Tuesday, January 4, 2011

جنتی اور جہنمی لوگ

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حدیث 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب ابن آدم یعنی انسان سجدہ والی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اور ہائے افسوس کہتا ہوا اس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور ابی کریب کی روایت میں ہے شیطان کہتا ہے ہائے افسوس ابن آدم کو سجدہ کا حکم کیا گیا تو وہ سجدہ کرکے جنت کا مستحق ہوگیا اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا تو میں سجدے کا انکار کرکے جہنمی ہوگیا۔ 
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 245 حدیث مرفوع
فوائد۔
ابلیس یعنی شیطان نے اللہ کے حکم سے صرف ایک سجدہ نہ کیا اور وہ مردود کر دیا گیا اور آج ہم ہر روز کتنے سجدے جن کا حکم اللہ نے ہم کو دیا تھا نہیں کر رہے تو کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہمارا خشر کیا ہو گا؟اے ایمان والوں اس سے پہلے کہ موت کا فرشتہ ہمیں موت کی نیند سُلا دے اپنے فرض کو سمجھو اور نماز باقائیدگی کے ساتھ ادا کروکہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا خشر بھی شیطان جیسا ہو۔سابقہ کوتاہیوں کی اللہ سے معافی مانگو اللہ بہت معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔
حدیث۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت پر بھی وہی کچھ آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا اور دونوں میں اتنی مطابقت ہوگی جتنی جوتیوں کے جوڑے میں ایک دوسرے کے ساتھ۔ یہاں تک کہ اگر ان کی امت میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا کرنے والا آئے گا اور بنواسرائیل بہتر فرقوں پر تقسیم ہوئی تھی لیکن میری امت تہتر فرقوں پر تقسیم ہوگی ان میں ایک کے علاوہ باقی سب فرقے جہنمی ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ نجات پانے والے کون ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر چلیں گے۔ 
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 536 حدیث مرفوع حدیث مقطوع یہ حدیث حسن غریب مفسر ہے 
فوائد۔
اس حدیث سے ہم کو جو سبق ملتا ہے وہ یہ کہ ہم کسی بھی طرح یہود اور نصاریٰ کے طریقے کی پیروی نہ کریں بلکہ قرآن و سنت پر ہی عمل کریں۔
دوسرا فرقے جتنے بھی بن جائیں وہ ایک مسلم کے لیے پریشان کن بات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاملے میں اُمت کو طریقہ بتا دیا ہے کہ پھر کیا کرنا ہے ایک اور حدیث کے مفہوم کے مطابق وہ نجات پانے والے ہونگے جو قرآن و سنت پر کاربند ہونگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں کسی بھی فرقے کا نام نہیں لیا کہ وہ فلاں جماعت ہو گی نہیں بلکہ اصول بتایا کہ جو بھی میرے اور میرے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کررستے پر ہوگا اب ظاہر سی بات ہے نبی علیہ السلام اللہ کی وحی کے اوپر تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کی وحی یعنی قرآن اور نبی علیہ السلام کی سنت پر تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت یہی ٹھہری کہ وہ قرآن و سنت پر عمل کرنے والے تھے۔
حدیث۔
حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوے سنا، کیا میں تمہیں جنتیوں کی خبر نہ دوں؟(پھر آپ نے خود ہی جواب دیا) ہرکمزور، جو کمزور سمجھا جاتاہے، اگر وہ اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ اسے پوری کردیتاہے۔ کیا میں تمہیں جہنمیوں کی خبر نہ دوں؟(پھر جواب دیا) ہر تند خو سرکش، بخیل(یا اترا کر چلنے والا) اور متکبر شخص۔
(صحیح بخاری،کتاب التفسیر،باب قوله تعالی عتل بعد ذالك زنیم، وصحیح مسلم ،کتاب الجنة وصفة نعیمها،باب النار یدخلها الجبارون، والجنة یدخلها الضعفاء)
فوائد
سرکشی(اللہ کے احکام سے سرتابی) بخل(اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز) تکبر یہ ایسی مذموم صفات ہیں۔ ایسی صفات کے حامل لوگوں کا ٹھکانہ ،جنت نہیں، دوزخ ہوگا۔ اعاذنا اللہ منہ۔
اس میں ان کمزور ، غریب اور گوشہ خمول میں رہنے والے لوگوں کی فضیلت کا بیان ہے ،جن کو کوئی امتیازی مقام معاشرے میں حاصل نہیں ہوتا، لیکن ایمان اور تقویٰ کے وہ ایسے مقام بلند پر فائز ہوتے ہیں کہ اگر اللہ کی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرمادیتا ہے۔ اس میں تواضع اور گمنامی کی فضیلت اور تکبر،بخل اور شہرت وناموری کی ہوس کی مذمت ہے۔
حدیث۔
اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو ( میں نے دیکھا کہ) اس میں داخل ہونے والے اکثر مسکین لوگ ہیں،اور دولت مند روکے ہوئے ہیں۔ البتہ دوزخ والوں کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے دیا گیاہے اور میں جھنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو (دیکھا) ان میں داخل ہونے والی اکثر عورتیں ہیں۔ 
(صحیح بخاری، کتاب النکاح،باب لاتأ ذن المرأة في بيت زوجها إلا بإذنه و كتاب الرقاق- وصحيح مسلمو كتاب الرقاقو باب أكثر الجنة الفقراء)
فوائد :
جنت دوزخ کے یہ احوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلائے گئے اور آپ نے انہیں صیغہ ماضی سے بیان فرمایا، کیونکہ ان کا وقوع، ماضی کی طرح، یقینی ہے یا کشف کے طور پر آپ کو ان کا مشاہدہ کروایا گیا۔ عورتوں کے زیادہ جھنم میں جانے کی ایک بڑی وجہ دوسری احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائي ہے کہ وہ خاوند کی ناشکری زیادہ کرتی ہیں جس سے پتہ چلا کہ خاوند کو آزار پہنچانا بڑے جرائم میں سے ہے۔
حدیث۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگيا۔ کہ کون سے عمل انسانوں کےزیادہ جنت میں جانے کا سبب بنیں گے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کا ڈر اور حسنِ اخلاق- اور پوچھا گیا کہ کون سی چیزیں انسانوں کے زیادہ جہنم میں جانے کا سبب ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منہ اور شرمگاہ 
(سنن ترمذی ، ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی حسن الخلق
فوائد:
یہ حدیث بھی بڑی جامع ہے۔ اللہ کے ڈر سے انسان کا اللہ کے ساتھ تعلق صحیح طور سے جڑجاتاہے اور حسنِ اخلاق سے وہ لوگوں کے حقوق میں کوئي کوتاہی نہیں کرتا۔ اس لئے یقینا یہ دو عمل ایسے ہیں کہ جن کے ذریعے سے لوگ کثرت سے جنت میں جائیں گے۔ اسی طرح منہ سے ہی انسان کلمات کفر بکتاہے۔ غیبت ،بہتان تراشی،گالی گلوچ اور بے ہودہ گوئی۔ یہ سب زبان کے کام ہیں اور شرمگاہ: یہ بدکاری کا باعث ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کو تقوی اور حسنِ اخلاق سے آراستہ کرے اور زبان اور شرمگاہ کے فتنوں سے اپنے کو بچائے تاکہ اس کی آخرت برباد نہ ہو۔

0 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔