Monday, July 11, 2011

عمل کے قبول ہونے کی شرطیں

0 تبصرہ جات

عمل کے قبول ہونے کی شرطیں

یہ بات معلوم ہے کہ تمام عبادتیں توقیفی ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کو شریعت کے دستور کے مطابق پہچانا جاتا ہے ۔ کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرے بلکہ اس طریقے کے مطابق عبادت کرے جس کو قرآن کریم اور سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے مثلاً عبادت میں ضروری ہے کہ وہ عمل خالص اکیلے اللہ کے لئے ہو ۔

یہاں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی بھی عمل جس سے ہم اللہ تعالی کا قرب حاصل کرتے ہیں اس کے صحیح ہونے کے لئے دو بنیادی شرطوں کا ہونا ضروری ہے اور ان دونوں شرطوں کا ایک ساتھ پایا جانا ضروری ہے ۔ ایک شرط دوسری سے جدا اور علیحدہ نہ ہو ۔

پہلی شرط اکیلے اللہ تبارک و تعالٰی کے لئے عبادت کو خالص کرنا
دوسری شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متا بعت کرنا ۔

ان دونوں شرطوں کو سورۃ الکہف کی اس آیت نے جمع کیا ہے
فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْ لِقَائَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلا یُشْرِک بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أحَدًا


سورہ الکہف آیت ۱۱۰


جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید کرتا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ نیک عمل (سنت کے مطابق ) کرے اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔

اللہ سبحانہ و تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ عمل سنت کے مطابق ہو پھر حکم دیا ہے کہ عمل کرنے والا خالص اللہ تعالٰی کے لئے عمل کرے اور اس عمل کے ذریعہ اس کے سوا کسی کا قرب تلاش نہ کرے ۔

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ نے اپنی تفسیر میں فرمایا ہے : قبول ہونے والے عمل کے دو رکن ہیں ۔
ا) عمل کا خالص اللہ تبارک و تعالی کے لئے ہونا ۔
(
۲) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے ۔

اسی طرح کی روایت قاضی عیاض وغیرہ سے بھی مروی ہے ۔


پہلی شرط اکیلے اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے عبادت کو خالص کرنا



شرط اول کا معنی یعنی اخلاص۔ وہ یہ کہ عمل کرنے والا اپنے عمل سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضاء کا ارادہ کرے جو ریاکاری اور شہرت سے دور ہو وہ اپنے اس عمل سے کسی سے بدلہ اور شکرانہ تلاش نہ کرے اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی نصوص کثرت سے وارد ہیں ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا
فَاعْبُدِ اﷲَ مُخْلِصًا لَہُ الدِّیْنَ(سورۃ الزمر آیت ۲
پس تو اللہ تعالی ہی کی عبادت کراس کے لئے عبادت کو خالص کرتے ہوئے ۔
وابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اﷲُ الدَّارَ الآخِرَۃَ وَلا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اﷲُ إِلَیْکَ (سورۃ القصص آیت ۷۷
اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصہ کو بھی نہ بھول اور جیسے کہ اللہ تعالی نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے توبھی سلوک کرتا رہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کہ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا
انا اغنی الشرکاء عن الشرک من عمل عملاً اشرک معی فیہ غیری ترکتہ و شرکہ


مسلم کتاب الزھد ج۴ ص ۲۲۸۹


میں تمام شرکاء کے شرک سے مستغنی ہوں جس نے کوئی عمل کیا اور میرے ساتھ اس میں میرے غیر کو شریک کیا تو میں اس کا عمل اور اس کا شرک چھوڑ دوں گا ۔

یعنی میں اپنی عبادات مالیہ، قولیہ اور بدنیہ میں پارٹنر شپ کو گوارہ نہیں کرتا ۔ جو کوئی عبادت گزار میری عبادات میں دوسروں کو حصہ دار بنائے میں اس کی اپنے حصہ والی عبادت بھی قبول نہیں کرتا
اس لئے کہ اس وقت اخلاص اور انسان کا اپنے عمل سے دنیا کا ارادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ممکن نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوی فمن کانت ھجرتہ إلی اﷲ و رسولہ فھجرتہ إلی اللہ ورسولہ و من کانت ھجرتہ لدنیا یصیبھا اوامرأۃ یتزوجھا فھجرتہ إلی ما ھاجر الیہ (بخاری ج ۱ ص ۹ مسلم ۳/۱۰۱۰
اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ہر آدمی کے لئے وہی ہو گا جس کی اس نے نیت کی پس جس نے اللہ تعالی اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی تو اس کی اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت ہو گی جس نے دنیا کے لئے ہجرت کی تو وہ اس کو پائے گا یا کسی عورت کی طرف ہجرت کی کہ وہ اس سے نکاح کرے گا اس کی ہجرت اس کی طرف ہو گی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ۔


دوسری شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متا بعت کرنا ۔



اس کا معنی یہ ہے کہ وہ عمل جس کے ذریعہ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں اس دستور اور آئین کے مطابق ہو جس کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں بیان کیا ہے اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے اسلامی دین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اعلیٰ کی طرف منتقل ہونے سے پہلے پہلے کامل و مکمل کر دیا ہے ۔ اب اس دین محمدیﷺ میں کسی کمی و زیادتی کی حاجت نہیں رہی ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمْ الاِسْلامَ دِیْنَا (سورہ المائدہ آیت ۳
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کوبحیثیت دین پسند کر لیا ۔

ایسی بہت سی آیات قرآنیہ وارد ہوئی ہیں جو اتباع سنت کا حکم دیتی ہیں اور دین حنیف میں نئی نئی باتیں اور بدعتیں ایجاد کرنے سے تنبیہ اور منع کرتی ہیں ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْاﷲ وَالْیَوْمَ الآخِرَ وَذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا (سورۃ الاحزاب آیت ۲۱
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ موجود ہے ۔ ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہو اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہو ۔

اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا
وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہٗ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ( الحشر آیت ۷
جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم کو دے اس کو لے لو اور جس سے روکے اس سے باز آجاؤ ۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُوْنَ اﷲَفَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ (سورۃ آلعمران آیت۳۱

کہہ دیں اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری تابعداری کرو تو اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا ۔
اس سلسلہ میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی کثرت سے وارد ہوئی ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی عضوا علیھا بالنواجذ وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار (ترمذی ج ۴ ص ۱۴۹ ، سنن ابن ماجۃ ۱ /۱۶

تم پر میری سنت اور میرے بعد خلفاء الراشدین کی سنت لازم ہے اس کو مضبوطی سے پکڑ لو اور نئی بدعتیں ایجاد کرنے سے بچ جاؤ اس لئے کہ (دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں (لے جانے کا سبب بنتی )ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ترکت فیکم امرین لن تضلوا بعدی ما تمسکتم بھما کتاب اﷲ و سنتی


المؤطا ۲/۸۹۹ ابوداود ۱/۴۴۲، ابن ماجۃ ۲/۱۰۲۵

)
میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔ ایک کتاب اللہ ہے اور دوسری میری سنت ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم میں اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن کریم اور اپنی سنت چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے یہ حدیث مبارک منکرین حدیث کے منہ پر طمانچے مار رہی ہے اور ان کے فاسد عقیدے کا رد کر رہی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (بخاری ۳/۲۴۱ مسلم ۵/۱۳۲
جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز گھڑی جو اس سے نہیں تو وہ رد ہے (اسے کے منہ پر دے ماری جائے گی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَا بعث اﷲ من نبی الا کان حقًا علیہ ان یدل امتہ علی خیر ما یعلمہ لہم و ینذرہم شرما یعلمہ لہم (مسلم امارۃ ۴۶ ج ۳ /۱۴۷۲
اللہ تعالی نے جس نبی کو بھی بھیجا اس پر واجب تھا کہ وہ اپنی دانست کے مطابق اپنی امت کو بھلائی بتائے اور ان کو اپنی دانست کے مطابق شرسے ڈرائے ۔

اللہ تعالی نے جس کسی نبی کو مبعوث فرمایا اس پر فرض تھا کہ وہ اپنی امت کو اس خیر سے آگاہ کرے جسے وہ ان کے لئے بتانا ضروری خیال کرتا ہے اور ان کو اس شر سے ڈرائے جسے وہ ان کے لئے مہلک سمجھتا ہے

یہ تمام نصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں جونسا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کے بغیر ہو اس کی کوئی قبولیت نہیں ہے ۔ بہت سے مسلمانوں نے نئی نئی چیزیں گھڑ رکھی ہیں جن کو یہ دین سمجھتے ہیں حالانکہ دین میں ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں ہے جن کو یہ لوگ اچھا سمجھتے ہیں اور خیال (فاسد) کرتے ہیں کہ یہ ان کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کردیں گی ۔

حالانکہ انہوں نے قرآن کریم اور حدیث نبوی کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے چھوڑ دیا ہے گویا کہ یہ لوگ قرآن و حدیث کو سنتے ہی نہیں ہیں ۔ (اللہ تعالیٰ ان کو ھدایت عطا فرمائے ) ان بدعات کی مثالوںمیں سے وہ گھڑی ہوئی دعائیں اور اذکار اور کلمات وغیرہ ہیں جنکو ہر نماز کے بعد یا کسی خاص وقت میں گانے کی طرح سریں لگا لگا کر گاتے ہیں اور انہوں نے ہر نماز کے بعد ان اذکار اور دعاؤں کو چھوڑ دیا ہے جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تمام اوقات میں پڑھی جانے والی دعاؤں اور اذکار کی تعلیم دی ہے ۔ پس مسلمانوں کو معلوم ہے کہ وہ اپنے گھر سے نکلتے وقت اور گھر کی طرف واپس آتے وقت کیا کیا پڑھیں گے اور سوتے وقت اور جاگتے وقت کیا پڑھیں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں (بخاری ج ۱۱ ص ۱۰۱

اللہ تبارک و تعالی اولوالالباب کا عمل بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے
اَلذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیَامًا وَ قُعُوْدًا وَعَلیٰ جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ والاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ
جو لوگ اللہ تعالی کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور پہلوؤں کے بل یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچتے
ھٰذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃ آل عمران آیت ۱۹۱

ہیں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ باطل نہیں بنایا تو پاک ہے پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا
قرآن کریم کی اس آیت نے واضح کر دیا کہ یہ لوگ اللہ تبارک و تعالی کو تمام حالتوں میں یاد کرتے ہیں ۔
ان بدعتوں میں سے مخصوص دنوں اور وقتوں میں عیدیں اور میلے منانا بھی ہیں سوائے ان اسلامی عیدوں کے جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشروع کیا ہے اور وہ عید الفطر، عیدلاضحی اور جمعہ ہے اب ان کے علاوہ جو بھی عید ہو گی وہ جاہلیت کی عید ہو گی۔
اور ان میں نئی نئی عبادتیں گھڑی گئی ہیں سب مردود ہیں (انکے ایجاد کرنے والوں کے منہ پر دے ماری جائیں گی) ۔ کیونکہ یہ بدعتیں ہیں اور ان کے علاوہ جو اعمال دین میں نئے ایجاد کئے گئے ہیں مسلمانوں کے لئے مناسب ہے کہ وہ ان کو چھوڑ دیں اور جن اعمال کا ثبوت قرآن وحدیث میں ملتا ہے اسی پر اکتفاکریں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سنا کہ کچھ لوگ روزانہ مغرب کی نماز کے بعد جمع ہوتے ہیں اور اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ ، سبحان اللہ کو بیک آواز بار بار دہراتے ہیں تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور ان لوگوں پر نکیر فرمائی اور فرمایا اللہ کی قسم تم لوگ ظلماً بدعت لائے ہو اور تم علم کے اعتبار سے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے فضیلت لے جانا چاہتے ہو۔ (دارمی ، ابونعیم)

اب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لا الہ الا اللہ یا سبحان اللہ کہنے پر نکیر نہیں فرمائی اس لئے یہ تو ذکر ہے بلکہ انہوں نے اس ھیئت پر جس کے ذریعہ ذکر کر رہے تھے نکیر فرمائی ہے اس لئے کہ اس حالت میںجمع ہو کر ذکر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، جنہوں نے آپؐ سے روایت کیا اور آپؐ سے اذکار کو سیکھا اور آپؐ سے سنا ، کے نزدیک مشروع نہیں ہے ۔

0 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔