Thursday, January 6, 2011

آج خلیفہ کیوں اور کیسے؟؟؟

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج خلیفہ کیوں اور کیسے؟؟؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 55؀
وعدہ فرمایا ہے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور عمل صالح کرتے رہے کہ ضرور عطا فرمائے گا انہیں زمین میں خلافت جس طرح عطا فرمائی تھی ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے اور ضرور قائم کر دے گا مضبوط بنیادوں پر ان کے لئے اس دین کو جو پسند کر لیا ہے اللہ نے ان کے لئے اور ضرور بدل دے گا ان کی حالت ِ خوف کو امن سے ، بس وہ میری عبادت کرتے رہیں اور نہ شریک بنائیں میرے ساتھ کسی کو تو جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں
( سورۃ النور۔ ۵۵)
آیت میں اللہ کی طرف سے اہل ِ ایمان کو زمین میں خلافت (اقتدار) دینے ، ان کے لئے پسند کئے گئے دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دینے اور ان کی حالت ِ خوف کو امن میں بدل دینے کے لئے شرک سے اجتناب کے ساتھ اعمال ِ صالح کی ادائیگی کو شرط قرار دیا ہے۔قرآن وسنت سے سامنے آنے والے اعمال ِ صالح میں سے صرف قرآن وسنت کی اتباع، اقامت ِ صلوٰۃ، ایتائے زکواۃ، امام کی بیعت ،اطاعت اور نصرت، ہجرت، جہاد فی سبیل اللہ اور حج وغیرہ اہل ِایمان کی وحدت اور ان کے غلبے کی جدوجہد کی کامیابی کے لئے بنیادی کردارادا کرتے ہیں مگر یہ اعمال اہل ایمان کی وحدت اور ان کے غلبے کے لئے تب ہی مؤثر ہوتے ہیں جب یہ صرف ’’ شرعی (قرآن وسنت کی دلیلوں کے حامل)اورایک امام‘‘ کی امامت میں ادا کئے جائیں، لیکن اگر یہ اعمال غیر شرعی اور بے شماراماموں کی امامت میں بٹ کر ادا کئے جائیں توایک تو اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں ، دوسرے وہ اہل ِایمان میں تفرقے کا باعث بنتے ہیں یوں ان کے غلبے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں، چنانچہ اللہ کی رضا اورزمین میں غلبے کے حصول کے لئے ’’ اعمال ِ صالح کی ادائیگی ‘‘ اوران امامت کے لئے ’’ شرعی امام کی موجودگی ‘‘لازم وملزوم ہیں۔
اعمال ِ صالح بغیراقتدارکی اور خوف کی حالت سے ’’اقتدار و امن‘‘ میں لانے کا باعث بنتے ہیں مگر چونکہ یہ’’ ایک امام ِ شرعی ‘‘کی امامت سے مشروط ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ اعمال ِ صالح کی امامت کے لئے امام ِ شرعی کی موجودگی بغیر اقتدارکی اورخوف کی حالت میں بھی ضروری ہے کہ بغیراقتدار کی اور خوف کی حالت میں امام ِ شرعی کی امامت میں اعمال ِ صالح ادا کئے جائیں گے تو وہ اقتدار وامن کی حالت میں لے جانے کا باعث بنیں گے ان شاء اللہ ۔
اپنی موجودگی میں نبی ﷺ خود اُمت کے شرعی امام تھے ، مزید بات سے پہلے دیکھا جانا چاہیے کہ نبیﷺکے بعداہل ِ ایمان کاشرعی قائد کون ہوتا ہے؟ اس حوالے سے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ
کَانَتْ بَنُو اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَ نْبِیَاء کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبَیٌّ وَ اَنَّہٗ
لَا نَبِیَ بَعْدِی وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاء فَیَکْثُرُوْن فَمَا تَاْمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ
بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا اُس کے پیچھے نبی ہی آتا تھا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا البتہ خلفاء ہوں گیاور بہت سے ہوں گے ، عرض کی، پھر آپ کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلی بیعت (کے حامل)کے ساتھ وفاداری کرو․․․
(بخاری: کتاب احادیث الانبیاء۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کے بعداہل ِ ایمان کا شرعی امام ’’خلیفہ‘‘ہوتا ہے ، دیگر آیات و احادیث سے اولی الامر، امیر، امام اور سلطان ’’ خلیفہ ‘‘ ہی کے دیگر نام ِ عہدہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
ذیل کی آیات واحادیث سے واضح ہوتا ہے کہ شرک سے اجتناب اور اعمال ِ صالح کی امامت کے لئے شرعی اولی الامر، امیر، امام اور سلطان یعنی ’’خلیفہ‘‘ کی موجودگی ، حالت ِ اقتدار اور حالت ِ خوف کا فرق کئے بغیر، ہر حال میں لازم ہے ۔
٭ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59؀ۧ
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا 60؀
اے ایمان والو ! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولۗۗۗۗ کی اوراولی الامر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں۔ اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے لوٹا دو فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو ۔ یہی چیز اچھی ہے اور انجام کے اعتبار سے بہترین بھی یہی ہے ۔تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر جوتم سے پہلے نازل ہوا ہے مگرفیصلہ کروانے کے لیے طاغوت کے پاس جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیاگیا ہے۔ شیطان انہیں راہ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی (شرک)میں لے جانا چاہتا ہے۔ سورۃ النساء۵۹،۶۰
آیات میں اہل ایمان کے لئے کتاب وسنت کے ساتھ فیصلوں کے لئے صرف اپنے اولی الامر یعنی خلیفہ کے پاس جانے اور طاغوت کے پاس قطعی نہ جانے کا حکم سامنے آتا ہے اور طاغوت کے پاس جانا شرک قرارپاتا ہے۔ اللہ کے حکم کی اطاعت میں فیصلوں کے لئے طاغوت کے پاس جانے (شرک کرنے )سے رُکنا اگر بغیر اقتدارکی حالت میں بھی لازم قرار پاتا ہے تو اسی حالت میں فیصلوں کے لئے اُس کے پاس جانا بھی لازم قرار پاتا ہے جس کے پاس جانے کا حکم دیا گیا ہے یعنی اپنا اولی الامر’’خلیفہ‘‘! اس سے بغیر اقتدارکی حالت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے تاکہ فیصلوں کے لئے طاغوت کی بجائے خلیفہ کے پاس جایا جا سکے ۔
٭ نبیﷺکا ارشادہے کہ
لَا یَقُصُّ اِلَّا اَمِیْرٌ اَ وْ مَامُوْرٌ اَوْ مُخْتَالٌ
خطبہ بیان نہ کرے گا مگر امیر یا مامور یا شیخی باز ۔
( احمد: باقی مسند الانصار۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ)
نبیﷺکے ارشادسے ’’خطبہ ِ جمعہ ‘‘ خلیفہ یا اُس کی طرف سے مامور کردہ فرد ہی کی طرف سے دیئے جانے کی پابندی سامنے آتی ہے، ان کے علاوہ خطبہ دینے والا شیخی بازقرارپاتا ہے ۔ جمعہ اگر بغیر اقتدارکی حالت میں بھی لازم قرار پاتا ہے تواس کی ادائیگی صرف خلیفہ یا اس کے مامور کی اقتداء میں لازم ہونے کی بناپر بغیر اقتدارکی حالت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے تاکہ جمعہ صرف خلیفہ یا اس کے مامور ین کی اقتداء میں ادا ہوسکے اور شیخی بازوں کی امامت سے بچا جاسکے ۔
٭ نبیﷺکے ارشادات ہیں کہ
وَمَنْ مَّاتَ وَ لَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً
اور جو اس حال میں مر گیا کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں وہ جاہلیت کی موت مر گیا۔
(مسلم: کتاب الامارۃ۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ)
وَاَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ
وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیلِ اللّٰہَ
میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے : جماعت کے ساتھ ہونے کا، حکم سننے کا، اطاعت کرنے کا، ہجرت کا اور جہاد فی سبیل اللہ کا۔
(احمد: مسندالشامیین۔ حارث الاشعری رضی اللہ عنہ)
حدیث میں ہجرت اور جہاد سے پہلے سمع اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے جس کے لئے پہلے بیعت ضروری ہے ، یہ بات واضح ہے کہ نبیﷺ کے بعد سمع و اطاعت صرف خلیفہ کی ہے ، ہجرت سے پہلے کی حالت کمزوری اور مغلوبیت کی ہوتی ہے ، اس حالت میں بھی اگر سمع و اطاعت کا حکم ہے تووہ خلیفہ کے سوا اور کس کی ہے ؟ اس سے کمزوری اور مغلوبیت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے تاکہ اس حالت میں اس کی سمع واطاعت میں ہجرت اور جہاد کے اعمال ِ صالح ادا کئے جا سکیں اور اللہ کی طرف سے اقتدار و امن کی امید رکھی جا سکے ۔
٭ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَّاُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ 13؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَــوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَكَفَرَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ ۚ فَاَيَّدْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلٰي عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِيْنَ 14؀ۧ
اور وہ دوسری چیز (بھی تمہیں دے گا) جسے تم چاہتے ہو، اللہ کی طرف سے نصرت اور جلد حاصل ہونے والی فتح، اور مومنین کو بشارت دے دو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی نصرت کرنے والے بنو جیسا کہ کہا تھا عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہ کون ہے اللہ کی طرف میری نصرت کرنے والا؟ کہا تھا حواریوں نے کہ ہم ہیں اللہ کی نصرت کرنے والے پھر ایمان لے آیا ایک گروہ بنی اسرائیل میں سے اور انکار کردیا(دوسرے) گروہ نے سو مدد کی ہم نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں سو ہوکر رہے وہی غالب۔
(سورۃ الصف۔۱۳،۱۴)
آیت بالا سے، اللہ کی طرف سے نصرت و فتح پانے کے لئے ’’اللہ کی نصرت کرنا‘‘ شرط کے طورپر سامنے آتا ہے اور اس کے طریقے کے لئے عیسیٰ علیہ السلام اور آپ ؑ کے حواریوں کا واقعہ سنایا گیا ہے جس میں اللہ کی نصرت کرنے کا طریقہ یہ سامنے آتا ہے کہ وقت کے امام ِشرعی کی نصرت کی جائے ۔ جب عیسیٰ علیہ السلام امام ِ شرعی تھے تو اُس وقت کے مومنین ’’حواریوں‘‘نے آپ ؑ کی انتہائی مغلوبیت کی کیفیت میں آپ ؑکی نصرت کا اعلان کیاتھا اور آخرکار اللہ نے اُن کو غلبہ عطا فرمایا، جب نبی ﷺ شرعی امام تھے تو وقت کے مومنین نے آپ ﷺکی انتہائی مغلوبیت کی کیفیت سے آپ کی بھرپور نصرت شروع کی تھی اور غلبے سے سرفراز ہوئے ۔ آپ ﷺ کے بعدوقت کا شرعی امام’’خلیفہ ‘‘ ہوتا ہے چنانچہ اب مومنین پرخلیفہ کی نصرت لازم قرار پاتی ہے۔ یہ آیت قیامت تک کے مومنین کو اللہ کی طرف سے نصرت و فتح ملنے کایہ اُصول دیتی ہے کہ’’خلیفہ‘‘ کی نصرت کی جائے ، اگر نصرت وفتح مغلوبیت میں چاہیے تو پھرمغلوبیت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے جس کی نصرت کر کے فتح حاصل کی جاسکے اور ذیل میں درج حدیث خلیفہ کے علاوہ ہرامام کی نصرت سے منع کرکے صرف خلیفہ کے جھنڈے تلے اکٹھے ہونے کا اہتمام کرتی ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ
مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَ مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ
رَاْیَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَِغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْ یَدْعُوْا اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ
جو شخص (خلیفہ کی )اطاعت سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے اور مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا۔ جو شخص اندھا دھند ( اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی گروہ کے لئے غضب ناک ہو ، یاگروہ کی طرف دعوت دے یا گروہ کی نصرت کرے اور قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے۔
(مسلم:کتاب الامار ہ۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
٭قرآن و سنت میں خلیفہ اورخلافت کے ایک سے زیادہ مفاہیم سامنے آتے ہیں ان میں سے خلیفہ کاایک فہم’’ سلطان و مقتدر‘‘اور خلافت کاایک فہم ’’سلطنت واقتدار‘‘ بھی ہے لیکن اکثر لوگ یہ فیصلہ کئے بیٹھے ہیں کہ خلیفہ لازماً وہی ہوتا ہے جو سلطنت و اقتدار اور مضبوط افواج کا حامل ہو اور یہ کہ خلیفہ مقرر ہی نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اہل ایمان کو سلطنت و اقتدار حاصل نہ ہو جائے چنانچہ وہ کسی سلطان ومقتدر خلیفہ اور سلطنت واقتدار اورمضبوط افواج والی خلافت کے انتظار میں ’’وحدتِ اُمت‘‘ کے فرض کو مؤخر کئے بیٹھے ہیں۔ اس حوالے سے درج ذیل سوالات قابل ِ غور ہیں :
(الف) قرآن وسنت سے خلیفہ’’ سلطان ومقتدر‘‘ کے علاوہ نائب، جانشین اور وارث کے طور پر بھی سامنے آتا ہے مگر خلیفہ سے لازماً سلطان ومقتدر ہی مراد لینے پر آخر کیوں زور دیا جارہا ہے ؟
(ب) کار ِ خلافت میں ’’اُمت کی سلطنت کی تدبیر ‘‘کے علاوہ ’’اُمت کی امارت اور ’’اُمت کی امامت ‘‘بھی آتی ہے ، پھر اُمت کے پاس سلطنت واقتدار نہ بھی ہو تب بھی اُمت تو موجود ہوتی ہے اور اُسے اپنی امارت وامامت کا مسئلہ درپیش رہتا ہے( کہ ایک امیر وامام ہو جس کی قیادت میں مجتمع ہو کر اقتدار کے لئے منظم جدوجہد کی جاسکے ) لیکن کار خلافت سے صرف تدبیر ِ سلطنت ہی مراد لینے کی آخر کیا وجہ ہے؟
(ج) اہل ِ ایمان یا اہل ِ حق جب تک مغلوبیت اور کمزوری کی حالت میں ہیں اور انہیں ایسا قائدنہیں مل جاتا جو سلطنت واقتدار کا حامل ہو تب تک:
۱۔ کیا اہل ِ ایمان ایک جماعت اور ایک امام کے بغیر رہیں گے؟
۲۔ کیا اہل ِ ایمان ہزارہا غیر شرعی امیروں، اماموں اور سلطانوں کی قیادت میں بٹ کر مغلوب، منتشر اور باہم متحارب رہیں گے ؟ اور کیا ان کا رب ان کی مغلوبیت اور کمزوری کی حالت میں انہیں ان چیزوں میں مبتلا رہنے کی اجازت دیتا ہے ؟ کہ جن کی بنا پر وہ غلبے سے مغلوبیت اور کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَ اَطِیْعُواللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیۗحُکُمْ وَاصْبِرُوْا ط
اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور تنازعہ مت کرو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی
( سورۃ الانفال۔ ۴۶)
۳۔ کیا تفرقے میں نہ پڑنے اور مجتمع رہنے ، جماعت وامام کولازم کرنے، بیعت کے بغیرمرنے پر جاہلیت کی موت مرنے والی آیات و احادیث حالت ِ مغلوبیت میں منسوخ ہو جاتی ہیں ؟
۴۔ اہل ِ ایما ن اگر حالت ِ مغلوبیت میں مجتمع ہونا چاہیں تو خلیفہ کے علاوہ کون سی قیادت ہے جس پر انہیں مجتمع ہونے کی اجازت ہے ؟ جبکہ نبی ﷺ کا ارشاد بہت واضح ہے کہ
وَ اِنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَآءُ
میرے بعد کوئی نبی(اُمت کی سیاست کاذمہ دار) نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے۔
(بخاری: کتاب احادیث الانبیاء۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
۵۔ اگر خلیفہ وہی ہوتا ہے جو سلطنت واقتدار اور افواج رکھنے کی شرط پوری کرے اور کسی ایسے خلیفہ کے ہاتھ بیعت نہیں ہوسکتی جو یہ شرط پوری نہ کرتا ہو، تو اگر یہ اُصول ہے تو پھرتمام مومنین کے لئے اُصول ہے اور ایک بھی مومن ایسے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتا جو سلطنت واقتدار اور افواج نہ رکھتا ہو تو بتائیں کسی ایک بھی مومن کی بیعت سے پہلے جس خلیفہ سے سلطنت واقتدار اور افواج کا مطالبہ کے جارہا ہے اس حال میں وہ کس کی فوجیں لائے گا،فرشتوں کی؟ جنوں کی ؟ یا کسی اور مخلوق کی ؟
٭٭ درج بالا تمام سوالات ایک ہی جواب کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نہ ہی مومنین کی وحدت کافرض مؤخر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مومنین کا شرعی امام’’ خلیفہ‘‘ شروع ہی سے سلطنت واقتدار اورمظبوط افواج کا حامل ہو جبکہ کتاب وسنت سے واضح ہوتا ہے کہ ایک شخص صرف شرائط ِ خلافت رکھنے اور جانے والے خلیفہ کے بعدسب سے پہلے اپنے ہاتھ پر ایک مومن کی بیعت ہونے کی بنا پر خلیفہ بنتا ہے اور پھردیگر مومنین کی طرف سے اس خلیفہ کواپنی بیعت ، اطاعت اور نصرت دیئے جانے اوراپنے زیرانتطام علاقے اس کے سپرد کر دینے سے افواج اور سلطنت اقتدار کا حامل ہو جاتا ہے ، تمام خلفائے راشدین اسی طرح سے پہلے خلیفہ بنے پھرمومنین کی بیعت، اطاعت اور نصرت وغیرہ ملنے پرافواج اور سلطنت واقتدار کے حامل ہوئے جیسااس سے پہلے خود نبی ﷺ بھی اللہ کی طرف سے مومنین کی بیعت ، اطاعت اور نصرت میسر آنے کی بنا پر افواج اورسلطنت واقتدار اورملک کے مالک ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
فَاِ نَّ حَسْبِکَ اللّٰہُ ط ھُوَالَّذِیْ ٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِ ہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ ﴿﴾
پس یقیناً کافی ہے تمہارے لئے اللہ ۔ وہی تو ہے جس نے قوت بہم پہنچا ئی تمہیں اپنی نصرت سے اور مومنین (کی نصرت) سے۔
(سورۃ الانفال۔ ۶۲)
آج جو بھی مومن کتاب وسنت سے سامنے آنے والی شرائط ِ خلافت پوری کرتا ہے، اور اُس کے ہاتھ پر خلیفہ کے لئے بیعت ہوچکی ہے ، اور وہ گذشتہ خلافت ختم ہونے کے بعدہونے والی پہلی بیعت ہے تو وہ مومن تمام مومنین کے لئے خلیفہ ہے ، مومنین کی ذمہ داری ہے کہ اُس کی بیعت ، اطاعت اور نصرت کرتے ہوئے اُس کے جھنڈے تلے مجتمع ہو جائیں ، اُسی کی امامت میں اعمال ِ صالح ادا کریں پھر اللہ کی طرف سے زمین میں خلافت ملنے ، دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دینے اور حالت ِ خوف کو امن میں بدل دینے کا وعدہ جلد پورا ہوگا ان شاء اللہ۔
٭٭٭

0 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔