Friday, August 5, 2011

تعویزقرآن و آحادیث کی روشنی میں

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعویزقرآن و آحادیث کی روشنی میں                
تعارف۔تعویذ کو اردو میں تعویذ (گنڈا)جبکہ عربی میں حرز،تمیمہ ،انڈونیشی میں جیماتی ،عبرانی زبان میں غوذخ،عدح،انگریزی زبان میں امولٹ ،کے نام سے جانا و پکارا جاتا ہے۔
لفظ تعویذ اعوذ سے مشتق ہے ۔جس کے معنیٰ :پناہ: کے ہیں ۔جیسے: اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم :تعویذ اس کا اسم مبالغہ ہے لہذا اسکے معنیٰ : پناہ دینے والے: کے ہیں۔
تعویذ عام طور پر اس مقدس تحریر یا نقش کو کہتے ہیں جو مستقبل میں کسی امید کے (پیدائش اولاد،بیماری سے صحت یابی،کسی مقصد میں کامیابی،پیار و محبت ،میاں بیوی کے درمیان محبت و علیٰحدگی،روزگار میں فراوانی،معاشی ابتری وغیرہ)بر آنے یا کسی خطرے سے تحفظ کے لیے جسم کے کسی حصے یا بچوں اور بڑوں کے گلوں ،بازوؤں یا زیر ناف کی صورت میں لٹکایا جاتا ہے۔یا کسی مکان،باڑہ،درخت کی جڑ یا بوسیدہ قبر میں دفن کرتے ہیں جس کو تعویذ کا نام دیا جاتا ہے۔جبکہ کالے،لال،پیلے دھاگے کو گنڈا کہا جاتا ہے۔گنڈا تحفظ،تبرک اور تمنا کے لئے بازوؤں ،ہاتھوں کی کلائیوں میں گرہ لگا کر باندھا جاتا ہے۔
تاریخی پس منظر۔ تعویذ کا رواج عموماً دور جاہلیت خصوصاً بت پرست اقوام میں قدیم ترین زمانے سے چلا آرہا ہے لیکن یقینی طور پر اسکی ابتداء کی صحیح طور پر کوئی تاریخ متعین نہیں کی جا سکتی ہے۔نبی ﷺ کی پیدائش سے تقریباً ۱۲۰ سال قبل کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قدیم اقوام(دجلہ وفرات،عراق،ایران اور پاکستان کے موہنجو داڑو،ہڑپا)میں ایسے پیتل ،چمڑے کے ٹکڑے ملے ہیں جن پر کسی جانور کی تصویر اور اس کے ساتھ کچھ عجیب و غریب نقش بنے ہوئے ملے ہیں جن سے محققین تواریخ نے یہ بات ثابت کی کہ یہ اس زمانے کے تعویذات ہیں۔
تعویذ کی ابتداء۔تعویذکا یہ فن بغداد اور کوفے میں رافضیوں کے زیر سایہ پروان چڑھا ابتداء میں رافضیوں نے اسکے لئے لفظ ابجد یعنی مقدس ناموں کو گنتی کے الفاظوں میں لکھنا جیسے بسم اللہ کی جگہ ۷۸۶ وغیرہ لکھنے کی بنیاد ڈالی گئی اور بعد میں انہی اعداد و شمار نے تعویذ کی جگہ لے لی اور یہ فن اپنی پوری فتنہ سامانی کے ساتھ امت مسلمہ کے عقائد میں داخل کیا گیا۔
یہودی اورتعویذ۔یہودی تعویذتیار کرنے والوں کو ابتداء میں ربانی،ربی اور امام کے نام سے پکارتے تھے ۔لیکن بعد میں ان کے لئے ایک خاص نام وضع کیا گیا جو عبرانی زبان کے دو حروف کا مرکب تھا پہلا لفظ : من:جس کے معنی عبرانی زبان میں:تعویذ:کے ہیں اور دوسرا لفظ:لا: جس کے معنی: بیچنے والا:کے ہیں۔چنانچہ ایسا امام جو توریت و زبور کی آیات کو اعداد میں تبدیل کرنے کا ماہر ہوتا ہے اس کوایک مخصوص نام :من لا: سے پکارا جاتا تھاجو بعد میں روانی میں ملا کہاجنے لگا یہ پہلے ایران میں اور بعد میں ہندوستان میں ہر بڑے عالم دین کے لئے بڑے احترام کا ایک لفظ سمجھا اور استعمال کیا جانے لگا اور جب مغل باد شاہ ہمایوں سولہویں صدی عیسوی میں اپنے تخت کی بازیابی کے لئے ایران سے کمک لے کر ہندوستان واپس آیا تو اسکے ساتھ پچاس ہزار ۰۰۰،۵۰ایرانی (ملا)فوجیوں کے بھیس میں ہندوستان داخل ہوئے ۔انہی میں سے چند اشخاص جو اکبر کے نورتنوں کے نام سے مشہورتھے جن میں ملا ابو الفضل،ملا فیضی،ملا مبارک اور ملا دو پیازہ اور چار ہندوایک سیدھے سادھے مسلمان تھے۔اسی طرح ان چاروں ملاؤں نے ہندوؤں کے ساتھ ملکر دین اسلام کے بجائے دین الہٰی وضع کیا۔انہوں نے قرآن میں تحریف کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ اللہ ربّ العزت نے قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے:انانحن نزلنا الذکروانا لہ لحافظون۔
(الحجر:۹)۔لہذا یہ شیطانی سازش بری طرح ناکام ہوئی لیکن یہ ملا آیات کو اعداد میں تبدیل کر کے اسے عوام میں رائج کرنے میں پوری طرح کامیاب ہو گئے۔اسی طرح انہوں نے ایک طرف تو قرآن حکیم سے لوگوں کو دور کر دیا تودوسری طرف اپنے وضع کردہ شرکیہ الفاظ کو اعداد پردہ میں لوگوں میں پھیلا دیا ۔تعویذ لکھنے والوں نے انہی اعداد کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کیا اورشرکیہ الفاظ سے تعویذ تیار کر کے لوگو ں کے لیے عظیم گناہ (شرک)کے ارتکاب کا موجب بنے۔(بحوالہ دی گولڈن ڈیڈ آف امام حسین از سیداحمد)
یہ رہا مختصر اً تاریخی پس منظر آئیے اب احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں :تعویذ: کی حیثیت اور مقام کا تعین کرتے ہیں۔
احادیث نبوی ﷺ۔عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ دم (شرکیہ الفاظ و منتر وغیرہ)تعویذ اور تولہ (محبت کا تعویذ)سب شرک ہے۔(ابوداؤد ۔مشکوٰۃ ص ۳۸۹) بعض قسم کے دم جن میں شرکیہ الفاظ نہیں تھے رسول ﷺ نے ان کی اجازت دے دی مگر تعویذ (ہر قسم کے قرآنی ہو یا غیر قرآنی کی اجازت نہیں دی بلکہ شرک قرار دیا ہے)اور اسی طرح تعویذ محبت وغیرہ کو بھی شرک فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم فرمایا۔(لقمان۔۱۳)

عیسیٰ بن حمزہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن حکیمؓ کے پاس عیادت کے لئے گیا ،وہ حمرہ(سرخ بادہ) کی بیماری میں مبتلا تھے میں نے ان سے کہا کہ آپ حمرہ کے لئے تعویذ کیو ں نہیں لٹکالیتے تو انہوں نے کہا تعویذ سے اللہ کی پناہ ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کہ جس نے کوئی بھی چیز لٹکائی تو وہ اس کے سپرد کر دیا جائیگا ۔(ابوداؤد،ترمذی،مشکوٰۃ ص:۳۸۹)
معلوم ہوا کہ بلاؤں سے بچنے،بیماری دور کرنے،محبت و بغض ڈالنے اور فتح و کامرانی وغیرہ حاصل کرنے کے لئے جو تعویذ استعمال کرے گا اللہ اس سے ناراض ہو کر اس سے کچھ مطلب نہ رکھے گا ۔اس شخص کو اس :تعویذ گنڈے :کے سپرد کردے گا۔
عقبہ بن عامر الجہنی ؓ روایت کرتے ہیں،کہ نبی ﷺ کے پاس ایک جماعت آئی ،نبی ﷺ نے ان میں سے نو ۹ (افراد) سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے نو سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا۔:آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے اس لیے بیعت نہیں لی کہ وہ تعویذ پہنے ہوئے ہے : یہ سن کر اس نے ہاتھ اندر ڈال کر تعویذتوڑ ڈالا ۔اب نبی ﷺ نے ان سے بیعت لے لی اور فرمایا جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔مسند احمد ص۱۵۶ جلد۴
وکیعؒ ،سعد بن جبیرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے کسی آدمی کا تعویذ کاٹ دیا گویا اس نے ایک جان (شخص)آزاد کرادی ۔
وکیع ؒ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی ؒ مشہور تابعی (امام ابوحنیفہ ؒ کے استاد)روایت کرتے ہیں صحابہ کرام و تابعین ہر قسم کے تعویذوں کو ناجائز سمجھتے تھے ان میں قرآن لکھا ہوتا یا غیر قرآن۔
قاضی ابوبکر فیصلہ فرماتے ہیں قرآ ن لٹکانا سنت کا طریقہ نہیں۔سنت تو یہ کہ قرآن سے نصیحت حاصل کی جائے اسے لکھ کر لٹکایا نہ جائے۔(عون المعبود ،جلد۴ ص ۶)
عروہ ؒ روایت کرتے ہیں کہ حذیفہ بن ایمانؓ ایک مریض کی عیادت کو گئے اور اس کے بازو پر انہوں نے دھاگا بندھا ہوا دیکھا تو اس کو کاٹ کر الگ کر دیا اور قرآن کی یہ آیت پڑھی جس کے معنی یہ ہیں کہ :لوگوں کی اکثریت اللہ کو مانتی ضرور ہے مگراس کے ساتھ دوسروں کوشریک بھی ٹھراتی ہے۔(یوسف:۱۰۴) وکیع ؒ کی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ حذیفہؓ نے اس مریض سے کہا اگر تو اس حالت میں مرجائے کہ تیرے ہاتھ پردھاگہ بندھا ہوا ہو تو میں تیری صلوٰۃ میت نہیں ادا کرونگا۔(تفسیرابن کثیرجلد۲ص۴۹۴)
عمران بن حصینؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک صاحب کے ہاتھ میں ایک پیتل کا کڑا پہنے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے۔پہننے والے نے جواب دیاکہ یہ:واھنہ:کی وجہ سے ہے(ہاتھ کی کمزوری اور بیماری دور کرنے کے لئے)نبی ﷺ نے رد فرمایا اور فرمایا کہ یہ کمزوری کو اور بڑھائے گا اور اگر تو اسے پہنے ہوئے مرجائے تو کبھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو گا (یعنی جنت میں نہ جائیگا)۔(احمد،ابن حبان،الحاکم)
یہ تو تھے قرآن و حدیث پر مبنی ارشادات تو دوسری طرف یہ مسلک پرست جو کہ اپنے آپکو دین اسلام کے چمپئین گردانتے ہیں۔منہ پھاڑ پھاڑ کر اپنے آپکو جنتی کہلاتے ہیں ان کا حال ان مرمودات کے بالکل خلاف ہے جہاں بھی نظر دوڑائیں آپکو تعویذ ہی تعویذ ،کڑے ہی کڑے اور چھلے ہی چھلے نظر آئیں گے ۔یہ بچے کے پیداہونے کا تعویذ ،یہ کمائی میں برکت کا تعویذ ،یہ بلاؤں و جنات سے بچنے کا تعویذ،یہاں تک کہ محبت میں کامیابی و ناکامی کا تعویذ العرض پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لئے یہ دین کے ٹھیکیدار کس طرح قرآن و حدیث کا مذاق اڑا رہے ہیں مزید المیہ تو یہ ہے کہ ان نادان کلمہ گولوگوں کے بازوؤں ،گلوں ،توپیوں اورپاؤں پرلٹکتے ہوئے تعویذات کی شکل میں ملے گا۔
بلاشک و شبہ تقدیرکا بنانے والا اور بگاڑ نے والا اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے لیکن شیطان نے احباروھبان(پیرومولویوں)کے ذریعے عوام الناس کو یہ باور کروایا کہ وہ تعویذ گنڈوں پر اعتقاد کریں،اس سے ان کی تقدیر بدل جائے گی۔گودیں ہری ہو جائیں گی،مرادیں بر آئینگی ،مقدمہ میں جیت ہو جائے گی۔غرض ہر وہ چیز جس کا ایمان اوربھروسہ اللہ کی ذات مقدسہ پر ہونا چاہے تھا۔آج کل ان تعویذ گنڈوں ،چاقوؤں پیسوں اور دھاگوں پر کیا جاتا ہے جو کہ سراسرشر ک ہے ۔اورشرک کرنے والا کبھی بھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شر ک کی نجاست سے بچائیں اور ہمیں صحیح دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائیں اور جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں تو ایمان کی حالت میں اپنے ربّ العزّت سے ملیں۔

0 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔