Wednesday, June 17, 2015

جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

0 تبصرہ جات


بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث:۔3
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
Narrated 'Abdullah:
The Prophet said, "Whoever carries arms against us, is not from us."

صحیح بخاری:جلد سوم:باب:خون بہا کا بیان :اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔
تشریح:۔
بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ جس نے بھی مسلمانوں پر ہتھیار اٹھایا یعنی مسلمانوں کا قتل کیا، آجکل اس کی وباء کچھ زیادہ ہی پھیلی ہوئی ہے ایک کلمہ گو اپنے کلمہ گو بھائی کو ہی قتل کر رہا ہے اس بارے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ::: قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں، ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (قاتل تو خیر دوزخ میں ہی ہونا چاہیے) لیکن مقتول کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا صحیح بخاری:جلد سوم::: اس فرمان رسول ﷺ سے واضح ہوا کہ قاتل اور مقتول جو لڑائی میں مارے جائیں دونوں جہنمی ہیں، اس لیے بھائیو کبھی کسی مسلم سے نہ لڑنا نہ ہی کبھی کسی مسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کرنا اگر کوئی مسلمان آپ کو قتل کرنے آ جائے تو بھی آپ اس کو قتل کرنے کے لیے نہ اُٹھنا کیونکہ اس طرح آپ اور وہ دونوں ایک جیسے ہو جاؤ گے بلکہ ایسی صورت میں آدم کے بیٹے کی طرح بن جانا اور کہنا کہ اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اُٹھاؤ گے تو میں ایسا نہیں کرونگا اگر تو پھر بھی مجھے قتل کرتا ہے تو میرے سبھی گناہ بھی تیرے کھاتے جائیں گے،
موجودہ دور شدید ترین فتنوں کا دور ہے ایک عام مسلمان سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ ہو کیا رہا ہے، اس وقت بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان نبیﷺ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے سبھی فرقوں سے لاتعلق ہوجائے اور اپنے آپ کو ان فتنوں سے بچالے ورنہ اگر کسی بھی فرقے میں ہوا تو کل قیامت کے دن اسی فرقے کے ساتھ اس کا حشر ہوگا۔
اور اس وقت کے مطابق جوجامع حدیث ہمیں ملتی ہے اس کو پڑھتے ہیں۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا اس خوف سے کہیں وہ مجھے نہ پالے چنانچہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جاہلیت اور برائی میں تھے، اللہ نے ہمارے پاس یہ خیر بھیجی تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، میں نے پوچھا کہ اس شر کے بعد بھی خیر ہوگا، آپ نے فرمایا کہ ہاں اور اس میں کچھ دھواں ہوگا میں نے پوچھا کہ اس کا دھواں کیا ہوگا آپ نے فرمایا کہ وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ میرے طریقے کے خلاف چلیں گے ان کی بعض باتیں تو تمہیں اچھی نظر آئیں گی اور بعض باتیں بری نظر آئیں گی، میں نے پوچھا کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا ہاں، کچھ لوگ جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ اس کو جہنم میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ان لوگوں کی کچھ حالت ہم سے بیان فرمائیں، آپ نے فرمایا کہ وہ ہماری قوم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے میں نے عرض کیا کہ اگر میں وہ زمانہ نہ پالوں، تو آپﷺ مجھے کیا حکم دیتے ہیں فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہو، میں نے کہا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہو تو فرمایا کہ ان تمام جماعتوں سے علیحدہ ہوجاؤ اگرچہ تجھے درخت کی جڑچبانی پڑے یہاں تک کہ اس حال میں تیری موت آجائے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:باب: فتنوں کا بیان :جب جماعت نہ ہو تو کیونکر معاملہ طے ہو؟

میں سمجھتا ہوں آجکل کے فتنوں سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ بندہ قرآن اور سنت کے مطابق عمل کرتے ہوئے سبھی فرقوں سے لاتعلق ہو جائے ، خود کو کسی ایک فرقہ کے ساتھ نتھی نہ کرے بلکہ جو کوئی فرقہ بھی بات قرآن و سنت کے مطابق کرے وہ مانے باقی کا انکار کرے ، حق کی دعوت دے باطل کے آگے ڈٹ جائے۔

0 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔