Thursday, July 29, 2010

کیا اللہ کو خدا کہہ کر پکارا جا سکتا ہے؟

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کیا اللہ کو خدا کہہ کر پکارا جا سکتا ہے؟
الحمد للہ، اما بعد۔۔۔۔۔۔
میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ اللہ کو خُدا کہتے ہیں اور بہت سے اہلِ علم کی کتابوں میں بھی اللہ جگہ خدا ہی پڑھا ہے
مگر دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ نام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں ہے بھی کہ نہیں ہم کہیں انجانے میں اپنے رب کو کسی ایسے نام سے تو نہیں پکار رہے کہ جو نام کسی غیر مسلم کے الٰہ کا نام ہواور ہم اُس نام کو اپنے سچے الٰہ اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہوں اور اس طرح کسی غیرمسلم قوم کی مشابہت اپنے اللہ کو پکارنے کے معاملے میں کر رہے ہوں۔
نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی[ کھانے پینے لباس، رہنے سہن میں] تو وہ انہی میں سے ہوگا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:
اس لیے دین اور دنیا کے کسی بھی معاملے میں کسی بھی غیر مسلم کی مشابہت سے بچنا لازمی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔۔
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ
کہہ دو الله کہہ کر یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے پکاروسب اسی کے عمدہ نام ہیں
بنی اسرا ئیل آیت نمبر ۱۱۰

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر۲۷۳۶ 
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو جو شخص ان کو یاد کرے وہ جنت میں داخل ہوگا۔
اصل میں لفظ خُدا فارسی زبان کا لفظ ہے آتش پرستوں کے دو ۲ الٰہ تھے اُن میں ایک کا نام خُدائے یزداں اور دوسرے کا نام خُدائے اہرمن تھا اردو میں معنی ہوگا کہ اچھائی کا خُدا اور بُرائی کا خُدا۔
یعنی یہ نام مجوسیوں کے الٰہوں کے نام ہیں اس لیے اس نام سے ہم اپنے اللہ کو نہیں پکار سکتے کہ جس طرح ہم اللہ کو بھگوان یا رام کہنا گوارہ نہیں کرتے اسی طرح خُدا بھی نہیں کہنا چاہیےبھگوان ہندوں کے الٰہ کا نام ہے تو خُدا آتش پرستوں کے الٰہ کا نام ہے۔
قرآن و حدیث میں جو اللہ کے ننانوے نام آئے ہیں ان میں یہ نام شامل نہیں ہے۔
اور آپ سب بہن بھائیوں کو گارنٹی سے کہتا ہوں کہ قرآن اور حدیث میں لفظ خُدا کا وجود نہیں ہے میں نے اس کو تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے پر نہیں ملا اور کافی اہلِ علم سے بھی پوچھا پر جواب نفی میں ہی ملا ہے۔
اس لیے آپ سب بہن اور بھائیوں سے درخواست ہے کہ اپنے رب کو پکارنے میں بھی غیر مسلم اقوام کی مشابہت نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ ہم کو آتش پرستوں کے ساتھ اُٹھایا جائے۔
اللہ سے دُعا ہے کہ اللہ ہم کو اپنے اچھے ناموں سے ہی پکارنے کی توفیق دے اور غیر مسلموں کی ہر طرح کی مشابہت سے بچا کر رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین




اس تحریر پر ایک صاحب ہیں انہوں نے اعتراض کیا تھا جس کا جواب میں نے پھر لکھا تھا وہ جواب بھی ساتھ پوسٹ کر رہا ہوں۔




بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تمام تعریفیں اُس اللہ کے لیے جس نے سب جہانوں کو صرف چھ ۶ دن میں پیدا کیا اور اُس سبحان اور اعلٰی ذات کو زرہ سی بھی تھکان نہیں ہوئی اور درود و سلام اور ہزاروں لاکھوں کڑوروں انگنت رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پر اُن کی آل پر اور صحابہ اکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم پر۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بعض لوگوں کو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی بات سے اتنی نفرت کیوں ہے وہ اپنی بات منوانے کے لیے اللہ اور رسول ﷺ کی بات کو بھی رَد کر دیتے ہیں بس اُن کا فہم جو کچھ بھی صحیح کہہ دے وہی دین بن جاتا ہے حالانکہ دین صرف اور صرف قرآن اور صحیح حدیث ہی ہے قرآن اللہ نے اُتارا اُس میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کا فرمان ہے اور حدیث نبی ﷺ کا فرمان ہے۔
محمد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ میں تم میں دو ۲ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم ان پر کاربند رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے ایک ہے کتاب اللہ اور دوسری میری سنت۔
اب جو کوئی بھی ان دو چیزوں کے ساتھ تیسری چیز شامل کرے گا تو وہ گمراہی کی طرف جا سکتا ہے اگر ہم نے دل سے نبی ﷺ پر ایمان لائے ہیں اور اُن سے محبت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ دین جتنا وہ ہم کو دے کر گے ہیں بس اُسی پر عمل کریں کیونکہ دین نبی ﷺ کی زندگی میں ہی کامل اور اکمل ہو گیا تھا اب نہ اُس میں کمی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اضافہ اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا کل قیامت کے دن جنت تو کیا خوضِ کوثر کا پانی بھی اُس بد بخت کو نصیب نہیں ہو گا۔ دلیل حاضر ہے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1931 حدیث قدسی حدیث متواتر
 حضرت عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں حوض پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا تم میں کچھ لوگ میرے سامنے لائیں جائیں گے یہاں تک کہ میں جھکوں گا کہ ان کو پانی پلاؤں تو وہ میرے سامنے سے کھینچ لئے جائیں گے میں کہوں گا اے اللہ یہ میرے ساتھی ہیں تو اللہ تعالی فرمائیں گے کہ تم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد نئی نئی بدعات پیدا کی۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1477 حدیث متواتر حدیث مرفوع
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے لئے حوض کوثر پر پیش خیمہ ہوں گا اور تم اس بات سے ڈرنا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی میری طرف آئے اور پھر وہ مجھ سے ہٹا دیا جائے جیسا کہ گم شدہ اونٹ ہٹا دیا جاتا ہے تو میں ان کے بارے میں کہوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد کیا کیا ایجاد کرلیں تھیں تو میں کہوں گا دور ہوجاؤ۔
کتاب سنن ابن ماجہ جلد 2 حدیث نمبر 1214
 عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جبکہ آپ عرفات میں اپنی کٹی اونٹنی پر سوار تھے تمہیں معلوم ہے یہ کون سا دن کون سا مہینہ اور کون سا شہر ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یہ شہر حرام ہے مہینہ حرام ہے اور دن حرام ہے۔ فرمایا غور سے سنو تمہارے اموال اور خون بھی تم پر اسی طرح حرام ہے جیسے اس ماہ کی اس شہر اور دن کی حرمت ہے غور سنو میں حوض کوثر پر تمہارا پیش خیمہ ہوں اور تمہاری کثرت پر باقی امتوں کے سامنے فخر کرونگا اسلئے مجھے روسیاہ نہ کرنا (کہ میرے بعد معاصی و بدعات میں مبتلا ہوجاؤ پھر مجھے باقی امتوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے) یاد رکھو کچھ لوگوں کو میں چھڑاؤنگا (دوزخ سے) اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑوالئے جائینگے تو میں عرض کرونگا اے میرے رب یہ میرے امتی ہیں رب تعالی فرمائینگے آپ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں ۔
یعنی دین میں جو کوئی بھی اضافہ کرے یا کمی کرے گا وہ مردود ہے اور اُس بدبخت کا انجام بھی نبی علیہ السلام نے ہم کو بتا دیا ہے اس لیے عمل کرو تو صرف قرآن اور سنت پر ورنہ نبی علیہ السلام بھی شفاعت نہیں کروائیں گے بلکہ وہ بھی اُس شخص سے نفرت کا اظہار کریں گے کہ دور ہو جاو اورکریں بھی کیوں نہ کہ اُس نے نبی علیہ السلام کے لائے ہوے دین میں اپنی مرضی کرنی چاہی۔
اب اللہ تعالیٰ کا فرمان دیکھتے ہیں کہ جب ہم میں کسی بات کا اختلاف ہو جائے تو اللہ کیا حکم دیتا ہیں؟
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59؀ۧ سورۃ النسا آیت نمبر ۵۹
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، حکم مانو تم اللہ کا اور حکم مانو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ان لوگوں کا جو صاحب امر ہوں تم میں سے ، پھر اگر تمہارا کسی بات پر آپس میں اختلاف ہوجائے تو تم اس کو لٹا دیا کرو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بہتر ہے (تمہارے لئے فی الحال) اور (حقیقت اور) انجام کے اعتبار سے بھی،
تفسیر مکہ
اس سے معلوم ہوا کہ امر و حکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لیے اطیعوا اللہ کے بعد اطیعوا الرسول تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن اطیعوا اولی الامر نہیں کہا کیونکہ اولی الامر کی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے۔ (لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق) (وقال الالبانی حدیث صحیح۔ مشکٰوۃ نمبر ٦۹٦فی لفظ لمسلم لا طاعۃ فیی معصیۃ اللہ کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فر غیر معصیۃ حدیث نمبر۱۸٤۰اور (انما الطاعۃ فی المعروف) (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب نمبر٤) (السمع والطاعۃ للامام مالم رکن معصیۃ) "معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔"یہی حال علما و فقہا کا بھی ہے۔ (اگر اولوا لامر میں ان کو بھی شامل کیا جائے) یعنی ان کی اطاعت اس لیے کرنی ہوگی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام و فرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد و ہدایت اور راہمنائی کا کام کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ علماء و فقہا بھی دینی امور و معاملات میں حکام کی طرح یقینا مرجع عوام ہیں لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لیے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔
اور اگر ہم بھی اہلِ کتاب کی طرح ہی علماء اور مشائخ کی اطاعت کرنے لگیں کہ جو بات بھی وہ کہیں ہم آنکھیں بند کر کے اُس کو مان لیں تو ہم نے بھی پھر علماء اور مشائخ کو اللہ کے مقابلے رب بنا لیا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔تَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 31؀
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے (١) اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔سورۃ التوبہ آیت نمبر ۳۱
تفسیر مکہ
٣١۔١ اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا، کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا، اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کر دیا اس کو حرام ہی سمجھا۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے ' (صحیح ترمذی) کیونکہ حرام وحلال کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالٰی کو ہے یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ہے اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں کو تحلیل وتحریم کا منصب دے رکھا ہے اور ان کے اقوال کے مقابلے میں وہ نصوص قرآن وحدیث کو بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
تفسیر عثمانی
ف٧ ان کے علماء و مشائخ جو کچھ اپنی طرف سے مسئلہ بنا دیتے خواہ حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہہ دیتے اسی کو سند سمجھتے کہ بس اللہ کے ہاں ہم کو چھٹکارا ہوگیا۔ کتب سماویہ سے کچھ سروکار نہ رکھا تھا، محض احبار و رہبان کے احکام پر چلتے تھے۔ اور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں تھوڑا سا مال یا جاہی فائدہ دیکھا حکم شریعت کو بدل ڈالا جیسا کہ دو تین آیتوں کے بعد مذکور ہے پس جو منصب اللہ کا تھا (یعنی حلال و حرام کی تشریع) وہ علماء و مشائخ کو دے دیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے فرمایا کہ انہوں نے عالموں اور درویشوں کو رب ٹھہرا لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتم کو اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اسی طرح کی تشریح فرمائی ہے اور حضرت حذیفہ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "عالم کا قول عوام کو سند ہے جب تک وہ شرع سے سمجھ کر کہے۔ جب معلوم ہو کہ خود اپنی طرف سے کہا، یا طمع وغیرہ سے کہا پھر سند نہیں۔"
ان احادیث اور آیت سے پتہ چلا کہ دین صرف قرآن اور حدیث ہی ہے اور بھی اس مسئلے پر بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں مگر بات مختصر کرنا چاہتا ہوں۔
اب میں آتا ہوں اُن الزامات کی طرف جو مجھ پر کسی صاحب نے لگائے ہیں۔

موصوف لکھتے ہیں کہ)چند دنوں سے ایک پوسٹ بنام اللہ کو خدا کہنا کیسا ؟ اردو اسٹار پر حیرت انگیز طور پر بار بار پوسٹ کی گئی (
میں نے تو صرف ایک دفعہ ہی اس کو پوسٹ کیا ہے بار بار تو نہیں کیا تو پتا نہیں اُنہوں نے پھر ایسا کیوں لکھا؟
پھر لکھتے ہیں کہ
)علامہ اقبال سے لیکر شیخ سعدی علیہ الرحمہ تک اور بر صغیر کے ہزاروں علماء کی ذات کو نشانہ بنایا گیا ہے (

جب کہ میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا بلکہ ایک بات کہی کہ خدا نہیں کہنا چاہیے اور اس پر میں نے دلیل قرآن اور حدیث سے پیش بھی کی اور رہ گیا علماء کی ذات کا معاملہ تو غلطی ہر انسان سے ہو سکتی ہے چاہے وہ عالم ہی کیوں نہ ہوں صرف اللہ کے نبی اور رسول علیہ السلام ہی ہیں جو غلطی سے پاک ہیں۔
اصل میں موصوف سے سوال کرنے میں ہی غلطی کر دی ہے وہ لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔

)کہ جناب کیا فرماتے ہیں علماءدین بیچ اس مسئلہ کے کہ کیا اللہ کریم کو خدا کہہ کر پکارنا جائز ہے یا ناجائز (
اگر سوال یہ کرتے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ خدا کہنا جائز ہے کہ ناجائز؟
پھر مجھے یقین ہے کہ ان صاحب کو کوئی بھی اہلِ علم ایسا جواب نہ دیتا جیسا کہ اُنہوں نے اب دیا ہوا ہے کیونکہ قرآن اور سنت میں لفظ خدا ہے ہی نہیں اور اہلِ علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کو پکارنے کے معاملے میں اپنے پاس سے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی جیسا کہ نیچے آیات آ رہی ہیں
چونکہ خدا کا لفظ قرآن و حدیث میں کہیں بھی نہیں آیا تو اس لیے اللہ کو پکارتے وقت خدا نہیں کہنا چاہیے اگر کسی نے غلطی سے کہا ہے تو اللہ معاف کرنے والا ہے اور اللہ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ۔۔۔۔۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِـعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ Ǽ
۝ۙسورۃ الحج آیت نمبر ۳ 
بعض لوگ اللہ کے بارے میں باتیں بناتے ہیں اور وہ بھی بے علمی کے ساتھ اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ ۝ۙ سورۃ الحج آیت نمبر ۸
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ کی ذات وصفات کے بارے میں بغیر کسی علم کے اور بغیر کسی دلیل اور روشن کتاب کے
اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً ۭ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ 20؀ سورۃ لقمان آیت نمبر ۲۰
کیا تم نے نہیں دیکھا جو کچھ آسمانوں میں اورجوکچھ زمین میں ہے سب کو الله نے تمہارے کام پر لگایا رکھا ہے اور تم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو الله کے معاملے میں جھگڑتے ہیں نہ انہیں علم ہے اور نہ ہدایت ہے اور نہ روشنی بخشنے والی کتاب ہے
ان آیات میں اللہ نے منع کیا ہے کہ اللہ کے بارے میں بغیر علم )یعنی قرآن و حدیث(کے کوئی بات کریں اب موصوف نے لفظ خدا اللہ کی طرف کس دلیل سے منصوب کیا ہے؟اتنے بڑے لیکچر میں سوائے مجھ پر الزام تراشی کے اور کجھ بھی نہیں ہے بلکہ یہاں تک کہا کہ۔۔
)بعض شر پسند عناصر مسلمانوں میں منافرت پھیلانے کیلئے ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں جو قابل مذمت ہے(
میں نے جو بھی بات کی الحمد للہ دلیل سے کی مگر موصوف نے کیا ایک دلیل بھی قرآن اور حدیث سے دی ہے کہ خدا کہنا جائز ہے؟
مگر ہاں میرے خلاف وہ جتنا بھی لکھ سکتے تھے لکھا مزید لکھا کہ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک حدیث سُنی کتاب دیکھنے کی نوبت نہیں آتی جو یاد رھا صرف اُسی کو اپنی جانب سے قولِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) بتا کر بیان کر دیا جاتا ہے یا کسی کے نظریہ سے مُتاثر ہو کر کروڑوں مسلمانوں کو کفر کے فتوٰی سے نواز دیا جاتا ہے
اور اس طرح مسلمانوں میں انتشار کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے جو قابل مذمت عمل ہے

اللہ کریم ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے ۔ اور ایسے نیم عالم خطرہ ایمان سے بھی محفوظ رکھے
(
میں مانتا ہوں کہ میں عالم فاضل نہیں ہوں بلکہ اسلام کا ایک طالب علم ہوں مگر دیکھا یہ جائے کہ جو عالم ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے وہ کم از کم قرآن اور حدیث سے ایک دلیل تو دیتا کہ خدا کہنا جائز ہے مجھ پر الزام لگانے سے تو یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ خدا کہنا جائز ہے۔ میں اپنی تحریر کا لنک بھی دیتا ہوں آپ اُس کا بھی مطالعہ کریں اور مجھے نشان دہی کر کے بتائیں کہ میں نے کس جگہ کفر کے فتوے لگائے ہیں؟
پتہ نہیں موصوف کو مجھ سے کس بات کا بیڑ ہے جو مجھ پر الزمات لگا رہے ہیں۔

موصوف نے دلیل کے طور پر کسی کا قول نقل کیا ہے کہ۔۔۔۔
)جبکہ ایسے الفاظ سے اللہ کو پُکارنا جو اُس کی شان کے مطابق ہیں جیسے فارسی میں خدا اور ترکی میں تنکری کہ ان کے معنیٰ میں ابہام نہیں جائز ہیں(
اگر معاملہ ایسے ہی ہے تو بھگوان یا ”وشنو“ کیوں نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کے معنی بھی الٰہ کے مالک کے رب کے ہی ہیں۔
اگر بھگوان یا وشنو کہنا مناسب نہیں تو خدا کہنا کیسے مناسب ہے؟
موصوف مزید لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔
)لیکن محترم قارئین فاضل کالم نگارنے ایک ایسے مسئلے کو اپنی جانب سے متنازع بنادیا جو کہ مسئلہ تھا ہی نہیں اور جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے(
میں سمجھتا ہو یہ بات جھوٹ کا پلندہ ہے کیونکہ عرب میں کوئی بھی مسلم خدا نہیں کہتا بلکہ اللہ یا اللہ کے ننانوے صفاتی ناموں میں سے کوئی ایک نام لے کر ہی اللہ کو پکارتے ہیں اور پاک و ہند میں بھی سب مسلمانوں کا اس پر اجماع نہیں ہے پوری دنیا کے مسلمانوں کی بات ہی چھوڑو۔
آپ بھی جو بات کرو تو سوچ سمجھ کر کیونکہ آپ کی سوچھ اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام کے مطابق اپنی سوچ کو بناو لوگوں کو اللہ کے معاملے میں وہ بات بتاو جو کہ خود اللہ نے یا اللہ کے نبی علیہ السلام نے بتائی ہو اپنا فہم اپنے تک رکھو لوگ آپ کے فہم کو نہیں مانتے بلکہ قرآن و سنت کو مانتے ہیں۔
موصوف نے ایک اور الزام بھی مجھ پر لگایا لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔
)اب یا تو موصوف کو فارسی زبان سے بغض تھا یا علماء برصغیر سے بیزاری جو بنا سمجھے کروڑوں مسلمانوں کو بمعہ علماء کرام آتش پرستوں سے مُشابہت کی نوید سُنا کر معاذ اللہ ثمَ معاذ اللہ جہنم کی نوید سُنا ڈالی(
جبکہ میری تحریر یہ ہے۔
اس لیے آپ سب بہن اور بھائیوں سے درخواست ہے کہ اپنے رب کو پکارنے میں بھی غیر مسلم اقوام کی مشابہت نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ ہم کو آتش پرستوں کے ساتھ اُٹھائے۔
میں نے واضع لکھا ہے کہ)کہیں ایسا نہ ہو( اور جبکہ موصوف نے لکھا کہ جہنم کی نوید سنا ڈالی اور میں نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ اس پر احادیث موجود ہیں کہ کفار کے ساتھ کسی بھی قسم کی مشابہت نہ کی جائے میں وہ احادیث پھر لکھ دیتا ہوں آپ سب ان کامطالعہ کر کے خود دیکھیں
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 591 حدیث مرفوع
قتیبة، ابن لہیعة، حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے ہمارے علاوہ کسی اور کی مشابہت اختیار کی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہود ونصاری کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ یہودیوں کا سلام انگلیوں کے اشارے سے اور عیسائیوں کا سلام ہاتھ سے اشارہ کرنا ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 630 حدیث مرفوع
عثمان بن ابی شیبہ، ابونضر عبدالرحمن بن ثابت، حسان بن عطیہ، ابی منیب، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی، کھانے پینے لباس، رہنے سہن میں تو وہ انہی میں سے ہوگا قیامت میں اس کے ساتھ حشر ہوگا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 749 حدیث مرفوع
موسی بن اسما عیل، ابان، یحیی، عمران بن حطان، عائشہ، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےگھر میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑتے تھے جس میں صلیب کی شکل وغیرہ ہو مگر اسے توڑ ڈالتے تھے۔ (تا کہ نصاری کے ساتھ مشابہت نہ ہو)۔
ان احادیث میں دنیاوی معاملات اور دینی معاملات دونوں کی ممانعت ہے اب اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو کہ کسی کی سمجھ میں نہ آ رہی ہو تو لہذا کسی قسم کی تشریع کی ضرورت نہیں ہے۔
موصوف صاحب مذید لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔
)میں نے تمام حقائق آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں اور تمام علماء کی رائے بھی اب یہ آپکا فرض ہیکہ ہر آرٹیکل پر جزاک اللہ کے نعرے چسپاں کریں یا کچھ تحقیق بھی کریں(
ماشاءاللہ آپ نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے قرآن و سنت میں سے ایک آیت یا حدیث تو پیش کر نہ سکے اپنے حق میں، دوسروں پر گِلے شکوے کر رہے ہو کہ وہ جیسے آنکھیں بند کر کے کسی بات پر جزاک اللہ کہہ رہے ہوں۔
اللہ کے لیے اپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹی اُتارو اور حق بات کو جو کہ قرآن اور صحیح حدیث ہے کو قبول کرنے کی ہمت پیدا کرو بھائی۔
آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ دین کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اس لیے جہاں ہم دنیا کی تعلیم کے لیے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی صرف کر دیتے ہیں وہاں کیا اللہ کے دین کے لیے دن رات میں صرف ۳۰ منٹ نہیں نکال سکتے؟
دین کا علم حاصل کرنا ہر دور میں اہم تھا مگر آج کے پُر فتن دور میں اور بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے ہم اُس وقت تک حق اور باطل میں فرق نہیں کر سکتے جب تک ہمارے اپنے پاس دین کا علم نہیں ہو گا۔
اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو اُس دین پر چلائے جس پر چل کر ہم اللہ کی خوشنودی اور رضا حاصل کر سکیں آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

0 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔