Wednesday, November 23, 2011

شمشیریں بیچ کر خرید لیے مصلے تو نے

3 تبصرہ جات
شمشیریں بیچ کر خرید لیے مصلے تو نے
بیٹیاں لٹتی رہیں تم دُعا کرتے رہے
مگر اب ہماری مسلم بہنوں نے اپنے ہاتھوں میں تلواریں تھام لیں بھائیوں کی بے حسی دیکھتے ہوئے جو ہم مردوں کے لیئے لمحہ فکریہ ہے، آخر ہم کب تک ظلم کی چکی میں پستے رہیں گیں اور ہماری عزت مآب ماؤں، بہنوں اور بٹیوں کی بے حرمتی ہوتی رہے گی؟؟؟ 

آخر ہم کو کیا ہوگیا ہے ہم آپس میں متحد اور متفق کیوں نہیں ہوتے؟؟؟؟؟


عراق، افغانستان، کشمیر الغرض دنیا میں ہر جگہ اگر کوئی ظلم کی چکی میں پس رہا ہے تو وہ صرف مسلمان ہےکیا ہم لوگ بھول گے اپنے شاندار ماضی کو؟
یا ہمیں بھولا دیا گیا؟؟
یا ہم اپنا ماضی پسند نہیں کرتے؟؟؟
کہ جب ہم مسلم دنیا میں امن و آمان کے ساتھ ترقی کی زینیں چڑ رہے تھے اُس وقت ہم آپس میں متحد تھے ایک خلافت کے سائے میں ایک منظم زندگی بسر کر رہے تھے صرف ایک مظلوم لڑکی کی پکار پر ہزاروں میل کا سفر کرکے اُس مظلوم مسلم لڑکی کی مدد کو آئے تھےکیا وہ سب کچھ بھول گے؟؟؟

آج ایک نہیں ہزاروں مسلمان بزرگ اور نوجوان بہنیں ہمیں مدد کے لیئے پکار رہیں ہیں مگر ہم بے حسوں کی طرح اُن کی پکار پر لبیک نہیں کہہ رہے!!!!
اُس وقت ہم لاکھوں میں تھے تب تو ہم نے ایک مظلوم بہن کی مدد کی مگر آج ہم کڑوروں میں ہوتے ہوئے بھی ہزاروں ماؤں بہنوں کی مدد کیوں نہیں کر پارہے؟؟؟
اس کی اہم اور بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ 
ہم لوگ آپس میں متحد نہیں ہیں
سینکڑوں گرہوں میں بٹ چکے ہیں
پوری دنیا میں ایک ارب ساٹھ کڑور ہونے کے باوجود ہمارا اسلامی نظام حکومت یعنی خلافت کہیں بھی قائم نہیں ہے
ہم لوگ دنیا میں چند دن کی زندگی میں مگن ہو چکے ہیں
جہاد اور موت سے ڈرنے لگے ہیں
دنیا کی لالچ نے ہمیں دھوکے باز، جھوٹا، بددیانت اور بے ایمان بنا دیا ہوا ہے
یہ سب علامات ہیں ہماری پستی کی جب تک یہ موجود ہیں ہم ظلم کی چکی میں پستے ہی رہیں گے۔
اللہ کا بھی یہی قانون ہے کہ جو قوم خود اپنی حالت نہیں بدلنا چاہتی اللہ کی اُس قوم کی مدد نہیں کرتا۔

Sunday, November 20, 2011

دعائیں

0 تبصرہ جات






































Posted by Picasa

Wednesday, November 2, 2011

اذکار اور دعائیں مسنونہ

1 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
چھینک کی دعائیں























Wednesday, October 19, 2011

پانی اللہ کی عظیم نعمت اس کی قدر کریں

8 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم


اللہ نے جتنی بھی چیزیں پیدا کی ہیں ان سب کے کچھ نہ کچھ فوائد انسان ضرور حاصل کرتا ہے وہ حیوان و نباتات ہی کیوں نہ ہوں مگر ایک ایسی چیز بھی ہے جو انسان کی زندگی کے لیئے انتہائی اہم و لازم ہے اور ہم انسان اُسی نعمت کا اسراف بہت زیادہ کرتے ہیں اور وہ نعمت ہے پانی کی کہ جس سے انسان کی ابتداء کی گئی تھی


وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا


وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔

الفرقان:آیت:۵۴


مگر افسوس کہ ہم آج اس پیاری نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اس کو ضائع کرتے رہتے اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے تو یقیناً ہم اس کا بھی اسراف کرنا برداشت نہ کریں گیں جیسا منرل واٹر کو ضائع نہیں کرتے،آخر ایسا کیوں ہے کہ جو چیز ہمیں بغیر محنت اور پیسہ خرچ کیئے مل جائے ہم لوگ اس کی قدر نہیں کرتے؟؟؟؟ یہاں مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آگیا ہے کہ ہم لوگ کشمیر کی وادی میں ایسی جگہ پر تھےجہاں نزدیک نزدیک پانی موجود نہیں تھا بلکہ پانی لانے کے لیئے اچھا خاصہ مشکل سفر کرنا پڑتا تھا آپ لوگ یقین کریں ایک لوٹا پانی سے ہم تین تین ساتھی وضو کرتے تھے اور ایک دفعہ میرے ساتھ ایسا بھی واقعہ پیش آیا کہ میرا منہ خلق تک خشک ہوگیا تھا زبان ایسے محسوس ہوتی تھی جیسے لکڑی کی بنی ہوئی ہے وہ بہت تکلیف دے حالت تھی، گو کہ ان واقعات سے پہلے گھر میں بھی ابا جان پانی ضائع کرنے سے منع کرتے رہتے تھے مگر صحیح نصیحت ان واقعات کے بعد ہوئی، اصل میں ہم لوگ مفت کی نعمت کی قدر نہیں کرتےاگر وہی نعمت ہمیں روپے پیسے خرچ کرکے حاصل کرنی پڑےتو ہم کسی قیمت پر اس کو ضائع نہ کرتے۔

میں سمجھتا ہوں جس کو قیامت کے دن پر کامل یقین ہے وہ اس نعمت کا اسراف ہرگز نہیں کرئے گا کیونکہ اللہ نے قیامت کے دن ہر نعمت کے بارے حساب لینا ہے،

اللہ کا راشاد ہے کہ

ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ Ď۝ۧ


پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن ان نعمتوں کے بارے میں۔

التکاثر:۸


اور اسی آیت کی تفسیر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی (

ثُمَّ لَتُسْ َ لُنَّ يَوْمَى ِذٍ عَنِ النَّعِيْمِ) 102۔ التکاثر : 8) تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس دو ہی تو چیزیں ہیں پانی اور کھجور۔ پھر ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کاندھوں پر ہیں۔ نبی اکرم نے فرمایا یہ نعمتیں عنقریب تمہیں ملیں گی۔


جامع ترمذی:جلد دوم:باب: سورۃ تکاثر کی تفسیر


پانی کے اسراف کی ممانعت میں احادیث موجود ہیں مثلاً


وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ وَھُوَ یَتَوَضَّأُ فَقَالَ مَاھٰذَا السَّرَفُ یَا سَعْدُ قَالَ اَفِی الْوُضُوْءِ سَرَفٌ قَالَ نَعَمْ وَ اِنْ کُنْتَ عَلَی نَھْرٍ جَارٍ۔


عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضوء میں اسراف بھی کر رہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا " اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ " حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔" (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)


مشکوۃ شریف:جلد اول:باب:وضو کی سنتوں کا بیان


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔


سنن ابن ماجہ:جلد اول:باب:وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت


ان احادیث سے واضح ہوا کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے اور بےشک وضو دریا کے کنارے کیا جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم لوگ وضو کرتے وقت بھی بہت زیادہ پانی ضائع کرجاتے ہیں،


پانی ضائع کرنے کے چند مواقع



وضو سے پہلے مسواک کرتے وقت پانی کا نَل

::ٹوٹی:: کھلی رکھنا۔


ایک عضاء

::ہاتھ، منہہ، بازو،پاؤں::دھوتے وقت پانی کا ضرورت سے زیادہ بہانا۔

بعض صابن سے ہاتھ اور منہہ دھوتے ہیں تو صابن لگاتے وقت پانی کھُلا رکھنا۔
غسل کرتے وقت جب صابن لگایا جاتا ہے تو نَل کھُلا رکھنا۔


گھروں میں خواتین کے پانی ضائع کرنے کے مواقع


برتن دھوتے وقت پانی کا اسراف کیا کرنا۔
کپڑے دھوتے وقت پانی کا بلا وجہ اسراف کرنا۔
گھر کی صفائی کے وقت پانی کو بےتحاشہ استعمال کرنا۔


اجتماعی طور پر پانی ضائع کرنا


اللہ نے پاکستان کو ہر نعمت سے نواز رکھا الحمدللہ مگر ہمارے ذاتی مفاد پرست حکمران ان نعمتوں کو یا تو ضائع کر رہے ہیں یا ان کو صرف اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے تک ہی استعمال میں لا رہے ہیں، پاکستان میں پانچ بڑے دریا بہتے ہیں اگر یہ حکمران پاکستان اور عوام کے مفاد کو عزیز رکھتے ہوتے تو اب تک ایک قطرہ پانی بھی ضائع نہیں جانا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ گلگت اور کشمیر سے آنے والا پانی ہماری بےحسی پر روتا ہوا سمندر کی نذر ہو رہا ہے، ہمارے مفاد پرست حکمران اپنی تجوریاں تو عوام کے پیسے سے بھر رہے ہیں مگر ان سے آج تک ایک ڈیم نہیں بن پایا ہے، ہر آنے والا عوام کو انہی ڈیم کا سبزباغ دیکھاتا ہے مگر ان ڈیمز کو بناتا نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں زراعت کے شعبے کو بہت نقصان ہورہا ہے اور بجلی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


پانی کو اختیاط سے استعمال کرنے کی تدابیر


پانی لوٹا میں یا کسی اور برتن میں ڈال کر وضو کیا جائے تو پانی ضائع نہیں ہوتا۔
اگر نَل پر ہی وضو کرنا ہے تو نَل اُسی وقت کھولیں جب کسی عضو کو دھونا ہو اور جب دھل جائے تو نَل بند کردیں۔
مسواک اور سر کا مسح کرتے وقت نَل کو بند رکھیں۔
وضو کرتے ہوئے اگر صابن لگانا ہے تو صابن لگاتے وقت نَل کو بند رکھیں۔
گھر کی صفائی ہمیشہ بالٹی میں پانی ڈال کر کریں نَل کے ساتھ پائپ لگاکر صفائی کرنے سے پانی بہت زیادہ ضائع جاتا ہے۔
برتن دھوتے ہوئے ہمیشہ کا اصول بنانا جائے کہ صابن لگاتے اور برتن کو مانجتے وقت نَل کو بند رکھیں۔
اور یہی اصول کپڑے دھوتے وقت بھی اپنایا جائے تو پانی کے اسراف سے بچا جاسکتا ہے۔
اجتماعی طور پر اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیئے پاکستان میں ہر دریا پر کم از کم ایک ڈیم ضرور بنایا جائے۔
پھر ان شاءاللہ ہماری زراعت کے شعبے کو وافر پانی مل سکے گا اور بجلی کی کمی کو بھی پورا کیا جاسکے گا۔


اللہ ہم سب کو اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق دے اور نعمتوں کی ناقدری کرنے اور اس کو ضائع کرنے سے بچائے۔ آمین ثم آمین یارب العالم

Saturday, September 10, 2011

راہ حق پر قدم بہ قدم نکلے رب کے بھروسے پی ہم

0 تبصرہ جات
راہ حق پر قدم بہ قدم نکلے رب کے بھروسے پی ہم


آؤ دنیا کو بتلائیں ہم اک زندہ قوم ہیں

0 تبصرہ جات
آؤ دنیا کو بتلائیں ہم اک زندہ قوم ہیں
طرزِ عمل یہ دکھلائیں ہم اک زندہ قوم ہیں

Friday, September 9, 2011

ہم اہلِ جنوں کو ہر رُخ سے سو بار جہاں نے پرکھا ہے

0 تبصرہ جات
ہم اہلِ جنوں کو ہر رُخ سے سو بار جہاں نے پرکھا ہے


Friday, August 5, 2011

اللہ نہیں ہے خُدا

0 تبصرہ جات

اللہ نہیں ہے خُدا
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدْہ، وَ نَستَعِینْہ، وَ نَستَغفِرْہ، وَ نَعَوْذْ بَاللَّہِ مِن شْرْورِ انفْسِنَا وَ مَن سِیَّااتِ اعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہْ فَلا مْضِلَّ لَہْ وَ مَن یْضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہْ ، وَ اشھَدْ ان لا اِلٰہَ اِلَّا اللَّہْ وَحدَہْ لا شَرِیکَ لَہْ وَ اشھَدْ ان مْحمَداً عَبدہ، وَ رَسْو لْہ، ۔بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُسکی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اُسکا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُسکے رسول ہیں : اللہ کی توحید یعنی واحدانیت میں سے ایک اُسکے ناموں اور صفات کی واحدانیت ہے ، جِسے ''' توحید فی الاسماءِ و الصفات ''' یعنی ''' ناموں اور صفات کی توحید ''' کہا جاتا ہے ، اِس مضمون میں ''' توحید فی الاسماءِ و الصفات ''' یعنی ''' ناموں اور صفات کی توحید ''' کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک گھناؤنی غلطی کی نشاندہی کرنا چاہ رہا ہوں جِس کا شکار اُردو اور فارسی بولنے والے مسلمان ہو چکے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو کِسی تعصب کاشکار ہوئے بغیر صحیح بات سمجھنے قُبُول کرنے اوراُس پر عمل کرتے ہوئے اُسے نشر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں کے بارے میں حُکم دیتے اور تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا و لِلَّہِ الاسماءَ الحُسنیٰ فادعُوُہُ بھا وَ ذَروا الَّذین یُلحِدُونَ فی اَسمائِہِ سَیجزُونَ مَا کانُوا یَعمَلُونَ "اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں لہذا اللہ کو اُن ناموں سے پکارو اور جو اللہ کے ناموں میں الحاد ( یعنی کج روی ) کرتے ہیں اُنہیں ( اُنکے حال پر) چھوڑ دو ( کیونکہ ) بہت جلد یہ اپنے کئیے (ہوئے اِس الحاد )کی سزا پائیں گے" سورت الاعراف / آیت180 ، اور فرمایارَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرضِ وَمَا بَینَہُمَا فَاعبُدہُ وَاصطَبِر لِعِبَادَتِہِ ہَل تَعلَمُ لَہُ سَمِیّاً )( آسمانوں کا اور زمیں کا اور جو کچھ اِن کے درمیان میں ہے سب کا پالنے والا ( اللہ ہی ہے ) لہذا تُم (صِرف ) اُس کی ہی عِبادت کرواور اُس کی عِبادت کے لیے صبر اختیار کیئے رہو ، کیا تُم جانتے ہو کہ کوئی اُس کا ہم نام ہے؟ ) سورت مریم / آیت ٦٥ ،یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی ہم نام نہیں ، اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایسا نام نہیں جو اللہ نے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ بتایا ہو ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کے ناموں کو یاد کرنے اور اُنکے معنیٰ اور مفہوم کو جاننے کے لیے ترغیب دیتے ہوئے فرمایااِنَّ لِلَّہِ تِسعَ و تِسعُونَ اِئسماً مائۃً اِلَّا واحدۃ مَن احصَاھَا دَخَل الجنَّۃَ )( بے شک اللہ کے ننانوے نام ہیں ، ایک کم سو جِس نے ان ناموں کا احاطہ کر لیا ( یعنی اِنکو سمجھ کر یاد کر لیا اور اِن کے مُطابق عمل کیا ) وہ جنّت میں داخل ہو گیا ) صحیح البُخاری حدیث / 2736 ، 7392، اللہ تعالیٰ اپنے اچھے اچھے نام ہونے کی خبر دِی ہے اور اُن ناموں سے پکارنے کا حُکم دیا ہے ، اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے ناموں کوگِن گِن کر بتایا ہے کہیں بھی کوئی عددی نام نہیں ہے ، کوئی ''' خُدا '''' نہیں ، بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ ''' محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے ''' خُدا ''' ختم کر دئیے ۔ جی ہاں ، ''' خُدا ''' فارسیوں کا باطل معبود تھا ، جیسے ہندوؤں کا بھگوان ، اور فارسیوں میں بھی ہندوؤں کے بہت سے بھگوانوں کی طرح ایک نہیں تین ''' خُدا ''' تھے ، ایک کو وہ ''' خدائے یزداں اور خدائے نُور''' کہا کرتے تھے اور اِس جھوٹے مَن گھڑت معبود کو وہ نیکی کا خُدا مانتے تھے ، دوسرے کو وہ ''' خدائے اہرمن اور خدائے ظُلمات ''' اور اِس جھوٹے مَن گھڑت معبود کو وہ بدی کا خُدامانتے تھے ، اور تیسرے کو ''' خدائے خدایان ''' یعنی دونوں خُداؤں کا خُدا مانتے تھے ۔ آجکل ہمارےادیب اور شاعر حضرات ،بلکہ وہ لوگ جو دینی عالم کہلاتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو علماء کی صفوف میں ہوتے ہیں ، اُنکی تقریروں اور تحریروں میں اللہ کی بجائے ''' خُدا ''' کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اور اِس سے زیادہ بڑی غلطی یہ کہ معاملات کا ہونا نہ ہونا ، مرنا جینا ''' مشیتِ اللہ ''' کی بجائے ''' مشیتِ یزداں ''' اور ''' مشیتِ ایزدی ''' کے سپرد کر دیا جاتا ہے ، اور ''' بارگاہِ اللہ ''' کی بجائے ''' بارگاہِ ایزدی ''' میں فریاد کرنے کی تلقین و درس ہوتا ہے، ایک صاحب کی دینی کتاب میں تو رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ''' یزداں ''' کی بارگاہ میں دُعا گو دِکھایا گیا ہے ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے وقت یا اس کا ذکر کرتے وقت ان ناموں سے یاد کریں جو اس نے قرآن و حدیث میں بتائے ہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ کے نام کا ترجمہ ہے ''' خُدا ''' تو اُس سے پوچھنا چاہیئے مسلمانوں میں کون ایسا ہو گا جو اللہ کو اللہ کے نام سے نہیں جانتا ، اگر کوئی ہے بھی تو اُسے اللہ کی ذات کی پہچان کروانے کے لیے اُس کے ماحول و معاشرے میں پائے جانے والے معبود کے نام کے ذریعے اللہ کی پہچان کروانی چاہئیے یا اللہ کے نام سے ؟؟؟اِس فلسفے کے مطابق تو ، ہندوستان کے مسلمانوں کو اجازت ہونا چاہیئے کہ اللہ کو بھگوان کہیں ، اور انگریزی بولنے والے مسلمانوں کو اجازت ہونا چاہیئے کہ وہ اللہ کو (God)کہیں ، اور یہ خُدا سے بھی بڑی مصیبت ہے کیونکہ خُدا کی تو مؤنث نہیں لیکن (God) اور بھگوان کی مؤنث بھی ہوتی ہے ،اگر ترجمے والا فلسفہ درست مانا جائے تو پھر ہر علاقے کے مسلمان کو اپنے علاقے اور زبان میں اُس ہستی کا نام اللہ کے لیے استعمال کرنا درست ہو جائے گا جو اُس کے ہاں معبود یا سب سے بڑے معبود کے طور پر معروف ہے ، پھر اُس مسلمان کا اپنے اکیلے حقیقی اور سچے معبود اللہ کے ساتھ کیا ربط اور تعلق رہا ، اُس کی عبادات اور دُعائیں کہاں جائیں گی ؟؟؟ فاء عتبروا یا اولیٰ الابصار ::: پس عِبرت پکڑو اے عقل والو --------------------------------------
 اللہ تو معبودِ حق ہے نہیں ہے وہ خُدا ::: پھر اِسی پر ہی نہیں کِیا اُس قوم نے اِکتفاءاِک اہرمن ، خدائے ظُلمات یعنی خُدا شر والا ::: اللہ ہی خالق ہے خیر اور شر کا اکیلا و تنہاجو کچھ بھی ہوتا ہے ، ہوتا ہے بِمشیتِ اللہ ::: اللہ کو چھوڑ کر گر پُکارا جائے در بارگاہِ یزداںسُن ! بات کِسی اور کی نہیں فرماتا ہے خود اللہ ::: گر پُکارا کِسی اور نام سے تو اللہ نے دِیا حُکم الحاد کاخُدا تو معبودِ باطل تھا اِک قوم کا گَھڑا ہوا ::: اِس اِک کے ساتھ دو اور بھی رکھے تھے بَنادُوجا خُدائے نُور ، خُدا نیکی کا ، کہتے تھے اُسے یزداں ::: ہے ہر کام اُسکا خیر والا نہیں کرتا کام شر کاکیا ہو گی مشیتِ ایزدی ، جب کہ باطل ہے یزداں ::: کہاں جائے گی ؟ اور کیا قُبُول ہو گی وہ دُعاہیں اُسکے لیئے نام پیارے پیارے ، الاسما ءَ الحُسنیٰ ::: پس اِنہی ناموں سے عادِل تُو رہ اللہ کو پُکارتا
تحریر: عادل سہیل

تعویذ کی شرعی حیثیت

0 تبصرہ جات


بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نےیہ سب کائناتیں صرف چھ۶دن میں بنائیں اوراس عظیم ذات کوزرہسی بھی تھکن نہ ہوئی،اے اللہ تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں،اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔

کافی عرصہ سے اس مسئلے پر لکھنے کا پروگرام بنا ہوا تھا کہ یہ جو ہمارے معاشرے میں تعویذ سازی کا کام عام ہوا ہے اس کی اسلام میں کہاں تک اجازت ہے ؟یا کہ یہ کام اسلام کی اساس اور بنیاد کے خلاف ہے، اس سلسلے میں مختلف لوگوں کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی کوئی اس کا تعلق اسلام سے چھوڑتا اور کوئی ہندو ازم کے ساتھ جھوڑتا اور ساتھ ساتھ خود بھی اس کے بارے میں مطالعہ جاری رکھا تو الحمدللہ یہ بات واضح ہوئی کہ تعویذ سازی کا تعلق کسی بھی طور سے اسلام کے ساتھ نہیں جھوڑا جاسکتا کچھ بھائی بہن کو میری یہ بات ناگوار گزری ہوگی مگر اس بات کی حقیقت کو جاننے کے لیے آپ سب سے التماس ہے کہ مضمون کو مکمل پڑھیں اور پھر اس پر اپنی رائے دیں کہ آیا میں صحیح سمجھا ہوں کہ غلط۔
ایک عام بندے کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ آیا وہ کس کی بات کو مانے اور کس کی بات کو رَد کرئے تو اس کا ایک آسان کلیہ یہ ہے کہ آپ ہر کسی کی بات کو سنیں یا پڑھیں مگر بات اس کی مانی جائے جس کے پاس قرآن اور صحیح احادیث کے دلائل ہوں اور جو اپنی عقل پیش کرئے یا کسی اور انسان کی عقل کو پیش کرئے تو اس کی بات اس قابل نہیں کہ وہ مانی جائے کیونکہ دین قرآن اور صحیح حدیث میں ہے نہ کہ کسی کی عقل میں اللہ کے ارشادات ہیں کہ
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا 
اور تمہیں جو کچھ رسول علیہ السلام دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ۔۔۔۔۔الحشر:۷


وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۝ۭاِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى Ć۝ۙ
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔النجم:۴
اور نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ
حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہوسکتے۔ وہ کتاب اللہ (قرآن مجید) اور سنت رسول ا اللہ (احادیث) ہیں۔" (موطا)
مشکوۃ شریف:جلد اول:
اس لیے ایک مسلم کے لیے قابلِ قبول بات اللہ اور اس کے رسول علیہ السلام کی بات ہی ہونی چاہیے، جس معاملے میں اللہ اور اس کا رسول علیہ السلام فیصلہ دے چکے ہوں اس کو چھوڑ کرکسی اور کی بات ہرگز ہرگز نہیں ماننی چاہیےکیونکہ یہی راہِ نجات ہے اس کے علاوہ دوسرے راستے گمراہی کے راستے ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے میں تعویذ سازی کا کام باقائدہ ایک پرفیشنل کام بن چکا ہے اور بعض لوگ اس کے ذریعے دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور عام لوگ اس کو دین سمجھ کر بجالا رہے ہیں اور بڑے پیر لوگ اس سے خوب پیسہ کما رہے ہیں، دنیا کا کوئی بھی کام ہو اس کا تعویذ آپ کو مل جائے گا اور دنیا میں کوئی بھی بیماری ہو اس کا تعویذ بنالیا گیا ہوا ہے بیماری جتنی بڑی ہوگی اس کے تعویذ کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
اولاد کو فرمابردار بنانے والا تعویذ۔
اور پھر اولاد کے لیے بھی تعویذ بنایا گیا ہے کہ جس سے والدین اولاد کی بات مانیں گے۔
شوہر کے لیے تعویذ کہ اس کی بیوی اس کی تابیدار رہے۔
اور بیوی کے لیے تعویذ کہ اس کا شوہر اس کا تابیدار بن کر رہے۔
اور شریکوں کے لیے بھی تعویذ موجود ہے جس سے شوہر اور بیوی میں ناراضگی پیدا کی جائے۔
آپ کو کالا یرکان ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں اس کا بھی تعویذ آپ کو مل جائے گا۔:::یہ علیحدہ بات ہے جب یرکان بگڑ جاتا ہےتو پھر ڈاکٹر کے پاس بھاگے بھاگے جاتے ہیں مگر پھر دیر ہوچکی ہوتی ہے:::
اگر کسی کو کینسر ہے تو بھی تعویذ حاضر ہے۔
یعنی دنیا کی کوئی بھی بیماری ہو آپ کو یہ تعویذ ساز اس کا تعویذ ضرور بناکر دیں گیں۔
ایک اور حیران کن بات یہ کہ جب ان لوگوں سے اس کی دلیل مانگی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ یہ قرآن اور صحیح حدیث سے دلیل دیں کہتے ہیں کہ یہ تعویذ فلاں نے استعمال کیا تو اس کا کام بن گیا،فلاں نے فلاں بیماری کے لیے باندھا تو اس کو شفاء مل گئی اگر یہ جھوٹے تعویذ ہیں اور یہ غلط کام ہے تو اس سے شفاء کیوں ملتی ہے؟؟؟
تو یہ ہے ان کی سب سے بڑی دلیل، اب اگر ان کی یہ دلیل مان لی جائے تو اس طرح اور بھی بہت کچھ جائز ہوجائے گا مثلاً یہ کہ ہندو لوگ بھی یہ تعویذ سازی کا کام کرتے ہیں اور ہندو کو بھی ان تعویذوں سے بہت سے فوائد ملتے ہیں بیماروں کو شفاء ملتی ہے بےروزگاروں کو کام ملتا ہےاسی طرح ان کے ہاں بھی ہر بیماری کے لیے تعویذ بنایا جاتا ہے اور ہر مشکل کام کا تعویذ بنایا جاتا ہے تو اس انوکھی دلیل سے ہندوں کے تعویذ بھی صحیح ثابت ہوتے ہیں تو کیا پھر ایک ہندو کے بنائے تعویذ کو بھی پہنا جاسکتا ہے؟؟؟
اگر نہیں تو کیوں نہیں پہنا جاسکتا؟؟؟
اگر ہاں کہتے ہیں تو ہندوں کے مذہب کو کیوں غلط کہتے ہو؟؟؟
اصل میں جب بھی دین میں کوئی نئی بات داخل کی جائے گی تو بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے پھر چاہیے تو یہ ہوتا ہے کہ اس نئی بات کو چھوڑ دیا جائے کہ جس کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا ہے مگر کیا اُلٹ جاتا ہے کہ اس بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے غلط تاویلات اور جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ مذید بگاڑ پیدا کرتی ہیں، اس لیے اگر بگاڑ ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس بگاڑ کی جڑ کاٹنی چاہیے کہ جس کی وجہ سے ایسا بگاڑ پیدا ہوا تھایعنی اس نئی بات کو جو دین میں داخل کی گئی ہے اس کو ختم کیا جائے تو پھر اصل دین باقی رہے گا اور بگاڑ اور گمراہیاں سب اپنی موت آپ مر جائیں گی ان شاءاللہ۔
اب آتا ہوں موضوع کی طرف اس موضوع پر کافی احادیث مل جاتی ہیں مگر میں نے کوشش کی ہے کہ صحیح احادیث سے ہی دلیل دی جائے اگر کوئی حدیث ضعیف ہو تو آگاہی فرمادیجیے گا، میں نے اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث کا مطالعہ کیا ہے ان میں کہیں بھی تعویذ کو بازو اور ٹانگوں میں یاگلے میں باندھنے کی کوئی دلیل نہیں ملی بےشک تعویذ میں قرآن کی آیات ہی کیوں نہ لکھی گئی ہوں، صرف اس میں ایک چیز کی اجازت دی گئی ہے اور وہ ہے دم،جھاڑپھونک،منتر اور وہ بھی وہی جائز ہیں جن میں کوئی کفر ، شرک اور خلاف شریعت کوئی الفاظ نہ ہوں، 
نبی کریم علیہ السلام کے ارشادات ہیں کہ
حضرت عوف ابن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ دم کیا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان منتر وں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان منتروں کوپڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو ان میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔" (مسلم ) 
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑپھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال غنیمت میں سے تھو ڑا بہت مجھے بھی دئیے جا نے کا حکم صا در فرمایا ۔ نیز (ایک مو قع پر ) میں نے آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وہ منتر پڑھ کر سنا یا جو میں دیو انگی کے مریضوں پر پڑھا کر تا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس با رے میں در یا فت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کے بعض حصوں کو مو قو ف کر دینے اور بعض حصوں کو باقی رکھنے کا حکم دیا ۔ اس روایت کو تر مذ ی اور ابو داؤ د نے نقل کیا ہے ۔
مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:جس طرح غیرشرعی جھاڑ پھونک ناجائز ہے اسی طرح اس کی اجرت بھی حرام ہے

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منتر پڑھنے اور پھونکنے سے منع فرما دیا توعمر و ابن حزم کے خاندان کے لوگ (جو منتروں کے ذریعہ جھاڑپھونک کرتے تھے ) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے پاس ایک منتر ہے جس کو ہم بچھو کے کاٹے پر پڑھا کرتے تھے اب آپ نے منتروں سے منع فرمادیا ہے اس کے بعد انہوں نے منتر کو پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منتر کو درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فرمائیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (منتر کوسن کر) فرمایا کہ میں اس منتر میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کونفع پہنچا سکے تو وہ ضرور نفع پہنچائے خواہ جھاڑپھونک کے ذریعہ اورخواہ کسی اور طرح سے بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو ۔" (بخاری ومسلم )
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑپھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایسا کوئی بھی دم جائز ہے جس میں کوئی شرکیہ الفاظ نہ ہوں، اور میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض احادیث میں دم کی بھی ممانعت آئی ہے اور پھر اس کی اجازت کی بھی احادیث موجود ہیں ممکن ہے پہلے اس کی ممانعت تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جہاں دم کی ممانعت ہے وہ بھی صرف اس لیے ہو کہ اس طرح اللہ پر توکل کم ہوتا ہو بہرحال جو بھی وجہ ہو اب دم کی اجازت ہے اس پر جو احادیث ہیں وہ پیش کردیتا ہوں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے جو منتر نہیں کراتے، شگون بد نہیں لیتے ہیں اور (اپنے تمام امور میں جن کا تعلق خواہ کسی چیز کو اختیار کرنے سے ہو یا اس کو چھوڑنے سے) صرف اپنے پرودگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جس طرح غیرشرعی جھاڑ پھونک ناجائز ہے اسی طرح اس کی اجرت بھی حرام ہے
حضرت مغیرہ ابن شعبہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے داغ دلوایا یا منتر پڑھوایا تو وہ تو کل سے بری ہوا ( احمد ترمذی ابن ماجہ )
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی
حضرت ابوخزامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر ہم جھاڑپھونک کریں یا دوا دارو کریں اور پرہیز بھی کریں تو کیا یہ تقدیر الہی کو بدل سکتی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ خود اللہ کی تقدیر میں شامل ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ 
جامع ترمذی:جلد اول:باب:جھاڑ پھونک اور ادویات
 ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت سفر کے لئے روانہ ہوئی یہاں تک کہ عرب کے ایک قبیلہ میں پہنچی اور ان لوگوں سے چاہا کہ مہمانی کریں انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کر دیا اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا لوگوں نے ہر طرح کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ تم اگر ان لوگوں کے پاس جاتے جو اترے ہیں تو شاید ان میں کسی کے پاس کچھ ہو چناچہ وہ لوگ آئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے لوگو! ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہم نے ہر طرح کی تدبیریں کیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا کیا تم میں سے کسی کو کوئی تدبیر معلوم ہے ان میں سے کسی نے کہا ہاں اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں لیکن ہم نے تم لوگوں سے مہمانی طلب کی لیکن تم نے ہماری مہمانی نہیں کی اس لئے اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک نہیں کروں گا جب تک کہ ہمارے لئے اس کا معاوضہ نہ کرو چناچہ انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ پر مصالحت کی یعنی اجرت مقرر کی ایک صحابی اٹھ کر گئے اور سورۃ الحمد پڑھ کر پھونکنے لگے اور فورا اچھا ہو گیا گویا کوئی جانور رسی سے کھول دیا گیا ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی اس نے کہا کہ ان کو وہ معاوضہ دے دو جو ان سے طے کیا گیا تھا ان میں سے بعض نے کہا کہ ان بکریوں کو بانٹ لو جنہوں نے منتر پڑھا تھا انہوں نے کہا ایسا نہ کرو جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ پہنچ جائیں اور آپ سے وہ واقعہ بیان کریں جو گزرا پھر دیکھیں کہ آپ کیا حکم، دیتے ہیں وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ ایک منتر ہے پھر فرمایا تم نے ٹھیک کیا تم تقسیم کرلو اور اس میں ایک حصہ میرا بھی لگاؤ اور یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے اور شعبہ نے کہا مجھ سے ابوبشر نے بیان کیا میں نے ابوالمتوکل سے یہ حدیث سنی ہے۔
صحیح بخاری:جلد اول:باب:قبائل عرب کو سورۃ فاتحہ پڑھ کرپھو نکنے کے عوض اجرت دئے جانے کا بیان
عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بی بی ام سلمہ کے مکان میں گئے اور گھر میں ایک لڑکا رو رہا تھا لوگوں نے کہا اس کو نظر لگ گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دم کیوں نہیں کرتے اس کے لئے ۔
موطا امام مالک:جلد اول:باب:نظر کے منتر کا بیان
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑپھونک کے ذریعہ نظر بد ،ڈنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے ۔" (مسلم )
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑپھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت
اسی طرح اور بھی دم کے متعلق احادیث موجود ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بہتر عمل یہی ہے کہ انسان اللہ پر ہی بھروسہ رکھے مگر اگر کسی کا توکل اللہ پر کم ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ ایسے منتر سے دم کرواسکتا ہے جو شرک سے پاک ہو مگر گلے میں تعویذ لٹکانے اور ہاتھ یا پاوں میں دم کیا گیا دھاگہ باندھنے یا کڑا اور چھلہ پہننے کی کہیں بھی اجازت نظر نہیں آتی بلکہ اس کی ممانعت ہی ملتی ہے اب وہ احادیث پیش کرتا ہوں جن میں ان عملیات کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا چھلہ دیکھا آپ علیہ السلام نے اس سے دریافت کیا یہ کیا ہے اس نے عرض کی کمزوری سے نجات کے لیے پہنا ہے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اسے اتار دو اس لیے کہ یہ تمہیں کمزوری کے علاوہ کچھ نہ دےگا اور اگر اسے پہنے ہوئے مرگیا تو تم کبھی نجات نہ پاؤ گے۔مسند احمد
اس حدیث میں نبی علیہ السلام نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ اگر اس کو پہنے ہوئے مرگیا تو کبھی نجات نہ پاو گے، اور آپ نے اوپر ایک حدیث پڑھی ہے کہ جس میں دم کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ دورِ جاہلیت کا تھا اس کے خلافِ شرع الفاظ کو ختم کرکے باقی کو قائم رکھا مگر یہاں آپ دیکھیں کہ اس کی بالکل ہی اجازت نہیں دی گئی ہے اور جس شخص نے وہ چھلہ پہنا تھا وہ مسلم تھا مگر ابھی اس معاملے کو جائز سمجھ کر چھلہ پہنے ہوئے تھا مگر آپ علیہ السلام نے اس کی ممانعت فرمادی اب تاقیامت اس کی ممانعت ہی ہے،چھلہ بھی تعویذ کی طرح ہوتا ہے جو پہناجاتا ہےتعویذ وہ ہوتا ہے کہ جس پر قرآن کی آیات یا کچھ اور لکھ کر گلے میں لٹکایا جاتا ہے اور چھلہ یا کڑا وہ ہوتا ہے جس پر دم کیا جاتا ہے اور پھر اس کو پہنا جاتا ہے اور اس چھلے پر توکل کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ ہم کو شفاء دے گا جبکہ ایسا قرآن و سنت کے سرتاسر خلاف ہے۔
مسند احمد میں ہی ایک اور روایت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کی ہے کہ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے تعویز باندھا اللہ اس کا مقصد پورا نہ کرے اور جس نے کوڑی گلے میں لٹکائی اللہ اس کو آرام نہ دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے تعویذ باندھا اس نے شرک کیا۔
رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ میرے بعد اے رویفع ہو سکتا ہے کہ تم زیادہ عرصہ زندہ رہو تم لوگوں سے کہہ دینا کہ جس کسی نے ڈاڑھی میں گرھیں ڈال دیں یا گھوڑے کے گلے میں تانت ڈالا یا جس نے استنجاء کیا جانور کی لید یا ہڈی سے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے برَی ہے۔ 
سنن نسائی:جلد سوم:باب:داڑھی کو موڑ کر چھوٹا کرنا
حضرت ابوبشیر انصاری خبر دیتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض سفروں میں سے کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نمائندہ بھیجا حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوبکر کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ لوگ اپنی اپنی سونے کی جگہوں پر تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ یا ہار نہ ڈالے سوائے اس کے کہ اسے کاٹ دیا جائے امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اس طرح نظر لگنے کی وجہ سے کرتے تھے۔ 
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:اونٹ کی گردن میں تانت کے قلادہ ڈالنے کی کراہت کے بیان میں ۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے گردن میں دھاگہ پڑا ہوا دیکھا توپوچھا یہ کیاہے ؟ میں نے کہا یہ دھاگہ ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے ) زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ سن کر ) اس دھاگے کو (میری گردن سے ) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبد اللہ کے گھر والو ، تم شرک سے بے پرواہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے ، اورٹوٹکے شر ک ہیں ۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہواہے ) چنانچہ میری آنکھ (درد کے سبب ) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑ ھ کر آنکھ کو دم کیا توآنکھ کو آرام مل گیا ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی وغفلت ہے ) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں ) وہ شیطان کا کام تھا ،شیطان تمہاری آنکھ کو کونچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جب منتر پڑھاگیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے ) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا ، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے کہ ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفا ء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار توہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ ) توہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے ، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے ! ۔" (ابو داؤد ) 
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:ٹوٹکہ کی ممانعت


ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈا::دم کیا ہوا دھاگہ:: بندھا ہوا دیکھا جو اس نے بخار دور کرنے کے لیے باندھا تھا آپ اس دھاگے کو کاٹ دیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔یوسف:۱۰۶
حضرت عیسی ابن حمزہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے ) تواسی چیز کے سپر د کردیا جاتا ہے۔ " (ابو داؤد )
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی


ان سب احادیث کا مطالعہ کرنے سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ دم درود کیا جاسکتا ہے قرآن کی آیات سے بےشک قرآن میں لوگوں کے لیے شفاء ہے اور یہ شفاء دلوں کی بیماریوں اور جسم کی بیماریوں کے لیے بھی ہے، مگر اس کا طریقہ ہم نے وہی لینا ہے جو نبی علیہ السلام نے ہم کو بتایا ہے اپنے پاس سے کوئی نیا طریقہ نہیں بنانا جو کہ بدعت ہوگی بلکہ تعویذ کا باندھنا انسان کو شرک کا مرتکب بنا دیتا ہے اور جب کہ سنت طریقہ یہی ہے کہ قرآن کی آیات کا دم کیا جائے نہ کہ قرآن کی آیات کو لکھ کر یا ان آیات کو ہندسوں میں لکھ کر گلے میں باندھا جائے، بلکہ میں آیات کو ہندسوں::علم الاعداد:: میں لکھ کر گلے میں ڈالنے کو دوگنی گمراہی سمجھتا ہوں کیونکہ اس شخص نے قرآن کے الفاظ کو بدلا ہے اور ان آیات کو ایسے طریقے سے لکھا ہے جو کہ جہالت سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کو بدلنے کے برابر ہے کہ ہندسوں میں سورت فاتحہ لکھ کر کہا جائے کہ یہ قرآن کی سورت فاتحہ لکھی ہوئی ہے یہ طریقہ جاہل عجمیوں کا ہےجو قرآن و حدیث کے علم سے بےبہرا تھے یا وہ دین اسلام میں اپنی اپنی مرضی کرکے دین کو بدلنا چاہتے تھے جیسا کہ ایسا ہوچکا ہے کہ لوگ ہر ایسی بات کو جو قرآن اور صحیح حدیث کے خلاف بھی کیوں نہ جاتی ہو اسلام سمجھتے ہیں اور اس پر ایسے ہی عمل کیا جاتا ہے جیسے اس کام کا حکم نبی علیہ السلام نے دیا ہو۔
اللہ ہم سب کو جدید اور قدیم ہر طرح کی جہالتوں اور گمراہیوں سے بچائے اور قرآن و سنت کا پابند بنائے آمین۔