Friday, August 5, 2011

اللہ نہیں ہے خُدا

0 تبصرہ جات

اللہ نہیں ہے خُدا
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدْہ، وَ نَستَعِینْہ، وَ نَستَغفِرْہ، وَ نَعَوْذْ بَاللَّہِ مِن شْرْورِ انفْسِنَا وَ مَن سِیَّااتِ اعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہْ فَلا مْضِلَّ لَہْ وَ مَن یْضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہْ ، وَ اشھَدْ ان لا اِلٰہَ اِلَّا اللَّہْ وَحدَہْ لا شَرِیکَ لَہْ وَ اشھَدْ ان مْحمَداً عَبدہ، وَ رَسْو لْہ، ۔بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُسکی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اُسکا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُسکے رسول ہیں : اللہ کی توحید یعنی واحدانیت میں سے ایک اُسکے ناموں اور صفات کی واحدانیت ہے ، جِسے ''' توحید فی الاسماءِ و الصفات ''' یعنی ''' ناموں اور صفات کی توحید ''' کہا جاتا ہے ، اِس مضمون میں ''' توحید فی الاسماءِ و الصفات ''' یعنی ''' ناموں اور صفات کی توحید ''' کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک گھناؤنی غلطی کی نشاندہی کرنا چاہ رہا ہوں جِس کا شکار اُردو اور فارسی بولنے والے مسلمان ہو چکے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو کِسی تعصب کاشکار ہوئے بغیر صحیح بات سمجھنے قُبُول کرنے اوراُس پر عمل کرتے ہوئے اُسے نشر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں کے بارے میں حُکم دیتے اور تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا و لِلَّہِ الاسماءَ الحُسنیٰ فادعُوُہُ بھا وَ ذَروا الَّذین یُلحِدُونَ فی اَسمائِہِ سَیجزُونَ مَا کانُوا یَعمَلُونَ "اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں لہذا اللہ کو اُن ناموں سے پکارو اور جو اللہ کے ناموں میں الحاد ( یعنی کج روی ) کرتے ہیں اُنہیں ( اُنکے حال پر) چھوڑ دو ( کیونکہ ) بہت جلد یہ اپنے کئیے (ہوئے اِس الحاد )کی سزا پائیں گے" سورت الاعراف / آیت180 ، اور فرمایارَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرضِ وَمَا بَینَہُمَا فَاعبُدہُ وَاصطَبِر لِعِبَادَتِہِ ہَل تَعلَمُ لَہُ سَمِیّاً )( آسمانوں کا اور زمیں کا اور جو کچھ اِن کے درمیان میں ہے سب کا پالنے والا ( اللہ ہی ہے ) لہذا تُم (صِرف ) اُس کی ہی عِبادت کرواور اُس کی عِبادت کے لیے صبر اختیار کیئے رہو ، کیا تُم جانتے ہو کہ کوئی اُس کا ہم نام ہے؟ ) سورت مریم / آیت ٦٥ ،یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی ہم نام نہیں ، اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایسا نام نہیں جو اللہ نے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ بتایا ہو ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کے ناموں کو یاد کرنے اور اُنکے معنیٰ اور مفہوم کو جاننے کے لیے ترغیب دیتے ہوئے فرمایااِنَّ لِلَّہِ تِسعَ و تِسعُونَ اِئسماً مائۃً اِلَّا واحدۃ مَن احصَاھَا دَخَل الجنَّۃَ )( بے شک اللہ کے ننانوے نام ہیں ، ایک کم سو جِس نے ان ناموں کا احاطہ کر لیا ( یعنی اِنکو سمجھ کر یاد کر لیا اور اِن کے مُطابق عمل کیا ) وہ جنّت میں داخل ہو گیا ) صحیح البُخاری حدیث / 2736 ، 7392، اللہ تعالیٰ اپنے اچھے اچھے نام ہونے کی خبر دِی ہے اور اُن ناموں سے پکارنے کا حُکم دیا ہے ، اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے ناموں کوگِن گِن کر بتایا ہے کہیں بھی کوئی عددی نام نہیں ہے ، کوئی ''' خُدا '''' نہیں ، بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ ''' محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے ''' خُدا ''' ختم کر دئیے ۔ جی ہاں ، ''' خُدا ''' فارسیوں کا باطل معبود تھا ، جیسے ہندوؤں کا بھگوان ، اور فارسیوں میں بھی ہندوؤں کے بہت سے بھگوانوں کی طرح ایک نہیں تین ''' خُدا ''' تھے ، ایک کو وہ ''' خدائے یزداں اور خدائے نُور''' کہا کرتے تھے اور اِس جھوٹے مَن گھڑت معبود کو وہ نیکی کا خُدا مانتے تھے ، دوسرے کو وہ ''' خدائے اہرمن اور خدائے ظُلمات ''' اور اِس جھوٹے مَن گھڑت معبود کو وہ بدی کا خُدامانتے تھے ، اور تیسرے کو ''' خدائے خدایان ''' یعنی دونوں خُداؤں کا خُدا مانتے تھے ۔ آجکل ہمارےادیب اور شاعر حضرات ،بلکہ وہ لوگ جو دینی عالم کہلاتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو علماء کی صفوف میں ہوتے ہیں ، اُنکی تقریروں اور تحریروں میں اللہ کی بجائے ''' خُدا ''' کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اور اِس سے زیادہ بڑی غلطی یہ کہ معاملات کا ہونا نہ ہونا ، مرنا جینا ''' مشیتِ اللہ ''' کی بجائے ''' مشیتِ یزداں ''' اور ''' مشیتِ ایزدی ''' کے سپرد کر دیا جاتا ہے ، اور ''' بارگاہِ اللہ ''' کی بجائے ''' بارگاہِ ایزدی ''' میں فریاد کرنے کی تلقین و درس ہوتا ہے، ایک صاحب کی دینی کتاب میں تو رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ''' یزداں ''' کی بارگاہ میں دُعا گو دِکھایا گیا ہے ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے وقت یا اس کا ذکر کرتے وقت ان ناموں سے یاد کریں جو اس نے قرآن و حدیث میں بتائے ہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ کے نام کا ترجمہ ہے ''' خُدا ''' تو اُس سے پوچھنا چاہیئے مسلمانوں میں کون ایسا ہو گا جو اللہ کو اللہ کے نام سے نہیں جانتا ، اگر کوئی ہے بھی تو اُسے اللہ کی ذات کی پہچان کروانے کے لیے اُس کے ماحول و معاشرے میں پائے جانے والے معبود کے نام کے ذریعے اللہ کی پہچان کروانی چاہئیے یا اللہ کے نام سے ؟؟؟اِس فلسفے کے مطابق تو ، ہندوستان کے مسلمانوں کو اجازت ہونا چاہیئے کہ اللہ کو بھگوان کہیں ، اور انگریزی بولنے والے مسلمانوں کو اجازت ہونا چاہیئے کہ وہ اللہ کو (God)کہیں ، اور یہ خُدا سے بھی بڑی مصیبت ہے کیونکہ خُدا کی تو مؤنث نہیں لیکن (God) اور بھگوان کی مؤنث بھی ہوتی ہے ،اگر ترجمے والا فلسفہ درست مانا جائے تو پھر ہر علاقے کے مسلمان کو اپنے علاقے اور زبان میں اُس ہستی کا نام اللہ کے لیے استعمال کرنا درست ہو جائے گا جو اُس کے ہاں معبود یا سب سے بڑے معبود کے طور پر معروف ہے ، پھر اُس مسلمان کا اپنے اکیلے حقیقی اور سچے معبود اللہ کے ساتھ کیا ربط اور تعلق رہا ، اُس کی عبادات اور دُعائیں کہاں جائیں گی ؟؟؟ فاء عتبروا یا اولیٰ الابصار ::: پس عِبرت پکڑو اے عقل والو --------------------------------------
 اللہ تو معبودِ حق ہے نہیں ہے وہ خُدا ::: پھر اِسی پر ہی نہیں کِیا اُس قوم نے اِکتفاءاِک اہرمن ، خدائے ظُلمات یعنی خُدا شر والا ::: اللہ ہی خالق ہے خیر اور شر کا اکیلا و تنہاجو کچھ بھی ہوتا ہے ، ہوتا ہے بِمشیتِ اللہ ::: اللہ کو چھوڑ کر گر پُکارا جائے در بارگاہِ یزداںسُن ! بات کِسی اور کی نہیں فرماتا ہے خود اللہ ::: گر پُکارا کِسی اور نام سے تو اللہ نے دِیا حُکم الحاد کاخُدا تو معبودِ باطل تھا اِک قوم کا گَھڑا ہوا ::: اِس اِک کے ساتھ دو اور بھی رکھے تھے بَنادُوجا خُدائے نُور ، خُدا نیکی کا ، کہتے تھے اُسے یزداں ::: ہے ہر کام اُسکا خیر والا نہیں کرتا کام شر کاکیا ہو گی مشیتِ ایزدی ، جب کہ باطل ہے یزداں ::: کہاں جائے گی ؟ اور کیا قُبُول ہو گی وہ دُعاہیں اُسکے لیئے نام پیارے پیارے ، الاسما ءَ الحُسنیٰ ::: پس اِنہی ناموں سے عادِل تُو رہ اللہ کو پُکارتا
تحریر: عادل سہیل

تعویذ کی شرعی حیثیت

0 تبصرہ جات


بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نےیہ سب کائناتیں صرف چھ۶دن میں بنائیں اوراس عظیم ذات کوزرہسی بھی تھکن نہ ہوئی،اے اللہ تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں،اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔

کافی عرصہ سے اس مسئلے پر لکھنے کا پروگرام بنا ہوا تھا کہ یہ جو ہمارے معاشرے میں تعویذ سازی کا کام عام ہوا ہے اس کی اسلام میں کہاں تک اجازت ہے ؟یا کہ یہ کام اسلام کی اساس اور بنیاد کے خلاف ہے، اس سلسلے میں مختلف لوگوں کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی کوئی اس کا تعلق اسلام سے چھوڑتا اور کوئی ہندو ازم کے ساتھ جھوڑتا اور ساتھ ساتھ خود بھی اس کے بارے میں مطالعہ جاری رکھا تو الحمدللہ یہ بات واضح ہوئی کہ تعویذ سازی کا تعلق کسی بھی طور سے اسلام کے ساتھ نہیں جھوڑا جاسکتا کچھ بھائی بہن کو میری یہ بات ناگوار گزری ہوگی مگر اس بات کی حقیقت کو جاننے کے لیے آپ سب سے التماس ہے کہ مضمون کو مکمل پڑھیں اور پھر اس پر اپنی رائے دیں کہ آیا میں صحیح سمجھا ہوں کہ غلط۔
ایک عام بندے کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ آیا وہ کس کی بات کو مانے اور کس کی بات کو رَد کرئے تو اس کا ایک آسان کلیہ یہ ہے کہ آپ ہر کسی کی بات کو سنیں یا پڑھیں مگر بات اس کی مانی جائے جس کے پاس قرآن اور صحیح احادیث کے دلائل ہوں اور جو اپنی عقل پیش کرئے یا کسی اور انسان کی عقل کو پیش کرئے تو اس کی بات اس قابل نہیں کہ وہ مانی جائے کیونکہ دین قرآن اور صحیح حدیث میں ہے نہ کہ کسی کی عقل میں اللہ کے ارشادات ہیں کہ
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا 
اور تمہیں جو کچھ رسول علیہ السلام دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ۔۔۔۔۔الحشر:۷


وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۝ۭاِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى Ć۝ۙ
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔النجم:۴
اور نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ
حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہوسکتے۔ وہ کتاب اللہ (قرآن مجید) اور سنت رسول ا اللہ (احادیث) ہیں۔" (موطا)
مشکوۃ شریف:جلد اول:
اس لیے ایک مسلم کے لیے قابلِ قبول بات اللہ اور اس کے رسول علیہ السلام کی بات ہی ہونی چاہیے، جس معاملے میں اللہ اور اس کا رسول علیہ السلام فیصلہ دے چکے ہوں اس کو چھوڑ کرکسی اور کی بات ہرگز ہرگز نہیں ماننی چاہیےکیونکہ یہی راہِ نجات ہے اس کے علاوہ دوسرے راستے گمراہی کے راستے ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے میں تعویذ سازی کا کام باقائدہ ایک پرفیشنل کام بن چکا ہے اور بعض لوگ اس کے ذریعے دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور عام لوگ اس کو دین سمجھ کر بجالا رہے ہیں اور بڑے پیر لوگ اس سے خوب پیسہ کما رہے ہیں، دنیا کا کوئی بھی کام ہو اس کا تعویذ آپ کو مل جائے گا اور دنیا میں کوئی بھی بیماری ہو اس کا تعویذ بنالیا گیا ہوا ہے بیماری جتنی بڑی ہوگی اس کے تعویذ کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
اولاد کو فرمابردار بنانے والا تعویذ۔
اور پھر اولاد کے لیے بھی تعویذ بنایا گیا ہے کہ جس سے والدین اولاد کی بات مانیں گے۔
شوہر کے لیے تعویذ کہ اس کی بیوی اس کی تابیدار رہے۔
اور بیوی کے لیے تعویذ کہ اس کا شوہر اس کا تابیدار بن کر رہے۔
اور شریکوں کے لیے بھی تعویذ موجود ہے جس سے شوہر اور بیوی میں ناراضگی پیدا کی جائے۔
آپ کو کالا یرکان ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں اس کا بھی تعویذ آپ کو مل جائے گا۔:::یہ علیحدہ بات ہے جب یرکان بگڑ جاتا ہےتو پھر ڈاکٹر کے پاس بھاگے بھاگے جاتے ہیں مگر پھر دیر ہوچکی ہوتی ہے:::
اگر کسی کو کینسر ہے تو بھی تعویذ حاضر ہے۔
یعنی دنیا کی کوئی بھی بیماری ہو آپ کو یہ تعویذ ساز اس کا تعویذ ضرور بناکر دیں گیں۔
ایک اور حیران کن بات یہ کہ جب ان لوگوں سے اس کی دلیل مانگی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ یہ قرآن اور صحیح حدیث سے دلیل دیں کہتے ہیں کہ یہ تعویذ فلاں نے استعمال کیا تو اس کا کام بن گیا،فلاں نے فلاں بیماری کے لیے باندھا تو اس کو شفاء مل گئی اگر یہ جھوٹے تعویذ ہیں اور یہ غلط کام ہے تو اس سے شفاء کیوں ملتی ہے؟؟؟
تو یہ ہے ان کی سب سے بڑی دلیل، اب اگر ان کی یہ دلیل مان لی جائے تو اس طرح اور بھی بہت کچھ جائز ہوجائے گا مثلاً یہ کہ ہندو لوگ بھی یہ تعویذ سازی کا کام کرتے ہیں اور ہندو کو بھی ان تعویذوں سے بہت سے فوائد ملتے ہیں بیماروں کو شفاء ملتی ہے بےروزگاروں کو کام ملتا ہےاسی طرح ان کے ہاں بھی ہر بیماری کے لیے تعویذ بنایا جاتا ہے اور ہر مشکل کام کا تعویذ بنایا جاتا ہے تو اس انوکھی دلیل سے ہندوں کے تعویذ بھی صحیح ثابت ہوتے ہیں تو کیا پھر ایک ہندو کے بنائے تعویذ کو بھی پہنا جاسکتا ہے؟؟؟
اگر نہیں تو کیوں نہیں پہنا جاسکتا؟؟؟
اگر ہاں کہتے ہیں تو ہندوں کے مذہب کو کیوں غلط کہتے ہو؟؟؟
اصل میں جب بھی دین میں کوئی نئی بات داخل کی جائے گی تو بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے پھر چاہیے تو یہ ہوتا ہے کہ اس نئی بات کو چھوڑ دیا جائے کہ جس کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا ہے مگر کیا اُلٹ جاتا ہے کہ اس بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے غلط تاویلات اور جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ مذید بگاڑ پیدا کرتی ہیں، اس لیے اگر بگاڑ ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس بگاڑ کی جڑ کاٹنی چاہیے کہ جس کی وجہ سے ایسا بگاڑ پیدا ہوا تھایعنی اس نئی بات کو جو دین میں داخل کی گئی ہے اس کو ختم کیا جائے تو پھر اصل دین باقی رہے گا اور بگاڑ اور گمراہیاں سب اپنی موت آپ مر جائیں گی ان شاءاللہ۔
اب آتا ہوں موضوع کی طرف اس موضوع پر کافی احادیث مل جاتی ہیں مگر میں نے کوشش کی ہے کہ صحیح احادیث سے ہی دلیل دی جائے اگر کوئی حدیث ضعیف ہو تو آگاہی فرمادیجیے گا، میں نے اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث کا مطالعہ کیا ہے ان میں کہیں بھی تعویذ کو بازو اور ٹانگوں میں یاگلے میں باندھنے کی کوئی دلیل نہیں ملی بےشک تعویذ میں قرآن کی آیات ہی کیوں نہ لکھی گئی ہوں، صرف اس میں ایک چیز کی اجازت دی گئی ہے اور وہ ہے دم،جھاڑپھونک،منتر اور وہ بھی وہی جائز ہیں جن میں کوئی کفر ، شرک اور خلاف شریعت کوئی الفاظ نہ ہوں، 
نبی کریم علیہ السلام کے ارشادات ہیں کہ
حضرت عوف ابن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ دم کیا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان منتر وں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان منتروں کوپڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو ان میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔" (مسلم ) 
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑپھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال غنیمت میں سے تھو ڑا بہت مجھے بھی دئیے جا نے کا حکم صا در فرمایا ۔ نیز (ایک مو قع پر ) میں نے آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وہ منتر پڑھ کر سنا یا جو میں دیو انگی کے مریضوں پر پڑھا کر تا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس با رے میں در یا فت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کے بعض حصوں کو مو قو ف کر دینے اور بعض حصوں کو باقی رکھنے کا حکم دیا ۔ اس روایت کو تر مذ ی اور ابو داؤ د نے نقل کیا ہے ۔
مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:جس طرح غیرشرعی جھاڑ پھونک ناجائز ہے اسی طرح اس کی اجرت بھی حرام ہے

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منتر پڑھنے اور پھونکنے سے منع فرما دیا توعمر و ابن حزم کے خاندان کے لوگ (جو منتروں کے ذریعہ جھاڑپھونک کرتے تھے ) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے پاس ایک منتر ہے جس کو ہم بچھو کے کاٹے پر پڑھا کرتے تھے اب آپ نے منتروں سے منع فرمادیا ہے اس کے بعد انہوں نے منتر کو پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منتر کو درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فرمائیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (منتر کوسن کر) فرمایا کہ میں اس منتر میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کونفع پہنچا سکے تو وہ ضرور نفع پہنچائے خواہ جھاڑپھونک کے ذریعہ اورخواہ کسی اور طرح سے بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو ۔" (بخاری ومسلم )
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑپھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایسا کوئی بھی دم جائز ہے جس میں کوئی شرکیہ الفاظ نہ ہوں، اور میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض احادیث میں دم کی بھی ممانعت آئی ہے اور پھر اس کی اجازت کی بھی احادیث موجود ہیں ممکن ہے پہلے اس کی ممانعت تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جہاں دم کی ممانعت ہے وہ بھی صرف اس لیے ہو کہ اس طرح اللہ پر توکل کم ہوتا ہو بہرحال جو بھی وجہ ہو اب دم کی اجازت ہے اس پر جو احادیث ہیں وہ پیش کردیتا ہوں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے جو منتر نہیں کراتے، شگون بد نہیں لیتے ہیں اور (اپنے تمام امور میں جن کا تعلق خواہ کسی چیز کو اختیار کرنے سے ہو یا اس کو چھوڑنے سے) صرف اپنے پرودگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جس طرح غیرشرعی جھاڑ پھونک ناجائز ہے اسی طرح اس کی اجرت بھی حرام ہے
حضرت مغیرہ ابن شعبہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے داغ دلوایا یا منتر پڑھوایا تو وہ تو کل سے بری ہوا ( احمد ترمذی ابن ماجہ )
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی
حضرت ابوخزامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر ہم جھاڑپھونک کریں یا دوا دارو کریں اور پرہیز بھی کریں تو کیا یہ تقدیر الہی کو بدل سکتی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ خود اللہ کی تقدیر میں شامل ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ 
جامع ترمذی:جلد اول:باب:جھاڑ پھونک اور ادویات
 ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت سفر کے لئے روانہ ہوئی یہاں تک کہ عرب کے ایک قبیلہ میں پہنچی اور ان لوگوں سے چاہا کہ مہمانی کریں انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کر دیا اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا لوگوں نے ہر طرح کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ تم اگر ان لوگوں کے پاس جاتے جو اترے ہیں تو شاید ان میں کسی کے پاس کچھ ہو چناچہ وہ لوگ آئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے لوگو! ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہم نے ہر طرح کی تدبیریں کیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا کیا تم میں سے کسی کو کوئی تدبیر معلوم ہے ان میں سے کسی نے کہا ہاں اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں لیکن ہم نے تم لوگوں سے مہمانی طلب کی لیکن تم نے ہماری مہمانی نہیں کی اس لئے اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک نہیں کروں گا جب تک کہ ہمارے لئے اس کا معاوضہ نہ کرو چناچہ انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ پر مصالحت کی یعنی اجرت مقرر کی ایک صحابی اٹھ کر گئے اور سورۃ الحمد پڑھ کر پھونکنے لگے اور فورا اچھا ہو گیا گویا کوئی جانور رسی سے کھول دیا گیا ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی اس نے کہا کہ ان کو وہ معاوضہ دے دو جو ان سے طے کیا گیا تھا ان میں سے بعض نے کہا کہ ان بکریوں کو بانٹ لو جنہوں نے منتر پڑھا تھا انہوں نے کہا ایسا نہ کرو جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ پہنچ جائیں اور آپ سے وہ واقعہ بیان کریں جو گزرا پھر دیکھیں کہ آپ کیا حکم، دیتے ہیں وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ ایک منتر ہے پھر فرمایا تم نے ٹھیک کیا تم تقسیم کرلو اور اس میں ایک حصہ میرا بھی لگاؤ اور یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے اور شعبہ نے کہا مجھ سے ابوبشر نے بیان کیا میں نے ابوالمتوکل سے یہ حدیث سنی ہے۔
صحیح بخاری:جلد اول:باب:قبائل عرب کو سورۃ فاتحہ پڑھ کرپھو نکنے کے عوض اجرت دئے جانے کا بیان
عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بی بی ام سلمہ کے مکان میں گئے اور گھر میں ایک لڑکا رو رہا تھا لوگوں نے کہا اس کو نظر لگ گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دم کیوں نہیں کرتے اس کے لئے ۔
موطا امام مالک:جلد اول:باب:نظر کے منتر کا بیان
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑپھونک کے ذریعہ نظر بد ،ڈنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے ۔" (مسلم )
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑپھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت
اسی طرح اور بھی دم کے متعلق احادیث موجود ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بہتر عمل یہی ہے کہ انسان اللہ پر ہی بھروسہ رکھے مگر اگر کسی کا توکل اللہ پر کم ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ ایسے منتر سے دم کرواسکتا ہے جو شرک سے پاک ہو مگر گلے میں تعویذ لٹکانے اور ہاتھ یا پاوں میں دم کیا گیا دھاگہ باندھنے یا کڑا اور چھلہ پہننے کی کہیں بھی اجازت نظر نہیں آتی بلکہ اس کی ممانعت ہی ملتی ہے اب وہ احادیث پیش کرتا ہوں جن میں ان عملیات کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا چھلہ دیکھا آپ علیہ السلام نے اس سے دریافت کیا یہ کیا ہے اس نے عرض کی کمزوری سے نجات کے لیے پہنا ہے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اسے اتار دو اس لیے کہ یہ تمہیں کمزوری کے علاوہ کچھ نہ دےگا اور اگر اسے پہنے ہوئے مرگیا تو تم کبھی نجات نہ پاؤ گے۔مسند احمد
اس حدیث میں نبی علیہ السلام نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ اگر اس کو پہنے ہوئے مرگیا تو کبھی نجات نہ پاو گے، اور آپ نے اوپر ایک حدیث پڑھی ہے کہ جس میں دم کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ دورِ جاہلیت کا تھا اس کے خلافِ شرع الفاظ کو ختم کرکے باقی کو قائم رکھا مگر یہاں آپ دیکھیں کہ اس کی بالکل ہی اجازت نہیں دی گئی ہے اور جس شخص نے وہ چھلہ پہنا تھا وہ مسلم تھا مگر ابھی اس معاملے کو جائز سمجھ کر چھلہ پہنے ہوئے تھا مگر آپ علیہ السلام نے اس کی ممانعت فرمادی اب تاقیامت اس کی ممانعت ہی ہے،چھلہ بھی تعویذ کی طرح ہوتا ہے جو پہناجاتا ہےتعویذ وہ ہوتا ہے کہ جس پر قرآن کی آیات یا کچھ اور لکھ کر گلے میں لٹکایا جاتا ہے اور چھلہ یا کڑا وہ ہوتا ہے جس پر دم کیا جاتا ہے اور پھر اس کو پہنا جاتا ہے اور اس چھلے پر توکل کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ ہم کو شفاء دے گا جبکہ ایسا قرآن و سنت کے سرتاسر خلاف ہے۔
مسند احمد میں ہی ایک اور روایت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کی ہے کہ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے تعویز باندھا اللہ اس کا مقصد پورا نہ کرے اور جس نے کوڑی گلے میں لٹکائی اللہ اس کو آرام نہ دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے تعویذ باندھا اس نے شرک کیا۔
رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ میرے بعد اے رویفع ہو سکتا ہے کہ تم زیادہ عرصہ زندہ رہو تم لوگوں سے کہہ دینا کہ جس کسی نے ڈاڑھی میں گرھیں ڈال دیں یا گھوڑے کے گلے میں تانت ڈالا یا جس نے استنجاء کیا جانور کی لید یا ہڈی سے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے برَی ہے۔ 
سنن نسائی:جلد سوم:باب:داڑھی کو موڑ کر چھوٹا کرنا
حضرت ابوبشیر انصاری خبر دیتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض سفروں میں سے کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نمائندہ بھیجا حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوبکر کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ لوگ اپنی اپنی سونے کی جگہوں پر تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ یا ہار نہ ڈالے سوائے اس کے کہ اسے کاٹ دیا جائے امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اس طرح نظر لگنے کی وجہ سے کرتے تھے۔ 
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:اونٹ کی گردن میں تانت کے قلادہ ڈالنے کی کراہت کے بیان میں ۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے گردن میں دھاگہ پڑا ہوا دیکھا توپوچھا یہ کیاہے ؟ میں نے کہا یہ دھاگہ ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے ) زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ سن کر ) اس دھاگے کو (میری گردن سے ) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبد اللہ کے گھر والو ، تم شرک سے بے پرواہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے ، اورٹوٹکے شر ک ہیں ۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہواہے ) چنانچہ میری آنکھ (درد کے سبب ) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑ ھ کر آنکھ کو دم کیا توآنکھ کو آرام مل گیا ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی وغفلت ہے ) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں ) وہ شیطان کا کام تھا ،شیطان تمہاری آنکھ کو کونچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جب منتر پڑھاگیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے ) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا ، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے کہ ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفا ء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار توہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ ) توہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے ، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے ! ۔" (ابو داؤد ) 
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:ٹوٹکہ کی ممانعت


ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈا::دم کیا ہوا دھاگہ:: بندھا ہوا دیکھا جو اس نے بخار دور کرنے کے لیے باندھا تھا آپ اس دھاگے کو کاٹ دیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔یوسف:۱۰۶
حضرت عیسی ابن حمزہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے ) تواسی چیز کے سپر د کردیا جاتا ہے۔ " (ابو داؤد )
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی


ان سب احادیث کا مطالعہ کرنے سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ دم درود کیا جاسکتا ہے قرآن کی آیات سے بےشک قرآن میں لوگوں کے لیے شفاء ہے اور یہ شفاء دلوں کی بیماریوں اور جسم کی بیماریوں کے لیے بھی ہے، مگر اس کا طریقہ ہم نے وہی لینا ہے جو نبی علیہ السلام نے ہم کو بتایا ہے اپنے پاس سے کوئی نیا طریقہ نہیں بنانا جو کہ بدعت ہوگی بلکہ تعویذ کا باندھنا انسان کو شرک کا مرتکب بنا دیتا ہے اور جب کہ سنت طریقہ یہی ہے کہ قرآن کی آیات کا دم کیا جائے نہ کہ قرآن کی آیات کو لکھ کر یا ان آیات کو ہندسوں میں لکھ کر گلے میں باندھا جائے، بلکہ میں آیات کو ہندسوں::علم الاعداد:: میں لکھ کر گلے میں ڈالنے کو دوگنی گمراہی سمجھتا ہوں کیونکہ اس شخص نے قرآن کے الفاظ کو بدلا ہے اور ان آیات کو ایسے طریقے سے لکھا ہے جو کہ جہالت سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کو بدلنے کے برابر ہے کہ ہندسوں میں سورت فاتحہ لکھ کر کہا جائے کہ یہ قرآن کی سورت فاتحہ لکھی ہوئی ہے یہ طریقہ جاہل عجمیوں کا ہےجو قرآن و حدیث کے علم سے بےبہرا تھے یا وہ دین اسلام میں اپنی اپنی مرضی کرکے دین کو بدلنا چاہتے تھے جیسا کہ ایسا ہوچکا ہے کہ لوگ ہر ایسی بات کو جو قرآن اور صحیح حدیث کے خلاف بھی کیوں نہ جاتی ہو اسلام سمجھتے ہیں اور اس پر ایسے ہی عمل کیا جاتا ہے جیسے اس کام کا حکم نبی علیہ السلام نے دیا ہو۔
اللہ ہم سب کو جدید اور قدیم ہر طرح کی جہالتوں اور گمراہیوں سے بچائے اور قرآن و سنت کا پابند بنائے آمین۔

تعویزقرآن و آحادیث کی روشنی میں

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعویزقرآن و آحادیث کی روشنی میں                
تعارف۔تعویذ کو اردو میں تعویذ (گنڈا)جبکہ عربی میں حرز،تمیمہ ،انڈونیشی میں جیماتی ،عبرانی زبان میں غوذخ،عدح،انگریزی زبان میں امولٹ ،کے نام سے جانا و پکارا جاتا ہے۔
لفظ تعویذ اعوذ سے مشتق ہے ۔جس کے معنیٰ :پناہ: کے ہیں ۔جیسے: اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم :تعویذ اس کا اسم مبالغہ ہے لہذا اسکے معنیٰ : پناہ دینے والے: کے ہیں۔
تعویذ عام طور پر اس مقدس تحریر یا نقش کو کہتے ہیں جو مستقبل میں کسی امید کے (پیدائش اولاد،بیماری سے صحت یابی،کسی مقصد میں کامیابی،پیار و محبت ،میاں بیوی کے درمیان محبت و علیٰحدگی،روزگار میں فراوانی،معاشی ابتری وغیرہ)بر آنے یا کسی خطرے سے تحفظ کے لیے جسم کے کسی حصے یا بچوں اور بڑوں کے گلوں ،بازوؤں یا زیر ناف کی صورت میں لٹکایا جاتا ہے۔یا کسی مکان،باڑہ،درخت کی جڑ یا بوسیدہ قبر میں دفن کرتے ہیں جس کو تعویذ کا نام دیا جاتا ہے۔جبکہ کالے،لال،پیلے دھاگے کو گنڈا کہا جاتا ہے۔گنڈا تحفظ،تبرک اور تمنا کے لئے بازوؤں ،ہاتھوں کی کلائیوں میں گرہ لگا کر باندھا جاتا ہے۔
تاریخی پس منظر۔ تعویذ کا رواج عموماً دور جاہلیت خصوصاً بت پرست اقوام میں قدیم ترین زمانے سے چلا آرہا ہے لیکن یقینی طور پر اسکی ابتداء کی صحیح طور پر کوئی تاریخ متعین نہیں کی جا سکتی ہے۔نبی ﷺ کی پیدائش سے تقریباً ۱۲۰ سال قبل کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قدیم اقوام(دجلہ وفرات،عراق،ایران اور پاکستان کے موہنجو داڑو،ہڑپا)میں ایسے پیتل ،چمڑے کے ٹکڑے ملے ہیں جن پر کسی جانور کی تصویر اور اس کے ساتھ کچھ عجیب و غریب نقش بنے ہوئے ملے ہیں جن سے محققین تواریخ نے یہ بات ثابت کی کہ یہ اس زمانے کے تعویذات ہیں۔
تعویذ کی ابتداء۔تعویذکا یہ فن بغداد اور کوفے میں رافضیوں کے زیر سایہ پروان چڑھا ابتداء میں رافضیوں نے اسکے لئے لفظ ابجد یعنی مقدس ناموں کو گنتی کے الفاظوں میں لکھنا جیسے بسم اللہ کی جگہ ۷۸۶ وغیرہ لکھنے کی بنیاد ڈالی گئی اور بعد میں انہی اعداد و شمار نے تعویذ کی جگہ لے لی اور یہ فن اپنی پوری فتنہ سامانی کے ساتھ امت مسلمہ کے عقائد میں داخل کیا گیا۔
یہودی اورتعویذ۔یہودی تعویذتیار کرنے والوں کو ابتداء میں ربانی،ربی اور امام کے نام سے پکارتے تھے ۔لیکن بعد میں ان کے لئے ایک خاص نام وضع کیا گیا جو عبرانی زبان کے دو حروف کا مرکب تھا پہلا لفظ : من:جس کے معنی عبرانی زبان میں:تعویذ:کے ہیں اور دوسرا لفظ:لا: جس کے معنی: بیچنے والا:کے ہیں۔چنانچہ ایسا امام جو توریت و زبور کی آیات کو اعداد میں تبدیل کرنے کا ماہر ہوتا ہے اس کوایک مخصوص نام :من لا: سے پکارا جاتا تھاجو بعد میں روانی میں ملا کہاجنے لگا یہ پہلے ایران میں اور بعد میں ہندوستان میں ہر بڑے عالم دین کے لئے بڑے احترام کا ایک لفظ سمجھا اور استعمال کیا جانے لگا اور جب مغل باد شاہ ہمایوں سولہویں صدی عیسوی میں اپنے تخت کی بازیابی کے لئے ایران سے کمک لے کر ہندوستان واپس آیا تو اسکے ساتھ پچاس ہزار ۰۰۰،۵۰ایرانی (ملا)فوجیوں کے بھیس میں ہندوستان داخل ہوئے ۔انہی میں سے چند اشخاص جو اکبر کے نورتنوں کے نام سے مشہورتھے جن میں ملا ابو الفضل،ملا فیضی،ملا مبارک اور ملا دو پیازہ اور چار ہندوایک سیدھے سادھے مسلمان تھے۔اسی طرح ان چاروں ملاؤں نے ہندوؤں کے ساتھ ملکر دین اسلام کے بجائے دین الہٰی وضع کیا۔انہوں نے قرآن میں تحریف کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ اللہ ربّ العزت نے قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے:انانحن نزلنا الذکروانا لہ لحافظون۔
(الحجر:۹)۔لہذا یہ شیطانی سازش بری طرح ناکام ہوئی لیکن یہ ملا آیات کو اعداد میں تبدیل کر کے اسے عوام میں رائج کرنے میں پوری طرح کامیاب ہو گئے۔اسی طرح انہوں نے ایک طرف تو قرآن حکیم سے لوگوں کو دور کر دیا تودوسری طرف اپنے وضع کردہ شرکیہ الفاظ کو اعداد پردہ میں لوگوں میں پھیلا دیا ۔تعویذ لکھنے والوں نے انہی اعداد کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کیا اورشرکیہ الفاظ سے تعویذ تیار کر کے لوگو ں کے لیے عظیم گناہ (شرک)کے ارتکاب کا موجب بنے۔(بحوالہ دی گولڈن ڈیڈ آف امام حسین از سیداحمد)
یہ رہا مختصر اً تاریخی پس منظر آئیے اب احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں :تعویذ: کی حیثیت اور مقام کا تعین کرتے ہیں۔
احادیث نبوی ﷺ۔عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ دم (شرکیہ الفاظ و منتر وغیرہ)تعویذ اور تولہ (محبت کا تعویذ)سب شرک ہے۔(ابوداؤد ۔مشکوٰۃ ص ۳۸۹) بعض قسم کے دم جن میں شرکیہ الفاظ نہیں تھے رسول ﷺ نے ان کی اجازت دے دی مگر تعویذ (ہر قسم کے قرآنی ہو یا غیر قرآنی کی اجازت نہیں دی بلکہ شرک قرار دیا ہے)اور اسی طرح تعویذ محبت وغیرہ کو بھی شرک فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم فرمایا۔(لقمان۔۱۳)

عیسیٰ بن حمزہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن حکیمؓ کے پاس عیادت کے لئے گیا ،وہ حمرہ(سرخ بادہ) کی بیماری میں مبتلا تھے میں نے ان سے کہا کہ آپ حمرہ کے لئے تعویذ کیو ں نہیں لٹکالیتے تو انہوں نے کہا تعویذ سے اللہ کی پناہ ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کہ جس نے کوئی بھی چیز لٹکائی تو وہ اس کے سپرد کر دیا جائیگا ۔(ابوداؤد،ترمذی،مشکوٰۃ ص:۳۸۹)
معلوم ہوا کہ بلاؤں سے بچنے،بیماری دور کرنے،محبت و بغض ڈالنے اور فتح و کامرانی وغیرہ حاصل کرنے کے لئے جو تعویذ استعمال کرے گا اللہ اس سے ناراض ہو کر اس سے کچھ مطلب نہ رکھے گا ۔اس شخص کو اس :تعویذ گنڈے :کے سپرد کردے گا۔
عقبہ بن عامر الجہنی ؓ روایت کرتے ہیں،کہ نبی ﷺ کے پاس ایک جماعت آئی ،نبی ﷺ نے ان میں سے نو ۹ (افراد) سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے نو سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا۔:آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے اس لیے بیعت نہیں لی کہ وہ تعویذ پہنے ہوئے ہے : یہ سن کر اس نے ہاتھ اندر ڈال کر تعویذتوڑ ڈالا ۔اب نبی ﷺ نے ان سے بیعت لے لی اور فرمایا جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔مسند احمد ص۱۵۶ جلد۴
وکیعؒ ،سعد بن جبیرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے کسی آدمی کا تعویذ کاٹ دیا گویا اس نے ایک جان (شخص)آزاد کرادی ۔
وکیع ؒ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی ؒ مشہور تابعی (امام ابوحنیفہ ؒ کے استاد)روایت کرتے ہیں صحابہ کرام و تابعین ہر قسم کے تعویذوں کو ناجائز سمجھتے تھے ان میں قرآن لکھا ہوتا یا غیر قرآن۔
قاضی ابوبکر فیصلہ فرماتے ہیں قرآ ن لٹکانا سنت کا طریقہ نہیں۔سنت تو یہ کہ قرآن سے نصیحت حاصل کی جائے اسے لکھ کر لٹکایا نہ جائے۔(عون المعبود ،جلد۴ ص ۶)
عروہ ؒ روایت کرتے ہیں کہ حذیفہ بن ایمانؓ ایک مریض کی عیادت کو گئے اور اس کے بازو پر انہوں نے دھاگا بندھا ہوا دیکھا تو اس کو کاٹ کر الگ کر دیا اور قرآن کی یہ آیت پڑھی جس کے معنی یہ ہیں کہ :لوگوں کی اکثریت اللہ کو مانتی ضرور ہے مگراس کے ساتھ دوسروں کوشریک بھی ٹھراتی ہے۔(یوسف:۱۰۴) وکیع ؒ کی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ حذیفہؓ نے اس مریض سے کہا اگر تو اس حالت میں مرجائے کہ تیرے ہاتھ پردھاگہ بندھا ہوا ہو تو میں تیری صلوٰۃ میت نہیں ادا کرونگا۔(تفسیرابن کثیرجلد۲ص۴۹۴)
عمران بن حصینؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک صاحب کے ہاتھ میں ایک پیتل کا کڑا پہنے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے۔پہننے والے نے جواب دیاکہ یہ:واھنہ:کی وجہ سے ہے(ہاتھ کی کمزوری اور بیماری دور کرنے کے لئے)نبی ﷺ نے رد فرمایا اور فرمایا کہ یہ کمزوری کو اور بڑھائے گا اور اگر تو اسے پہنے ہوئے مرجائے تو کبھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو گا (یعنی جنت میں نہ جائیگا)۔(احمد،ابن حبان،الحاکم)
یہ تو تھے قرآن و حدیث پر مبنی ارشادات تو دوسری طرف یہ مسلک پرست جو کہ اپنے آپکو دین اسلام کے چمپئین گردانتے ہیں۔منہ پھاڑ پھاڑ کر اپنے آپکو جنتی کہلاتے ہیں ان کا حال ان مرمودات کے بالکل خلاف ہے جہاں بھی نظر دوڑائیں آپکو تعویذ ہی تعویذ ،کڑے ہی کڑے اور چھلے ہی چھلے نظر آئیں گے ۔یہ بچے کے پیداہونے کا تعویذ ،یہ کمائی میں برکت کا تعویذ ،یہ بلاؤں و جنات سے بچنے کا تعویذ،یہاں تک کہ محبت میں کامیابی و ناکامی کا تعویذ العرض پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لئے یہ دین کے ٹھیکیدار کس طرح قرآن و حدیث کا مذاق اڑا رہے ہیں مزید المیہ تو یہ ہے کہ ان نادان کلمہ گولوگوں کے بازوؤں ،گلوں ،توپیوں اورپاؤں پرلٹکتے ہوئے تعویذات کی شکل میں ملے گا۔
بلاشک و شبہ تقدیرکا بنانے والا اور بگاڑ نے والا اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے لیکن شیطان نے احباروھبان(پیرومولویوں)کے ذریعے عوام الناس کو یہ باور کروایا کہ وہ تعویذ گنڈوں پر اعتقاد کریں،اس سے ان کی تقدیر بدل جائے گی۔گودیں ہری ہو جائیں گی،مرادیں بر آئینگی ،مقدمہ میں جیت ہو جائے گی۔غرض ہر وہ چیز جس کا ایمان اوربھروسہ اللہ کی ذات مقدسہ پر ہونا چاہے تھا۔آج کل ان تعویذ گنڈوں ،چاقوؤں پیسوں اور دھاگوں پر کیا جاتا ہے جو کہ سراسرشر ک ہے ۔اورشرک کرنے والا کبھی بھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شر ک کی نجاست سے بچائیں اور ہمیں صحیح دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائیں اور جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں تو ایمان کی حالت میں اپنے ربّ العزّت سے ملیں۔

اللہ یا خدا

0 تبصرہ جات
اللہ یا خدا

کسی بھی جگہ،چیزیاشخصیت کے نام کو اسم کہتے ہیں۔اس کی دو قسمیں ہیں۔معرفہ اور نکرہ۔معرفہ خاص نام کواورنکرہ عام نام کو کہتے ہیں۔معرفہ کی چھ اقسام ہیں جن میں ایک اسم علم ہے اسم علم کسی کے ذاتی نام کو کہتے ہیں جیسے ابو بکر،عمر،زید وغیرہ۔مالک کائنات اور سارے جہانوں کے رب کا اسم ذات اللہ ہے۔باقی سارے نام صفاتی ہیں۔اسم ذات کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ایک زبان کے اسمائے علم ہر زبان میں اسی حالت میں رہتے ہیں اور انہیں کسی حال میں بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔جیسے کسی کا نام اصغر ہے تو کسی بھی زبان میں کہیں یہ اصغر ہی رہے گا۔ایسا نہیں ہو گا کہ یورپ والے اسے" اسمال یا لٹل" کہنے لگیں اور وہ ایران جاے تو لوگ اسے "کوتاہ یا کو چک" کے نام سے پکاریں۔بالکل اسی طرح لفظ اللہ کا ترجمہ خدا ،گاڈ ،بھگوان وغیرہ نہیں ہو گا۔مارماڈیوک پکھتال نے عیسائی مذہب چھوڑکر اسلام قبول کرنے کے بعد قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔پہلی ہی آیت میں لفظ اللہ کو گاڈ نہیں لکھا بلکہ اللہ ہی لکھا اور نیچے حاشیہ میں اس کی وضاحت بھی ان الفاظ میں کی:
میں نے شروع سے آخر تک لفظ اللہ استعمال کیا ہے کیونکہ انگریزی میں اس کے جوڑ کا کوئی لفظ نہیں ۔لفظ اللہ کانہ کوئی مونث ہے نہ ہی جمع اور نہ قابل تصور ہستی اللہ کے سوا اس کا اطلاق کسی پر نہیں ہوا ہے میں لفظ گاڈ کو صرف اسی جگہ استعمال کرتا ہوں جہاں عربی میں اس کا متبادل لفظ الہٰ مل جاتا ہے۔(قرآن پاک:انگریزی مترجم مارماڈیوک پکھتال :تاج کمپنی کراچی ص ن 1۔
اللہ تعالیٰ کے ننانوے 99معلوم اسماء حسنیٰ میں لفظ خدا شامل نہیں ۔لفظ خدا آتش پرست لوگ اپنے خود ساختہ خیر و شر کے خداؤں یعنی یزداں اور اہر من کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ لفظ ایرانی آتش پرستوں کا باطل تصورات کا مظہر ہے۔مزید یہ کہ عیسائی اس لفظ کوبطورضداللہ کی جگہ استعمال کرتے ہیں بائبل کے تراجم پڑھ لیں کہیں بھی لفظ اللہ لکھا نہیں ملے گا بلکہ خدا ہی ملے گا۔اردوزبان میں عیسائی لٹریچر میں خدا اور خداوند ہی لکھا جاتا ہے اورستم یہ ہے کہ یہ لوگ لفظ خدا عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ایمان کا تقاضایہ ہے مسلم اس لفظ خدا سے بالکل پر ہیز کریں۔
اللّٰہ کا قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
اللہ کے لیے ہیں سب اسماء حسنیٰ سو اس کو انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کوچھوڑ دو جو اس کے ناموں میں الحاد (کج روی)اختیار کرتے ہیں۔ان کو اس کی سزامل کر رہے گی۔الاعراف 18
تحریر: محمد حنیف

گناہوں سے بخشش مگر مومن کے لیئے

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کا کام سمجھ کر روزے رکھے اس کے اگلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Whoever observes fasts during the month of Ramadan out of sincere faith, and hoping to attain Allah's rewards, then all his past sins will be forgiven."
صحیح بخاری:جلد اول: ایمان کا بیان :ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھنا ایمان میں داخل ہے

 مسلم بن ابراہیم، ہشام، یحیی بن ابی سلمہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کھڑا ہو، اسکے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
Narrated Abu Huraira: 
The Prophet said, "Whoever established prayers on the night of Qadr out of sincere faith and hoping for a reward from Allah, then all his previous sins will be forgiven; and whoever fasts in the month of Ramadan out of sincere faith, and hoping for a reward from Allah, then all his previous sins will be forgiven."
صحیح بخاری:جلد اول:باب:روزے کا بیان :اس شخص کا بیان جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے نیت کرکے رمضان کے روزے رکھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے ۔

روزہ جلد افطار کرنا سنتﷺ

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم
 حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔
Sahl b. Sa'd (Allah be pleased with him) repotted Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: The people will continue to prosper as long as they hasten the breaking of the fast.
صحیح مسلم:جلد دوم:باب:روزوں کا بیان :سحری کھانے کی فضیلت اور اس کی تاکید اور آخری وقت تک کھانے کے استحباب کے بیان میں

ابوعطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت مسروق دونوں کے دونوں ایک روز عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ مسروق نے فرمایا کہ دو حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں اور دونوں کے دونوں نیک کام میں کوتاہی نہیں کرتے۔ لیکن ان میں سے ایک نماز بھی تاخیر سے ادا کرتا ہے اور روزہ بھی تاخیر سے افطار کرتا ہے اور دوسرا شخص نماز بھی جلدی سے پڑھتا ہے اور وہ شخص روزہ بھی جلد افطار کرتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ وہ کون شخص ہے جو کہ نماز بھی جلدی ادا کرتا ہے اور روزہ بھی جلدی افطار کر لیتا ہے؟ حضرت مسروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ بات سن کر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طریقہ سے عمل فرمایا کرتے تھے۔
سنن نسائی:جلد دوم:باب:روزوں سے متعلقہ احادیث

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے بندوں میں سب سے زیادہ پیارا وہ بندہ ہے جو وقت ہو جانے پر افطار میں جلدی کرے۔ (ترمذی)
مشکوۃ شریف:جلد دوم:باب:رویت ہلال کا بیان :وقت ہوجانے پر افطار میں جلدی کرنے کی فضیلت