Saturday, February 4, 2012

تیسری عید میلاد کی شرعی حیثیت

5 تبصرہ جات


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الحمد للہ رب العالمين، والصلاۃ والسلام على نبينا محمد و آلہ و صحبہ اجمعين، و بعد:

سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے سب صحابہ كرام پر درود و سلام كے بعد:

كتاب و سنت ميں اللہ تعالى كى شريعت اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى اور دين اسلام ميں بدعات ايجاد كرنے سے باز رہنے كے بارہ جو كچھ وارد ہے وہ كسى پر مخفى نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

كہہ ديجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو پھر ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) كى پيروى و اتباع كرو، اللہ تعالى تم سے محبت كرنے لگے گا، اور تمہارے گناہ معاف كر دے گا
آل عمران 31 

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

جو تمہارے رب كى طرف سے تمہارى طرف نازل ہوا ہے اس كى اتباع اور پيروى كرو، اور اللہ تعالى كو چھوڑ كر من گھڑت سرپرستوں كى اتباع و پيروى مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو
الاعراف 3 

اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:

اور يہ كہ يہ دين ميرا راستہ ہے جو مستقيم ہے، سو اسى كى پيروى كرو، اور اسى پر چلو، اس كے علاوہ دوسرے راستوں كى پيروى مت كرو، وہ تمہيں اللہ كے راستہ سے جدا كرديں گے
الانعام 153 

اور حديث شريف ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ سب سے سچى بات اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر ہدايت و راہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ہے، اور سب سے برے امور اس دين ميں بدعات كى ايجاد ہے"

اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 )

اور مسلم شريف ميں روايت ميں ہے كہ:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے"

لوگوں نے جو بدعات آج ايجاد كرلى ہيں ان ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں ميلاد النبى كا جشن بھى ہے ( جسے جشن آمد رسول بھى كہا جانے لگا ہے ) اور يہ جشن كئى اقسام و انواع ميں منايا جاتا ہے:

كچھ لوگ تو اسے صرف اجتماع تك محدود ركھتے ہيں ( يعنى وہ اس دن جمع ہو كر ) نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كا قصہ پڑھتے ہيں، يا پھر اس ميں اسى مناسبت سے تقارير ہوتى اور قصيدے پڑھے جاتے ہيں.

اور كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو كھانے تيار كرتے اور مٹھائى وغيرہ تقسيم كرتے ہيں.

اور ان ميں سے كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يہ جشن مساجد ميں مناتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اپنے گھروں ميں مناتے ہيں.

اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اس جشن كو مذكورہ بالا اشياء تك ہى محدود نہيں ركھتے، بلكہ وہ اس اجتماع كو حرام كاموں پر مشتمل كر ديتے ہيں جس ميں مرد و زن كا اختلاط، اور رقص و سرور اور موسيقى كى محفليں سجائى جاتى ہيں، اور شركيہ اعمال بھى كيے جاتے ہيں، مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنا، اور انہيں پكارنا، اور دشمنوں پر نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے مدد مانگنا، وغيرہ اعمال شامل ہوتے ہيں
--------------------------------------------------------------------------------



ميلاديوں کے چند شبھات اور اس کا ازالہ 

میلادی حضرات عید میلاد النبی کے تعلق سے اپنے زعم کے مطابق چند دلائل پیش کرتے ہیں اور کچھ شبہات کا اظہار کرتے ہیں ذیل کے سطورمیں انہیں شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے
(١) اگر عید میلاد النبی ۖ منانا غلط اور بدعت ہے تو پھر ہندوستان ،پاکستان،بنغلادیش اور دیگر ممالک میں لاکھوں مسلمان کیوں مناتے ہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثریت کا اسلام میں اعتبار نہیں بلکہ حق وباطل کا معیار اور کسوٹی کتاب وسنت ہے پس اگرہزاروں آدمی کتاب وسنت کے خلاف کر رہے ہوں اور صرف ایک آدمی اللہ کی کتاب اور نبی ۖ کی سنت کے مطابق عمل کررہا ہو تو وہ ایک آدمی صحیح اور حق پر ہے .دیکھئے اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام سے متعلق فرمایا(ان ابراہیم کان أمة قانتا للہ حنیفا ولم یک من المشرکین)٫٫ بیشک ابراہیم علیہ السلام ایک امت اور اللہ تعالی کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے ، وہ مشرکوں میں سے نہ تھے،، (سورئہ نحل :١٢٠) 
اسی طرح یہود ونصاری کا اپنی اکثریت کی دلیل پیش کرنے کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اپنے نبی ۖ کو خطا ب کرکے فرمایا( وان تطع أکثر من فی الأرض یضلوک عن سبیل اللہ )٫٫اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں،،(سورئہ انعام :١١٦).
ایک دوسر ے مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے(وما أکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین)٫٫آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں،،(سورئہ یوسف:١٠٣)
(وما یؤمن أکثرہم باللہ الا وہم مشرکون )٫٫ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں،،(سورئہ یوسف:١٠٦)
معلوم یہ ہوا کہ حق وباطل کا معیار ،دلائل وبراہین ہیں،لوگوں کی اکثریت واقلیت نہیں،اسلئے یہ کہنا کہ٫٫ اتنے سارے لوگ عید میلاد النبیۖ مناتے ہیں یہ کیسے غلط ہوسکتا ہے؟ ،، درست نہیں.
(٢) حق وباطل کا معیار جب کتاب وسنت ہے تو ہمارے ملکوں میں اتنے بڑے بڑے علماء ہیں کیا وہ قرآن اور حدیث نہیں پڑھتے ہیں؟کیا ان کے پاس کتاب وسنت کا علم نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یقینا ہمارے ملکوں میں بڑے بڑے علماء ہیں جو قرآن وحدیث پڑھتے اورپڑھاتے ہیں مگر وہ انبیاء کی طرح معصوم عن الخطاء نہیں ہیں 
ان سے بھی قرآن وحدیث کے سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے اسی لئے تو امام مالک نے مسجد نبوی میں حدیث کا درس دیتے وقت نبی اکرم ۖکی قبر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
٫٫کہ دنیا میں بڑے سے بڑے عالم کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی سوائے اس قبر والے کے ،،.
(٣) ہمارے ملکوں میں علماء کرام کہتے ہیں کہ عید میلاد النبی ۖمنانا بدعت نہیں بلکہ مستحب ہے اور اس عمل کے لئے قرآن وحدیث سے بے شماردلائل پیش کرتے ہیں، اور جب حق وباطل کا معیار دلائل اور براہین ہی ہیں تو پھر وہی لوگ حق پر ہیں کیونکہ ان کے پاس دلائل ہیں !؟ 
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے (کل حزب بما لدیہم فرحون )٫٫ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر خوش ہے ،،(سورئہ مؤمنون:٥٣).
آئیے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دلیل کس کو کہا جاتا ہے ؟ دلیل یہ عربی کا لفظ ہے اور ٫٫دَلَّ،، سے ماخوذ ہے جسکا معنی ہے مرشد یعنی رہنمائی کرنے والا،اب میں یہاں ان تمام قرآنی آیات کا ترجمہ جناب احمد رضا صاحب کے ترجمہ وتفسیر سے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جنہیں میلادی لوگ بطور دلیل پیش کرتے ہیں :
(١)٫٫عیسی بن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پرآسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی،،(سورئہ مائدہ:١١٤)
(٢)٫٫اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو ،،(سورئہ آ ل عمران :١٠٣)
(٣) ٫٫اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ،،(سورئہ ضحی:١١)
(٤)٫٫بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ،،(سورئہ آل عمران :١٦٤)
(٥) تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسکی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ،،(سورئہ یونس:٥٨)
یہ ہیں میلادیوں کی قرآنی دلیلیں جنہیں وہ چینخ چینخ کر اور گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنے بھولے بھالے عوام کو سنا تے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں ،قارئین کرام !دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ کیا اللہ نے ہم مسلمانوں کو ان آیتوں میں ٫٫عید میلاد النبیۖ،، منانے کا حکم دیا ہے ؟اور کیا اس نے ہمیں وہ سب چیزیں کرنے کا حکم دیا جو آج ہمارے معاشرے میں عید میلاد النبی کے نام پر ہوتا ہے ؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا ،تو پھرکہیں کمانے کھانے کیلئے ان آیتوں کا سہارا تو نہیں لیا جارہا ہے ؟؟؟؟
لاکھوں احادیث رسول میں میلادیوں کو اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہ ملی تو اس روایت کو بطور ثبوت انہوں نے پیش کیا:
اور عروہ نے کہا ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی ،ابو لہب نے اس کو آزاد کردیا تھا اور اس نے آنحضرتۖ کو دودھ پلایا تھا،جب ابولہب مرگیا تواس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے، کیا گزری ؟وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملامگر ایک ذرا سا پانی ،ابو لہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے ،یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کردیا تھا،،(صحیح بخاری کتاب النکاح باب:٢٠ حدیث :٥١٠١) 
اس روایت سے عید میلاد النبی کے لئے استدلال کرنا کئی اعتبار سے غلط ہے:
(١) اس روایت میں محض ایک خواب کا ذکر ہے اور اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیاء ورسل (علیہم السلام) کے خواب کے علاوہ کسی کابھی خواب قابل حجت نہیں اور اس سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا .
(٢) امام بخاری نے ضمنی طو رپر اس واقعہ کو ذکر صرف اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کیاہے کہ ثویبہ یہ آپۖ کی رضاعی ماں تھی،اسی لئے انہوں نے یہ باب باندھاہے باب ٫٫ وأمہاتکم اللاتی أرضعنکم،، اور تمہاری رضاعی ماؤں کا باب.
(٣) اس واقعہ میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ابولہب نے نبی کی پیدائش کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کیا تھا بلکہ تاریخ کی دیگر کتابوں میں یہ وضاحت موجود ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت کرجانے کے بعد آزاد کیا تھا (دیکھئے الطبقات ج/١٠٨۔١٠٩،الاستیعاب ج١/١٢)
(٤) امام بخاری نے اس واقعہ کو عید میلاد النبی کے ثبوت کے لئے ذکر کیا ہے اورنہ ہی شارحین صحیح بخاری میں سے کسی نے اس واقعہ سے میلاد کیلئے استدلال کیا ہے .
(٥)یہ خبر ظاہر قرآن کے خلاف ہے ، ارشاد باری تعالی ہے (وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجعلناہ ہباء منثورا)٫٫اور انہوں نے جو جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کرانہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا،،یعنی کافروں کے عمل قیامت کے دن ذروں کی طرح بے حیثیت ہوں گے.(سورئہ فرقان:٢٣) 
(٦)بعض روایت کے مطابق یہ خواب عباس نے دیکھا ہے ،اور ابولہب غزوئہ بدر کے سا ت دن بعد مرگیا،اور عباس غزوہ بدر میں مشرکین قیدیوں میں سے تھے،فدیہ کے بعد وہ مکہ واپس ہوئے اور وہاں انہوںنے اسلام قبول کیا ،قرینہ یہ بتلارہا ہے یہ خواب عباس کے حالت کفر کا ہے اور ایک کافر ومشرک کا خواب قابل اعتبار نہیں .
(فتح الباری ج١/١٤٥۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج٣/٥١١)
(٧) اگر ما ن بھی لیاجائے کہ ابو لہب نے نبی کی ولادت کے دن اسے آزاد کیا تھا توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابولہب نے اپنے بھتیجے محمد بن عبد اللہ کی پیدائش کی خوشی میں لونڈی آزاد کی تھی یا محمد رسول اللہ کی پیدائش پر ؟ظاہر ہے اس نے رسول اللہ کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد نہیں کیا تھا ،ورنہ وہ اسلام دشمنی میں سب کوپیچھے نہ چھوڑتا ،اورآج ہمارے مسلم بھائی قربت الہی کیلئے اس کے اس عمل کو دلیل بناکر خوشی مناتے ہیں ،کیا دونوں میں فرق نہیں ہے ؟
(٨)اگر مان بھی لیا جائے کہ ابو لہب نے یہ عمل اجروثواب اور قربت الہی کیلئے کیا تھا (اور یہ محال ہے )تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٫٫عید میلاد النبی ،،مناناملعون ابو لہب کی سنت ہے نہ کہ پیارے نبیۖ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی.اور ہم مسلمانوں پر ایک ملعون کافر ومشرک کی اتباع حرام ہے .
اللہ تعالی ھم سب مسلمانوں کتاب وسنت کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین۔

5 تبصرہ جات:

  • February 5, 2012 at 8:49 AM
    Anonymous :

    جزاک اللہ خیراً بھائی

  • February 5, 2012 at 1:08 PM

    عید میلاد النبی ﷺ کےمقدس موقع پر کشمیر کا دن بھی وقوع ہو چکا ہے اس سال اللہ تعالٰی سے دعاہے کہ کچھ ایسا انتظام ہو سکے کےکشمیریوں کی زندگیوں کا کوئی اہم فیصلہ ان کی منشاء کے مطابق ہو سکے اور سالوں سے جاری خوں ریز کھیل اختتام کو پہنچے
    ہمارے حکمرانوں نے اسے کبھی سنجدگی سے نہ لیا ہے اور شائد نہ کبھی لینے کا ارادہ بھی ہے
    اقوام متحدہ بھی اس معاملہ کو ختم کرنے کی نہیں سوچ رہی
    اللہ کشمیری مسلمانوں کی زندگی آسان فرمائے
    اور انہیں بھی دیگر اقوام کی مانند حقوق حاصل کرنے کیو توفیق عطا فرمائے

    آمین

  • February 5, 2012 at 8:18 PM

    کشمیر کا معاملہ ایسے ہی رہے گا جب تک کوئی ملخص حکمران نہیں آ جاتا
    کشمیر میرا پسندیدہ علاقہ ہے میں کشمیر میں کافی عرصہ گزار چکا ہوں۔

  • January 6, 2014 at 9:51 AM

    اللہ تعالٰی ہمیں اپنا اور اپنے نبی کریم کا عشق عطا فرمائے.
    جشن آمد رسول
    اللہ ہی اللہ

  • August 27, 2017 at 4:18 PM

    جناب قرآن کہتا ہے ،،،تَبَّتۡ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ

    ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہو گیا وہ
    اگر ابو لہب نے لونڈی ثوبیہ کو آزاد کیا تھا اور بخاری میں لکھا ہے کہ وہ اپنی انگلی کو چوس کر آرام پاتا ہے جبکہ قرآن ثابت کر چکا ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ چکے تو پھر بھی قرآن کی نہ ماننا اور گھڑی ہوئی حدیث ماننا بہت بڑی جہالت ہے

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔