Friday, March 2, 2012

خشکی اور پانی میں فساد کی وجہ اور حل قرآن و سنت کی روشنی میں

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نےیہ سب کائناتیں صرف چھ۶دن میں بنائیں اوراس عظیم ذات کوزرہ سی بھی تھکن نہ ہوئی،تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں
اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔
حمد و ثنا کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں۔ آپ بھائی لوگ اس میں کوئی غلط بات جو قرآن و سنت کے خلاف ہو اس کی نشان دہی فرمائیں قرآن و سنت کی دلیل کے ساتھ اور اگر صحیح سمجھتے ہیں تو پھر ایسی کوشش کی جائے کہ جس سے اللہ کے خالص دین قرآن و سنت کو قائم کیا جاسکےاور اس طرح اس شرک سے بچ جائیں جو اللہ کے حکم، قانون، نظام کو پسِ پشت ڈال کر ہم لوگ غیراللہ کے نظام اپنائے ہوئے ہیں اور غیراللہ کے حکم و قوانین لوگوں پر نافذ کرکے اس شرک کے مرتکب بن چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ 41؀
خشکی اورپانی میں فساد برپا ہوگیا ہے بسبب اس کے جو انسانوں کے ہاتھوں نے کمایا ہے تاکہ ہم انہیں ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائیں،شاید کہ وہ رجوع کریں۔
( سورۃالروم۔ آیت نمبر۴۱)


اَلَا لَهُ الْحُكْمُ ۣ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ 62؀قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۚ لَىِٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ 63؀قُلِ اللّٰهُ يُنَجِّيْكُمْ مِّنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ 64؀قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ۭ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَ 65؀

خبردار ! حکم کااختیارصرف اسی (اللہ) کے لئے خاص ہے اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔ ان سے پوچھو خشکی اورپانی کی تاریکیوں میں کون ہے جس سے تم گِڑگِڑا ، گِڑگِڑا کر چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو ؟ کس سے کہتے ہو کہ اگرتُونے اس( مصیبت )سے ہمیں بچا لیا تو ہم شکر گزار ہوں گے,کہواللہ تمہیں اس سے اور ہرمصیبت سے نجات دیتا ہے پھر تم اُس کے ساتھ شرک کرتے ہو۔ کہو وہ اس پر قادر ہے کہ کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے بپا کر دے یاتمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کودوسرے کی طاقت کا مزا چکھا دے ۔ دیکھو ہم بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید یہ حقیقت کو سمجھ لیں۔( سورۃالانعام۔۶۲..۶۵)


اس وقت پوری دنیاعموماً اورکلمہ پڑھنے والے خصوصاًاُس انجام میں مبتلا نظر آتے ہیں جو درج بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس تحریر میں پاکستان کی صورت ِحال کا جائزہ پیش کیا جائے گا، یہاں کے کلمہ پڑھنے والے اپنے اوپر سے تباہ کن بارشوں کے عذاب ، قدموں کے نیچے سے ہولناک سیلابوں اور زلزلوں کے عذاب سے بھی دوچار ہیں اور گروہوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کو اپنی اپنی طاقت کا مزا چکھا نے کے عذاب میں بھی مبتلا ہیں۔ہم جن پر بات کریں گے وہ ان کی بڑی گروہ بندی حکومت ، عدلیہ اور طالبان میں تقسیم ہے۔ حکومت کی طرف سے عدلیہ کوپارلیمنٹ کی قوت کا اور طالبان کو فوجی طاقت کا مزا چکھایا جا رہا ہے، جبکہ عدلیہ کی طرف سے حکومت کوفیصلہ سازی کی طاقت کا اور طالبان کی طرف سے حکومت کو گوریلہ جنگ اور خود کش حملوں کی طاقت کا مزا چکھا یاجارہا ہے ۔ اوپردرج آیات سے واضح ہوتاہے کہ یہ سارے عذاب’’انسانوں کی طرف سے اللہ کے ساتھ شرک کرنے ‘‘ کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ کلمہ طیبہ سے جو تین نکاتی اُصولِ بندگی سامنے آتا ہے اُس میں سب سے پہلا نکتہ’’شرک سے یعنی غیراللہ کی عبادت سے انکار کرناہے‘‘ کہ
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ
کوئی الٰہ نہیں ہے سوائے اللہ کے ، محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں
چنانچہ
غیراللہ کی عبادت ہرگز نہ کی جائے ، اللہ کی عبادت لازماً کی جائے
اور
اللہ کی عبادت صرف ویسے کی جائے جیسے محمدﷺ نے بتایا ہے
چونکہ کلمہ طیبہ سب سے پہلے شرک ہی سے انکارکا کلمہ ہے اس لئے اس کلمے پر ایمان رکھنے والوں کی طرف سے اللہ کے ساتھ شرک کرنے کی بات عموماًعجیب سمجھی جاتی ہے اور اس کے لئے رسول اللہﷺ کایہ ارشادبھی پیش کیا جاتا ہے کہ
وَ اِ نِّی وَاللّٰہِ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِیْ وَلٰکِنِّی اَخَافُ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنَا فَسُوْا فِیْھَا
اور یقیناً میں،اللہ کی قسم، تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتاکہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لئے حرص کرنے لگو گے۔
(بخاری: کتاب المغازی۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ)
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد اُن لوگوں ہی پر پورا اُترسکتا ہے جواُس وقت آپ کے اوّلین مخاطبین تھے یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کہ آپﷺ کے بعد صحابہ لازماً شرک سے بچے رہیں گے جبکہ دیگر احادیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ اُمت پرسے اللہ کے قوانین کے مطابق حکومت ختم ہو جائے گی (اس کے نتیجے میں لامحالہ مخلوق کے قوانین کے مطابق حکومت شروع ہوجائے گی) اور اُمت کے بعض قبائل مشرکین سے جا ملیں گے اور بعض قبائل اوثان (بتوں، قبروں، پرچموں وغیرہ)کی عبادت شروع کردیں گے ، یہ سب شرک کی واضح صورتیں ہیں۔ نبیﷺ کے ارشادات ہیں کہ
لَیُنْقَضَنَّ عُرَی الْاِسْلَامِ عُرْوَۃً عُرْوَۃً فَکُلَّمَا انْتَقَضَتْ
عُرْوَۃٌ تَشَبَّثَ النَّاسَ بِالَّتِیْ تَلِیْھَا وَ اَوَّلُھُنَّ نَقْضًا الْحُکْمُوَ آ خِرُھُنَّ الصَّلَاۃُ
اسلام کی رسی گِرہ گِرہ کرکے کھل جائے گی ،جب کبھی ایک گِرہ کھلے گی تو لوگ اُس کے ساتھ چمٹ جائیں گے جو بندھی ہو گی اور سب سے پہلے جو گرہ کھلے گی وہ ’’حکم‘‘ کی ہوگی اورسب سے آخر ی صلوٰۃ کی ہوگی۔
(احمد : باقی مسندالانصار۔ ابی امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ)


وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِی بِالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ اُمَّتِی الْاَوْثَانَ وَ اِنَّہُ سَیَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ کَذَّبُوْنَ ثلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ نَبِیٌّ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ

قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ میری اُمت کے بعض قبائل مشرکین سے جا ملیں گے اور حتیٰ کہ بعض قبائل اوثان کی عبادت شروع کردیں گے اورمیری اُمت میں تیس جھوٹے ہوں گے، ہرکوئی دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے جبکہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا۔
(احمد : باقی مسندالانصار۔ ثوبان رضی اللہ عنہ)
چونکہ احادیث سے بھی اُمت کے بعض قبائل کے شرک میں مبتلا ہونے کی خبر ملتی ہے اور پاکستان کے لوگ بھی پے درپے جن عذابوں سے دوچارہورہے ہیں قرآنی آیات سے وہ تمام عذاب بھی شرک کے انجام کے طور پر سامنے آتے ہیں چنانچہ یہ عذاب ہمیں اپنا جائزہ لینے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم دیکھیں کہ کہیں ہم بھی اُمت کے اُن قبائل میں شامل تو نہیں ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کے گناہ ِ عظیم میں مبتلا ہو جائیں گے جبکہ شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَن یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُمَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُج


بے شک اللہ تعالیٰ شرک ہی کو معاف نہیں کرتا اس کے سوا ہر گناہ معاف کر سکتا ہے جس کے لیے چاہے۔ (۴: النساء۔۴۸)

وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللّٰهِ اَوْ تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ١٠٧؁

اور ان میں سے اکثر اللہ پہ ایمان نہیں رکھتے مگر یوں کہ وہ شرک بھی کرتے ہیں، تو کیا یہ بے خوف ہیں اس بات سے کہ آ پڑے ان پر کوئی آفت اللہ کے عذاب کی یا آپڑے قیامت کی گھڑی اچانک جبکہ انہیں خبر ہی نہ ہو۔(۱۲: یوسف ۔۱۰۶،۱۰۷)
اس تحریر کے آغاز میں درج سورۃالانعام کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اَ لَالَہُ الْحُکْم (خبردار! حکم کااختیارصرف اسی (اللہ) کے لئے خاص ہے ) ،آگے فرمایا ہے کہ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ ( پھر تم اُس کے ساتھ شرک کرتے ہو)۔اللہ کے حکم کے مقابل شرک کی ایک صورت یہ ہے کہ ’’بلاواسطہ صرف اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حق قرآن وسنت کی دلیل کے ساتھ حکم،قانون و فیصلے جاری کرنے کااُصول وطریقہ(سنت) اپنانے کی بجائے مخلوق کی خواہشات، اس کے فلسفوں،اِزم و نظریات، آئین و قوانین ، فیصلوں؍ فتووں اورفہم وفقہہ وغیرہ کی دلیل کے ساتھ حکم ،قانون و فیصلے جاری کرنے کااُصول اپنایا جائے جبکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 21؀کیا انہوں نے اپنے لیے (اللہ کے) کچھ ایسے شریکِ مقرر کر لیے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت کا ایسا کچھ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟ اگر فیصلے کی بات طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا فیصلہ کر دیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
(سورۃ ا لشوریٰ۔ ۲۱)
آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایسادین یعنی ایسااُصول وقانون اختیار کرناجس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت نہ ملتی ہو؍اللہ کے نازل کردہ ’’حق ‘‘ سے دلیل نہ ملتی ہوتواُس اُصول و قانون بنانے والے کی اتباع و اطاعت کرکے اس کو اللہ کا شریک بنانا ہے۔
انصاف پرمبنی حقیقت یہ ہے کہ مخلوق کے بارے میں حقیقی حکم ،قانون اور فیصلہ مخلوق کا خالق ہی جاری کر سکتا ہے نہ کہ خودمخلوق، کیونکہ مخلوق کا خالق اور اُن کا ربِّ حقیقی ہونے کی بنا پر و ہی بہتر جان سکتا ہے کہ مخلوق کے لئے کیا اچھا ہے اور کیا بُرا :
اَ لَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ 
کیا وہ ہی نہ جانے گا جس نے تخلیق کیا ہے؟ حالانکہ باریک بین اور باخبر تو وہ ہی ہے۔(سورۃ الملک۔ ۱۴)
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط یَقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ
حکم کا اختیار تو صرف اللہ کے لئے خاص ہے، وہ ہی حق بات بیان کرتا ہے اور وہ ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والاہے۔

(سورۃ الانعام۔ ۵۷)
اَفَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا وَّهُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا ۭوَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ١١٤؁وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥؁وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ ١١٦؁(کہیے ) تو کیا میں اللہ کے علاوہ کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں حالانکہ وہی ہے جس نے تم لوگوں کی طرف یہ ’’کتاب ‘‘پوری تفصیل کے ساتھ نازل کی ہے اور جن کو ہم نے یہ کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے سو تم ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا ۔ کامل ہے آپ کے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے،کو ئی اس کی بات کو تبدیل کرنے والا نہیں اور سب کچھ سننے اور جاننے والا وہی ہے۔اگر آپ لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے جو زمین میں بستے ہیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض ظن کی پیروی کرتے ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔
(۶: الانعام ۔۱۱۴․․۱۱۶)
وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ 49؀اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ 50۝ۧ
اور حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔(اگر یہ اللہ کے فیصلے سے منہ موڑتے ہیں ) تو پھر کیا جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے۔
(سورۃ المائد ہ ۔۴۹،۵۰)

مخلوق کے لئے اس کے خالق کانازل کردہ مکمل ومفصّل حکم حق کتابُ اللہ (قرآن مجید)اور سنت ِمحمد رسول اللہﷺ‘ہے ،ا س کی اتباع کاایک ح یہ ہے کہ مخلوق کے معاملات و اختلافات میں مخلوق کے کسی آئین وقانون اور فہم وفقہ کو اختیار کئے بغیر بلاواسطہ صرف’’قرآن وسنت‘‘ کی دلیل کے ساتھ حکم و فیصلے جاری کئے جائیں، اسی کا اللہ نے حکم دیا ہے ، یہی مومنین کے لئے مقرر کردہ راستہ( سبیل المؤمنین) ہے ، یہی نبی ﷺاور خلفائے راشدین کی سنت رہی ہے اور اسی سنت کواپنانے کا حکم نبی ﷺنے بھی دیا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ اورنبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59؀ۧاَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا 60؀اے ایمان والو ! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور صاحبانِ امر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں۔ اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے لوٹا دو فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہوتو ۔ یہی چیز اچھی ہے اور انجام کے اعتبار سے بہترین بھی یہی ہے۔آپ ﷺنے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جوآپ پر نازل ہوا ہے اور اس پر جوآپ سے پہلے نازل ہوا ہے مگرفیصلہ کروانے کے لیے طاغوت کے پاس جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیاگیا ہے۔ شیطان انہیں راہ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی میں لے جانا چاہتا ہے۔
( ۴: النساء۔۵۹․․․۶۰)

مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمبِسُنَّتِی وَ سُنَّتِ خُلْفَاءِ الْمَھْدِیِیْنَ الرَّاشِدِیْنَ تَمَسَّکُوْبِھَا وَعَضُّوْاعَلَیْھَا بِاالنَّوَاجِذِ وَاِیَّاکُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٍ وَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٍ
تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ عنقریب بہت سے اختلاف دیکھے گا پس تمہارے اوپرلازم ہے میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت ،اس کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ ہو جاؤ اور اسے داڑھوں سے پکڑو اور نئی باتو ں سے بچو بے شک ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (ابودا وٗد: کتاب السنہ۔ العرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ)
قرآن وسنت‘‘کی دلیل کے خلاف اوراس کی دلیل کے بغیر اُصول وقانون بنانے والااورحکم وفیصلہ جاری کرنے والا اللہ کے ہاں طاغوت کہلاتاہے اور ایسا اُصول وقانون،حکم وفیصلہ طاغوتی وغیراسلامی کہلاتا ہے۔ آج ہم کلمہ پڑھنے والوں کے ممالک کو دیکھیں تواکثر میں حکومت طاغوتی و غیراسلامی آئین و قوانین کے مطابق ہی ہورہی ہے، اگر کہیں ’’قرآن وسنت‘‘ کے مطابق حکومت ہے بھی تو اس کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے چارٹروقوانین کی اطاعت کے شرک نے قرآن وسنت کے مطابق حکومت کی نیکی پر پانی پھیر دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ اگر تم نے شرک کیا توتمہارا عمل ضائع ہو جائے گا۔ ( سورۃ الزمر۔۶۵)

پاکستان کے حوالے سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کاآئین ا ور قوانین تو اسلامی ہیں، اور پوچھتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہے تو بتایا جائے کہ ان میں سے آخر کون سے قوانین خلاف ِاسلام ہیں؟
قابل ِ غور بات یہ ہے پاکستان کے آئینی قوانین اوردیگرقوانین اگراسلامی ہیں تو کیاوہ سب’’قرآن وسنت‘‘ کی دلیل کے ساتھ ہیں؟ یقیناً نہیں ہیں ! بلکہ فرعونوں اور طاغوتوں(امریکہ ،برطانیہ وغیرہ) کے بنائے ہوئے قانون ِ سیاست ’’جمہوریت‘‘ سمیت بہت سے بنیادی قوانین ایسے ہیں کہ جن کے خلاف ’’قرآن وسنت‘‘ میں واضح احکامات موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگرپاکستان کے آئینی قوانین و دیگر قوانین اسلامی تھے تو پھرآئین میں قراردادِ مقاصد کے ذریعے اللہ کے ’’حاکم مطلق ‘‘ ہونے کی بات اوریہ بات شامل کرنے کی ضرورت کیوں درپیش آئی تھی کہ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا (شق۲۲۷(۱) )۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کاآئین و قوانین شروع ہی سے طاغوتی و غیراسلامی تھے اسی لئے تو مذکورہ بالا دونوں چیزیں آئین میں شامل کی گئی تھیں ورنہ انہیں شامل کرنے کی ضرورت نہیں تھی مگر پھر بھی عرصہ ِ دراز گذرنے کے باوجود غیراسلامی آئین و قوانین’’قرآن وسنت‘‘کے مطابق تبدیل نہیں کئے گئے ہیں۔ سوال یہ ہیں کہ ’’ اللہ کے حاکم ِمُطلق ہونے کی بات‘‘ اور ’’ قوانین کو ’’قرآن وسنت‘‘ کے مطابق بنانے کا وعدہ‘‘غیراسلامی آئین میں شامل کرلینے سے کیا غیراسلامی آئین و قوانین ’’اسلامی‘‘ ہوجاتے ہیں؟ اوراُن کانفاذ و اطاعت جائز ہو جاتی ہے؟ حرام گوشت میں چند بوٹیاں حلال گوشت کی ڈال دینے سے کیاحرام گوشت حلال ہوجاتاہے ؟ کسی بت کے ماتھے پرکلمہ طیبہ لکھ دینے سے کیا اس بت کو سجدہ جائز ہو جاتا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ کلمہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کہ جس کی شہادت دے کر انسان اللہ کے دین میں داخل ہوتا ہے یہ کلمہ غیراللہ کی اطاعت (جوکہ بنیادی فعل ِعبادت ہے) اوراللہ کی اطاعت کے حوالے سے معاملہ بالکل واضح کر دیتا ہے۔ اس میں لَآاِلٰہَ کااِلَّا اللّٰہ سے پہلے آنا اس بات کاپابند کرتا ہے کہ صرف اﷲ کو الٰہ ماننے اورصرف اس کی اطاعت پر عمل پیر اہونے سے پہلے لازم ہے کہ طاغوت کی اطاعت سے انکار کر دیا جائے ،یوں لَا ٓاِ لٰہَ کے زیرِاطاعت لازم تھا کہ پہلے پاکستان کے پورے طاغوتی آئین اورہرفہرست ِ قوانین کو اُٹھا کر پرے پھینک دیا جاتا پھر اِلَّا اللّٰہُ اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کے زیر اطاعت صرف اﷲکے نازل کردہ حق’’کتاب اللہ (قرآن مجید)اور سنت ِ محمدرسول اللہﷺ‘‘‘کو واحدآئین وقانون کے طور پر اختیار کر لیا جاتا، یوں باطل مکمل طور پر چلا جاتااور حق مکمل طور پر آ جاتا جیسا کہ نبی ﷺاور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا۔
پاکستان میں کلمے کا مذکورہ بالاحق ادا کئے بغیرطاغوتی آئین ہی میں اللہ کے حاکم ِمطلق ہونے کی بات شامل کر کے اس طاغوتی آئین ہی کو اسلامی قرار دے لیا گیا ، انصاف کی علمبردار عدالتوں نے بھی آئین میں خالق کو حاکمِ مطلق مانے جانے کے باوجود خالق کے نازل کردہ حق’’قرآن وسنت‘‘سے مخلوق کے مقدمات کے فیصلے شروع کرنے کی بجائے مخلوق کے تیار کردہ آئین وقانون ہی سے مخلوق کے فیصلے جاری رکھے جبکہ انصاف پر مبنی یہ حقیقت عیاں ہے کہ مخلوق کے لئے حقیقی قانون اُس کے خالق ہی کاہوسکتاہے نہ کہ خود مخلوق کا۔
علما ء نے بھی حکمرانوں سے’’ نبیﷺ اور خلفائے راشدین کی سنت یعنی ’’بلاواسطہ صرف ’’قرآن وسنت‘‘ کی دلیل کے ساتھ فیصلے کرنے کی سنت‘‘ کواختیار کرنے کامطالبہ کرنے کی بجائے سلف کے فہم وفقہہ(فقہ حنفی،فقہ جعفری وغیرہ) کے نفاذ کا مطالبہ کر دیا۔ پاکستان میں ’’قرآن وسنت‘‘کے ساتھ طاغوتی آئین اور سلف کے فہم وفقہ کو جمع کردینے سے اللہ کے دین ِخالص ’’قرآن وسنت‘‘ کے نفاذکی حقیقت خرافات میں کھو کر رہ گئی اور لوگ خالصتاً ’’قرآن وسنت‘‘کے نفاذو اطاعت کی نعمت سے محروم رہ گئے جبکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ
اِنَّآاَنْزَلْنَآاِلَیْ کَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِاللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَاَ لَالِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط
یقینا ہم نے اس کتاب کو آپﷺ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ ﷺاللہ ہی کی عبادت کریں دین کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار! اللہ کیلئے (قابلِ قبول) صرف دین ِ خالص ہے۔
(سورۃ الزمر۔۲،۳)
پاکستان کا آئین اسلامی سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت میں یہ آئین اسلامی ہونے کی بجائے اللہ کے ساتھ شرک کی عجیب مثال بناہوا ہے کیونکہ کہ یہ آئین حاکم ِ مطلق اللہ کو مانتا ہے مگر اپنے متن میں طاغوتی قوانین رکھتا ہے اور وفاقی وصوبائی قوانین کی اُن فہرستوں کی سرپرستی بھی کرتا ہے جو طاغوتی قوانین سے بھری ہوئی ہیں۔

حیرت ہے کہ جو عوام اسلام کی خاطر ملک حاصل کرنے کے لئے پاکستان کا مطلب کیا لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا نعرہ لگا کر لاکھوں جانوں کی قربانی دے سکتے تھے اورزبردست جدوجہد کے ساتھ قراردادمقاصد کوطاغوتی آئین میں شامل کروا سکتے تھے وہی عوام صحیح راہنمائی ملنے پر لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پرایمان کے اوّلین تقاضوں کے طورپرتمام طاغوتی آئین وقوانین کو ردّ کرکے صرف’’قرآن وسنت‘‘ کو واحدآئین وقانون کے طورپرکیوں نہیں منواسکتے تھے مگر وقت کے فکری راہنماؤں نے ان کی صحیح راہنمائی نہیں کی اورانہیں طاغوتی آئین وقوانین کی اطاعت (طاغوت کی عبادت )میں مبتلا کرکے مصیبتوں کی راہ پر لگادیا جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ 36؀ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ تو ان میں سے کسی کواللہ نے ہدایت عطا فرمادی اور کسی پر گمراہی چسپاں ہو گئی ، تو زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔(سورۃ النحل۔ ۳۶)

اللہ تعالیٰ تو ہر اُمت میں اس لئے رسول بھیجتا رہاہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور طاغوت کی عبادت سے اجتناب کیا جائے مگرصحیح فکری راہنمائی نہ ملنے پرآج حکمران بھی ’’قرآن وسنت‘‘ کی بجائے پولیس اور فوج کی طاقت سے طاغوتی آئین وقانون ہی نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، عدالتیں بھی’’قرآن وسنت‘‘کی بجائے طاغوتی آئین وقوانین سے فیصلے کررہی ہیں ، عام سیاسی پارٹیاں تو اسلام سے ہیں ہی بیزار ، مذہبی سیاسی پارٹیاں بھی اسمبلیوں میں پہنچ کر اسی آئین کی پاسداری کا حلف اُٹھاتی ہیں جو حاکم ِ مطلق تواللہ کو مانتا ہے مگر اپنے متن میں بھی طاغوتی قوانین رکھتا ہے اور طاغوتی قوانین سے بھری ہوئی فہرستوں کی سرپرستی بھی کرتا ہے ۔ طالبان وغیرہ بھی خالصتاً ’’قرآن وسنت‘‘کونافذکرنے کی بجائے ساتھ سلف کے فہم وفقہہ کو بھی نافذکرنا چاہتے ہیں۔
حکمرانوں اور طالبان کی جنگ میں ہرکوئی اپنے مقتول کوشہید قرار دے رہا ہے :::یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ شہادت ایک رتبہ ہے جو اللہ جس کو چاہے دے اور آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ دوزخ میں سب سے پہلے جانے والا بھی بظاہر شہید ہی ہوگا مگر اللہ نے اس کی شہادت کو قبول نہیں کیا،اس لیے ہم کسی کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شہید ہے بلکہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ کے رستے میں قتل ہوگیا ہے :::جبکہ صرف وہ مقتول شہید ہوسکتا ہے جو ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ میں قتل ہوجائے اور ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ صرف وہ ہے جو ’’اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لئے کیا جائے جبکہ نہ پاکستان کا آئین وقانون اور نہ ہی سلف کا فہم وفقہ اللہ کانازل کردہ کلمہ ہے،اللہ کانازل کردہ کلمہ توصرف قرآن وسنت ہے یوں جو صرف اسی کلمے کے اُصولوں کی روشنی میں صرف اسی کلمے کے نفاذکے لئے قتال کرے صرف اُس کا قتال فی سبیل اللہ ہوسکتا ہے۔ نبیﷺ کاارشاد ہے کہ
مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ العُلْیَا فَھُوَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ
جو اس لئے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ غالب ہوتو اُس کا قتال فی سبیل اللہ ہے۔
(بخاری: کتاب الجہاد والسیر ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ)


پاکستان میں جہاں طاغوت کے آئین وقانون کے نفاذ،اوران کی اطاعت اور ان کے مطابق معاملات و مقدمات کے فیصلے کرنے اور کروانے کا شرک سامنے آتا ہے وہیں اوثان کی عبادت کا شرک بھی سامنے آتا ہے کہ بہت سے لوگ قبروں کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور غیراللہ سے حاجات بھی مانگتے ہیں۔ جب شرک کی یہ تمام صورتیں واضح طور پر موجود ہیں تو پھر طوفانی بارشوں، سیلابوں اور زلزلوں کا عذاب اور ایک ہی کلمہ پڑھنے والے پاکستانی حکمرانوں، عدلیہ اور طالبان وغیرہ کاگروہوں میں تقسیم ہوکرایک دوسرے کو اپنی طاقت کامزہ چکھانے کا عذاب اسی شرک کے نتیجے کے طور پر سامنے آتاہے،جیسا کہ ا س تحریر کے شروع میں درج سورۃ الانعام کی آیات سے واضح ہوتا ہے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے یا عذاب ؟اور آزمائش کہنے سے وہ آزمائش مرادلے رہے ہیں جو انبیاء علیہم السلام اورصالحین پر اُن کے درجات کی بلندی کے لئے آتی رہی ہے۔
اگر تو قوم اور اُس کے لیڈروں کا کردار انبیاء اورصالحین جیسا ہے تو پھر سوچا جا سکتا ہے کہ قوم پر آنے والی آزمائش اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہے لیکن جب قوم میں دھڑلے سے بھی اور حیلے بہانے سے بھی اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہو حتیٰ کہ اپنے خالق، مالک اور رازق سے شرک تک کاظلم ِ عظیم موجود ہو تو پھر اگر آزمائش بھی ہو تو وہ درجات کی بلندی والی آزمائش نہیں بلکہ بالکل مٹا دینے والے فیصلہ کن عذاب سے پہلے راہ راست پر لانے والے عذاب کی صورت میں ہوتی ہے کہ شائد کہ وہ رجوع(توبہ) کریں جیساکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ

وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘاِذْ يَعْدُوْنَ فِي السَّبْتِ اِذْ تَاْتِيْهِمْ حِيْتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّيَوْمَ لَا يَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِيْهِمْ ڔ كَذٰلِكَ ڔ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٣؁وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَۨا اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ١٦٤؁فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٥؁فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْۗءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۢ بَىِٕيْــسٍۢ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ ١٦٥؁اور پوچھو ان سے حال اس بستی کا جو سمندر کے کنارے واقع تھی ، جب وہ ہفتے کے دن احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کیاکرتے تھے ، جبکہ مچھلیاں بھی ہفتے ہی کے دن اُبھر اُبھر کر ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتے کا دن نہیں ہوتا تھا تو نہیں آ تی تھیں، اس طرح سے ہم ان کوآزما رہے تھے کیونکہ وہ نافرمان تھے،اور جب کہا ایک گروہ نے اُ ن میں سے (اُن لوگوں سے جو نصیحت کرتے تھے )کہ کیوں نصیحت کرتے ہو تم اُن لوگوں کو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا سخت ترین عذاب دینے والا ہے تو اُن (نصیحت کرنے والوں )نے کہا کہ( ہم اس لئے نصیحت کرتے ہیں )تا کہ ہم معذرت پیش کر سکیں تمہارے رب کے ہاں اور اس لئے بھی کہ شائد وہ (نافرمانی سے ) پرہیز کرنے لگ جائیں ۔ پھر جب وہ (بستی والے)بھول گئے ان ہدایات کو جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو نجات دی ہم نے اُن کو جو منع کرتے تھے برے کام سے اور پکڑ لیا ہم نے ان لوگوں کو جو ظالم تھے بدترین عذاب میں بسبب ان نافرمانیوں کے جو وہ کرتے تھے، پھر جب انہوں نے سرکشی کی ان کاموں میں جن سے انہیں منع کیا گیا تھاتو ہم نے ان سے کہا کہ بن جاؤ بندر ذلیل و خوار۔(سورۃ اَلاعْراف۱۶۳۔۔۔۱۶۶)
مِنْھُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْھُمْ دُوْنَ ذٰلِکَ وَ بَلَوْنٰھُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ
اور کچھ اُن میں سے نیک ہیں اورکچھ اُن میں سے مختلف ہیں اس سے اور آزمایا ہم نے اُن کو آسائشوں اور تکلیفوں سے شائد کہ وہ پلٹ آئیں ۔ (سورۃ اَلاعْراف ۱۶۸)

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ ا لْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِ یْقَھُمْبَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴿﴾ قُلْ سِیْرُوْا فِیْ الْاَرْضِ فَانْظُرُ وْا
کَیْفَ کَا نَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُ ط کَانَ اَکْثَرُ ھُمْ مُّشْرِکِیْنَ
خشکی اورپانی میں فساد برپا ہوگیا ہے بسبب اس کے جو انسانوں کے ہاتھوں نے کمایا ہے تاکہ ہم انہیں ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائیں،شاید کہ وہ رجوع کریں۔ کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو ان لوگوں کا انجام جو تم سے پہلے گذرے ہیں ان میں سے بھی اکثر مشرک ہی تھے۔
(سورۃالروم۔ آیت نمبر۴۱،۴۲)
یہ حقیقت واضح ہے کہ پاکستان میں طاغوت کے آئین وقوانین کے نفاذکااور اوثان کی عبادت (قبرپرستی وغیرہ)کا شرک غالب ہے ، جب یہ شرک غالب ہے تو پھر یہی خشکی اور تری میں فساد کی غالب وجہ ہے چنانچہ اس فسادسے بچنے کی صورت بھی اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے کہ پاکستان کے کلمہ گوفکری وسیاسی راہنما، علماء ، حکمران ،جج،طالبان اور عوام ذرا دیرکئے بغیر اللہ تعالیٰ کے حضو ر توبہ کریں، طاغوت کے آئین وقوانین اور اوثان کی عبادت کوفوراًچھوڑدیں اورکسی کے فہم وفقہ کو بھی فوراً ترک کردیں، سب مل کرصرف اﷲ کی رسی ’’ کتابُ اللہ (قرآن)اور سنت ِ رسول اللہ علیہ السلام کو مضبوطی سے تھام لیں کہ صرف یہی ان کی نجات و وحدت کی رسی ہے، صرف اس کو ’’ واحدآئین وقانون‘‘ ماننے کا اعلان کریں، اس کاصرف وہ فہم لیں جو اسی کے دلائل سے سامنے آتا ہے پھر اس کے دیئے ہوئے اُصولوں کی روشنی میں ایک ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
یٰٓاَ یُّہَاالَّّذِیْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ 
وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَاتَفَرَّقُوْاص
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔اور تم سب مل کر اللہ کی رسی(قرآن وسنت) کو مضبوطی سے تھامے رکھو اورتفرقے میں مت پڑو۔ (سورۃآلِ عمران۔۱۰۳،۱۰۴)

تمام کلمہ پڑھنے والوں پر لازم ہے کہ خود اللہ کی رسی کو تھامنے کے بعد تمام اقوام ِ عالم کو بھی انصاف پرمبنی یہ حقیقت بتائیں کہ مخلوق کے مسائل کا حقیقی حل تمام مخلوق اوراُس کی اسمبلیاں مل کر بھی نہیں نکال سکتی ہیں بلکہ مخلوق کے مسائل کا حقیقی حل صرف وہی جانتا ہے جس نے اسے تخلیق کیا ہے چنانچہ تمام اقوام مخلوق کے بنائے ہوئے چارٹرز،آئین وقوانین کو چھوڑ کرصرف اپنے خالق کے حکم ’’قرآن وسنت‘‘کو’’واحدا ٓئین وقانون ‘‘ کے طورپراختیار کریں کہ یہی دنیا میں کامیابی کا واحد راستہ ہے اوراگروہ ساتھ ایمان بھی لے آئیں تو آخرت میں بھی کامیاب ہوں گے اِن شاء اللہ۔