Monday, January 30, 2012

ابھی آیا ہوں امریکہ میں پاکستانی بیچ کر

0 تبصرہ جات

شعر کی صورت میں اپنی راجدھانی بیچ کر

دو۲ نوالے ہی ملے آنکھوںکا پانی بیچ کر


اپنی بڑھی ماں کی خاطر ایک بیٹی شہر سے
لے کے آئی ہے دوا، مگر اپنی جوانی بیچ کر


سچ کہاں لکھے گا میرے دور کا تاریخ دان
جب وہ اپنا پیٹ بھرتا ہے کہانی بیچ کر

پوچھا جو میں نے حکمراں کی امیری کا سبب
ملا جواب! ابھی آیا ہوں امریکہ میں پاکستانی بیچ کر

Wednesday, January 25, 2012

وحدتِ اُمت کے بنیادی اصول

0 تبصرہ جات

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم
وحدتِ اُمت کے بنیادی اصول
بھائیوں اور بہنوں اس مضمون میں کچھ باتیں سخت بھی ہیں لیکن ان کے بغیر بات واضح کرنا مشکل تھا اس امت کی وحدت وقت کی اہم اور بنیادی ضرورت ہے ہم قرآن و صحیح حدیث کے علاوہ تیسری کسی بھی چیز پر کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتے۔
اگر کسی بھائی بہن کو میری کوئی بات اچھی نہ لگے یعنی قرآن و سنت کے خلاف لگے تو مجھے سمجھائے کیونکہ میں کوئی عالم نہیں ہوں بس اسلام کا ایک طالب علم ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا
اب مضمون کی طرف آتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٠٢؁وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔اور تم سب مل کر حبل ِاللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو۔
(سورۃآلِ عمران۔۱۰۳)
اللہ تعالیٰ نے تمام اہل ایمان کو مرتے دم تک صرف مسلم (فقط اللہ کے اطاعت گذار) رہنے کا حکم دینے کے ساتھ حبل اللہ یعنی کتاب اللہ کی بنیاد پر وحدت میں ڈھلے رہنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مومنین کوباہم وحدت کاحکم دیا ہے توساتھ وحدت کے اُصول بھی بتائے ہیں جن میں سے درج ذیل اُصول ’’بنیادی اُصولوں‘‘ کے طور پرسامنے آتے ہیں۔
وحدت اُمت کاپہلا اُصول
صرف اللّٰہ کی عبادت کرنا
اوراس کے لئے صرف اللّٰہ کے دین
کی ’’خالص اتباع ‘‘ کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ ﴿﴾
وَ تَقَطَّعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ ﴿﴾

درحقیقت تمہاری یہ اُمت ’’اُمت ِواحدہ‘‘ ہے اور میں تمہارارب ہوں پس تم صرف میری ہی عبادت کرومگر انہوں نے اپنے اس امرکو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، آنا سب کو ہماری طرف ہی ہے ۔
(سورۃ الانبیاء ۔۹۲،۹۳)
آیت سے واضح ہوتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی بناپر سب لوگ ایک ہی اُمت تھے لیکن جب اُنہوں نے اس امرکو توڑدیا اور غیراللہ کی بھی عبادت میں مبتلاہوئے تو اپنے اپنے الٰہ غیراللہ کے پیچھے الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ کی کتاب سے اہل ِ ایمان کو اُن کی وحدت کا پہلا بنیادی اُصول یہ سامنے آتا ہے کہ ہر طرح کی عبادت صرف اللہ ہی کی اختیار کی جائے اوراس کے لئے ’’ اتباع ‘‘ بھی خالصتاً اللہ کے نازل کردہ دین اسلام یعنی ’’قرآن وسنت‘‘ہی کی اختیار کی جائے اوراس کے ساتھ غیراللہ کی اتباع(اللہ کے ساتھ شرک)کو شامل نہ کیا جائے۔ اس اُصول کو توڑنے کا نتیجہ اُمت میں تفرق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
انسان جب اتباع (اطاعت وپیروی )خالصتاًصرف اللہ کے دین ہی کی اختیار کرتے ہیں تواس اتباع (جوکہ بنیادی عمل ِعبادت ہے)میں دیگرہرطرح کی عبادت بھی صرف اللہ کے لئے اختیار کرتے ہیں یوں عبادت کے حوالے سے اُن کی وحدت کااہتمام ہوتا ہے اور وہ تفرق سے بچتے ہیں لیکن جب وہ اللہ کے دین کی اتباع کے ساتھ ساتھ غیراللہ کے ادیان (اللہ کی وحی کی دلیل سے عاری اُصول،فلسفے ، نظریے ،ازم ،قانون ، فہم وفقہ ِدین ،طریقہ زندگی وغیرہ) کی اتباع کاتفرق اختیار کرتے ہیں تو غیراللہ کی اتباع میں دیگراعمال ِ عبادت(مثلاً رکوع،سجدہ،پکار ،دعا، نذر، نیازوغیرہ) بھی مختلف غیراللہ کے لئے کرنے لگ جاتے ہیں اور جن کی اتباع (عبادت) اختیار کرتے ہیں اُس کے پیچھے متفرق بھی ہوجاتے ہیں جیسا کہ آج کل افرادِ اُمت کی حالت ہے ۔
آج بعض لوگ دعویٰ ِ ایمان کے بعدخالصتاً’’کتاب وسنت کی اتباع ‘‘اختیارکرکے خالص’’ مسلم ‘‘بن کر رہنے کی بجائے غیراللہ کے وضع کردہ سیکولرازم کی اتباع اختیارکرکے سیکولر مسلم بن بیٹھے ہیں،بعض کیمونزم اورسوشلزم کی اتباع اختیار کرکے کیمونسٹ مسلم اور سوشلسٹ مسلم بن چکے ہیں، بعض جمہوریت کی اتباع اختیار کر کے جمہوری مسلم بن گئے ہیں ، بعض آئمہ کے فہم وفقہ کی اتباع اختیار کرکے سلفی مسلم، مالکی مسلم، شافعی مسلم، حنبلی مسلم اور حنفی مسلم بن گئے ہیں یوں اللہ کے دین میں غیراللہ کی اتباع کاتفرق اختیار کرکے فرقوں میں بٹ کر اُمت کو بدترین تفرق میں مبتلا کرچکے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
اِنَّآاَنْزَلْنَآاِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِاللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ ﴿﴾
اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط

یقینا ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں دین کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار !اللہ تعالیٰ کیلئے (قابلِ قبول) صرف دین ِ خالص ہے۔
(سورۃ الزمر۔۲،۳)
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَا طِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَبِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴿﴾
اور (کہیے) کہ یہی(قرآن) ہے میری راہ جو سیدھی ہے سو اسی پر چلو اور مت چلو (دوسرے) راستوں پر کہ تمہیں اُس کی راہ سے ہٹا کر متفرق کر دیں گے۔یہ وہ باتیں ہیں جن کی تم کو اللہ نے ہدایت کی ہے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
(سورۃالانعام۔۱۵۳)
وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ Ć۝ۭوَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ Ĉ۝ۭاور نہیں تفرق میں پڑے وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی مگر بعد اس کے کہ اُن کے پاس واضح احکام آگئے تھے، اور اُنہیں یہی حکم دیا گیا تھا کی اللہ ہی کی بندگی کریں دین کو اُس کے لئے خالص رکھتے ہوئے، ہر طرف سے کٹ کر، یکسو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی سیدھا دین ہے۔
(۹۸: البیّنۃ۔۴،۵)
فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَاط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ا لدِّیْنُ الْقَیِّمُ لا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَا لنَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴿﴾مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَ ا تَّقُوْہُ وَاَقِیْمُواالصَّلٰو ۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴿﴾لا مِنَ ا لَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ کَا نُوْا شِیَعًا ط کُلُّ حِزْبٍ م بِمَالَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ﴿﴾
پس ہر طرف سے کٹ کر یکسو ہو کر اپنا رُخ اس دین(قرآن وسنت )کی سمت قائم کردو۔(قائم ہو جاؤ) اس فطرت(اسلام) پر جس پر اللہ نے انسانوں کوتخلیق کیا،اللہ کی بنائی ہوئی ساخت تبدیل نہیں ہو سکتی ،یہی دین ِقیَم ہے لیکن لوگوں کی اکثریت کو پتہ نہیں ہے۔(قائم ہو جاؤ اس پر) اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے، اور اُس سے ڈرو اورصلوٰۃ قائم کرو اور نہ ہو جاؤ مشرکین میں سے ،اُن میں سے جنہوں نے اپنے دین میں تفرق اختیار کیا اور گروہوں میں بٹ گئے ، اب جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی پر وہ اِترا رہا ہے ۔
(۳۰: الروم۔۳۰․․․۳۲)
وحدت اُمت کادوسرا اُصول
اللّٰہ کی عبادت کے لئے
اللّٰہ کے دین کی ’’مکمل اطاعت ‘‘ کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی ا لسِّلْمِ کَآ فَّۃً ص وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴿﴾
اے ایمان والو ! تم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی مت کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
(سورۃ البقرہ۔۲۰۸)
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَا نُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَی ءٍ ط
جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا اور گروہوں میں بٹ گئے ان کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں ۔
(۶: الانعام ۔۱۵۹)
اللہ کی عبادت کے لئے اللہ کے دین کی’’ مکمل اطاعت ‘‘کرنا وحدت اُمت کا دوسرا اُصول ہے، جبکہ کتاب اللہ کی بعض باتوں کو ماننااوربعض کا انکار کرنا دین میں واضح تفرق اختیارکرناہے مثلاًاللہ پر ایمان لانا مگررسول اللہﷺ پرایمان سے انکار کردینا یا اللہ اور رسول اللہ ﷺ پرایمان لانامگرصلوٰۃ چھوڑ دینا یا صلوٰۃ قائم کرنامگر زکوٰۃ سے انکار کردینا اسی طرح دعوت ِ دین دینا مگر جہاد سے انکار کردینا یا جہاد کرنا مگر امامت ِ شرعی سے انکار کردینا وغیرہ۔ بعض لوگ جب اللہ تعالیٰ کے بقیہ احکامات کوچھوڑ کر کسی ایک حکم کے پیچھے لگ جاتے ہیں تودین میں اس تفرق کے نتیجے میں اُمت میں تفرق کا باعث بنتے ہیں جیساکہ آج کل ہے کہ مثلاًبعض لوگ صرف دعوت وتبلیغ کا کام اختیار کرنے کی بناپر مختلف امیروں کی قیادت میں تبلیغی جماعتیں بنائے ہوئے ہیں اور بعض لوگ صرف جہاد کرنے کی بناپرالگ الگ امیروں کی قیادت میں جہادی پارٹیاں بنا ئے ہوئے ہیں اسی طرح سے دین کے ہر حکم پر الگ پارٹی کے سلسلے میں اُمت میں پارٹیوں کی انتہا نہیں ہے جبکہ اللہ کے دین میں اُمت کی وحدت کا نشان امام ِ شرعی ’’خلیفہ‘‘ دین کے تمام احکامات کونافذ کرنے کا اکیلاذمہ دار ہوتاہے۔ اس سے پہلے اہل ِکتاب بھی دین میں اسی طرح کا تفرق اختیارکرنے کی بناپر اُمت کومتفرق کرنے کا باعث بنے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
وَقُلْ اِنِّیْ ٓ اَنَا ا لنَّذِیْرُالْمُبِیْنُ﴿﴾ کَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ ﴿﴾
الَّذِیْنَ جَعَلُوا ا لْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ ﴿﴾ فَوَرَبِّکَ لَنَسْئَلَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ﴿﴾عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴿﴾
اور کہو کہ بے شک میں صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں جیسی( تنبیہ)ہم نے اُن تفرقہ پردازوں کی طرف بھیجی تھی جنہوں نے (اپنے ) قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا تھا۔پس قسم ہے تمہارے رب کی ہم ضرور باز پرس کریں گے ان سب سے ان کاموں کی جو وہ کرتے رہے ہیں۔
(۱۵: الحجر۔۸۹․․․۹۳)
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ ا لْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَیَوْمَ ا لْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط وَمَااللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴿﴾
کیا تم کتاب کے بعض حصوں کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو۔ تو جو ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا میں ذلیل و رُسوا کیا جائے اور آخرت میں سخت ترین عذاب کی طرف پھیر دئیے جائیں۔اور اللہ ان باتوں سے غافل نہیں ہے جو تم کرتے ہو۔
(سورۃ البقرہ۔۸۵)
وحدت اُمت کاتیسرا اُصول
اللّٰہ کی عبادت کے لئے
صرف محمد ﷺ کا طریقہ اختیار کرنا
اور صرف آپ کے بتائے ہوئے امام کی اقتداء اختیار کرنا
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے ارشادات ہیں کہ!
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُ ﴿﴾
(اے نبیﷺ) کہہ دیجیے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو،اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کی مغفرت کرے گا۔وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔
(سورۃآل عمران ۔۳۱،۳۲)
اِنَّ اَصْدَقَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَاَحْسَنَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍﷺ وَ شَرُّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٍ وَکُلُّ بِدْعَۃٍضَلَالَۃٌ وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ
سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے سب سے بہترین طریقہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بری چیزیں نئی باتیں ہیں، ہر نئی بات بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے ، اور ہرگمراہی آگ میں جانے والی ہے۔
(النسائی:کتاب صلاۃ العیدین۔جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ )
کَانَتْ بَنُوْ ا اِسْرَائِیْلَ تَسُوْ سُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہ‘ نَبِیّ ٌ وَ اِنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَآءُ
بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا تو اس کے بعد نبی ہی آتا تھا، میرے بعد کوئی نبی(اُمت کی سیاست کاذمہ دار) نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے۔
(بخاری: کتاب احادیث الانبیاء۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
اِنَّمَا الْاَمَامُ جُنَّۃٌ یُّقَاتَلُ مِنْ وَّرَآئِہٖ وَیُتَّقٰی بِہٖ
امام (خلیفہ)ڈھال ہے اسی کی قیادت میں قتال کیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ دفاع کیا جاتا ہے۔
( بخاری:کتاب الجہاد و السیر ۔ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
اللہ کی عبادت صرف محمدرسول اللہﷺ کے طریقے (سنت ِنبی ﷺ)پر اورصرف آپ ﷺ کے بتائے ہوئے امیروامام (خلیفہ)کی اقتداء میں کرنااُمت کی وحدت کاتیسرا اُصول ہے ، جب تمام افرادصرف محمدﷺ کے طریقے پر اور صرف آپﷺ کے بتائے ہوئے امیروامام کی اقتداء میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو مجتمع رہتے ہیں لیکن جب وہ اللہ کی عبادت کے نئے نئے طریقے(بدعات )اختیار کرتے ہیں اورالگ الگ امیروامام بناتے ہیں تو اپنے اپنے طریقے اوراپنے اپنے امیروامام کی اقتداء میں متفرق ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کے لئے فقط محمدرسول اللہ ﷺ کی سنت کا پابند کیا ہے وہیں اعمال ِعبادت(مثلاًصلوٰۃ ، دعوت ، جہاد) کی امامت کے لئے فقط مسلمین کے امام یعنی ’’خلیفہ‘‘ سے لازماًوابستگی پابند کیا ہے اور اہل ِتفرق گروہوں اوراماموں سے اعتزال کا حکم دیا ہے ۔ نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ
مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَ مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَاْیَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَِغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْ یَدْعُوْا اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ
جو شخص (خلیفہ کی )اطاعت سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے اور مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا۔ جو شخص اندھا دھند ( اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی گروہ کے لئے غضب ناک ہو ، یاگروہ کی طرف دعوت دے یا گروہ کی نصرت کرے اور قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے۔
(مسلم:کتاب الامار ہ۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ قُلْتُ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَھُمْ جَمَاعَۃٌ وَلَٓا اِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّھَا وَلَوْ اَنْ تَعَضَّ بِاَصْلِ شَجَرَۃٍحَتّٰی یُدْرِکَکَ الْمُوْتُ وَ اَنْتَ عَلٰی ذٰلِکَ۔
مسلمین کی جماعت اور ان کے امام(خلیفہ)( سے وابستگی ) کو لازم پکڑنا، میں نے عرض کی اگر ان کی جماعت اور امام نہ ہوں تو؟ فرمایا : تو ان سب فرقوں سے الگ ہوجانا ، چاہے تمہیں درخت کی جڑیں کیوں نہ چبانی پڑ جائیں تا آنکہ تجھے موت آ جائے اور تمہاری وہی حالت ہو۔
( بخاری: کتاب الفتن۔حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ )
افراد ِ اُمت جب تک اہل تفرق گروہوں اوراماموں سے وابستہ رہیں گے دین اور اُمت کے تفرق میں مبتلا رہیں گے مگر جب وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی اطاعت میں دین میں اہل ِتفرق گروہوں اور اماموں سے الگ ہو جائیں گے تو یہ اُمت کی وحدت کی طرف اُن کا پہلا قدم ہوگا، اس کے بعدمسلمانوں کے امام سے لازماًوابستہ ہونے کے حکم ِرسولﷺ کی اطاعت اور اللہ کی عبادت کے اجتماعی اعمال کی امامت کے لئے صرف شرعی امام کی ضرورت انہیں مسلمانوں کے شرعی امام ’’خلیفہ ‘‘کی تلاش پرمجبورکردے گی پھران سب کو خلیفہ کی بیعت واطاعت میں باندھ کراللہ کی مطلوب وحدت میں ڈھال دے گی اِن شاء اللہ۔
٭٭٭

Friday, January 20, 2012

طاغو ت سے کفرواجتناب

0 تبصرہ جات


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم
طاغو ت سے کفرواجتناب
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ٢٥٦؁
اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٥٧؁ۧ

دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے الگ واضح کر دی گئی ہے پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا وہ ایک مضبوط سہارے سے یوں وابستہ ہو گیا کہ کبھی اس سے جدا کیا جانے والا نہیں ہے اور اللہ سنتا وجانتا ہے۔ اللہ ان کا ولی ہو جاتا ہے جو ایمان لے آتے ہیں ،وہ اُنہیں اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لے آتا ہے۔ اور جو انکار کرتے ہیں طاغوت ان کے ولی ہوتے ہیں جو انہیں روشنیوں سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں ۔ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ 

(۲: البقرہ ۔۲۵۶،۲۵۷)

آیاتِ بالا سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کا مضبوط سہارا صرف اس شخص کو میسر آتا ہے جو طاغوت سے کفر کر نے ( طاغوت کو ردّ کرنے )کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے۔ اس سے’’طاغوت سے کفر کرنا‘‘ اللہ پر ایمان کی بنیادی اور اوّلین شرط قرار پاتا ہے، ایسا ایمان رکھنے والوں ہی کااللہ ولی(حامی وناصر،دوست وسرپرست) ہو جاتا ہے اور انہیں گمراہی کے اندھیر وں سے نکال کر نور ِہدایت میں لے آتا ہے ۔ اس کے برعکس اللہ پرایسا ایمان لانے سے انکار کرنے والوں(یعنی اللہ پر ایمان سے پہلے طاغوت سے کفرکرنے سے انکارکرنے والوں) کے ولی طاغوت ہی ہوتے ہیں جو انہیں نورِ ہدایت سے گمراہی کے اندھیروں میں کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ 

طاغوت !

طاغوت ’’ طغیٰ‘‘ سے ہے جس کا مطلب ہے حد سے تجاوز کرجانا، سرکش ہو جانا۔

اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى 17

یہ کہ تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے۔ سورۃ النازعات آیت نمبر ۱۷ 
اوپردرج آیت میں ’’ ہدایت کے گمراہی سے الگ واضح کر دیئے جانے‘‘ کی بات کہنے کے بعد کہا گیا ہے کہ ’’ پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا ․․․․․․۔‘‘ یہ بات واضح ہے کہ ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور اُس نے ’’کتابُ اللہ(قرآن مجید) اور سنت ِرسول اللہﷺ ‘‘ کی صورت میں لوگوں کی ہدایت کے لئے ’ ’برحق علم‘‘نازل کردیا ہواہے اور’’حق ‘‘کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اسے گمراہی قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ

قُلْ اِنَّ ھُدَى اللّٰهِ ھُوَ الْهُدٰى ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ١٢٠؁ تم کہہ دو کہ بے شک اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے۔ اور اگر کہیں اتباع کر لی تم نے ان کی اھواء کی اس کے بعد بھی کہ آچکا ہے تمہارے پاس’’ علم‘‘ (اللہ کی نازل کردہ ہدایت)تو تمہارے لئے اللہ سے (بچانے والا)کوئی دوست اور کوئی مددگار نہ ہو گا۔ 
(۲: البقرہ۔۱۲۰
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ښ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ 32؀

پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے؟ (۱۰: یونس۔۳۲
سورۃ بقرہ کی آیت ۲۵۶میں ہدایت و گمراہی کے حوالے سے اللہ(جس کی طرف سے ہدایت نازل کی گئی ہے) کے مقابل ذکر ہونے سے طاغوت ’’گمراہی‘‘پھیلانے والے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اُس کو یہ مقام معاملات ِ زندگی میں لوگوں کے سامنے اللہ کی نازل کردہ ہدایت کی بجائے اھواء پیش کرنے کی بناء پر ملتا ہے اور ایسا کرنے کی وجہ ہی سے وہ حد سے تجاوز کرنے والا(طاغوت) قرار پاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَ اِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآ ئِھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْن ﴿﴾
اوراکثرلوگ دوسروں کو ’’علم‘‘(اللہ کی نازل کردہ ہدایت) کی بجائے، اپنی اھواء کی بنا پر گمراہ کرتے ہیں۔بے شک تیرا رب ان حد سے تجاوزکرنے والوں(طواغیت) کو خوب جانتا ہے۔ 

(۶: الانعام۔۱۱۹)

اوپر درج آیت سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کی گمراہی کی وجہ طواغیت کی طرف سے پیش کردہ’’ اھواء‘‘ کی اتباع (اطاعت وپیروی) ہوتی ہے۔ کتاب و سنت سے ’’ اھواء‘‘مخلوق کی خواہش ومرضی،اس کے ظن وگمان اورہراُس بات کے طور پر سامنے آتی ہیں جوخالق کی نازل کردہ ہدایت کو چھوڑکر محض مخلوق کی خواہش ومرضی اور اس کے ظن وگمان سے اخذ کردہ ہوں اور محض اس کی ذہنی اختراع کی صورت میں ہوں۔ یوں ہر وہ شخص طاغوت قرار پاتا ہے جولوگوں کو اتباع کے لئے اللہ کی نازل کردہ ہدایت (کتاب و سنت)کی بجائے اپنی ’ ’اھواء ‘‘پرمبنی کوئی بات( حکم، قانون، فیصلہ، فتویٰ،فلسفہ ، نظریہ ،طریقہ و نظام ِزندگی وغیرہ)پیش کرے خواہ وہ والدین میں سے کوئی ہویا قبیلے کاسردارہو، ملک کا حکمران و سپہ سالار ہویا کوئی قانون ساز،جج و قاضی ہو ، کسی پارٹی کاسربراہ ہو یا علاقے کا سرپینچ ہو، عالم و مفتی ہو یاکوئی پیر و درویش ہو یا کوئی بھی اور ہو۔ 

شیطان: طاغوتوں کا سرغنہ

تمام طواغیت کا سرغنہ شیطان ہے کیونکہ وہی اپنے ان دوستوں (طاغوتوں)کی طرف گمراہ کن با تیں وحی کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں سے بحثیں کریں اورانہیں گمراہ کریں جیسا کہ سورۃ الانعام کی اوپر درج آیت ۱۱۹ کے ایک آیت بعد اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ

وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْھُم اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ﴿﴾

حقیقت یہ ہے کہ شیاطین اپنے ساتھیوں (حد سے بڑھنے والوں ؍طواغیت)کی طرف وحی کرتے ہیں تا کہ وہ تم سے بحثیں کریں لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو۔ (سورۃ الانعام۔۱۲۱

طاغو ت سے کفرواجتناب کا نتیجہ :

غیر اللہ کی بندگی (شرک)سمیت ہرگمراہی سے نجات ! 
اوپر درج آیت سے واضح ہوتا ہے کہ طواغیت کی اطاعت کرنے والا مشرک ہوجاتاہے اورذیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَهْوَاۗءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ 56؀

کہہ دو ! بے شک مجھے منع کیا گیا ہے اس سے کہ میں عبادت کروں ان کی جنہیں تم پکارتے ہو اللہ کے سوا۔ کہہ دو ! نہیں اتباع کروں گا میں تمہاری اھواء کی ، اگر ایسا کیا تو یقینا میں گمراہ ہو جاؤں گا اور نہ رہوں گا شامل ہدایت پانے والوں میں ۔ 

(۶: الانعام ۔ ۵۶)

آیت سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کسی غیراللہ کی بندگی(شرک) میں مبتلا ہوتا ہے مثلاًاللہ کے علاوہ کسی کو پُکارتا ہے، کسی کو سجدہ کرتا ہے وغیرہ تو وہ ایساکسی طاغوت کی اھواء کی اتباع(طاغوت کی عبادت) کی بنا پرکرتا ہے یوں طاغوت لوگوں سے اپنی اتباع (عبادت) کاشرک کروانے کے علاوہ دیگر غیراللہ کی عبادت کرانے کا بھی ذمہ دار بنتا ہے مگرجب انسان شیطان اوردیگر ہر طاغوت سے کفرواجتناب اختیار کرلیتا ہے تو اس کا یہ کفرواجتناب انسان کے لئے شرک سمیت ہر گمراہی سے بچنے کاباعث بنتا ہے ۔

طاغوت سے کفرواجتناب کرنے کی صورتیں

کتاب و سنت سے طاغوت سے کفرواجتناب کرنے کی درج ذیل صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں:
الف۔ طاغوت پر ایمان نہ رکھنا : یعنی طاغوت کو حکم، قانون، فیصلہ، فتویٰ،فلسفہ ، نظریہ ،طریقہ و نظام ِزندگی وغیرہ جاری کرنے کا حق دار نہ ماننااور اتباع کے قابل نہ ماننا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ!

اَلْمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ
وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓؤُلَآءِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاسَبِیْلًا﴿﴾ 
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ ط وَمَنْ یَّلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ نَصِیْرًا﴿﴾

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ سیدھے راستے پر ہیں ،ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے پھر تم اس کا کوئی حامی و مددگار نہ پاؤ گے۔ (۴: النساء ۔۵۱،۵۲)

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَا ٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ 
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط وَ یُرِیْدُ 
الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَللٰاًم بَعِیْدًا ﴿﴾

کیا آپ نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو آپ پر نازل ہوا ہے اور اس پر جوآپ سے پہلے نازل ہوا ہے مگر فیصلہ کروانے کے لیے طاغوت کے پاس جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انہیں راہ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی(شرک) میں لے جانا چاہتا ہے۔ 

(۴: النساء ۔ ۶۰)

ب۔ طاغوت کی عبادت سے اجتناب کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًااَنِ اعْبُدُوااللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ

ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ 

(۱۶: النحل۔ ۳۶)

طاغوت سے اجتناب کی روح حقیقت میں اس کی عبادت سے اجتناب کرناہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَ اَنَا بُوْ ٓا اِلَی اللّٰہِ لَھُمُ الْبُشْرٰی

اورجن لوگوں نے طاغوت سے اجتناب کر لیاکہ اُس کی عبادت کریں اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔ 

(۳۹: الزمر۔ ۱۷)

’’طاغوت کی عبادت ‘‘بنیادی طور پرطاغوت کے ایسے احکامات، قوانین، فیصلوں، فتووں، فلسفوں، نظریات اور نظام ہائے زندگی وغیر ہ‘‘ کی اتباع (اطاعت و پیروی)ہوتی ہے جو اُس نے اللہ کی نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی اھواء سے جاری کئے ہوں، اس لئے طاغوت کی عبادت سے اجتناب بنیادی طو رپر طاغوت کی اھواء پرمبنی مذکورہ بالاچیزوں کی اتباع کرنے سے اور اس سے فیصلے کروانے سے اجتناب قرار پاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’طاغوت کی عبادت سے اجتناب کرکے اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہے‘‘ البتہ طاغوت اگر زور و زبردستی سے کسی مومن کو اپنی اھواء کی اطاعت پر مجبور کردے توایسے مومن کے لئے اللہ سے معافی کی امید ہے لیکن زورزبردستی کی حالت کے بغیر محض دنیا کے فائدے کی خاطرطاغوت کی اطاعت(طاغوت کی عبادت) اختیارکر لینے سے انسان اللہ کے غضب کا سزاوار ہو جاتا ہے ۔ اللہ کے ہاں انجام کے لحاظ سے سب سے بُرے لوگ طاغوت کے عبادت گذار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ

مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِِ وَلٰکِنْ 
مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اسْتَحَبُّوا
الْحَیوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ لا وَ اَنّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْن ﴿﴾

جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے اگر اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو اور دل اُس کا ایمان پرمطمئن ہو ۔ مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر قبول کیااس پر اللہ کا غضب ہے ۔ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے میں پسند کر لیا ہے اور یقینًا اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔

(سورۃ النحل ۔ ۱۰۶)
قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللّٰہِ ط مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَ غَضِبَ 
عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ ط اُولٰٓئِکَ شَرُّ
مَّکَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ﴿﴾

کہو کیا میں بتاؤں تم کو کہ کون زیادہ بُرے ہیں اِن سے بھی انجام کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک ، وہ جن پر لعنت کی اللہ نے اور غضب ٹوٹا اُن پر اور بنا دیا اُن میں سے بعض کو بندر اور سؤراور جنہوں نے طاغوت کی عبادت کی ۔ یہی لوگ بدتر ہیں درجہ میں اور زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں سیدھے راستے سے۔

(سورۃالمائدہ۔ ۶۰) 
طاغوت کی عبادت سے اجتناب
کے ساتھ اس سے تعلقات کی نوعیت

اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ 

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ ۭ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَيْكَ اَنَبْنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ

تمہارے لیے ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیاتھا کہ ہم تم سے اور ان سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ۔ 

(۶۰: الممتحنہ۔۴)
لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ Ď۝
اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ Ḍ۝

نہیں منع کرتا تم کو اللہ ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم اُن سے اچھا سلوک کرو اوران سے انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ البتہ منع کرتا ہے تم کو اللہ ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالااور مدد کی ایک دوسرے کی تمہارے نکالنے میں کہ تم ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں۔

(سورۃ الممتحنہ۔ ۸،۹)

Tuesday, January 17, 2012

جمہوریت ایک لعنت ہے اس سے بچیں

1 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم

دورے حاضرمیں انسانیت کیلئے دنیا کی سب سے بڑی لعنت "دین جمہوریت" ہے، جس کی اطاعت اور بندگی میں مشغول دین اسلام کے نام پر بنے ملک کے حکمرانوں کو گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے تنگ سڑکوں پر احتجاج اور گالیاں دیتے لوگ نظر نہیں آتے، جس کے پاس خود ...دنیا کا اٹھائیسوان بڑا گیس کا ذخیرہ ہے، لیکن یہان کے محکوم لوگوں کے چولھے ٹھنڈے ہو چکے ہیں، لیکن حکمران شکر ادا کررہے ہیں کہ جمہوریت بچ گئی، ایک کاغذ کے ٹکڑے (میمو سکینڈل) کی وجہ سے اپنے ہی ملک فوج اور حکومت ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہے، جس کو کرائےکا میڈیا موت کے کوئیں تک لے آیا ہے، لیکن حکمران شادیانے بجا رہے ہیں کہ جمہوریت بچ گئی، ساتھ ساتھ امریکا مارچ ، اپریل میں قبائلی علاقوں میں آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کی حمایت پر اس خطہ کی حالت بھی بغداد جیسی اور انکار پر کابل جیسی ہو جائے گی پر حکمران خوش ہیں کہ جمہوریت بچ گئی، سرکلر ڈیبٹ::سود:: کی ادائیگی ٣٠٠ ارب تک ہے، کسی بھی وقت مکمل بلیک آوٹ ہو سکتا ہے، جس کی بحالی کیلئے امریکا کے قدموں میں جھکنا پڑے گا، شاید جوہری پروگرام سے ہی ہاتھ دھونا پڑیں لیکن حکمران لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ جمہوریت بچ گئی، پی آئی اے، ریلوے،بند ہے کسی خطرے کی صورت میں آرمی ایک ایک جگہ سے دوسری جگہ رسد نہیں پھنچا سکتی، کارخانے، فیکٹریاں، بند ہیں، ملازمین تنخواہوں کے انتظار میں ہیں، ملکی پیداوار ختم ہو چکی ہے، پر ہمیشہ کی طرح لیڈران امریکا کے آگے سجدہ ریز ہیں کہ جمہوریت بچ گئی
"دین جمہوریت" انسان کو سکھاتا ہے کہ ہمیشہ در پیش مسائل کو ہمیشہ عقل اوراکثریت کی رائےسے حل ہونا ہے، پر انسان یہ نہیں سمجھتا کہ الله عزواجل ایک لاکھ سے زائد انبیاء اور شریعت کو اسی لیا بھیجا کہ انسان نہ سمجھ اور محدودعقل ہے، صرف الله عزوجل کی شریعت کی سب مسائل کا حل ہے، آج بھی انسان کی فلاح صرف دین اسلام کے نفاذ(خلافت) میں ہے نہ کہ جمہوریت (کفر) میں ...

اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں
(05:44)