Monday, October 28, 2013

اپنے علاقہ سے بالکل صحیح قبلہ کی سمت معلوم کریں

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس کا استعمال بہت آسان ہے 


نقشہ کے اوپر جہاں لکھا ہے
 entar a location
 وہاں اپنے شہر، گاؤں کا نام لکھیں اور انٹر کا بٹن پریس کر دیں
تو آپ کے شہر سے ایک سرخ رنگ کی لکیر نکلتی نظر آئے گی وہی قبلہ کی سمت ہے
اس کو مزید واضح دیکھنے کے لیے آپ اس نقشہ کو زوم کرسکتے ہیں۔ 
نقشہ میں بائیں طرف اوپر جمع اور نفی کا نشان نظر آ رہا ہے جمع والے بٹن پر کلک کریں تو نقشہ زوم ہوتا جائے گا۔

      
     

     
      
     


Sunday, October 27, 2013

بداخلاقی جہنم میں لے جانے والا عمل۔

1 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم





دینِ اسلام جہاں محبت و اخوت، بھائی چارہ و برداشت، احسان و قربانی، سچائی و ایمانداری سکھا تا ہے وہیں یہ پیارا دینِ اسلام ہم کو دوسروں کی عزت و اکرام کرنا بھی سیکھاتا ہے بے شک وہ کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہو کسی کے ساتھ بھی بداخلاقی کی اجازت نہیں دیتا مگر افسوس کے کہ ہم لوگ اسلام کے اس سبق کو بھول گے ہیں اور بداخلاقی کی ایسی ایسی مثالیں پیش کر رہے ہیں کہ جو مشرکین مکہ نے بھی پیش نہیں کی تھیں۔ فیس بک پر ہر فرقہ والا دوسرے فرقہ کے علماء کی تصاویر کو بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوب بگاڑ رہا ہے اور سمجھتا بھی ہے تو کیا خوب کہ اس سے وہ دینِ اسلام کی خدمت کر رہا ہے جبکہ یہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام کو مٹا رہا ہے کیونکہ ان فرقہ پرستوں کی یہ حرکتیں ایک کافر بھی دیکھتا ہے اور وہ یہی سمجھتا ہوگا کہ اسلام کی ایسی ہی تعلیمات ہوگی جو ہر فرقہ کے لوگ اس کام کو ثواب سمجھ کر رہے ہیں!!! آپ کیا سمجھتے ہیں اس طرح وہ کافر اسلام کے قریب ہوگا یاکہ دینِ اسلام سے دور بھاگے گا؟؟؟ ان بداخلاق فرقہ پرست لوگوں کے لیے یہاں دو2 احادیث پیش کرنا چاہوں گا امید ہے وہ اس سے نصیحت حاصل کریں گے اور آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جو منافق میں کبھی جمع نہیں ہو سکتیں اچھے اخلاق اور دین کی سمجھ۔ یہ حدیث غریب ہے۔

جامع ترمذی:جلد دوم:کتاب:علم کا بیان: علم عبادت سے افضل ہے




اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آسان فہم یہی ہے کہ جو منافق ہے اس میں نہ تو اچھا اخلاق ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس میں دین کی سمجھ ہوسکتی ہے مطلب یہ بداخلاق لوگ دین کو سمجھتے ہی نہیں ہیں اگر دین کا علم رکھتے ہوتے تو اس بداخلاقی کا مظاہرہ کسی بھی قیمت پر نہ کرتے بےشک ان کے علماء کی تصاویر کو بگاڑا گیا ہو اور ان کے ساتھ بھی خوب بداخلاقی کی گئی ہو کیونکہ ان کو پتا ہونا تھا کہ قرآن میں اللہ کا یہ حکم موجود ہے کہ
اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ

آپ برائی کو ایسے طریقہ سے دفع کیا کریں جو سب سے بہتر ہو، (المؤمنون آیت 97)
اب اگر کسی بداخلاق نے آپ سے یا آپ کے عالم سے بداخلاقی کرہی دی ہے تو ایک مسلم کو چاہیے کہ وہ اس بُرائی کے بدلے اچھائی اپنائے اور اچھائی بھی ایسی جو سب سے بہتر ہو تو پھر کیا ہونا تھا کہ وہ بداخلاق مزید ایسی حرکت نہ کرتا بلکہ ہوسکتا ہے وہ اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کی بات بھی مان جاتا جس سے اس کی آخرت بھی سنور جاتی مگر افسوس کہ ایسا اچھا طریقہ کوئی بھی فرقہ پرست نہیں اپنا رہا، اب دوسری حدیث پڑھیں
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں میں ایمان کے اعتبار سے سب سے کامل شخص ان میں بہترین اخلاق والا ہے۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب: ایمان میں کمی اور زیادتی کے دلائل

یعنی جس کا اخلاق سب سے اچھا ہوگا وہی کامل یعنی مکمل ایمان والا ہے مطلب جو بداخلاق ہیں ان میں ایمان نہیں ہے بےشک ایمان کا دعویٰ کرتے رہیں جب عمل ہی ایمان والوں والا نہیں تو خالی دعویٰ کسی کام نہیں آئے گا، کیا یہ دو فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلم کے لیے کافی نہیں ہیں؟ اب بھی وقت ہے بھائیو اپنی اصلاح کرلیں۔
سب جانتے ہیں کہ نبی ﷺ کا اخلاق کتنا اچھا اور اعلیٰ تھا کہ جس کو اپنانے کا حکم اللہ نے قرآن میں دیا
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا 21۝ۭ

(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ﷺ (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔
وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ Ć۝

اور آپ یقیناً اخلاق کے بڑے بلند مرتبہ پر ہیں
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠

(اے پیغمبر ﷺ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔ (آلِ عمران آیت نمبر 68)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَا حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حِينَ قَدِمَ مُعَاوِيَةُ إِلَی الْکُوفَةِ فَذَکَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَمْ يَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ خِيَارِکُمْ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا قَالَ عُثْمَانُ حِينَ قَدِمَ مَعَ مُعَاوِيَةَ إِلَی الْکُوفَةِ

عبداللہ بن عمرو معاویہ حضرت مسروق سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت امیر معاویہ کوفہ کی طرف تشریف لائے تو ہم حضرت ابن عمرکے پاس گئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا فرمانے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو بد زبان تھے اور نہ ہی بد زبانی کرتے تھے اور انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگوں میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔

صحیح مسلم:جلد سوم:کتاب: فضائل کا بیان:باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں اور اہل وعیال پر شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور اس کے فضائل کے بیان میں


ان آیات اور حدیث میں جن کو نبیﷺ کا اخلاق اور طریقہ اپنانے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ ایمان والے ہیں اب جو بھی ایمان والا ہوگا وہ تو ضرور بھر ضرور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاقِ حسنہ اپنائے گا اور جو صرف ایمان کا دعویدار ہے اس کے اعمال میں اخلاق دور دور تک نظر نہیں آئے گا،
اب آپ خود دیکھ لیں فیس بک پر اور اپنی زندگی میں کیسے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں؟؟؟
دوسروں کو بےعزت کرکے آپ یہ امید کریں کہ آپ کی عزت کی جائے یہ سوچ احمقوں کی ہوتی ہے ہمارے پیارے نبی ﷺ جن سے محبت کا ہم دعویٰ کرتے تھکتے نہیں ہیں وہ تو بچوں کے ساتھ بھی اخلاق و محبت کے ساتھ پیش آتے تھے مگر آج آپ کا ہی امتی چھوٹوں سے خاک اخلاق کے ساتھ پیش آئے گا جو بزرگوں کی بھی عزت نہ کرتا ہو؟؟؟
اب اچھے اخلاق کے فائدے بھی پڑھیں جو نبی ﷺ کی مبارک زبان سے ادا ہوئے۔
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مومن آدمی اپنے اعلیٰ اخلاق سے سارے دن کے روزہ دار اور ساری رات کے تہجد گذار کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔



سنن ابوداؤد:جلد سوم:کتاب:ادب کا بیان:باب:خوش اخلاقی کا بیان

اللہ اکبر کبیرہ ایسی اعلیٰ سعادت صرف اچھے اخلاق کی وجہ سے نصیب ہورہی ہے ورنہ آجکل کوئی پہلوان بھی اتنی عبادت نہیں کرسکتا مگر صرف اچھے اخلاق کی بدولت اللہ اس بندہ کو اپنے عبادتگزار بندوں میں شامل کردیتے ہیں۔

ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میزان اعمال میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری چیز کوئی نہیں۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:کتاب:ادب کا بیان:باب:خوش اخلاقی کا بیان

بھائیو اور بہنو اگر حسن اخلاق کا وزن بھلائیوں میں سب سے زیادہ ہوگا تو تو بداخلاقی کا وزن بھی برائیوں میں سب سے زیادہ ہوگا ناں، تو بھائیو اس بُرے عمل بداخلاقی سے بچیں اس کا نقصان صرف آپ تک مخدود نہیں رہتا بلکہ یہ اسلام کی بدنامی کا باعث بھی بن رہا ہے۔

ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے اور اس شخص کے لیے جو مذاق ومزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے۔ جنت کے وسط میں ایک گھر کا ضامن ہوں، اور اس شخص کے لیے جو اعلیٰ اخلاق کا مالک ہو، اعلی جنت میں ایک مکان کا ضامن ہوں۔



سنن ابوداؤد:جلد سوم:کتاب:ادب کا بیان:باب:خوش اخلاقی کا بیان

اس حدیث مبارکہ میں بھی اچھے اخلاق کے مالک کو اعلیٰ جنت میں گھر کی ضمانت دی گئی ہے بھائیو اگر اچھے اخلاق سے اعلیٰ جنت ملے گی تو بد اخلاقی سے جہنم میں بھی بدترین مقام مل سکتا ہے ان احادیث میں جہاں بشارتیں ہیں وہیں ان کے خلاف چلنے کی وعیدیں بھی ہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ بداخلاق جنت میں داخل نہ ہوگا وہ حدیث بھی پڑھیں

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بخیل کوئی دھوکہ باز، کوئی خیانت کرنے والا اور کوئی بداخلاق شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

مسند احمد:جلد اول:باب:ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مرویات


نو اس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سمعان انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو اس پر لوگوں کو مطلع ہونے کو ناپسند کرے



صحیح مسلم:جلد سوم:کتاب:صلہ رحمی کا بیان:باب:نیکی اور گناہ کی وضاحت کے بیان میں

اچھے اخلاق کا ہونا ہی نیکی ہےاسی لیے نبی ﷺ اللہ سے اچھے اخلاق کی دعا مانگا کرتے تھے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم لوگ اللہ سے وہی دعا مانگیں تاکہ اللہ ہم کو بھی اچھے اخلاق عطاء فرما دے


وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ
اور مجھے اچھے اخلاق کی ہدایت عطا فرما تیرے سوا کوئی اچھے اخلاق کی ہدایت نہیں دے سکتا اور برے اخلاق مجھ سے دور فرما تیرے سوا مجھ سے کوئی برے اخلاق دور کرنے والا نہیں ہے



صحیح مسلم:جلد اول:باب:نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز اور رات کی دعا کے بیان میں

سنن نسائی اور ابوداؤد میں یہ دعا بھی موجود ہے کہ
اللهم إني أعوذ بک من الشقاق والنفاق وسو الأخلاق

اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں عداوت سے، نفاق سے، اور بد اخلاقی سے۔

ان دعاؤں کو یاد کرلیں اور اللہ سے مانگتے رہیں اللہ سے دعا ہے وہ ہمیں عمل کی توفیق بھی دے آمین۔

اب اس بداخلاقی کی جڑ کو بھی جان جائیں جس کی وجہ سے ایک انسان بداخلاقی پر اتر آتا ہے ان میں سے ایک اوپر پیش کر آیا ہوں کے جس کے پاس دین کا علم نہیں وہ بداخلاق ہی ہوتا ہے۔

زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے کی امتوں کی بیماری تمہارے اندر سرایت کر گئی ہے اور وہ بیماری حسد اور بغض ہے جو مونڈنے والی ہے اس سے میری مراد بالوں کو مونڈنا نہیں ہے بلکہ دین کو مونڈنا یعنی بغض یا حسد اتنی بری خصلت ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کا دین و اخلاق تباہ و برباد ہو جاتا ہے بلکہ یہ خصلت دین و دنیا دونوں کے لیے بڑی نقصان دہ ہے۔ (احمد، ترمذی)

مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:حسد اور بغض کی مذمت

یعنی حسد اور بغض، نفرت انسان کا دین اور اخلاق تباہ کر دیتے ہیں اس لیے بھائیو اپنے اندر سے اس حسد اور نفرت کو مٹادیں یہی بُرائیاں فرقہ پرستی کی بنیادیں فراہم کرتی ہیں۔
اللہ مجھے اور آپ سب کو بھی اچھے اخلاق و کردار کا ایک سچا مسلم بنائے جس میں برداشت ہو جو بُرائی کو اچھے اور بہترین عمل سے دفع کرنے والا ہو آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

Saturday, September 21, 2013

اسلام اور مسلمانوں کی دشمن نیشن یونائیٹڈ نیشن

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
 
 
 
 
 
 
 
یونائیٹڈ نیشن بنانے کا مقصد کیا تھا؟؟؟ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے دنیا میں امن امان قائم کیا جائے گا، کوئی بھی ملک اگر کسی ملک پر حملہ کرئے گا تو باقی کے ممالک مل کر مظلوم کا ساتھ دیں گے، وغیرہ وغیرہ مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ نیشن بنائی ہی کفار کو تحفظ فراہم کرنے کے لیئے، کیونکہ اس کے کرتا دھرتا سبھی کافر اقوام ہیں، مسلمانوں کو کوئی بھی اہم عہدہ نہیں دیا گیا ہے، 4 ممالک ویٹو پاور رکھتے ہیں اگر ان میں سے ایک بھی کسی فیصلہ کی مخالفت کردے تو وہ فیصلہ نافذالعمل نہیں ہوسکتا ہے، اور یہ چارو ممالک کافر ہیں ایک بھی مسلم ملک ویٹو پاور کا حامل نہیں ہے، آج تک جتنے بھی ممالک پر پابندیاں لگائی گئیں ہیں وہ مسلم ممالک ہیں، اس کافروں کی نیشن نے دو اسلامی ملک توڑ کر ان میں عیسائیوں کے ملک بنائے ہیں اور وہ بھی صرف چند مہینوں میں، ایک انڈونیشا کو توڑا اور اس میں عیسائیوں کوملک مشرقی تیمور بنا کر دیا،اور دوسرا سوڈان کو توڑ کر اس میں بھی عیسائیوں کو علیحدہ ملک بناکر دیا، عیسائیوں نے نہ صرف ان ممالک میں مسلمانوں کا قتل عام کیا بلکہ علیحدہ ریاست بھی قائم کی، اور یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی چھتری تلے ہوا، کشمیر کو دیکھ لیں 65 سال سے ہندؤ کافر وہاں کے بسنے والے مسلمانوں کو قتل کرتے آ رہے ہیں جبکہ اسی اقوام متحدہ نے تقیباً 45 سال پہلے فیصلہ کیا تھا کہ بھارت 90 روز میں کشمیر میں ریفرنڈم کروائے گا کہ یہاں کی عوام کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتی ہے پاکستان یا بھارت مگر آج تک یہ اقوام متحدہ بھارت سے اس فیصلہ پر عمل نہیں کروا سکی، اگر ایسا ہی معاملہ پاکستان کے ساتھ ہوتا تو 90 روز کیا 90 گھنٹوں میں ہی اس پر عمل کروا لیا جانا تھا ، افغانستان کے معاملہ میں بھی اسی کافروں کی لونڈی اقوام متحدہ کو استعمال کیا گیا اور کسی بھی ویٹو پاور ملک نے اس اجتماعی قتل عام کے فیصلہ کو ویٹو نہ کیا کیونکہ یہ قتل عام مسلمانوں کا ہونے والا تھا اگر ویٹو پاور ممالک میں کوئی مسلمان مک بھی ہوتا تو شاید وہ اس اجتماعی قتل عام کے فیصلے کو ویٹو کردیتا مگر نہیں ایسا کافر کرنا ہی نہیں چاہتے تھے اس لیے ویٹو کی پاور مسلمانوں کو دی ہی نہیں گئی،عراق پر حملہ کے معاملہ میں امریکہ نے اسی اقوام متحدہ کے فیصلہ کو پاؤں میں روند ڈالا، ابھی حال ہی میں مالی افریقہ کا غریب ترین ملک میں اسلام پسندوں نے کچھ علاقہ میں اسلامی قوانین نافذ کیئے تو اسی اقوامِ متحدہ نے ان کے خلاف فوجی کاروائی کی اجازت دے دی اور پھر مالی کو بھی خونِ مسلم سے رنگین کیا گیا، ان کے علاوہ بےشمار ایسے معاملات ہیں جس میں اس اقوام متحدہ نے مسلمانوں کے خلاف ہی فیصلے دیے ہیں۔ تو اب بتائیں ہم کیوں ایسے ادارے سے منسلک ہیں جو کافروں کی مدد کرتا ہے اور مسلمانوں کے خون کا پیاسہ ہے؟؟؟ یہودی درندہ صفت قوم نے 63 سالوں میں فلسطین کے ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا ہے مگر اس درندہ صفت قوم کو یہی اقوام متحدہ ہی تحفظ فراہم کر رہی ہے آخر ایسا دوھرا معیار کیوں ہے؟؟؟ اگر کسی کو ناحق قتل کرنا جرم ہے اور دہشت گردی ہے تو یہی جرام ایک عیسائی یا یہودی کرئے تو مجرم کے بجائے مظلوم کیوں بناکر پیش کیا جاتا ہے؟؟؟ کیا کسی ایک بھی مسلم ملک نے کسی کافر ملک پر قبضہ کیا ہے؟ نہیں نہ تو پھر بھی مسلم ہی دہشت گرد کیوں مشہور کیا جاتا ہے؟؟؟ مسلمان اپنے ملک پر قبضہ کرنے والے دہشت گردوں کو ماریں تو وہ دہشت گرد کہلاتے ہیں اور جو دراندازی کرتے ہیں وہ مظلوم بنائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ اسی شیطانی نیشن کا کمال ہے، اصل میں یہ نیشن بنائی ہی کفار کو تحفظ دینے کے لیئے گئی تھی اور ایک مسلم کو اس کا حصہ بننا ہی نہیں چاہیئے تھا اگر اب بن گے ہیں تو بھی اللہ سے معافی مانگیں اور اس شیطانی نیشن سے باہر نکلیں اور آپس میں متحد ہو جائیں، ان کافروں کے ساتھ متحد نہیں ہونا ہے بلکہ آپس میں متحد ہونا ہے۔
اگر خلافت کا نظام قائم ہوتا اور خلافت اپنے لاکھوں مربع کلومیٹر میں پھیلی ہوتی تو یہ شیطانی نیشن ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتی اور اب خلافت نہیں ہے تو بھی اگر سبھی مسلم ممالک اس شیطانی نیشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس سے باہر نکلیں اور آپس میں متحد ہوکر ایک مسلم نیشن بنائیں تو میں پھر دیکھوں گا کہ کس طرح یہ شیطانی نیشن ان مسلم ممالک پر پابندیاں لگاتی ہے؟؟؟اس وقت معاملہ یہ ہے کہ کافر آپس میں متحد ہیں اور ہم آپس میں متفرق ہیں جب تک ہم ایک جماعت نہیں بن جاتے یہ کافروں کا جتھہ::اقوام متحدہ:: ہم پر غالب رہے گا، یہ بات یاد رکھیں کہ اتحاد میں زندگی ہے اور تفرقہ میں موت ہے۔


Friday, September 6, 2013

جمہوریت کے کفریہ نظام کو اسلامی جمہوریہ کہنے والوں سے سوالات

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 
جمہوریت کے کفریہ نظام کو اسلامی جمہوریہ کہنے والوں سے سوالات



میں کئی دفعہ امریکی حکمرانوں کے ایسے بیانات پڑھ چکا ہوں جو جمہوریت کے حق میں ہیں مثلاً
ہم جمہوریت کے نظام کو پوری دنیا میں قائم کریں گیں۔
پاکستان میں جب تک جمہوری نظام قائم نہیں کیا جائے گا امداد نہیں دی جائے گی۔
ہم جمہوریت کے دشمنوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
ابھی تازہ بیان جو اباما نے دیا ہے کہ
جمہوریت کی بقاء کے لیئے شام پر حملہ ضروری ہے۔
اور خلافت کے خلاف ایسے بیان بھی پڑھے ہیں مثلاً
ہم خلافت کے قیام کی کہیں بھی اور کوئی بھی کوشش طاقت سے کچل دیں گے۔ بش
مالی افریقہ کا چھوٹا سا ملک جہاں چند ماہ پہلے شریعت نافذ کی گئی تھی اس پر کافروں اور ان کے ایجنٹوں نے حملہ کرکے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
اس سے پہلے افغانستان پر بھی حملہ صرف اس لیئے کیا گیا تھا کہ یہاں طالبان نے شریعت نافذ کی تھی جس کی سزا کافر اقوام نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرکے دی۔


سوال یہ ہیں کہ
اگر جمہوریت کا کفریہ نظام واقعی ہی "اسلامی نظام "ہے تو امریکہ جو مسلمانوں کا ازلی اور ابدی دشمن ہے وہ اس کی بقاء کے لیے کیوں جنگیں کر رہا ہے؟؟؟
جہان لالچ اور دھمکیوں سے کام نہیں چلتا وہاں فوجی اوپریشن کرکے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والا بدترین کافر یہود اور نصاریٰ آپ کے اس اسلامی نظام جمہوریت کو کیوں قائم کرتا چلا جا رہا ہے؟؟؟
اور جو حقیقی اسلامی نظام یعنی خلافت کا نام بھی لیتا ہے اس کو کیوں قتل کر دیتا ہے؟؟؟
اور جو دونمبر اسلامی نظام یعنی جمہوریت کا نام لیتا ہے اس کو گلے کیوں لگا لیتا ہے؟؟؟

اور بھی بہت سے سوال ہیں مگر ابھی انہی کا جواب دیں باقی بعد میں ان شاءاللہ۔

جمہوریت کے کفریہ نظام کو اسلامی جمہوریہ کہنے والوں سے سوالات

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم

جمہوریت کے کفریہ نظام کو اسلامی جمہوریہ کہنے والوں سے سوالات

میں نے کئی دفعہ امریکی حکمرانوں کے ایسے بیانات پڑھ چکا ہوں جو جمہوریت کے حق میں ہیں مثلاً

ہم جمہوریت کے نظام کو پوری دنیا میں قائم کریں گیں۔

پاکستان میں جب تک جمہوری نظام قائم نہیں کیا جائے گا امداد نہیں دی جائے گی۔

ہم جمہوریت کے دشمنوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

ابھی تازہ بیان جو اباما نے دیا ہے کہ

جمہوریت کی بقاء کے لیئے شام پر حملہ ضروری ہے۔

اور خلافت کے خلاف ایسے بیان بھی پڑھے ہیں مثلاً

ہم خلافت کے قیام کی کہیں بھی اور کوئی بھی کوشش طاقت سے کچل دیں گے۔ بش

مالی افریقہ کا چھوٹا سا ملک جہاں چند ماہ پہلے شریعت نافذ کی گئی تھی اس پر کافروں اور ان کے ایجنٹوں نے حملہ کرکے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔

اس سے پہلے افغانستان پر بھی حملہ صرف اس لیئے کیا گیا تھا کہ یہاں طالبان نے شریعت نافذ کی تھی جس کی سزا کافر اقوام نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرکے دی۔



سوال یہ ہیں کہ

اگر جمہوریت کا کفریہ نظام واقعی ہی "اسلامی نظام "ہے تو امریکہ جو مسلمانوں کا ازلی اور ابدی دشمن ہے وہ اس کی بقاء کے لیے کیوں جنگیں کر رہا ہے؟؟؟

جہان لالچ اور دھمکیوں سے کام نہیں چلتا وہاں فوجی اوپریشن کرکے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والا بدترین کافر یہود اور نصاریٰ آپ کے اس اسلامی نظام جمہوریت کو کیوں قائم کرتا چلا جا رہا ہے؟؟؟

اور جو حقیقی اسلامی نظام یعنی خلافت کا نام بھی لیتا ہے اس کو کیوں قتل کر دیتا ہے؟؟؟

اور جو دونمبر اسلامی نظام یعنی جمہوریت کا نام لیتا ہے اس کو گلے کیوں لگا لیتا ہے؟؟؟



اور بھی بہت سے سوال ہیں مگر ابھی انہی کا جواب دیں باقی بعد میں ان شاءاللہ۔

Wednesday, September 4, 2013

1 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم

 
یوسف علیہ السلام کا ایک کافر بادشاہ سے عہدہ مانگنے کی دلیل پکڑنے والوں کی تاویلات کا رَد

سب سے پہلے ایک اصول ذہن نشین کرلیں کہ پہلے انبیاء و رسل کے جو حالات و واقعات قرآن میں اللہ نے ذکر کیئے ہیں ان کے کئی ایک مقاصد ہوسکتے ہیں مگر جو قوانین اور حکم ہیں ان میں سے بعض تو شریعت محمدی ﷺ میں ویسے کے ویسے ہیں اور کچھ قوانین دینِ محمد ﷺ میں تبدیل ہوچکے ہیں مثلاً سورہ یوسف میں ہی اللہ تعالیٰ یوسف علیہ السلام کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ

قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ سورۃ یوسف آیت نمبر 50


پہلی شریعتوں میں اپنے مالک، آقا کو رب کہنا جائز تھا مگر دینِ محمد ﷺ میں اس کی ممانعت ہے

ولا يقل العبد ربي ولكن ليقل سيدي، کوئی غلام اپنے مالک کو میرا رب نہ کہے بلکہ میرا سردار کہے۔۔۔صحیح مسلم


اسی سورہ میں چور کی سزاء جو دینِ یعقوب علیہ السلام میں تھی وہ بیان کی گئی ہے کہ
قَالُوْا جَزَاۗؤُهٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِهٖ فَهُوَ جَزَاۗؤُهٗ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ 75؀
::یوسف کے بھائی::بولے اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے اسباب میں ملے وہی اس کے بدلے میں غلام بنے ، ہمارے یہاں ظالموں کی یہی سزا ہے ۔ یوسف: آیت:75

مگر اب شریعت محمدیﷺ میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے

یوسف علیہ السلام کی شریعت میں امارت یا عہدہ مانگنا جائز تھا
قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ 55؀
یوسف علیہ السلام نے کہا ، ’’ ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے ، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘ (55)
مگر دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی ممانعت ہے جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ ہے کہ
ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا اے اللہ کے رسول ﷺہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دئیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔

(مسلم:کتاب الامارۃ۔ابی موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ)



اس فرمانِ رسول ﷺ کے بعد امارت مانگنا حرام قرار پاتا ہے۔

یوسف علیہ السلام کی شریعت میں تعظیمی سجدہ جائز تھا جیسا کہ اسی سورہ کی آیت ہے کہ
وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا ۚ
اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اسکے سامنے سجدے میں گر گئے 100
لیکن دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تعظیمی سجدہ حرام ہے اور یہاں بھی جو لوگ اسی حرام کام کو جائز سمجھتے ہیں وہ انہی آیات کو دلیل بناتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا اس بارے کیا حکم ہے کہ جن کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں مگر اپنا باطل عقیدہ کو سندِ جواز دینے کے لیئے وہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں سے دلائل لے کر آتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ ہمارے لیئے قابلِ عمل دین صرف دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

اس طرح کے اور بھی بہت سے قوانین ہیں جو شریعت محمدی ﷺ میں وہ نہیں ہیں جو پہلے انبیاء و رسل کی شریعتوں میں تھے اس لیئے اب ہمیں اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیئے پہلے انبیاء کے قوانین نہیں لینے بلکہ دین محمد ﷺ میں جو قوانین ہیں ان پر عمل کرنا ہے۔

اب معاملہ آتا ہے یوسف علیہ السلام کا کافر بادشاہ سے عہدہ مانگنا، جب تک یوسف علیہ السلام کی زندگی بارے مکمل آگاہی نہیں ہوگی تب تک اس مسئلے کو نہیں سمجھا جاسکتا اس لیئے پہلے کچھ تفصیل بیان کردی جائے۔

اس معاملے کی وضاحت ایک مفسر کی اچھی لگی وہی آپ بھائیوں کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔



اس سے پہلے جو توضیحات گزرچکی ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو کسی طالبِ جاہ نے وقت کے بادشاہ کی اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کردی ہو۔ درحقیقت یہ اس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف ؑ کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشونما پاکر ظہور کے لیے تیار ہوچکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹھونکے ہی کا محتاج تھا۔ حضرت یوسف ؑ آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے۔ اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کردیا تھا کہ وہ امانت، راستبازی، حِلم، ضبط نفس، عالی ظرفی، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی کجال نہ رہی تھی۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں۔ دل ان سے مسخر ہوچکے تھے۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ اُن کا ”حفیظ“اور”علیم“ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لاچکے تھے۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف ؑ خود حکومت کے اُن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کردی۔ ان کی زبان سے اس مطالنے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسروچشم قبول کیا وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا۔ (تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی)۔

یہ اختیارات جو حضرت یوسف ؑ نے مانگے اور ان کے سونپے گئے ان کو نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ”خزائن ارض“کے الفاظ اور آگے چل کر غلہ کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ، یا افسر مال، یا قحط کمشنر، یا وزیر مالیات، یا وزیر غذائیات کی قسم کا کوئی عہدہ ہوگا۔لیکن قرآن، بائیبل، اورتلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف ؑ سلطنت مصر کے مختار کل (رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا۔قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب ؑ مصر پہنچے ہیں اس وقت حضرت یوسف ؑ تخت نشین تھے (ورفع ابویہ علی العرش)۔ حضرت یوسف ؑ کی اپنی زبان سے نکلا ہُوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ”اے میرے رب، تو نے مجھے بادشاہی عطا کی“(رَبَّ قداٰ تَیتنی مِنَ الملک)۔ پیالےکی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف ؑ کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں(قالو انفقد صواع الملک)۔ اور اللہ تیالیٰ مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان فرماتا ہے کہ ساری سرزمین مصر اُن کی تھی (یتبو أ مِنھا حیث یشآء)۔ رہی بائیبل تو دہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف ؑ سے کہا:

”سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ……… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پاوٴں نہ ہلانے پائے گا۔ اور فرعون نے یوسف ؑ کا نام ضَفِنَات فَعِیحَ (دنیا کا نجات دہندہ)رکھا“۔ (پیدائش ۴١:۳۹ - ۴۵)

اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف ؑ کے بھائیوں نے مصر سے واپس جاکر اپنے والد سے حاکم مصر (یوسف ؑ )کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا:

”ہم اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدا سب سے بالا ہے۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اسی کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرمانروائی کرتی ہے۔ کسی معاملہ میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی“۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے؟ انہوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظام تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ مخشری نے اپنی تفسیر ”کشاف“میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”حضرت یوسف ؑ نے اجعلنی علیٰ خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کرلیں جس کے لیے انبیاء بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے“۔

اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظام کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جاکر ٹھیرتا ہے، یعنی یہ کہ حضرت یوسف ؑ ایک راستباز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راستباز تھے تو کیا ایک راستباز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ”بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے“، اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کردے کہ تمہارے اِن بہت سے متفرق خود ساختہ خداوٴں میں سے ایک یہ شاہ؟ مصر بھی ہے، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ”فرمانروائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے“، مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اس نظامِ حکومت کا خادم، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ”فرمانروائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں“تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورالخطاط کے مسلمانوں نے کچھ اُسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کچھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گراکر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اورزیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انہیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علمبرداروں کی بلندی دیکھ کر انہیں شرم آئی، لہٰذا اس شرم کو مٹنے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انہیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپارسکتا ہے، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتاہے) فوج اور اسلحہ اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے۔
.............................................................................................
ایک بھائی صاحب نے دوران مباحث کہا کہ

جو کچھ بھی ہو حضرت یوسف نے وزارت خزانہ ہی مانگی تھی قرآن کے الفاظ بھی یہی کہہ رہےہیں


اب ہم قرآن کی وہی آیات پر تفصیل سے بات کرتے ہیں جن میں عہدہ مانگنے کا ذکر ہےتاکہ اس مانگنے کی وضاحت ہو جائے، ان شاءاللہ
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖٓ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِيْ ۚ فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ 54؀
بادشاہ نے کہا انہیں میرے پاس لائو ’’ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں۔‘‘ جب یوسف نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا ’’ اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔‘‘ (54)

اس آیت سے بات واضح ہو رہی ہے کہ بادشاہ کا اپنا بھی ارادہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کو اپنے لیئے خاص کرلوں، اور پھر یوسف علیہ السلام سے کہا کہ اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔۔۔ اب اس ساری پوزیشن کو دیکھتے ہوئے یوسف علیہ السلام نے کہا کہ



قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ 55؀
یوسف علیہ السلام نے کہا ، ’’ ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے ، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘ (55)
اگر آپ اس آیت سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ نے صرف وزارتِ خزانہ مانگی تھی تو یہ آپ غلط سمجھ رہے ہیں آگے کی آیات بھی پڑھ لیں اور پھر خود انصاف کریں کہ اس سے مراد صرف وزارتِ خزانہ ہے؟؟؟
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ ۭ
اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا کہ وہ جہاں کہیں چاہے رہے سہے

اور اس طرح ہم نے یوسف کو اقتدار سے نواز دیا اس سرزمین میں، اس میں آپ جہاں چاہیں رہیں سہیں
اور یوں قدرت دی ہم نے یوسف کو اس زمین میں جگہ پکڑتا تھا اس میں جہاں چاہتا
اس طرح ہم نے یوسف کو سر زمین (مصر) میں اقتدار بخشا کہ اس میں جہاں چاہے رہے سہے

اور ہم نے اس طور پر یوسف کو اس ملک میں بااختیار بنا دیا کہ اس میں جہاں چاہے رہے

اس طرح ہم نے اس سر زمین میں یوسف کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی ۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے

اور یوں ہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے

اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں اقتدار عطا کیا، وہ جہاں چاہتے رہتے

اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں
اور اسی طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسف کو اقتدار عطا فرمایا، اس میں سے جہاں چاہتا جگہ پکڑتا تھا۔
اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جہاں چاہیں رہیں
لو بھائیو یہ گیاراں علماء کے تراجم آپ کے سامنے ہیں ان میں سے ایک بھی اس بھائی کے موقف کی تائید نہیں کر رہا کیا یہ سب غلط اور یہ بھائی ٹھیک ہیں؟؟؟

اسی سورہ میں آگے چل کر اللہ کا ارشاد ہے کہ
قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاۗءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيْمٌ 72؀
انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ کا کٹورا نہیں ملتا جو اسے لا ئے گا ایک اونٹ بھر کا غلہ پائے گا اور میں اس کا ضامن ہوں
قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا
انہوں نے کہا اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا الضُّرُّ
پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے 88
وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا ۚ
اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اسکے سامنے سجدے میں گر گئے 100
رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۚ
اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی 101


لو بھائیو اللہ نے تو یوسف علیہ السلام کو بادشاہ کہا عزیز مصر کہا اور یوسف علیہ السلام نے خود کہا کہ اللہ تو نے مجھے ملک عطاء کیا، اور وہ بھائی ان کو وزارتِ خزانہ کا امیر بنا رہے ہیں!!!

اب کوئی ان آیات کی کیا تاویلات پیش کرنا چاہے گا؟؟؟ جو آیات واضح نص ہیں ان کو کوئی کیسے توڑ مروڑ کرئے گا؟؟؟ اب یہ آپ سب پر لازم ہے کہ ان قرآنی نصوص کا رَد کریں یا اپنے موقف کو قرآن اور حدیث کے مطابق بنائیں جزاک اللہ خیراً



Friday, August 9, 2013

رمضان المبارک کے متعلق اذکار اور دعائیں

2 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان المبارک کے متعلق اذکار اور دعائیں

قرآن اور احادیث میں ہم کو ہر معاملے میں بہترین رہنمائی ملتی ہے الحمدللہ آج آپ لوگوں کے سامنے روزے کے متعلق دعائیں اور اذکار اور مسائل کے پکچر گرافکس پیش کر رہا ہوں اللہ قبول فرمائے اور ہمیں ان دعاؤں اور اذکار کو وقت پر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

سحری کھانا باعث برکت

صدقہ فطر کے مسائل

رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں

روزے کی حالت میں گناہ کرنا

شب قدر کو آخری طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم

روزے کا اجر بے حساب ملے گا

رمضان المبارک میں نبی ﷺ کی سخاوت

رمضان میں روزہ اور قیام 

شوال کے چھے6 روزوں کی فضیلت

روزہ کی حالت میں مسواک کرنا سنت

روزہ افطار کرنے کی دعا

افطاری میں جلدی کرنا بھلائی کا سبب

چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور عید منانا

افطاری کی سنتیں

کسی کو روزہ افطار کروانے کا ثواب

روزہ اور قرآن قیامت کے دن شفاعت کروائیں گے

لیلۃ القدر کی فضیلت

ماہ رمضان میں شیاطین کا قید ہونا

روزے کی حالت میں بھول کر کھانا پینا

رمضان کے آخری عشرہ میں زیادہ عبادت کرنا


Tuesday, January 22, 2013

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تاریخ کے آئینہ میں

1 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا آغاز


کیا آپ جانتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ کام کب ، کہاں اور کِس نے اور کیوں شروع کیا تھا ؟ یہ بات تو پوری طرح سے واضح ہو چکی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین ،اُمت کے ائمہ و علماء رحمہم اللہ جمعیاًکی طرف سے قران کی کسی آیت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کِسی فرمان ، سابقہ انبیا ء علیہم السلام کے کسی واقعہ ، کا ز ُُبانی یا عملی طور پرایسا کوئی مفہوم بیان نہیں ہوا جِس کو بُنیاد بنا کر ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم منائی '''جائے ، پس اس عید کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا ، پھر بھی آئیے ذرا تاریخ کی کتابوں میں جھانک کر دیکھیں ::: اِمام عبدالرحمان بن اِسماعیل المقدسیّ کی کتاب ''' الباعث علیٰ البدع و الحوادث ''' کے محقق بشیر محمد عیون نے لکھا :::

"""
میلاد منانے کی بدعت سب سے پہلے فاطمیوں نے شروع کی ، اُن کے پاس پورے سال کی عیدیں ہوا کرتی تھیں ، وہ لوگ نئے سال کی عید ، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم اجمعین ، کی عید میلاد اور خلیفہء وقت کی عید میلاد منایا کرتے تھے ، اور اِسکے علاوہ نصف رجب کی رات ، شعبان کی پہلی اور آخری رات ، رمضان کی پہلی ، درمیانی ، اور ختمِ قرآن کی رات ، فتح خلیج کا دِن ، نوروز کا دِن ، غطاس کا دِن ، غدیر کا دِن ، یہ سب عیدیں اور راتیں وہ لوگ ''' منایا ''' کرتے تھے پھر ایک فاطمی وزیر افضل شاہنشاہ آیا جِس نے چار عیدیں میلاد کی بند کر دیں ، یعنی میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، میلادِ علی اور میلادِ فاطمہ رضی اللہ عنہما ، اور میلادِ خلیفہءِ وقت ، پھر المامون البطائحی نے خلیفہ الآمر باحکام اللہ کے دور میں اِن میلادوں کو دوبارہ چالو کیا ، یہاں تک سلطان صلاح الدین الایوبی کی خلافت قائم ہوئی تو یہ تمام کی تمام عیدیں ، میلادیں ، راتیں وغیرہ بند کر دی گئیں ، لیکن اربل کے حکمران مظفر الدین کوکبری ابو سعید نے جو سلطان صللاح الدین ایوبی کی بہن ربیع کا خاوند تھا اپنے ایک سرکاری مولوی عمر بن محمد موصلی کی ایما پر ٦٥٠ ہجری میں دوبارہ اِس بدعت کا آغاز کیا۔ """

تو اِس تاریخی حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُمتِ اسلام میں ''' عید میلادیں ''' منانے کی بدعت ایک فاطمی ، عبیدی ، المعز الدین اللہ معد بن المنصور اِسماعیل کے دور میں شروع ہوئی ، اور اِسکا دورِ حکومت ٣٤١ہجری سے شروع ہوتا ہے ، (تاریخ الخلفاء جلد ١/صفحہ٥٢٤/فصل الدولۃ الخبیثیۃ العبیدیۃ / مؤلف اِمام عبدالرحمان السیوطی /مطبوعہ مبطع السعادۃ /مصر)

اور اِس کے باپ اِسماعیل کی نسبت سے ہی اِن فاطمی عبیدیوں کو اِسماعیلی بھی کہا جاتا ہے ، کچھ مورخین ''' عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ''' کی بدعت کا آغاز فاطمیوں کے دور سے نہیں بلکہ اربل کے حکمران الکوکبری کے دور سے ہونا زیادہ صحیح قرار دیتے ہیں ،

پہلی بات زیادہ مضبوط ہو یا دوسری ، دونوں صورتوں میں یہ بات یقینی ہے کہ ''' عید میلاد ''' نام کی کوئی چیز اللہ کی شریعت مکمل ہونے کے کم از کم ٣٤١ ہجری تک مُسلمانوں میں کہیں نہ تھی ، یہ تو ہم جانتے ہیں کہ کِسی خاص واقعہ کے دِن کو ''' تہوار ''' بنانا یہود و نصاری اور دیگر کافر قوموں کی عادت تھی اورہے ، اور اِسلام میں وہ سارے عیدیں اور تہوار منسوخ کر کے مُسلمانوں کے لیے دو تہوار، دو عیدیں دِی گِئیں اور اُن کے علاوہ کوئی تہوار ، یا عید منانے کے لیے نہیں دِی گئی ، جیسا کہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ''''' اہلِ جاھلیت (یعنی اِسلام سے پہلے مشرکوں اور کافروں )کے کھیلنے (خوشی منانے ) کے لیے سال میں دو دِن تھے ،

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو فرمایا (((((کان لَکُم یَومَانِ تَلعَبُونَ فِیہِمَا وقد اَبدَلَکُم اللَّہ بِہِمَا خَیرًا مِنہُمَا یوم الفِطرِ وَیَومَ الاضحَی ::: تُم لوگوں کے لیے کھیلنے (خوشی منانے )کے دودِن تھے اور اللہ نے تُمارے اُن دو دِنوں سے زیادہ خیر والے دِنوں سے بدل دِیا ہے اور وہ خیر والے دِن فِطر کا دِن اور اضحی کا دِن ہیں))))) سنن النسائی / حدیث ١٥٥٦ / کتاب صلاۃ العیدین ،السلسۃ الاحادیث الصحیحۃ/ حدیث ۱۰۶۱ ، اور پھر کم از کم تین سوا تین سو سال تک اُمت نے اِن دو عیدوں کے عِلاوہ کوئی عید نہیں ''''' منائی ''''' ، اِس حدیث سے پہلے ذِکر کیے گئے تاریخی حوالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ میلاد منانا مسلمانوں میں یہودیوں کے روحانی پیروکار فرقے ( الفاطمین ) کی طرف سے داخل کیا گیا ،

یہ فاطمین وہ ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ابو بکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کو گالیاں نکلوانا ، مسجدوں کے دروازوں پر اِن تینوں کے لیے لعنت کے اِلفاظ لکھوانا ، اپنے آپکو سجدے کروانا ، اور کئی دیگر مشرکانہ کام شروع کروائے ، اور جب صلاح الدین ایوبی علیہ رحمۃ اللہ نے اِنکو عیسائیوں کے ساتھ سازش کرنے کی سزا کے طور پر مصر سے نکالا تو یہ ایران اور ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں پھیل گئے ، اور آج دُنیا میں یہ لوگ اسماعیلی کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں اور اِنکا کفر کِسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ ہماری یہاں تک کی بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ ، اِسلام کی اب تک کی تاریخ یعنی 1428سالہ تاریخ میں سے ساڑھے چھ سو سال اِس بدعت کی کوئی خبر نہیں دیتے ، اگر کِسی کے پاس اِسکے عِلاوہ کوئی خبر ہو تو مجھے آگاہ کرے ، حیرت صد حیرت کہ اتنے لمبے عرصے تک ایک دو نہیں ، دس سو نہیں ، ہزاروں لاکھوں نہیں کڑوڑں نہیں ، بلکہ اربوں مسلمانوں میں سے کِسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یوم پیدائش ''' منایا ''' جانا چاہئیے ؟

(
یہاں سے عید میلاد منوانے اور منانے والوں کی بارہویں دلیل کا جواب بھی شروع ہوتا ہے ) اب عید میلاد منوانے اور منانے والے ، منع کرنے والوں کو عیسائیوں اور کافروں کی طرح مسلمانوں کی عالمی خوشی منانے میں روکاوٹ جانتے ہیں ، بے چارے شاید یہ تاریخ نہیں جانتے ، اگر جانتے تو سمجھ جاتے کہ ، ''' عید میلاد ''' یا کِسی بھی اور بدعت سے روکنے والے عیسائیوں اور کافروں کا وار روکنے کی کوشش کرتے ہیں ، کیونکہ شیطان اور اُس کے پیروکار کفار و مشرکین کے واروں میں سے یہ بھی ہے کہ ''' حُبِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ''' کے مُثبت اور مطلوب جذبے کو منفی اور غیر مطلوب راہ پر چلا کر وہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کی جائے ، رہا معاملہ مسلمانوں کے عالمی اجتماعی جشن کو روکنے کا تو کفار ایسا کر چکے ہیں ،

دیکھ لیجیے مسلمانوں میں قمری تاریخوں میں اختلاف پیدا کر کے ، وہ اپنا یہ مقصد حاصل کر چکے ہیں ، اللہ کے دیئے ہوئے بے مثال نظام کو مسلمانوں میں پراگندہ خیال کر کے وہ مسلمانوں کو اس حال تک لا چکے ہیں ہیں اس معلومات کی منتقلی اور تکنیکی عُلوم کے جدید ترین دور میں بھی مسلمان ایک ہی مدار پر ایک ہی رات میں نکلنے والے ایک ہی چاند کو دو دو تین تین دِن کے وقفوں میں دیکھنا مانتے ہیں اور اپنی تاریخ ایک نہیں کر پاتے ، ایک ہی بستی میں روزہ بھی رکھا جارہا ہوتا ہے اور عید بھی کی جا رہی ہوتی ہے ، اس حال تک پہنچانے کے بعد ''' عید میلاد ''' مختلف دِنوں میں ہو یا ایک دِن ، یا سِرے سے ہو ہی نہ ، کفار کو اِس سے کیا غرض ، اُن کی غرض و غایت تو ''' عید میلاد ''' ہونا ہے ، تا کہ اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃُ و السلام ، محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کرتی رہے اور اُسے ''' محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ''' سمجھ کر کرتی رہے ، چاند اور تاریخوں کے متعلق اس لنک پر کلک کریں شکریہ

Friday, January 18, 2013

آدم علیہ السلام کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کووسیلہ بنانے والی حدیث

0 تبصرہ جات
آدم علیہ السلام کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کووسیلہ بنانے والی حدیث


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

یہ حدیث موضوع ہے ، اسے امام حاکم نے عبداللہ بن مسلم الفھری کے طریق سے بیان کرتے ہیں : حدثنا اسماعیل بن مسلمۃ انبا عبدالرحمن بن زيد بن اسلم عن ابیہ عن جدہ عن عمربن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : جب آدم علیہ السلام نے غلطی کا ارتکاب کیا ۔۔۔ پھر حدیث کو انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے جوکہ سائل نے ذکرکیے ہیں ۔

امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے ۔ اھـ

امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کا علماء کرام کی کثرت نے تعاقب کیا اور اس حدیث کی صحت کا انکار کیا ہے اور اس حدیث پرحکم لگایا ہے کہ یہ حدیث باطل اورموضوع ہے ، اوریہ بیان کیا ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ تعالی خود بھی اس حديث میں تناقض کا شکار ہیں ۔

علماء کے کچھ اقوال پیش کیے جاتے ہیں :

امام حاکم رحمہ اللہ کی کلام کا امام ذھبی رحمہ اللہ تعاقب کرتے ہوۓ کہتے ہیں : بلکہ یہ حديث موضوع ہے اور عبدالرحمن واہی ہے اور عبداللہ بن مسلم کا مجھے علم ہی نہیں وہ کون ہے ۔ اھـ

اورمیزان الاعتدال میں امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس طرح لکھتے ہیں یہ خبر باطل ہے ۔ اھـ

اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے لسان المیزان میں اسی قول کی تائيد کی ہے ۔

اورامام بیھقی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اس طریق سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے یہ روایت متفرد بیان کی ہے اور عبدالرحمن ضعیف ہے اورحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے اسی قول کو صحیح کہا ہے دیکھیں البدایۃ والنھایۃ ( 3 / 323 ) ۔

اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے الضعیفۃ میں اسے موضوع قرار دیا ہے دیکھیں السلسلۃ الضعیفۃ ( 25 ) ۔ ا ھـ

اورامام حاکم - اللہ تعالی انہیں معاف فرماۓ – نے خود بھی عبدالرحمن بن زيد کومتھم بوضع الحدیث کہا ہے ، تواب اس کی حدیث صحیح کیسے ہوسکتی ہے ؟ !

شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی " القاعدۃ الجلیۃ فی التوسل والوسیلۃ ص ( 69 ) " میں کہتے ہیں :

اورامام حاکم کی روایت انہیں روایات میں سے جس کا ان پرانکار کیا گیا ہے ، کیونکہ انہوں نے خود ہی کتاب " المدخل الی معرفۃ الصحیح من السقیم " میں کہا ہے کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع احادیث روایت کی ہیں جوکہ اہل علم میں سے غوروفکر کرنے والوں پرمخفی نہيں اس کا گناہ اس پر ہی ہے ، میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم بالاتفاق ضعیف ہے اوربہت زيادہ غلطیاں کرتا ہے ۔ ا ھـ دیکھیں " سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی رحمہ اللہ ( 1 / 38 - 47 ) ۔


Thursday, January 17, 2013

اسلام میں تیسری عید میلاد اور اس کی حقیقت

0 تبصرہ جات
الحمد للہ رب العالمين، والصلاۃ والسلام على نبينا محمد و آلہ و صحبہ اجمعين، و بعد

سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے سب صحابہ كرام پر درود و سلام كے بعد

كتاب و سنت ميں اللہ تعالى كى شريعت اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى اور دين اسلام ميں بدعات ايجاد كرنے سے باز رہنے كے بارہ جو كچھ وارد ہے وہ كسى پر مخفى نہيں
.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے

 
كہہ ديجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو پھر ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) كى پيروى و اتباع كرو، اللہ تعالى تم سے محبت كرنے لگے گا، اور تمہارے گناہ معاف كر دے گا} آل عمران ( 31 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے

 
جو تمہارے رب كى طرف سے تمہارى طرف نازل ہوا ہے اس كى اتباع اور پيروى كرو، اور اللہ تعالى كو چھوڑ كر من گھڑت سرپرستوں كى اتباع و پيروى مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو}الاعراف ( 3 ).

اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى كچھ اس طرح ہے

 
اور يہ كہ يہ دين ميرا راستہ ہے جو مستقيم ہے، سو اسى كى پيروى كرو، اور اسى پر چلو، اس كے علاوہ دوسرے راستوں كى پيروى مت كرو، وہ تمہيں اللہ كے راستہ سے جدا كرديں گے} الانعام ( 153 ).

اور حديث شريف ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

 
بلا شبہ سب سے سچى بات اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر ہدايت و راہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ہے، اور سب سے برے امور اس دين ميں بدعات كى ايجاد ہے"

اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا

 
جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718
)

اور مسلم شريف ميں روايت ميں ہے كہ

 
جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے"

لوگوں نے جو بدعات آج ايجاد كرلى ہيں ان ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں ميلاد النبى كا جشن بھى ہے ( جسے جشن آمد رسول بھى كہا جانے لگا ہے ) اور يہ جشن كئى اقسام و انواع ميں منايا جاتا ہے
:

كچھ لوگ تو اسے صرف اجتماع تك محدود ركھتے ہيں ( يعنى وہ اس دن جمع ہو كر ) نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كا قصہ پڑھتے ہيں، يا پھر اس ميں اسى مناسبت سے تقارير ہوتى اور قصيدے پڑھے جاتے ہيں
.

اور كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو كھانے تيار كرتے اور مٹھائى وغيرہ تقسيم كرتے ہيں
.

اور ان ميں سے كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يہ جشن مساجد ميں مناتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اپنے گھروں ميں مناتے ہيں
.

اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اس جشن كو مذكورہ بالا اشياء تك ہى محدود نہيں ركھتے، بلكہ وہ اس اجتماع كو حرام كاموں پر مشتمل كر ديتے ہيں جس ميں مرد و زن كا اختلاط، اور رقص و سرور اور موسيقى كى محفليں سجائى جاتى ہيں، اور شركيہ اعمال بھى كيے جاتے ہيں، مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنا، اور انہيں پكارنا، اور دشمنوں پر نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے مدد مانگنا، وغيرہ اعمال شامل ہوتے ہيں
.

جشن ميلاد النبى كى جتنى بھى انواع و اقسام ہيں، اور اسے منانے والوں كے مقاصدہ چاہيں جتنے بھى مختلف ہوں، بلاشك و شبہ يہ سب كچھ حرام اور بدعت اور دين اسلام ميں ايك نئى ايجاد ہے، جو فاطمى شيعوں نے دين اسلام اور مسلمانوں كے فساد كے ليے پہلے تينوں افضل دور گزر جانے كے بعد ايجاد كى
.

اسے سب سے پہلے منانے والا اور ظاہر كرنے والا شخص اربل كا بادشاہ ملك مظفر ابو سعيد كوكپورى تھا، جس نے سب سے پہلے جشن ميلاد النبى چھٹى صدى كے آخر اور ساتويں صدى كے اوائل ميں منائى، جيسا كہ مورخوں مثلا ابن خلكان وغيرہ نے ذكر كيا ہے
.

اور ابو شامہ كا كہنا ہے كہ
:

موصل ميں اس جشن كو منانے والا سب سے پہلا شخص شيخ عمر بن محمد ملا ہے جو كہ مشہور صلحاء ميں سے تھا، اور صاحب اربل وغيرہ نے بھى اسى كى اقتدا كى
.

حافظ ابن كثير رحمہ اللہ تعالى " البدايۃ والھايۃ" ميں ابو سعيد كوكپورى كے حالات زندگى ميں كہتے ہيں

 
اور يہ شخص ربيع الاول ميں ميلاد شريف منايا كرتا تھا، اور اس كا جشن بہت پرجوش طريقہ سے مناتا تھا،...

انہوں نے يہاں تك كہا كہ: بسط كا كہنا ہے كہ
:

ملك مظفر كے كسى ايك جشن ميلاد النبى كے دسترخوان ميں حاضر ہونے والے ايك شخص نے بيان كيا كہ اس دستر خوان ( يعنى جشن ميلاد النبى كے كھانے ) ميں پانچ ہزار بھنے ہوئے بكرے، اور دس ہزار مرغياں، اور ايك لاكھ پيالياں، اور حلوى كے تيس تھال پكتے تھے
..

اور پھر يہاں تك كہا كہ
:

اور صوفياء كے ليے ظہر سے فجر تك محفل سماع كا انتظام كرتا اور اس ميں خود بھى ان كے ساتھ رقص كرتا اور ناچتا تھا
.

ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 13 / 137
).

اور " وفيات الاعيان " ميں ابن خلكان كہتے ہيں
:

اور جب صفر كا شروع ہوتا تو وہ ان قبوں كو بيش قيمت اشياء سے مزين كرتے، اور ہر قبہ ميں مختلف قسم كے گروپ بيٹھ جاتے، ايك گروپ گانے والوں كا، اور ايك گروپ كھيل تماشہ كرنے والوں كا، ان قبوں ميں سے كوئى بھى قبہ خالى نہ رہنے ديتے، بلكہ اس ميں انہوں نے گروپ ترتيب ديے ہوتےتھے
.

اور اس دوران لوگوں كے كام كاج بند ہوتے، اور صرف ان قبوں اور خيموں ميں جا كر گھومتے پھرنے كے علاوہ كوئى اور كام نہ كرتے
...

اس كے بعد وہ يہاں تك كہتے ہيں
:

اور جب جشن ميلاد ميں ايك يا دو روز باقى رہتے تو اونٹ، گائے، اور بكرياں وغيرہ كى بہت زيادہ تعداد باہر نكالتے جن كا وصف بيان سے باہر ہے، اور جتنے ڈھول، اور گانے بجانے، اور كھيل تماشے كے آلات اس كے پاس تھے وہ سب ان كے ساتھ لا كر انہيں ميدان ميں لے آتے
...

اس كے بعد يہ كہتے ہيں
:

اور جب ميلاد كى رات ہوتى تو قلعہ ميں نماز مغرب كے بعد محفل سماع منعقد كرتا
.

ديكھيں: وفيات الاعيان لابن خلكان ( 3 / 274
).

جشن ميلاد النبى كى ابتداء اور بدعت كا ايجاد اس طرح ہوا، يہ بہت دير بعد پيدا ہوئى اور اس كے ساتھ لہو لعب اور كھيل تماشہ اور مال و دولت اور قيمتى اوقات كا ضياع مل كر ايسى بدعت سامنے آئى جس كى اللہ تعالى نے كوئى دليل نازل نہيں فرمائى

اور مسلمان شخص كو تو چاہيے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كا احياء كرے اور جتنى بھى بدعات ہيں انہيں ختم كرے، اور كسى بھى كام كو اس وقت تك سرانجام نہ دے جب تك اسے اس كے متعلق اللہ تعالى كا حكم معلوم نہ ہو
.

جشن ميلاد النبى صلى الله عليه وسلم كا حكم
:

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كئى ايك وجوہات كى بنا پر ممنوع اور مردود ہے
:

اول

كيونكہ يہ نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ميں سے ہے، اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلفاء راشدين كى سنت ہے

اور جو اس طرح كا كام ہو يعنى نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہو اور نہ ہى خلفاء راشدہ كى سنت تو وہ بدعت اور ممنوع ہے
.

اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

 
ميرى اور ميرے خلفاء راشدين مہديين كى سنت پر عمل پيرا رہو، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى و ضلالت ہے"

اسے احمد ( 4 / 126 ) اور ترمذى نے حديث نمبر ( 2676 ) ميں روايت كيا ہے
.

ميلاد كا جشن منانا بدعت اور دين ميں نيا كام ہے جو فاطمى شيعہ حضرات نے مسلمانوں كے دين كو خراب كرنے اور اس ميں فساد مچانے كے ليے پہلے تين افضل ادوار گزر جانے كے بعد ايجاد كيا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كے ليے ايسا كام كرے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو خود كيا اور نہ ہى اس كے كرنے كا حكم ديا ہو، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد خلفاء راشدين نے كيا ہو، تو اس كے كرنے كا نتيجہ يہ نكلتا اور اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر يہ تہمت لگتى ہے كہ ( نعوذ باللہ ) نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين اسلام كو لوگوں كے ليے بيان نہيں كيا، اور ايسا فعل كرنے سے اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان كى تكذيب بھى لازم آتى ہے
:

فرمان بارى تعالى ہے

 
آج كے دن ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا ہے} المائدۃ ( 3 ).

كيونكہ وہ اس زيادہ كام كو دين ميں شامل سمجھتا ہےاور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ہم تك نہيں پہنچايا
.

دوم

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانے ميں نصارى ( عيسائيوں ) كے ساتھ مشابھت ہے، كيونكہ وہ بھى عيسى عليہ السلام كى ميلاد كا جشن مناتے ہيں، اور عيسائيوں سے مشابہت كرنا بہت شديد حرام ہے
.

حديث شريف ميں بھى كفار كے ساتھ مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا گيا اور ان كى مخالفت كا حكم ديا گيا ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا

 
جس نے بھى كسى قوم كے ساتھ مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے"

مسند احمد ( 2 / 50 ) سنن ابو داود ( 4 / 314
).

اور ايك روايت ميں ہے

 
مشركوں كى مخالفت كرو"

صحيح مسلم شريف حديث ( 1 / 222 ) حديث نمبر ( 259
).

اور خاص كر ان كے دينى شعائر اور علامات ميں تو مخالف ضرور ہونى چاہيے
.

سوم
:

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بدعت اور عيسائيوں كے ساتھ مشابہت تو ہے ہى، اور يہ دونوں كام حرام بھى ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ اسى طرح يہ غلو اور ان كى تعظيم ميں مبالغہ كا وسيلہ بھى ہے، حتى كہ يہ راہ اللہ تعالى كے علاوہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنے اور مانگنے كى طرف بھى لے جاتا ہے، اور شركيہ قصيدے اور اشعار وغيرہ بنانے كا باعث بھى ہے، جس طرح قصيدہ بردہ وغيرہ بنائے گئے
.

حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ان كى مدح اور تعريف كرنے ميں غلو كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا

 
ميرى تعريف ميں اس طرح غلو اور مبالغہ نہ كرو جس طرح نصارى نے عيسى بن مريم عليہ السلام كى تعريف ميں غلو سے كام ليا، ميں تو صرف اللہ تعالى كا بندہ ہوں، لھذا تم ( مجھے ) اللہ تعالى كا بندہ اور اس كا رسول كہا كرو"

صحيح بخارى ( 4 / 142 ) حديث نمبر ( 3445 )، ديكھيں فتح البارى ( 6 / 551
).

يعنى تم ميرى مدح اور تعريف و تعظيم ميں اس طرح غلو اور مبالغہ نہ كرو جس طرح عيسائيوں نے عيسى عليہ السلام كى مدح اور تعظيم ميں مبالغہ اور غلو سے كام ليا، حتى كہ انہوں نے اللہ تعالى كے علاوہ ان كى عبادت كرنا شروع كردى، حالانكہ اللہ تعالى نے انہيں ايسا كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا

 
اے اہل كتاب تم اپنے دين ميں غلو سے كام نہ لو، اور نہ ہى اللہ تعالى پر حق كے علاوہ كوئى اور بات كرو، مسيح عيسى بن مريم عليہ السلام تو صرف اور صرف اللہ تعالى كے رسول اور اس كے كلمہ ہيں، جسے اس نے مريم كى جانب ڈال ديا، اور وہ اس كى جانب سے روح ہيں} النساء ( 171 ).

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر ہميں اس غلو سے روكا اور منع كيا تھا كہ كہيں ہميں بھى وہى كچھ نہ پہنچ جائے جو انہيں پہنچا تھا، اسى كے متعلق بيان كرتے ہوئے فرمايا

 
تم غلو اور مبالغہ كرنے سے بچو، كيونكہ تم سے پہلے لوگ بھى غلو اور مبالغہ كرنے كى بنا پر ہلاك ہو گئے تھے"

سنن نسائى شريف ( 5 / 268 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 2863 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے
.

چہارم
:

جشن ميلاد كى بدعت كا احياء اور اسے منانے سے كئى دوسرى بدعات منانے اور ايجاد كرنے كا دروازہ بھى كھل جائے گا، اوراس كى بنا پر سنتوں سے بے رخى اور احتراز ہو گا، اسى ليے آپ ديكھيں كہ بدعتى لوگ بدعات تو بڑى دھوم دھام اور شوق سے مناتے ہيں، ليكن جب سنتوں كى بارى آتى ہے تو اس ميں سستى اور كاہلى كا مظاہرہ كرتے ہوئے ان سے بغض اور ناراضگى كرتے ہيں، اور سنت پر عمل كرنے والوں سے بغض اور كينہ و عداوت ركھتے ہيں، حتى كہ ان بدعتى لوگوں كا سارا اور مكمل دين صرف يہى ميلاديں اور جشن ہى بن گئے ہيں، اور پھر وہ فرقوں اور گروہوں ميں بٹ چكے ہيں اور ہر گروہ اپنے آئمہ كرام كے عرس اور ميلاديں منانے كا اہتمام كرتا پھرتا ہے، مثلا شيخ بدوى كا عرس اور ميلاد، اور ابن عربى كا ميلاد، اور دسوقى اور شا ذلى كا ميلاد، ( ہمارے يہاں بر صغير پاك و ہند ميں تو روزانہ كسى نہ كسى شخصيت كا عرس ہوتا رہتا ہے كہيں على ھجويرى گنج بخش اور كہيں اجمير شريف اور كہيں حق باہو اور كہيں پاكپتن، الغرض روزانہ ہى عرس ہو رہے ہيں ) اور اسى طرح وہ ايك ميلاد اور عرس سے فارغ ہوتے ہيں تو دوسرے ميلاد ميں مشغول ہو جاتے ہيں
.

اور ان اور اس كے علاوہ دوسرے فوت شدگان كے ساتھ اس غلو كا نتيجہ يہ نكلا كہ اللہ تعالى كو چھوڑ كر انہيں پكارنا شروع كر ديا گيا اور ان سے مراديں پورى كروائى جانے لگى ہيں، اور ان كے متعلق ان لوگوں كا يہ عقيدہ اور نظريہ بن چكا ہے كہ يہ فوت شدگان نفع و نقصان كے مالك ہيں، اور نفع ديتے اور نقصان پہنچاتے ہيں، حتى كہ يہ لوگ اللہ تعالى كےدين سے نكل كر اہل جاہليت كے دين كى طرف جا نكلے ہيں، جن كے متعلق اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے

 
اور وہ اللہ تعالى كے علاوہ ان كى عبادت كرتے ہيں جو نہ تو انہيں نقصان پہنچا سكتے ہيں اور نہ ہى كوئى نفع دے سكتے ہيں، اور وہ كہتے ہيں كہ يہ ( مردے اور بت ) اللہ تعالى كے ہاں ہمارے سفارشى ہيں} يونس ( 18 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے

 
اور جن لوگوں نے اللہ تعالى كے علاوہ دوسروں كو اپنا ولى بنا ركھا ہے، اور كہتے ہيں كہ ہم ان كى عبادت صرف اس ليے كرتے ہيں كہ يہ بزرگ اللہ تعالى كے قرب تك ہمارى رسائى كرا ديں} الزمر ( 3 ).

جشن ميلاد منانے والوں كے شبہ كا مناقشہ

:

اس بدعت كو منانے كو جائز سمجھنے والوں كا ايك شبہ ہے جو مكڑى كے جالے سے بھى كمزور ہے، ذيل ميں اس شبہ كا ازالہ كيا جاتا ہے

1

ان بدعتيوں كا دعوى ہے كہ: يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم و تكريم كے ليے منايا جاتا ہے:

اس شبہ كا جواب
:

اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كرتے ہوئے ان كے فرماين پر عمل پيرا ہوا جائے، اور جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے اس سے اجتناب كيا جائے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كى جائے
.

بدعات و خرافات پر عمل كرنا، اور معاصى و گناہ كے كام كرنے ميں تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم نہيں، اور جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بھى اسى مذموم قبيل سے ہے كيونكہ يہ معصيت و نافرمانى ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سب سے زيادہ تعظيم اور عزت كرنے والے صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين تھے جيسا كہ عروۃ بن مسعود نے قريش كو كہا تھا

 
ميرى قوم كے لوگو! اللہ تعالى كى قسم ميں بادشاہوں كے پاس بھى گيا ہوں اور قيصر و كسرى اور نجاشى سے بھى ملا ہوں، اللہ كى قسم ميں نے كسى بھى بادشاہ كے ساتھيوں كواس كى اتنى عزت كرتے ہوئے نہيں ديكھا جتنى عزت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى كرتے ہيں، اللہ كى قسم اگر محمد صلى اللہ عليہ وسلم تھوكتے ہيں، تو وہ تھوك بھى صحابہ ميں سے كسى ايك كے ہاتھ پر گرتى ہے، اور وہ تھوك اپنے چہرے اور جسم پر مل ليتا ہے، اور جب وہ انہيں كسى كام كا حكم ديتے ہيں تو ان كے حكم پر فورا عمل كرتے ہيں، اور جب محمد صلى اللہ عليہ وسلم وضوء كرتے ہيں تو اس كے ساتھى وضوء كے پانى پر ايك دوسرے سے جھگڑتے ہيں، اور جب اس كے سامنے بات كرتے ہيں تو اپنى آواز پست ركھتے ہيں، اور اس كى تعظيم كرتے ہوئے اسے تيز نظروں سے ديكھتے تك بھى نہيں"

صحيح بخارى شريف ( 3 / 178 ) حديث نمبر ( 27 31 ) اور ( 2732 )، اور فتح البارى ( 5 / 388
).

اس تعظيم كے باوجود انہوں نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے يوم پيدائش كو جشن اور عيد ميلاد كا دن نہيں بنايا، اگر ايسا كرنا مشروع اور جائز ہوتا تو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كبھى بھى اس كو ترك نہ كرتے
.

2 -

يہ دليل دينا كہ بہت سے ملكوں كے لوگ يہ جشن مناتے ہيں:

اس كے جواب ميں ہم صرف اتنا كہيں گے كہ: حجت اور دليل تو وہى ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو عمومى طور پر بدعات كى ايجاد اور اس پر عمل كرنے كى نہى ثابت ہے، اور يہ جشن بھى اس ميں شامل ہوتا ہے
.

جب لوگوں كا عمل كتاب و سنت كى دليل كے مخالف ہو تو وہ عمل حجت اور دليل نہيں بن سكتا چاہے اس پر عمل كرنے والوں كى تعداد كتنى بھى زيادہ كيوں نہ ہو
:

فرمان بارى تعالى ہے

 
اگر آپ زمين ميں اكثر لوگوں كى اطاعت كرنے لگ جائيں تو وہ آپ كو اللہ تعالى كى راہ سے گمراہ كر ديں گے}الانعام ( 116 ).

اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ الحمد للہ ہر دور ميں بدعت كو ختم كرنے اور اسے مٹانے اور اس كے باطل كو بيان كرنے والے لوگ موجود رہے ہيں، لہذا حق واضح ہو جانے كے بعد كچھ لوگوں كا اس بدعت پر عمل كرتے رہنا كوئى حجت اور دليل نہيں بن جاتى
.

اس جشن ميلاد كا انكار كرنے والوں ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى شامل ہيں جنہوں نے اپنى معروف كتاب" اقتضاء الصراط المستقيم" ميں اور امام شاطبى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب" الاعتصام" ميں اور ابن الحاج نے " المدخل" ميں اور شيخ تاج الدين على بن عمر اللخمى نے تو اس كے متعلق ايك مستقل كتاب تاليف كى ہے، اور شيخ محمد بشير السھوانى ھندى نے اپنى كتاب " صيانۃ الانسان" ميں اور سيد محمد رشيد رضا نے بھى ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور شيخ محمد بن ابراہيم آل شيخ نے بھى اس موضوع كے متعلق ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور جناب فضيلۃ الشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى اور ان كے علاوہ كئى ايك نے بھى اس بدعت كے بارہ ميں بہت كچھ لكھا اور اس كا بطلان كيا ہے، اور آج تك اس كے متعلق لكھا جا رہا ہے، بلكہ ہر برس اس بدعت منانے كے ايام ميں اخبارات اور ميگزينوں اور رسلائل و مجلات ميں كئى كئى صفحات لكھے جاتے ہيں
.

3 -

جشن ميلاد منانے ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد كا احياء ہوتا ہے.

اس كے جواب ميں ہم يہ كہتے ہيں كہ
:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تو ہر مسلمان شخص كے ساتھ تجديد ہوتى رہتى ہے اور مسلمان شخص تو اس سے ہر وقت مرتبط رہتا ہے، جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام اذان ميں آتا ہے يا پھر اقامت ميں يا تقارير اور خطبوں ميں، اور وضوء كرنے اور نماز كى ادائيگى كے بعد جب كلمہ پڑھا جاتا ہے، اور نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھتے وقت بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد ہوتى ہے
.

اور جب بھى مسلمان شخص كوئى صالح اور واجب و فرض يا پھر مستحب عمل كرتا ہے، جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع كيا ہے، تو اس عمل سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ ہوتى ہے، اور عمل كرنے والے كى طرح اس كا اجر بھى ان تك پہنچتا ہے
...

تو اس طرح مسلمان شخص تو ہر وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ كرتا رہتا ہے، اور پورى عمر ميں دن اور رات كو اس سے مربوط ركھتا ہے جو اللہ تعالى نے مشروع كيا ہے، نہ كہ صرف جشن ميلاد منانے كے ايام ميں ہى ، اور پھر جبكہ يہ جشن ميلاد يا جشن آمد رسول منانا بدعت اور ناجائز ہے تو پھر يہ چيز تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہميں دور كرتى ہے نہ كہ نزديك اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم اس سے برى ہيں
.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس بدعتى جشن كى كوئى ضرورت نہيں وہ اس سے بے پرواہ ہيں، كيونكہ اللہ تعالى نے ان كى تعظيم كے ليے وہ كام مشروع كيے ہيں جن ميں ان كى عزت و توقير ہوتى ہے، جيسا كہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے

 
اور ہم نے آپ كا ذكر بلند كر ديا} الشرح ( 4 ).

تو جب بھى اذان ہو يا اقامت يا خطبہ اس ميں جب اللہ تعالى كا ذكر ہوتا ہے تو اس كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ذكر لازمى ہوتا ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت و تعظيم اور ان كى عزت و تكريم اور توقير كى تجديد كے ليے اور ان كى اتباع و پيروى كرنے پر ابھارنے كے ليے كافى ہے
.

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد فرقان حميد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت كو احسان قرار نہيں ديا بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بعثت كو احسان اور انعام قرار ديا ہے
.

ارشاد بارى تعالى ہے

 
يقينا اللہ تعالى نے مومنوں پر احسان اور انعام كيا جب ان ميں سے ہى ايك رسول ان ميں مبعوث كيا}آل عمران ( 164 ).

اور ايك مقام پر اس طرح ارشاد فرمايا

 
اللہ وہى ہے جس نے اميوں ميں ان ميں سے ہى ايك رسول مبعوث كيا} الجمعۃ ( 2 ).

4 -

اور بعض اوقات وہ يہ بھى كہتے ہيں:

ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا جشن منانے كى ايجاد تو ايك عادل اور عالم بادشاہ نے كى تھى اور اس كا مقصد اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنا تھا
!

اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ
:

بدعت قابل قبول نہيں چاہے وہ كسى سے بھى سرزد ہو، اور اس كا مقصد كتنا بھى اچھا اور بہتر ہى كيوں نہ ہو، اچھے اور بہتر مقصد سے كوئى برائى كرنا جائز نہيں ہو جاتى، اور كسى كا عالم اور عادل ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ معصوم ہے
.

5 -

ان كا يہ كہنا كہ: جشن ميلاد النبى بدعت حسنۃ ميں شمار ہوتى ہے، كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وجود پر اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے كى خبر ديتى ہے.

اس كا جواب يہ ہے كہ
:

بدعت ميں كوئى چيز حسن نہيں ہے بلكہ وہ سب بدعت ہى شمار ہوتى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

 
جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

صحيح بخارى ( 3 / 167 ) حديث نمبر ( 2697 ) ديكھيں فتح البارى ( 5 / 355
).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے

 
يقينا ہر بدعت گمراہى ہے"

اسے امام احمد نے مسند احمد ( 4 / 126 ) اور امام ترمذى نے جامع ترمذى حديث نمبر ( 2676 ) ميں روايت كيا ہے
.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب بدعتوں پر گمراہى كا حكم صادر كر ديا ہے اور يہ كہتا ہے كہ سارى بدعتيں گمراہى نہيں بلكہ كچھ بدعتيں حسنہ بھى ہيں
.

حافظ ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى شرح الاربعين ميں كہتے ہيں

 
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " ہر بدعت گمراہى ہے" يہ جوامع الكلم ميں سے ہے، اس سے كوئى چيز خارج نہيں، اور يہ دين كے اصولوں ميں سے ايك عظيم اصول ہے، اور يہ بالكل نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے اسى قول كى طرح اور شبيہ ہے:

"

جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں ايسا كام ايجاد كر ليا جو اس ميں سے نہيں تو وہ عمل مردود ہے"

اسے بخارى نے ( 3 / 167 ) حديث نمبر ( 2697 ) ميں روايت كيا ہے، ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 355
).

لھذا جس نے بھى كوئى ايجاد كركے اسے دين كى جانب منسوب كر ديا، اور دين اسلام ميں اس كى كوئى دليل نہيں جس كى طرف رجوع كيا جا سكے تو وہ گمراہى اور ضلالت ہے، اور دين اس سے برى ہے دين كے ساتھ اس كا كوئى تعلق اور واسطہ نہيں، چاہے وہ اعقادى مسائل ميں ہو يا پھر اعمال ميں يا ظاہرى اور باطنى اقوال ميں ہو ) انتہى
.

ديكھيں: جامع العلوم والحكم صفحہ نمبر ( 233
).

اور ان لوگوں كے پاس بدعت حسنہ كى اور كوئى دليل نہيں سوائے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا نماز تراويح كے متعلق قول ہى ہے، جس ميں انہوں نے كہا تھا

 
نعمت البدعۃ ھذہ ) يہ طريقہ اچھا ہے. اسے بخارى نے تعليقا بيان كيا ہے، ديكھيں: صحيح بخارى شريف ( 2 / 252 ) حديث نمبر ( 2010 ) ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 294 ).

جشن ميلاد منانے والوں كا يہ بھى كہنا ہے كہ
:

كچھ ايسى نئى اشياء ايجاد كى گئى جن كا سلف نے انكار نہيں كيا تھا: مثلا قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنا، اور حديث شريف كى تحرير و تدوين
.

اس كا جواب يہ ہے كہ
:

ان امور كى شريعت مطہرہ ميں اصل ملتى ہے، لہذا يہ كوئى بدعت نہيں بنتے
.

اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا قول " يہ طريقہ اچھا ہے" ان كى اس سے مراد لغوى بدعت تھى نہ كہ شرعى، لہذا جس كى شريعت ميں اصل ملتى ہو تو اس كى طرف رجوع كيا جائے گا
.

جب كہا جائے كہ: يہ بدعت ہے تو يہ لغت كے اعتبار سے بدعت ہو گى نہ كہ شريعت كے اعتبار سے، كيونكہ شريعت ميں بدعت اسے كہا جاتا ہے جس كى شريعت ميں كوئى دليل اور اصل نہ ملتى ہو جس كى طرف رجوع كيا جا سكے
.

اور قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنے كى شريعت ميں دليل ملتى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قرآن مجيد لكھنے كا حكم ديا كرتے تھے، ليكن قرآن جدا جدا اور متفرق طور پر لكھا ہوا تھا، تو صحابہ كرام نے اس كى حفاظت كے ليے ايك كتاب ميں جمع كر ديا
.

اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كو چند راتيں تراويح كى نماز پڑھائى تھى، اور پھر اس ڈر اور خدشہ سے چھوڑ دى كے كہيں ان پر فرض نہ كر دى جائے، اور صحابہ كرام نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں عليحدہ عليحدہ اور متفرق طور پر ادا كرتے رہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد بھى اسى طرح ادا كرتے رہے، يہاں تك كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں ايك امام كے پيچھے جمع كر ديا، جس طرح وہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے تھے، اور يہ كوئى دين ميں بدعت نہيں ہے
.

اور حديث لكھنے كى بھى شريعت ميں دليل اور اصل ملتى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كچھ احاديث بعض صحابہ كرام كو ان كے مطالبہ پر لكھنے كا حكم ديا تھا
.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں احاديث عمومى طور پر اس خدشہ كے پيش نظر ممنوع تھيں كہ كہيں قرآن مجيد ميں وہ كچھ نہ مل جائے جو قرآن مجيد كا حصہ نہيں، لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ ممانعت جاتى رہى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے قبل قرآن مجيد مكمل ہو گيا اور لكھ ليا گيا تھا، اور اسے احاطہ تحرير اور ضبط ميں لايا جا چكا تھا
.

تو اس كے بعد مسلمانوں نے سنت كو ضائع ہونے سے بچانے كے ليے احاديث كى تدوين كى اور اسے لكھ ليا، اللہ تعالى انہيں اسلام اور مسلمانوں كى طرف سے جزائے خير عطا فرمائے كہ انہوں نے اپنے رب كى كتاب اور اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كو ضائع ہونے اور كھيلنے والوں كے كھيل اور عبث كام سے محفوظ كيا
.

اور يہ بھى كہا جاتا ہے كہ
:

تمہارے خيال اور گمان كے مطابق اس شكريہ كى ادائيگى ميں تاخير كيوں كى گئى، اور اسے پہلے جو افضل ادوار كہلاتے ہيں، يعنى صحابہ كرام اور تابعين عظام اور تبع تابعين كے دور ميں كيوں نہ كيا گيا، حالانكہ يہ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت زيادہ اور شديد محبت ركھتے تھے، اور خير و بھلائى كے كاموں اور شكر ادا كرنے ميں ان كى حرص زيادہ تھى، تو كيا جشن ميلاد كى بدعت ايجاد كرنے والے ان سے بھى زيادہ ہدايت يافتہ اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے والے تھے؟ حاشا و كلا ايسا نہيں ہو سكتا
.

6 -

اور بعض اوقات وہ يہ كہتے ہيں كہ : جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ظاہر كرتا ہے، اور يہ اس محبت كے مظاہر ميں سے ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا اظہار كرنا مشروع اور جائز ہے !

اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ
:

بلاشك و شبہ ہر مسلمان شخص پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت واجب ہے، اور يہ محبت اپنى جان، مال اور اولاد اور والد اور سب لوگوں سے زيادہ ہونى چاہيے- ميرے ماں باپ نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر قربان ہوں - ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ ہم ايسى بدعات ايجاد كر ليں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ليے مشروع بھى نہ كى ہوں
.

بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو يہ تقاضا كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے اور ان كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كے مظاہر ميں سے سب عظيم ہے، كسى شاعر نے كيا ہى خوب كہا ہے
:

اگر تيرى محبت سچى ہوتى تو اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا، كيونكہ محبت كرنے والا اپنے محبوب كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا ہے
.

لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا تقاضا ہے كہ ان كى سنت كا احياء كيا جائے، اور سنت رسول كو مضبوطى سے تھام كر اس پر عمل پيرا ہوا جائے، اور افعال و اقوال ميں سے جو كچھ بھى سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم كا مخالف ہو اس سے اجتناب كرتے ہوئے اس سے بچا جائے
.

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ جو كام بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كے خلاف ہے وہ قابل مذمت بدعت اور ظاہرى معصيت و گناہ كا كام ہے، اور جشن آمد رسول يا جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم وغيرہ بھى اس ميں شامل ہوتا ہے
.

چاہے نيت كتنى بھى اچھى ہو اس سے دين اسلام ميں بدعات كى ايجاد جائز نہيں ہو جاتى، كيونكہ دين اسلام دو اصلوں پر مبنى ہے اور اس كى اساس دو چيزوں پر قائم ہے: اور وہ اصول اخلاص اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى ہے
.

فرمان بارى تعالى ہے

 
سنو! جو بھى اپنے آپ كو اخلاص كے ساتھ اللہ تعالى كے سامنے جھكا دے بلا شبہ اسے اس كا رب پورا پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو كوئى خوف ہو گا، اور نہ ہى غم اور اداسى} البقرۃ ( 112 ).

تو اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا اللہ تعالى كے ليے اخلاص ہے، اور احسان نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى اور سنت پر عمل كرنے كا نام ہے
.

7 -

ان كے شبھات ميں يہ بھى شامل ہے كہ وہ يہ كہتے ہيں:

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے احياء اور اس جشن ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت پڑھنے ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و پيروى پر ابھارنا ہے
!

اس كے جواب ميں ہم ان سے يہ كہيں گے كہ
:

مسلمان شخص سے مطلوب تو يہ ہے كہ وہ سارا سال اور سارى زندگى ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت كا مطالعہ كرتا رہے، اور يہ بھى مطلوب ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى بھى ہر وقت اور ہر كام ميں كرے
.

اب اس كے ليے بغير كسى دليل كے كسى دن كى تخصيص كرنا بدعت شمار ہو گى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

 
اور ہر بدعت گمراہى ہے "

اسے احمد نے ( 4 / 164 ) اور ترمذى نے حديث نمبر ( 2676 ) ميں روايت كيا ہے
.

اور پھر بدعت كا ثمر اور نتيجہ شر اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دورى كے سوا كچھ نہيں ہوتا
.

خلاصہ يہ ہوا كہ
:

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم ہو يا جشن آمد رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس كى سارى اقسام و انواع اور اشكال و صورتيں بدعت منكرہ ہيں مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ اس بدعت سے بھى باز رہيں اور اس كے علاوہ دوسرى بدعات سے بھى اجتناب كريں، اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا احياء كريں اور سنت كى پيروى كرتے رہيں، اور اس بدعت كى ترويج اور اس كا دفاع كرنے والوں سے دھوكہ نہ كھائيں، كيونكہ اس قسم كے لوگ سنت كے احياء كى بجائے بدعات كے احياء كا زيادہ اہتمام كرتے ہيں، بلكہ اس طرح كے لوگ تو ہو سكتا ہے سنت كا بالكل اہتمام كرتے ہى نہيں
.

لہذا جس شخص كى حالت يہ ہو جائے تو اس كى تقليد اور اقتدا كرنى اور بات ماننى جائز نہيں ہے، اگرچہ اس طرح كے لوگوں كى كثرت ہى كيوں نہ ہو، بلكہ بات تو اس كى تسليم جائے گى اور اقتدا اس كى كرنى چاہيے جو سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كرتا ہو اور سلف صالحين كے نھج اور طريقہ پر چلنے والا ہو، اگرچہ ان كى تعداد بہت قيل ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ حق كى پہچان آدميوں كے ساتھ نہيں ہوتى، بلكہ آدمى كى پہچان حق سے ہوتى ہے
.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

 
بلاشبہ تم ميں سے جو زندہ رہے گا تو وہ عنقريب بہت زيادہ اختلافات كا مشاہدہ كرے گا، لہذا تم ميرى اور ميرے بعد ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت اور طريقہ كى پيروى اور اتباع كرنا، اسے مضبوطى سے تھامے ركھنا، اور نئے نئے كاموں سے اجتناب كرنا، كيونكہ ہر بدعت گمراہى ہے"

ديكھيں: مسند احمد ( 4 / 126 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2676
).

اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ بتا ديا ہے كہ اختلاف كے وقت ہم كسى كى اقتدا كريں، اور اسى طرح يہ بھى بيان كيا كہ جو قول اور فعل بھى سنت كے مخالف ہو وہ بدعت ہے، اور ہر قسم كى بدعت گمراہى ہے
.

اور جب ہم جشن ميلاد النبى كو كتاب و سنت پر پيش كرتے ہيں، تو ہميں اس كى نہ تو كوئى دليل سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ملتى ہے اور نہ خلفاء راشدين كى سنت اور طريقہ ميں، تو پھر يہ كام نئى ايجاد اور گمراہ بدعات ميں سے ہے
.

اور اس حديث ميں پائے جانے والے اصول كى دليل كتاب اللہ ميں بھى پائى جاتى ہے
.

فرمان بارى تعالى ہے

 
اور اگر تم كسى چيز ميں اختلاف كر بيٹھو تو اسے اللہ تعالى اور رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر اور انجام كے اعتبار سے بہت اچھا ہے} النساء ( 59 ).

اللہ تعالى كى طرف لوٹانا يہ ہے كہ كتاب اللہ كى طرف رجوع كيا جائے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹانے كا مطلب يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد اسے سنت پر پيش كيا جائے
.

تو اس طر تنازع اور اختلاف كے وقت كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف رجوع كيا جائے گا، لھذا كتاب اور سنت رسول صلى اللہ عليہ ميں جشن ميلاد النبى كى مشروعيت كہاں ملتى ہے، اور اس كى دليل كہاں ہے؟

لہذا جو بھى اس فعل كا مرتكب ہو رہا ہے يا وہ اسے اچھا سمجھتا ہے اسے اللہ تعالى كے ہاں اس كے ساتھ ساتھ دوسرى بدعات سے بھى توبہ كرنى چاہيے، اور حق كا اعلان كرنے والے مومن كى شان بھى يہى ہے، ليكن جو شخص متكبر ہو اور دليل مل جانے كے بعد اس كى مخالفت كرے اس كا حساب اللہ تعالى كے سپرد
.

اس سلسلہ ميں اتنا ہى كافى ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں روز قيامت تك كتاب و سنت پر عمل كرنے اور اس پر كاربند رہنے كى توفيق بخشے، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اوران كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے
.

ديكھيں: كتاب حقوق النبى صلى اللہ عليہ وسلم بين الاجلال و الاخلال صفحہ نمبر ( 139