Friday, June 24, 2011

قبروں کی زیارت کا شرعی حکم

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمٰن الرحم

قبروں کی زیارت کا حکم
بے شک قبروں کی زیارت کرنا مشروع اور جائز ہے لیکن اس طرح نہیں جس طرح آج لوگ کرتے ہیں ۔ قبروں پر مردوں کیلئے جانا جائز ہے مگر عورتوں کو اجازت نہیں ہے ۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور الا فزوروھا فانھا تذکر الآخرۃ (ترمذی فی الجنائز ) 
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا ۔ توسن لو ۔ اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۔ 
حدیث میں لفظ فزوروھا (یعنی تم ان کی زیارت کر لیا کرو) عام ہے مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہے ۔ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث کی وجہ سے صرف مردوں کے لئے خاص ہے ۔ 
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لعن اﷲ زوارات القبور من النساء ۔ (ترمذی فی الجنائز وابن ماجہ و مسند احمد )
اللہ تعالیٰ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کرے ۔ 
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ قبروں پر جانا صرف مردوں کے لئے مستحب ہے نہ کہ عورتوں کے لئے اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جنازے کے پیچھے چلنے سے منع فرمایا ۔ بات کا خلاصہ یہ ہے کہ عورتیں قبروں کی زیارت کی اجازت میں داخل نہیں ہیں اس کی دو وجھیں ہیں ۔ 
(۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فزوروھا : مذکر کے صیغہ کا استعمال کیا اور یہ عورتوں کو علی سبیل التغلیب شامل ہے اسی بناپر عورتیں بطریق عموم ضعیف کے داخل ہونگی جمہور علماء کے ہاں عام خاص کی دلیلوں کے مخالف نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ان دلیلوں کو نسخ کرتا ہے اگر عورتیں اس خطاب میں داخل ہوتی تو ان کے لئے بھی قبروں کی زیارت مستحب ہوتی حالانکہ ہم کسی امام کو نہیں جانتے جس نے ان کے لئے قبروں کی زیارت کو مستحب سمجھا ہو اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین ؓ کے زمانہ میں عورتیں قبروں کی زیارت کے لئے نکلتی تھیں ۔ 
(۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو اجازت دینے کی علت بیان فرمائی کہ قبروں کو دیکھ کر موت یاد آتی ہے ۔ دل نرم ہوتا ہے اور آنکھوں سے آنسوں بہتے ہیں ۔اسی طرح کی روایت مسند احمد میں بھی ہے یہ بات معلوم ہے کہ اگر عورت کو اجازت دی جائے تو اس میں صبر کم ہونے کی وجہ سے جزع ، فزع اور رونا پیٹنا زیادہ کرتی ہے ۔ ما قبل ذکر ہو چکا ہے کہ قبروں کی زیارت کرنے کا مقصد موت کو یاد کرنا ، میت کو سلام کرنا اور اس کیلئے دعا کرنا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم قبروں پر جاکر کیا پڑھیں ۔ 
جب ہم قبروں پر جائیں تو یہ دعا پڑھیں :
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الدَّیَارِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُؤْمِنِیْنَ یَرْحَمُ اﷲُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأخِرِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَائَ اﷲُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ ( مسلم و مسند احمد )
تم پر سلامتی ہو اے اس گھر والو مؤمنو اور مسلمانو اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور جو بعد میں آئیں گے او ربے شک ہم اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں ۔ 
یا اس طرح کی اور دعا پڑھنی چاہئے جو قرآن و سنت میں وارد ہے ۔ لوگوں کی اکثریت حدیث کے بالکل خلاف کر رہی ہے یہ وہاں جاتے ہیں اور ان کے لئے دعا کرنے کی بجائے اپنے لئے دعا کرتے ہیں اور قبروں کو ہاتھ لگاتے ہیں چومتے اور چاٹتے ہیں اور انکی طرف متوجہ ہو کر برکت حاصل کرنے اور خیر طلب یا مصائب کے دور کرنے کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔ 
یہ سب مشرکانہ حرکات اور بدعت افعال ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حرکات اورافعال پر تنبیہ کی ہے ۔ کیونکہ کبھی کبھار ایسا کرنے سے انسان شرک اکبر میں واقع ہو جاتا ہے خصوصاً جب قبر والے مردے سے یہ اعتقاد رکھ لے کہ یہ مردہ سنتا ہے اور دعا کو قبول کرتا ہے یاغیب جانتا ہے یا مصیبتوں کو دور کرتا ہے اب ان باتوں (کرتوتوں) پر تنبیہ کرنا واجب ہے اگرچہ قبروں کی زیارت کرنا مردوں کیلئے مستحب ہے لیکن زیارت کرنے کے لئے مستقل سفر کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی مسلمان اپنے شہر کے مسلمانوں کے قبرستان پر جائے کیونکہ یہ سفر میں شمار نہیں ہوتا ۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تشد الرحال إلا الی ثلا ثۃ مساجد المسجد الحرام و مسجدی ھٰذا والمسجد الاقصیٰ (بخاری فی الصلوۃ و مسلم فی الحج)
سفر زیارت تین مسجدوں کے علاوہ نہیں کیا جائے گا مسجد حرام اور میری یہ مسجد یعنی مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ۔ 
اب بڑی مصیبت تویہ ہے کہ قبروں کی تعظیم کی جارہی ہے اور انکو اونچا کرکے اوپر قبے بنائے جائے جارہے ہیں اور انکو سجدے کئے جارہے ہیں باوجود اس کے کہ کئی احادیث نبویہ ان چیزوں کی نہی میں وارد ہوئی ہیں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ احادیث یہاں ذکر کریں گے 
(۱) بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی مرض وفات میں تھے تو وہ اپنی چادر مبارک کو اپنے چہرہ مبارک سے ہٹا رہے تھے پس جب آپؐ اس سے مغموم ہوتے تو اسے ہٹا دیتے 
اورآپﷺ نے اسی حالت میں فرمایا: 
لعنۃ اﷲ علی الیھود والنصاری اتخذوا قبور انبیائھم مساجد ۔ (بخاری فی الانبیا ) 
یہود و نصاری پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا ۔ 
(۲) امام مسلم ؒ نے حضرت جندب بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انکی وفات سے پانچ دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنا ۔ 
ألا ! إن من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائھم مساجد ، ألا ! فلا تتخذوا القبور مساجد فانی انہاکم عن ذلک (مسلم فی المساجد )۔
سن لو ۔ تم سے پہلے والے لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا ۔ 
خبردار ۔ تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنا نا بالیقین میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں ۔ 

(۳) امام احمد ؒ نے حسن سند سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مرفوعاً نقل کیا ہے۔ 
إن من شرار الناس من تدرکہم الساعۃ وھم أحیاء ،والذین یتخذون القبور مساجد (مسند احمد )
بالیقین بدتر وہ لوگ ہوں گے جن کو قیامت پائے گی اور وہ زندہ ہوں گے اور وہ قبروں کو سجدہ گاہیں بنا رہے ہوں گے۔ 

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جو آدمی قبروں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت او رآپکے امر او رنہی اور صحابہ کرام ؓ کی عمل کے متعلق او رموجودہ زمانہ کے لوگوں کی اکثریت کے متعلق غور و فکر کرئے گا تو وہ ایک دوسرے کے مخالف اور جدا پائے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آج کے لوگوں کے عمل دونوں ایک ساتھ کبھی بھی جمع نہیں ہوں گے وہ کیسے ؟ آپ ذرا توجہ کریں ۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی طر ف منہ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے او ریہ لوگ قبروں کے پاس کھڑے ہو کر اور انکی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو مسجدیں بنانے سے منع کیا ہے اور یہ لوگ قبروں پر مسجدیں بناتے ہیں اور وہاں میلہ لگاتے ہیں اور قبروں کا طواف کرتے ہیں ، بیت اللہ کی مشابہت اختیا ر کرتے ہیں ۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کیا ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ ہیں جو جمعرات کو قبروں پر جاکر چراغاں کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر میلہ لگانے سے منع کیا ہے اور یہ لوگ بڑھ چڑھکر بڑی بے باکی کے ساتھ میلہ لگاتے ہیں اور وہاں اس طرح جمع ہوتے ہیں جس طرح مسلمان عیدالفطر اور عیدالاضحی کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو زمین کیساتھ برابر کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوالھیاج الاسدی ؓ کی روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے مجھ سے کہا :
الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم الا تدع تمثالاً الاطمستہ ولا قبراً مشرفاً الا سویتہ (مسلم فی الجنائز و ابو داؤد فی الجنائز و ترمذی )
کیا میں آپکو اس کام پر نہ بھیجوں جس کام پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا ؟ کہ آپ کسی تصویر کو نہ چھوڑیں مگر اسے مٹا دیں اور اونچی قبر دیکھیں تواسے زمین کے برابر کر دیں ۔ 

مسلم شریف میں حضرت ثمامہ بن شفی ؓ کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت فضالہ ابن عبید کے ساتھ ملک روم میں بردوس نامی جگہ میں تھے تو ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا (تو ہم نے جنازہ پڑھکر اسے دفنا دیا ) تو حضرت فضالہ ؓ نے اسکی قبر کو زمین کے ساتھ برابرکرنے کا حکم دیا ۔ پھر فرمایا کہ 
سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یامر بتسویتھا (مسلم فی الجنائز)
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر کو زمین کے ساتھ برابر کرنے کا حکم سنا ۔ 

موجودہ زمانے کے قبر پرست ان احادیث صحیحہ کی بڑھ چڑھکر مخالفت کر رہے ہیں اور قبروں کو گھروں کیطرح خوب اونچا کرتے ہیں اور ان پر قبے بناتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر چونالگانے او راس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓسے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :
نہی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عن تجصیص القبر وان یقعد علیہ و ان یبنی علیہ ونہی عن الکتابۃ علیہا ( مسلم ) 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر چونا لگانے اور اور اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے اور اس پر کتبے لکھ کرلگانے سے بھی منع فرمایا ہے ۔ 

اسی طرح کی روایت امام ابو داؤد ؒ نے بھی ذکر کی ہے امام ابو دؤد ؒ حضرت جابر ؓ سے روایت کرتے ہیں ۔ 
ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن تجصیص القبور و ان یکتب علیہا 
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چونا لگانے او ران پر لکھنے سے منع کیا ہے ۔ 
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ۔(ترمذی فی الجنائز ) 

یہ لوگ قبروں پر کتبے لگاتے ہیں اور ان پر قرآن کریم کی آیات وغیرھا لکھتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر ماسوائے مٹی کے اور کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع کیا ۔

جیسا کہ امام ابو داؤد ؒ نے حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے ۔
ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہیٰ ان یجصص القبر او یکتب علیہ او یزاد علیہ (ابو داؤد )
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر چونا لگانے اوراس پر کتبے لکھ کر لگانے اور اس پر (ماسوائے مٹی کے ) اور کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ 

یہ لوگ قبروں پر خوب زیادتی کرتے ہیں پکی اینٹیں ، چونا او رپتھر لگاتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم نخعی ؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ اپنی قبروں پر پکی اینٹیں لگانے کو مکروہ (تحریمی ) سمجھتے تھے ۔ 

(قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی کس قدر مخالفت ہو رہی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : 
وَ مَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدیٰ وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْراً 
(سورۃ النساء آیت ۱۱۴) 
او رجو کوئی ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مؤمنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستہ کی پیروی کرے گا تو ہم اس کی مرضی کے موافق پھیر دیں گے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے ۔ (مترجم)

0 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔