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی 101


لو بھائیو اللہ نے تو یوسف علیہ السلام کو بادشاہ کہا عزیز مصر کہا اور یوسف علیہ السلام نے خود کہا کہ اللہ تو نے مجھے ملک عطاء کیا، اور وہ بھائی ان کو وزارتِ خزانہ کا امیر بنا رہے ہیں!!!

اب کوئی ان آیات کی کیا تاویلات پیش کرنا چاہے گا؟؟؟ جو آیات واضح نص ہیں ان کو کوئی کیسے توڑ مروڑ کرئے گا؟؟؟ اب یہ آپ سب پر لازم ہے کہ ان قرآنی نصوص کا رَد کریں یا اپنے موقف کو قرآن اور حدیث کے مطابق بنائیں جزاک اللہ خیراً



1 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔