قوم پرستی جاہلیت کی پکار



بسم اللہ الرحمن الرحیم 
قوم پرستی جاہلیت کی پکار
آج پاکستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے باسیوں کو قوم پرستی کی دلدل میں پھنسایا جارہا ہے یہ وہ جہالت ہے جس میں مشرکینِ مکہ ہی نہیں پورا جزیرۃ العرب مبتلا تھا اور چھوٹی چھوٹی سی بات پر ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوجاتا تھا اور یہ لڑائی کئی کئی دن تک ہوتی رہتی اور جب دونوں طرف سے سینکڑوں لوگ قتل ہوجاتے تو خود ہی تھک ہار کر لڑائی وقتی طور پر ختم کردیتے تھے، یہ قوم پرستی کی انتہائی ذلت آمیز داستانیں ہیں جو کہ ہم سب کو علم ہونے کے باوجودآج پاکستان میں دوہرائی جارہی ہیں مگر بجائے ہم ان سے درسِ عبرت لیں ان کو فراموش کیے بیٹھے ہیں اور ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس جہالت سے پُر فتنے پر لکھتے اور بولتے نظر نہیں آ رہے۔
قوم پرستی ایک خطرناک موذی مرض ہے اس سے ہر مسلمان کو آگاہی ہونا بہت ضروری ہے تبھی ہم اس خطرناک مرض سے بچ سکیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی بیماری جو انسان کی جان لےسکتی ہے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ایسا مرض جو ایک انسان کی ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے موت کا پیغام ہے سے بچنے کی تدبیر نہیں کررہے؟؟؟
آج کتنے ہی گھر ہیں جو اس مرض نے تباہ و برباد کردیے ہیں،کتنے ہی معصوم لوگوں کو موت کے گاٹ اتار دیا ہے اس موذی مرض نے، مگر اس سب کے باوجود ہم اس موذی مرض کے خلاف کوئی بھی خاص مدافیت نہیں کررہے جوکہ ایک ایسے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا جو عقل و شعور رکھتا ہو۔ہم سب اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں مگر کبھی سوچا کہ اس قوم پرستی کی لعنت سے کیسے جان چھوڑائی جائے؟؟؟کہ جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری ذات بلکہ اسلام اور پاکستان کی بھی سلامتی کو خطرہ ہے، قوم پرست رہنماءصرف پاکستان کے ہی دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ اسلام سے بےبہرہ اور گمراہ ہیں کہ جو لوگوں کو اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں اور پاکستان کو توڑنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
اسلام سے پہلے عرب معاشرے کا کیا حال تھا اس بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ ١٠٣؁
اور مضبوطی سے تھام لو تم لوگ اللہ کی رسی کو سب مل کر، اور آپس میں مت بٹو ٹکڑیوں میں اور یاد کرو اللہ کے اس (عظیم الشان انعام و) احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے، تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے (پھٹے ہوئے) دلوں کو، پھر تم اس کے فضل و کرم سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم لوگ کھڑے تھے دوزخ کے (ہولناک گڑھے کے) عین کنارے پر، تو اس نے بچا لیا تم کو اس سے اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں، تاکہ تم لوگ سیدھی راہ پر رہو۔
آلِ عمران : ۱۰۳
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین باتوں سے اللہ رحیم خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اسی کے عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو دوسرے اللہ کی رسی:::قرآن و سنت:::کو اتفاق سے پکڑو، تفرقہ نہ ڈالو، تیسرے اپنے خلفاءکی خیر خواہی کرو، فضول بکواس، زیادتی سوال اور بربادی مال::فضول خرچی:: یہ تینوں چیزیں رب کی ناراضگی کا سبب ہیں، بہت سی روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں سے کہ اتفاق کے وقت وہ خطا سے بچ جائیں گے اور بہت سی احادیث میں نا اتفاقی سے ڈرایا بھی ہے، ان ہدایات کے باوجود امت میں اختلافات ہوئے اور تہتر فرقے ہو گئے جن میں سے ایک نجات پا کر جنتی ہو گا اور جہنم کے عذابوں سے بچ رہے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس پر قائم ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھے۔ پھر اپنی نعمت یاد دلائی، جاہلیت کے زمانے میں اوس و خزرج کے درمیان بڑی لڑائیاں اور سخت عداوت تھی آپس میں برابر جنگ جاری رہتی تھی جب دونوں قبیلے اسلام لائے تو اللہ کریم کے فضل سے بالکل ایک ہو گئے سب حسد بغض جاتا رہا اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ تعالٰی کے دین میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہو گئے، جیسے اور جگہ ہے آیت (ھوالذی ایدک بنصرہ وبالمومنین والف بین قلوبھم) الخ، وہ اللہ جس نے تیری تائید کی اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی،اور روایات سے ملتا ہے کہ یہودیوں نے ان دونوں قبیلوں کو سابقہ آپس کی جنگوں کی یاد دہانیاں کرواتے اور ان کے مقتولین کی یاد دلاتے اور ان کی نسلی عصبیت کو دوبارہ جگانے کی لاکھ کوشش کرتے مگر وہ یہود کبھی بھی اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوپائے، مگر آج یہود کی سازشیں کامیاب ہو گئی ہیں،کیا وجہ ہے کہ ہم یہود کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کرپارہے؟؟؟ اور اب کیا وجہ ہے کہ ہم کو پھر پہلے والی جہالت کی طرف دھکیلا جارہا ہے جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دیا تھا آج ہم یہود اور نصاری کے ایجنٹوں کی باتوں میں آکر اسی حرام کام::نسلی تعصب:: پر عمل کررہے ہیں؟
اللہ نے ہر انسان کو عقل و شعور سے نواز رکھا ہے مگر اب جو کوئی اس کا استعمال نہیں کرتا اور ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کررہا ہے جو کہ مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کررہا ہے تو ایسے لوگ اصل میں گدھے ہیں کہ کوئی جہاں چاہے ان کو ہانک کر لے جائے، ارے بھائیو اس عقل و شعور کا کیا فائدہ اگر اس کو استعمال نہیں کرنا تو؟؟؟
اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا ہے،یہ ایسی جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اسلام میں لوگوں کو قوموں کی سطح پر تقسیم در تقسیم کردیتی ہے اسلام جو واحدت و اتفاق کا درس دیتا ہے یہ قوم پرستی اسلام کی واحدت کو پاراپارا کردیتی ہے، اب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے یہ مختلف قبائل اور خاندان کیوں بنائے ہیں آیا اس لیے کہ ان کی بنیاد پر لوگ کو آپس میں لڑایا جائےاور ان کی نسلوں کوختم کیا جائے یا کہ صرف آپس میں پہچان کے لیے ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13؀
اے لوگوں یقینا ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں (محض اس لئے) تقسیم کر دیا کہ تاکہ تم آپس میں پہچان کر سکو بیشک اللہ کے یہاں تم میں سے سب سے بڑا عزت دار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی (و پرہیز گار) ہو بیشک اللہ پوری طرح جانتا ہے (تمہارے عمل و کردار کو اور وہ) پوری طرح باخبر ہے (تمہاری احوال سے)۴۹۔حجرات:۱۳ مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبوی ﷺ کی وجہ سے ہو گی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلےاور برادریاں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہاہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کرلیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ وسیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے ۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادی ہلکے ہو جاؤ گے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپﷺ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالٰی کی حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالٰی نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم علیہ السلام کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برُائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالٰی تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ برُی بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلح رحمی کرنے والا ہے ۔
ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ
علی، سفیان، عمرو، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک جنگ میں تھے اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ ہم ایک لشکر میں تھے تو مہاجرین میں سے ایک نے ایک انصاری کو مارا انصاری نے پکار کر کہا کہ اے جماعت انصار! اور مہاجرنے پکار کر کہا کہ اے جماعت مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو مارا آپ ﷺنے فرمایا جاہلیت کی اس پکار کو چھوڑو یہ برُا کلمہ ہے۔ 
صحیح بخاری:جلد دوم:باب: جاہلیت کی طرح گفتگو کرنے کی ممانعت
اس آیت اور احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو قوم پرستی کی کوئی حقیقت نہیں رہتی سوائے جاہلیت کے اور معلوم نہیں یہ قوم پرست رہنماء کس کے کہنے پر اُمت کو باہم متحارب کرنے کی ناپاک جسارت کررہے ہیں، یہ اس دنیا میں تو شاید کچھ ذاتی فوائد حاصل کرلیں مگر ان ظالموں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ ایک انسان کی زندگی بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے اور ایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنا گویا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے اور امت میں فتنہ پیدا کرناقتل سے بھی بدتر ہے اور قوم پرستی کی دعوت جاہلیت کی دعوت ہے یہ اتنی برُی دعوت ہے کہ جس کو سُن کر نبی علیہ السلام کو غصہ آیا اور اس طرح قوم پرستی کی آواز لگانے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی اس کو جاہلیت کی پکار کے ساتھ تشبہ دی۔
آج افسوس کے ساتھ کہنہ پڑتا ہے کہ مسلمانوں کو پہلے تو دین کے نام پر فرقوں میں تقسیم کی گیا تھا کہ تم حنبلی ہو، تم مالکی ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی ہو، اور یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے کئی کئی جماعتیں اور گروہ وجود میں لائے گے کہ ہر کسی کا اپنا امیر و امام مقرر کیا گیا اور اپنا ایک علیحدہ سسٹم چلایا گیا۔ اور پھر خلافت کے نظام کو بذریعہ جنگ ختم کرکے ملکوں میں تقسیم کردیا گیا تھا کہ تم انڈین ہو، تم پاکستانی ہو، تم عراقی ہو، تم سعودی ہو، تم فلسطینی ہو، تم ایرانی ہو، تم افغانی ہو، یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ اب صوبوں کے نام پر بھی تقسیم کی جارہی ہے کہ تم سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور اب اس بھی آگے کی جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور قبیلہ کے نام پر بھی امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ اتنے زیادہ ان کفار نے جال بھن دیے ہیں کہ ان کو کاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتاجارہا ہے اور مسلمانوں میں علم کی کمی کی وجہ سے اس عصبیت کو بہت چرچہ مل رہا ہے اور لوگ ان قوم پرست رہنماوں کی باتوں میں پھنس رہے ہیں۔
ایک مسلمانان سب باتوں سے پہلے ایک مسلم ہے کہ جس نے بھی اللہ کی ایکتائی کا اور محمد ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا اور اس کلمے کی شرائط کو پورا کیا وہ مسلم ہوگیا اب اس کا جان و مال دوسرے مسلمان پر حرام ہوگیا۔

نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
سوید بن سعید، ابن ابی عمر، مروان، ابومالک، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرما تے ہوئے سنا کہ جس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہا اور اللہ تعالی کے سواء اور چیزوں کی پرستش کا انکار کردیا اس کا جان ومال محفوظ ہوگیا باقی ان کے دل کی حالت کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہے۔ 
صحیح مسلم:جلد اول:کتاب: ایمان کا بیان :باب:ایسے لوگوں سے قتال کا حکم یہاں کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں
اس فرمانِ رسول ﷺ کے ہوتے ایک مسلمان کس طرح اپنے کلمہ گو مسلمان کو قتل کرسکتا ہے؟؟؟
اور وہ بھی صرف قبائلی تعصب کی وجہ سے کہ جس تعصب کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
آخر کیا ہوگیا ہے ہم لوگوں کو ، ہم کس دن ان نسلی دیواروں کو توڑیں گے؟؟؟
اور آپس میں بھائی بھائی بن کر اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کریں گے یہ بات یاد رکھیں جب تک ہم متحد نہیں ہوجاتے ہم مسلمان اسی طرح دنیا میں محکومی کی زندگی گزارتے رہیں گے اور یہود ، نصاری ، مشرک اور ان کے نام نہاد مسلمان ایجنٹ ہم کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر کےہم پر حکومت کرتے رہے گے۔ اور یاد رکھیں وقت کے ہر طاغوت اور فرعون کا یہی ایک حربہ ہوتا ہے حکمرانی کرنے کا کہ لوگوں کو فرقہ فرقہ اور گروہ گروہ کر کے حکمرانی کی جائے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا
حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔
۲۸::القصص۔آیت:۴
تو ہم جب تک ان گروہ بندیوں چاہے وہ دینی ہوں، ملکی ہوں، یا قبائلی ہوں سے نکل نہیں آتے اور ایک ملت ، ایک جسم،بن نہیں جاتے یہ کفار اور ان کے نام نہاد مسلمان ایجنٹ ہم پر ایسے ہی ظلم کرتے رہیں گے۔
اللہ سے دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کلمہ پڑھنے والوں کو قرآن و سنت پر متحد و مجتمع کردے اور ہم کو دینی قبائلی اور ملکی گروہ بندیوں سے نجات دے اور ہماری کھوئی ہوئی عظمت ہم کو واپس لوٹا دے۔
آمین یا رب العالمین

3 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔