Sunday, July 31, 2011

روزے کے اہم اہم مسائل

2 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


روزے کے اہم اہم مسائل


1-
وجوب نیت


فرض روزوں کے لیے رات کو طلوع فجر سے پہلے پہلے روزے کی نیت کرنا ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
جس نے فجر سے پہلے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی، اس کا روزہ نہیں۔

من لم۔۔۔۔ صیام لہ) (سنن ابی داؤد، الصیام، باب النیة فی الصوم، ح:۲۴۵۴)




رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے، علاوہ ازیں فجر کے طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس نے سحری بھی کھانی ہوتی ہے، اور سحری کا وقت بھی رات ہی میں شامل ہے۔ اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے، کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان ۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں روزے کی نیت کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں

وبصوم غد نویت من شہر رمضان
 بالکل بے اصل ہیں۔ اس کی سند نہیں ہے۔ اس لیے ان الفاظ کا پڑھنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ہیں۔




2-
روزے کا وقت




طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے۔ صبح صادق سے پہلے سحری کھا لی جائے اور پھر سورج کے غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔


3-
سحری ضرور کھائی جائے




بعض لوگ سحری کھانا ضروری نہیں سمجھتے اور رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز، سحری کا کھانا ہے۔‘‘


فضل ما ۔۔۔۔۔۔۔۔السحر) (صحیح مسلم، الصیام، باب فضل السحور۔۔۔، ح:۱۰۹۶)




یعنی اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضروری کھانی چاہیے۔ چاہے ایک کھجور یا چند گھونٹ پانی ہی ہو۔ اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کو غدائے مبارک سے تعبیر فرمایا ہے۔

(سنن ابی داؤد، الصیام، باب من سمی السحور الغداء، حدیث :۲۳۴۴)




ایک اور حدیث میں فرمایا
سحری کا کھانا باعث برکت ہے، اس لیے اسے نہ چھوڑو، چاہے کوئی ایک گھونٹ پانی ہی پی لے، کیونکہ اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔


السحور اکلہ۔۔۔۔۔۔ علی المسحرین) (الفتح الربانی: ۱۶/۱۰)


اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور طریقہ مبارک یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے بالکل آخری وقت میں کھایا کرتے تھے۔ روزے داروں کے لیے اس طریق نبویﷺ کو اپنانے میں بڑے فائدے ہیں۔ مثلاً فجر کی نماز میں سستی نہیں ہوتی، سحری سے فراغت کے فوراً بعد نماز فجر کا وقت ہو جاتا ہے۔



انسان آسانی سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیتا ہے اور روزے کی ابتداء اور انتہاء کے درمیان وقفہ کم ہو جاتا ہے، جس سے روزے دار کو سہولت مل جاتی ہے وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’صوم و صال ‘‘ یعنی بغیر کچھ کھائے پئے مسلسل روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔


صحیح بخاری، الصیام، باب الوصال، ح:۱۹۶۲، ومسلم، باب النھی عن الوصال، ح: ۱۱۰۴


4-
روزہ کھولنے میں جلدی کرنا




نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ روزہ کھولنے میں تاخیر نہ کی جائے، بلکہ جلدی کی جائے۔ جلدی کا مطلب سورج کے غروب ہونے سے قبل روزہ کھولنا نہیں ہے، بلکہ سورج کے غروب ہونے کے بعد بلا تاخیر فوراً روزہ کھولنا ہے۔ جیسے بعض لوگ سورج غروب ہونے کے بعد اتنا اندھیرا چھا جانے کو ضروری سمجھتے کہ تارے نظر آنے لگ جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہود و نصاری کا یہی معمول تھا۔ اس لیے آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم یہود و نصاری کے برعکس سورج کے غروب ہوتے ہیں فوراً روزہ کھول لیا کرو۔




رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لوگ اس وقت تک ہمیشہ بھلائی میں رہیں گے جب تک روزہ کھولنے میں جلدی کریں گے۔‘‘

لا یزال الناس۔۔۔۔۔۔ الفطر) (صحیح البخاری، الصوم، باب تعجیل الافطار، ح: ۱۹۵۷، ومسلم، الصیام، باب فضل السحور، ح:۱۰۹۸)




5-
روزہ کس چیز سے کھولا جائے




حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے، اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو چھواروں سے روزہ کھولتے، اگر چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ نوش فرما لیتے۔‘‘


کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ من ماء) (سنن ابی داؤد، الصیام، باب مایفطر علیہ، ح: ۲۳۵۶)


ہمارا معمول اس نبوی معمول سے کتنا مختلف ہے۔ ہمارے ہاں افطاری کے وقت انواع و اقسام کے پھل فروٹ کے علاوہ چٹ پٹی اور مصالحے دار چیزوں کی بھی فراوانی ہوتی ہے، جس سے معدے میں گرانی ہو جاتی ہے جو صحت کے لیے سخت مضر ہے۔ ہمیں بھی ان تکلفات کی بجائے سادگی ہی کو اختیار کرنا چاہیے۔ اسی میں اخروی اجر و ثواب بھی ہے اور دنیوی فائدہ بھی۔


6-
قبولیت دعا کا وقت




سارا دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھوک پیاس برداشت کرنے اور اپنی جنسی خواہش پر کنٹرول کرنے کی وجہ سے ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک خاص مقام حاصل ہو جاتا ہے، اس لیے افطاری کے وقت قبولیت دعا کا بھی بہت امکان ہوتا ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

افطاری کے وقت روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی۔‘‘


ان للصائم۔۔۔۔ ما ترد) (سنن ابن ماجہ، الصیام، باب فی الصائم لا تردد دعوتہ، ح: ۱۷۵۳)




7-

افطاری کے وقت کون سی دعا پڑھی جائے




اس سلسلے میں ایک دعا یہ مشہو رہے

اللھم لک صمت وعلیٰ رزقک افطرت) لیکن یہ مرسل روایت ہے جو محدثین کے نزدیک ضعیف شمار ہوتی ہے۔ ایک دوسری دعا ہے جو عام کیلنڈروں میں لکھی ہوتی ہے 

اللھم لک صمت وبک آمنت وعلیک توکلت وعلی رزقک افطرت)


یہ دعا بالکل بے سند اور بے اصل ہے، ایک تیسری دعا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطاری کے وقت پڑھتے تھے۔


(
ذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتِ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللہُ)


پیاس دور ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر ثابت ہوگیا۔‘‘


اس کی سند حسن درجے کی ہے۔ (

مشکوة للالبانی ۲۶۱/۱) اس لیے بہتر ہے کہ افطاری کے وقت یہی دعا پڑھی جائے۔ اگرچہ شیخ البانی نے دوسری مرسل روایت کو بھی شواہد کی بنا پر قابل قبول قرار دیا ہے۔ لیکن بعض دوسرے علماء شیخ البانی کی اس رائے سے متفق نہیں اور وہ اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔و اللہ اعلم




8-
روزہ کھلوانے کا ثواب


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا یا کسی غازی کو تیار کیا تو اس کے لیے بھی اس کے برابر اجر ہے۔


من فطر۔۔۔۔۔ مثل اجرہ)(شرح السنة، باب ثواب من فطر صائما، ح: ۱۸۱۹ وشعب الایمان، الصیام، فضل فیمن فطر صائما، ح: ۳۹۵۳)




روزہ کھلوانے کا یہ اجر ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق حاصل کر سکتا ہے، اس کے لیے پر تکلف دعوت کی ضرورت نہیں۔


9-
روزے دار کے لیے حسب ذیل چیزوں سے اجتناب ضروری ہے
1-

جھوٹ سے: جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے جھوٹ بولانا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا، تو اللہ عزوجل کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسا شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے روزے کی کوئی اہمیت نہیں۔


من لم۔۔۔واشربہ) (صحیح البخاری، الصوم، باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم، ح: ۱۹۰۳)
2-

لغو اور رفث سے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


روزہ صرف کھانا پینا (چھوڑنے کا) نام نہیں ہے۔ روزہ تو لغو اور رفث سے بچنے کا نام ہے۔ اس لیے اگر تجھ کو کوئی شب و ستم کرے یا تیرے ساتھ جہالت سے پیش آئے تو تُو کہہ دے میں تو بھئی روزے دار ہوں۔‘‘


لیس الصیام۔۔۔۔ انی صائم) (صحیح ابن خزیمہ ۲۴۲/۳، ح: ۱۹۹۶۔ مط۔ المکتب الاسلامی)


3-

لغو: ہر بے فائدہ اور بے ہودہ کام کو کہتے ہیں ، جیسے ریڈیو اور ٹی وی کے لچر اور بے ہودہ پروگراموں کا سننا اور دیکھنا ہے۔ تاش ، شطرنج اور اس قسم کے دیگر کھیل ہیں۔ فحش ناول، افسانے اور ڈرامے ہیں۔ دوست احباب کے ساتھ خوش گپیاں ، چغلیاں ، بے ہودہ مذاق اور دیگر نا شائستہ حرکتیں ہیں۔
4-

رفث کا مطلب :جنسی خواہشات پر مبنی باتیں اور حرکتیں ہیں۔ یہ لغو و رفث روزے کی حالت میں بالخصوص ممنوع ہیں۔ اس لیے تمام مذکورہ باتوں اور حرکتوں سے اجتناب کیا جائے۔




اسی طرح کوئی لڑنے جھگڑنے کی کوشش کرے ، گالی گلوچ کر کے اشتعال دلائے، تو روزے دار اس جہالت کے مقابلے میں صبر و تحمل اور در گزر سے کام لے اور دوسرے فریق کو بھی اپنے عمل سے یہ وعظ و نصیحت کرے کہ روزے کی حالت میں بالخصوص جدال و قتال سے بچنا اور قوت برداشت سے کام لینا چاہیے۔




جھوٹ اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب کا مطلب ہے کہ روزے میں نہ جھوٹی بات کرے نہ دجل و فریب پر مبنی کوئی حرکت، جیسے دکان میں بیٹھ کر گاہکوں سے جھوٹ بولے یا ان کو دھوکہ اور فریب دینے کی کوشش کرے، جیسا کہ بد قسمتی سے بے شمار دکاندار ان حرکتوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ حرکتیں ہر وقت ہی ممنوع ہیں۔ لیکن روزہ رکھ کر ان حرکتوں کا ارتکاب تو بہت بڑی جسارت اور غفلت شعاری کا عجیب مظاہرہ ہے۔




ایسے ہی لوگوں کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
کتنے ہی روزے دار ہیں جن کو سوائے پیاس کے، روزہ رکھنے سے کچھ نہیں ملتا اور کتنے ہی شب بیدار ہیں جن کو بے خوابی کے سوا شب بیداری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘


کم من صائم۔۔۔۔۔۔۔۔الا السھر) (مسند احمد: ۴۴۱/۲ وسنن الدارمی، الرقائق، باب فی المحافظة علی الصوم، ح: ۲۷۱۶ وقال الالبانی اسنادہ جید، مشکوة للالبانی: ۶۲۶/۱)

Tuesday, July 26, 2011

ان شاءاللہ لکھنے میں غلطی کرنا

0 تبصرہ جات


بسم اللہ الرحمن الرحیم


آ پ لوگوں نے اکثر کتابوں میں لفظ ان شاءاللہ کو اس طرح لکھا ہوا پڑھاہوگا انشاءاللہ اور جب کہ اس طرح لکھنے سے اس کا معنی بدل جاتا ہے۔ لفظ ان شاءاللہ کے اردو میں معنی بنتا ہے اگر اللہ نے چاہا اور جب کہ انشاء عربی میں کسی چیز کو بنانے کو کہتے ہیں اس طرح انشاءاللہ کے معنی بہت غلط بن جاتے ہیں ۔ہم لوگ عربی زبان سے واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں اللہ ہمیں معاف فرمائے آمین۔
اللہ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاۗءً 35۝ۙ
ہم نے ان (کی بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے۔الواقعہ:۳۵
قَالَ اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَاۗءَ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ 33 ؀
جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالٰی ہی لائے گااگر وہ چاہے اور ہاں تم اسے ہرانے والے نہیں ہو۔ھود:۳۳
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْهِ اَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ 99؀ۭ
پھر جب (سب کے سب) یوسف کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے والدین کو (عزت و احترام کے ساتھ) اپنے پاس جگہ دی اور کہا، ''کہاگر اللہ نے چاہا تو تم (سب) مصر میں امن کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔'' یوسف:۹۹
ان آیات سے بات بالکل واضح ہوئی۔الحمدللہ
اب میں آپ سب بھائیوں اور بہنوں سے اُمید رکھتا ہوں کہ آپ سب آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ ان شاءاللہ

Wednesday, July 20, 2011

ہلال اور وحدت اُمت

1 تبصرہ جات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ


يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۭ

یہ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہیے کہ یہ انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کے لئے ہے اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے )کے لئے بھی۔


۲: البقرہ۔ ۱۸۹



آیت ِبالا سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہلال (نئے چاند)کو انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے)کا بھی ذریعہ بنایاہے۔


یہ بات واضح ہے کہ عام انسانوں کے لئے عموماًاور اہل ِایمان کے لئے خصوصاً تاریخوں کے تقرر کی ضرورت ہی اس لئے ہے تاکہ اجتماعی مواقع (حرام مہینوں کے آغازواختتام،حج، عیدین وغیرہ) کے دِنوں کے لئے ان کے درمیان وحدت پیدا ہو۔ آیت میں ہلال کے تاریخیں مقررکرنے کے ذریعے کے ساتھ ساتھ حج(انسانوں کے سب سے بڑے اجتماع) کی تاریخ مقررکرنے کاذریعہ ہونے کے ذکر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ تاریخیں روئیت ِہلال (چانددیکھے جانے )سے شروع ہوتی ہیں ۔



تاریخیں انسانوں کے اجتماعی مواقع کے دِنوں کے لئے ان کے درمیان وحدت پیداکرنے کے لئے ہوتی ہیں ورنہ تاریخوں کے نظام کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے۔ انسانوں کے مابین اجتماعی مواقع پر وحدت تب ہی پیدا ہو سکتی ہے جب ان کے مابین تاریخوں کے آغازواختتام کے ایک دن کا نظام رائج ہو ، ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب کرہ ِ ارض پر ہونے والی ہلال کی پہلی روئیت کرہِ ارض کے تمام انسانوں کو قبول ہو اورآیات واحادیث اور زمینی حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ ایسا ہونالازم ہے ۔



اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

 جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِــيٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَاۗىِٕدَ ۭذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ 97؀

بنایا ہے اللہ نے کعبہ کو ،جو حرمت والاگھرہے ، اجتماعیت کے قیام کا باعث انسانوں کے لئے اور حرمت والے مہینوں کو اور قربانی کے جانوروں اورقلادوں کو بھی (بنایااس کام میں معاون)۔ یہ اس لئے تاکہ تم جان لوکہ بے شک اللہ جانتا ہے ہروہ بات جو ہے آسمانوں میں اور جوہے زمین میں، اور بے شک اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔


(۵: المائدہ۔ ۹۷




آیت سے واضح ہوتاہے کہ بیت اللہ ، حرمت والے مہینے ، قربانی کے جانور اور قلادے انسانوں کے لئے اجتماعیت کے قیام کاباعث بنا ئے گئے ہیں ۔ حرمت والے مہینوں میں سے تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجۃ اور محرم تو خودحج سے متعلق بھی ہیں (کہ ذوالقعدہ میں حج کے لئے سفرشروع ہوتا ہے، ذوالحجۃ میں حج ہوتاہے اور محرم میں حج سے واپسی کا سفر ہوتا ہے)۔ حرمت والے مہینوں کاآغازواختتام ہلال کی روئیت سے ہوگا۔جب دنیا میں کہیں ہلال نظر آ جائے اورمکہ سمیت پوری دنیا میں ہلال ہونے کی گواہی پہنچ جائے تو مکہ اورپوری دنیا میں حرام مہینے کا آغاز ہوجائے گا اور مکہ اورپوری دنیاکے مسلمانوں لئے حج کادن مقرر ہوجائے گا ، نہ کہ ہرملک کے مسلمانوں کے لئے حج کادن اُن کے ملک کی اپنی روئیت ِہلال کی بناپرمقررہوگا ، یوں ’’حج اورحرمت والے مہینے‘‘ مہینوں کے آغازواختتام کے حوالے سے پوری اُمت کی وحدت کا ذریعہ بنیں گے اوراس کے لئے کرہ ِ ارض پرہلال کی پہلی روئیت بنیاد بنے گی جوکہ مغرب (مراکش ،مصر،شام ،عرب وغیرہ)میں ہوتی ہے۔


پاکستان ہر سال ایک دن یا دو دن کا فرق مکہ سے رکھتا ہے اب یہاں ایک مسئلہ بنتا ہے کہ

قرآن’’ قدر والی رات‘‘ میں نازل ہوا مگر کونسی میں ؟



روئیت ِ ہلال کے حوالے سے مکہ میں طاری طاق رات میں نازل ہوا یا


روئیت ِ ہلال کے حوالے سے پاکستان میں طاری طاق رات میں نازل ہوا ؟

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

 اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ  


بے شک ہم نے اس (قرآن)کو قدر والی رات میں نازل کیا۔

(۹۷: القدر۔ا


آیت سے واضح ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔ آیت میں ’’ایک‘‘ رات کا ذکر ہے، اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ کونسی طاق رات ہوتی ہے؟ روئیت ِ ہلال کے حوالے سے جو طاق رات مکہ (نزولِ سورۃ القدر کے مقام)میں طاری ہوتی ہے؟ یا پاکستان میں روئیت ِ ہلال کے حوالے سے جوطاق رات پاکستان میں طاری ہوتی ہے؟ اگر دونوں مقامات کی طاق رات سمجھی جائے تب یہ’’ رات‘‘ کی بجائے ’’دو راتیں‘‘ ہو جائیں گی(پہلے مکہ والی رات پھرروئیت ِ ہلال میں ایک یادودن کے وقفے کی بناپر پاکستان والی رات)، مگرآیت میں ایک رات کا ذکر ہونے کی بنا پر یہ دو راتوں والا معاملہ غلط ہو جاتا ہے، یوں خودیہ سوال کہ’’ کونسی طاق رات ‘‘؟(روئیت ِہلال کے حوالے سے مکہ والی رات یا پاکستان والی رات؟) قدر والی رات کو واضح کر دیتاہے کہ ’’مکہ والی طاق رات ! ‘‘ جہاں سورۃ القدر نازل ہوئی ، جہاں نبی ﷺ کے وقت میں بھی باہر (مغرب) میں نظرآنے والے ہلال کی گواہی‘‘ قبول کی جاتی تھی(یہ حدیث آگے آئےگی) اورآج بھی قبول کی جاتی ہے اور جہاں خودہلال بھی اکثر مشرق(پاکستان وغیرہ) سے ایک دن پہلے نظرآتا ہے۔



عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت مکہ میں طاق رات طاری ہوتی ہے پاکستان میں بھی و ہی رات ہوتی ہے مگر پاکستان میں روئیت ِ ہلال کے حساب سے یہاں یہ رات طاق کی بجائے جفت ہوتی ہے ۔ مغرب ِمکہ اورمکہ میں لوگ طاق رات کو قدر والی رات کے طورپر منا رہے ہوتے ہیں مگر پاکستان والے لوگ ٹھیک اُسی رات ’’اگلی رات کو قدر والی رات کے طور پر منانے کا پروگرام لے کر‘‘ سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ جہاں قرآن کے قدر والی رات میں نازل ہونے والی سورۃ اُتری اُس مقام ’’مکہ ‘‘کو اورقدر والی رات کوذہن رکھیں اورذراسوچیں کہ حقیقت میں کونسی رات سامنے آتی ہے ؟ روئیت ہلال کے حساب سے مکہ والی طاق رات یاپاکستان والی رات؟ یقیناً مکہ والی طاق رات ! یہ رات پاکستان میں بھی طاری ہے مگر پاکستان والے مکہ کی روئیت نہ ماننے کی بنا پر اب اگلی رات کو جاگیں گے توکیاوہ حقیقت میں جفت رات میں جاگیں گے یا طاق رات میں جاگیں گے ؟




برصغیر کے علماء ہلال کے معاملے میں



احادیث کو جزو پر لگانے اور کل پر نہ لگانے کی بنا پر اُمت سے الگ ہوئے ہیں



مغرب میں ہلال کی پہلی تاریخ سے ایک دن بعد(اور بعض اوقات دو دن بعد) ہلال کی پہلی تاریخ اختیار کرنا عام طور پر برصغیر کے ملکوں کا دستورہے اور ایسا ذیل کی حدیث سے غلط استدلال لینے کی بنا پر ہوا ہے



نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ



اِذَا رَاَیْتُمُ الْھِلَالَ فَصُوْمُوْا وَ اِذَا رَاَیْتُمُوْ ہُ فَاَفْطِرُوْا فَاِنَّ



غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلٰثِیْنَ یَوْمًا۔



تم جب چاند دیکھو تب روزہ رکھو اور جب تم اسے دیکھو تب ہی افطارکرو پھر اگر تم پرچاند گم رہے تو تیس دن کے روزے پورے کرو۔


( مسلم:کتاب الصیام۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

)



اس حدیث میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور دیکھ کر ہی افطار کرنے کا حکم ہے، لیکن جب علما ء سے کہا جاتا ہے کہ ہلال ہونے کی ’’گواہی‘‘ ملنابھی ہلال دیکھنے کے حکم میں داخل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے گواہی قبول کی ہے ، یوں دنیا کے کسی حصے میں اگر ہلال نظرآنے کی گواہی مل جائے اس بنا پر پاکستان میں روزہ کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟ اور عید کیوں نہیں کی جا سکتی ؟ تو اس سلسلے میں علماء کی طرف سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت پیش کی جاتی ہے


عَنْ کُرَیْبٍ :بِالشَّامِ قَالَ فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثُمَّ ذَکَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ مَتَی رَأَيْتُمْ الْهِلَالَ فَقُلْتُ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ أَنْتَ رَأَيْتَهُ فَقُلْتُ نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ فَقَالَ لَکِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّی نُکْمِلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ فَقُلْتُ أَوَ لَا تَکْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ فَقَالَ لَا هَکَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


کریبؒ سے روایت ہے کہ میں شام میں تھا میں نے جمعہ کی رات کو (رمضان کا) چاند دیکھا پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آیا، میرے سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سوال کیا اور چاند کا ذکر کیا کہ تم نے کب دیکھا ؟ میں نے کہا کہ جمعہ کی شب کو، انہوں نے پوچھا :تم نے خود دیکھا ؟ میں نے کہا ہاں اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور معاویہ ؓ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ہم نے تو ہفتہ کی رات کو دیکھااور ہم تیس روزے پورے کریں گے یا تو چاند دیکھ لیں گے، میں نے کہا : کیا آپ معاویہ ؓ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کا فی نہیں سمجھتے ہیں؟ آپؓ نے کہا کہ نہیں، ایسا ہی حکم کیا ہے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے۔



(

مسلم: کتاب الصیام۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ)



حدیث میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ ھٰکَذَآ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ۔ایسا ہی حکم کیا ہے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے‘‘ ۔ اب یقینی بات ہے کہ نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ صحابی نبی ﷺ پر جھوٹ باندھے اور نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے قول،فعل یا تقریر کے ساتھ حکم کیا ہو اور وہ حکم کتب احادیث میں کہیں موجودنہ ہولیکن کتب ِاحادیث میں نبی ﷺکا ایسا حکم کہیں نہیں مل سکا ہے کہ ’’ معاویہ کایا اہل ِ شام کایاکسی اور علاقے یا مطلعے کے لوگوں کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں سمجھنا ہے۔



٭ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہاہے کہ ھٰکَذَآ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ۔ ’’ایسا ہی‘‘ حکم کیا ہے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کاکوئی حکم پیش نہیں کررہے ہیں بلکہ انہوں نے نبی ﷺ کے کسی حکم سے استدلال کیا ہے،یوں یہ روایت ’’حدیث ِنبویﷺ‘‘کی بجائے محض صحابی کاقول (اثر)ثابت ہوتی ہے اورکتاب وسنت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت پوری اُمت کے لئے ’’حجت‘‘صرف اللہ کی نازل کردہ وحی’’آیت ِقرآنی‘‘اور’’حدیث ِنبوی ﷺ‘‘ ہی قرار دی گئی ہے نہ کہ کسی کاقول ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے کہ ’’ہم تیس روزے پورے کریں گے یا تو چاند دیکھ لیں گے‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہوں نے نبی ﷺ کے اُسی حکم سے استدلال کیا ہے جو اوپر پہلی حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ’’تم جب چاند دیکھو تب روزہ رکھو اور جب تم اسے دیکھو تب ہی افطارکرو پھر اگر تم پر چاند گم رہے تو تیس دن کے روزے پورے کرو !‘‘ لیکن نبی ﷺکے اس حکم سے چاند دیکھنے کے حوالے سے دوسرے علاقے سے ملنے والی گواہی کی قبولیت کی نفی ثابت نہیں ہوتی ، جب کہ دوسرے علاقے سے ملنے والی گواہی کی قبولیت کے حوالے سے واضح احادیث ِنبویﷺ موجود ہیں جن میں سے ایک بہت مشہورحدیث درج ذیل ہے


ابوعمیر بن انس بن مالک ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے انصار صحابہ میں سے میرے چچاؤں نے بتایا کہ ہم شوال کا چاند نہ دیکھ سکے اور ہم نے روزے کی حالت میں صبح کی، دن کے آخر میں ایک قافلہ آیا اور اُس نے نبی ﷺ کے سامنے شہادت دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں روزہ افطار کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی کہ صبح عید کے لئے نکلیں۔


ابن ِماجہ: کتاب الصیام۔ ابوعمیر بن انس بن مالک ؒ



درج بالا حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جس علاقے میں قافلہ والوں نے چاند دیکھا تھا اُس علاقے کا مطلع اور مدینے کا مطلع الگ الگ تھا ورنہ اُس علاقے میں نظر آنے والاہلال مدینے میں بھی نظر آنا چاہیے تھا۔ دوسرے مطلعے والے علاقے سے آنے والی روئت ِ ہلال کی گواہی مانے جانے کی واضح حدیث کی موجودگی کے بعد علماء کے لئے دو میں سے ایک فیصلہ اختیار کرنا لازم ٹھہرتا ہے کہ



چاند دیکھنے کے حوالے سے کسی دوسرے مطلعے یا علاقے سے ملنے والی گواہی قبول کرنی ہے



یا



چاند دیکھنے کے حوالے سے کسی دوسرے مطلعے یاعلاقے سے ملنے والی گواہی قبول نہیں کرنی ہے


اگر کسی دوسرے مطلعے یا علاقے سے ملنے والی گواہی قبول نہیں کرنی ہے(جبکہ یہ حدیث کی واضح خلاف ورزی ہوگی) تو پھر پاکستان میں روئیت ِہلال کمیٹی توڑ دینی چاہیے، ہر علاقے وشہرکے لوگوں کو خود چاند دیکھنا چاہیے اور روزہ وعید کا اہتمام کرنا چاہیے۔جس جس کو چاند نظر آئے وہ روزہ یاعید کا اہتمام کر لے جسے نظر نہ آئے وہ روز یاعید کا اہتمام نہ کرے۔




اگر گواہی لینے کا اُصول قبول کرنا ہے، جو کہ پاکستان میں عملاً قبول کیا جاتا ہے ،اسی بناء پرروئیت ِہلال کمیٹی قائم ہے اور ملک کے کسی علاقے سے ہلال کی گواہی ملنے پرپورے ملک میں روزہ یا عید ہوتی ہے۔ اس اُصول کو پوری دنیا کے حوالے سے اختیار کیا جانا لازم ٹھہرتا ہے، کہ دنیا میں کسی بھی جگہ ہلال ہونے کی اطلاع ملے تو پاکستان میں اسے قبول کیا جائے ۔



عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان میں اگر کراچی یا کوئٹہ میں ہلال نظرآنے کی گواہی مل جائے تو پورے پاکستان میں روزے یا عید کا اعلان ہو جاتا ہے لیکن اگر گواہی پاکستان کی سرحد کے پار قندھار یا مکہ یا شام میں ہلال نظر آنے کی مل جائے تو پاکستان میں روزہ یا عید نہیں ہوتی ہے، واضح احادیث کی موجودگی میں آخرکس اُصول کی بنا پر سرحد پار کی گواہی پاکستان میں لاگو نہیں ہوتی ہے؟ اگر اس اُصول کی بنیاد کریب اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت کو بنایا جاتا ہے تو اس روایت کے ’’حدیث ِ نبوی ﷺ کی بجائے ’’ محض صحابی کاقول(اثر)ثابت ہونے کی بناء پر‘‘ اور اس کے برعکس ’’دوسرے علاقے سے ملنے والی گواہی کی قبولیت کے سلسلے میں قافلے والی واضح حدیث ِنبوی ﷺموجود ہونے کی بناء پر‘‘ کریب ا ور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت(حقیقت میں قول ِ صحابی؍ اثر) دوسرے علاقے کی گواہی قبول نہ کرنے کے لئے بنیاد نہیں بن سکتی ہے۔


٭

کیا گواہی کی قبولیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے مطلعے ، فاصلے اور ملک کی کوئی حد مقرر کی ہے ؟ کہ محض اپنے مطلعے سے یا اتنے فاصلے کے اندر سے یافلاں فلاں ملک تک سے ہلال ہونے کی گواہی مل جائے تو قبول کی جائے اور اس سے باہر کی گواہی ملے تو قبول نہ کی جائے۔



٭ کیا نبی ﷺ نے اُس قافلے ،کہ جس نے کل چاند دیکھا تھا، سے پوچھا تھا کہ تم کس مطلعے سے، کس ملک سے اورکتنے فاصلے سے آئے ہو ؟ جب نبی ﷺ نے اُس قافلے سے یہ سوال نہیں کئے تھے توآج یہ سوال کرنا ’’بدعت ‘‘کے سوا اور کیا ہے ؟


٭

بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ آج کے جیسے’’ ذرائع خبر‘‘ نبی ﷺ کے وقت حاصل نہیں تھے اس لئے ان ذرائع کی بنا پر ملنے والی خبرآج ہلال کے حوالے سے کسی فیصلے کی بنیاد نہیں بن سکتی، جبکہ حدیث کو غور سے دیکھنے سے معاملہ بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ نبی ﷺ کو دن کے آخر میں گواہی ملی کہ گذرے ہوئے کل ہلال دیکھا گیاتھا، آپ نے اُسی وقت(دن کے آخر میں) روزہ افطار کرنے کا حکم دیا ، کیاآپ تک یہ گواہی گذری ہوئی شام یا رات کو پہنچ جاتی تو آپ اُسی رات کو اگلی صبح روزہ نہ رکھنے اورعید کے لئے نکلنے کا حکم نہ دیتے ؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جیسے بنیادی چیز یہ نہیں کہ ہلال کہاں طلوع ہوا ہے اسی طرح سے بنیادی چیز یہ بھی نہیں کہ کس ذ ریعہ سے اطلاع ملی ہے بلکہ بنیادی چیز ’’اطلاع کا پہنچنا ہے‘‘ ،جہاں سے بھی، جب بھی اور جس بھی ذریعے سے’’ جس رات کی شام میں ہلال کا ہونا‘‘ گواہی کے ذریعے ثابت ہوجائے اُس رات کی صبح سے مکہ اور پوری دنیا میں قمری مہینے کی پہلی تاریخ شروع ہو جائے گی۔



٭ بعض لوگ پاکستان اور امریکہ وغیرہ کے فاصلے اور وقت کا تقابل کرنا شروع ہو جاتے ہیں کہ یہاں رات ہوتی ہے اور وہاں دن ہوتا ہے اس لئے دونوں مقامات پرایک ہی وقت میں روزہ یا عید کیسے ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے دو باتیں قابل ِ غور ہیں



پہلی بات یہ کہ دونوں مقامات کے ایک دوسرے سے تقابل کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مرکز نہیں ہیں بلکہ دونوں کے لئے مرکز’’کرہ ِارض پرہونے والی پہلی روئیت ‘‘ہے، ’’ جس رات کی شام میں مغرب میں کسی مقام پر ہلال کا ہونا‘‘ ثابت ہوجائے، وہ رات جب پاکستان،مکہ اور امریکہ میں پہنچے گی تو تینوں مقامات میں اُس رات کی صبح سے مہینے کی پہلی تاریخ شروع ہو جائے گی۔ پاکستان اورمکہ میں تواُس وقت و ہی ہلال والی رات طاری ہو گی اور امریکہ میں وہ رات تھوڑی دیر میں طاری ہو جائے گی۔



دوسری بات یہ کہ معاملہ’’ ایک ہی وقت‘‘ میں روزہ یا عید کا درپیش نہیں بلکہ’’ ایک ہی دن وتاریخ‘‘ میں روزہ یا عید کا درپیش ہے اورپوری دنیا میں ایک دن و تاریخ کا معاملہ کسی مزید بحث کا محتاج نہیں، کیونکہ یہ بالکل واضح ہے کہ اگر پوری دنیا میں ہفتے کے ایک دن انگریزی مہینے کی ایک تاریخ کا نظام چل سکتا ہے توقمری مہینے کی ایک تاریخ کانظام کیوں نہیں چل سکتا؟معاملہ صرف پوری اُمت میں قمری مہینے کی ایک تاریخ اختیار کرنے کا ہے اوریہ حقیقی تاریخ وہی ہو گی جو’’کرہ ِ ارض پر ہلال کی پہلی روئیت ‘‘کے ساتھ اختیارکی جائے گی۔


اب رہی یہ بات کہ پاکستان میں ہلال ایک یادو دن بعد نظر آتا ہے تودرج بالا دلائل و شواہد سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کرہِ ارض پر کہیں بھی ایک بارہلال طلوع ہونے کے اگلے دن سے مکہ اور دنیا بھرمیں پہلی تاریخ شروع کرنالازم ہے اور اس کے بعد کسی دوسرے خطے میں دوسرے یاتیسرے دن ہلال دیکھے جانے کی بات قابل ِتوجہ ہی نہیں رہتی ہے۔

یہ سوال کہ فون وغیرہ کی سہولت فراہم ہونے سے پہلے جب تک ملک سے باہر کی روئیت ِہلال کی گواہی پاکستان تک نہیں پہنچتی رہی ہے تب تک پاکستان میں جو روزے اور عیدیں پاکستان کی روئیت کے مطابق ہوئی ہیں کیا وہ سب غلط تھیں؟ اس حوالے سے بھی معاملہ بالکل واضح ہے : اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھہراتا ہے، فیصلے کا ختیار بھی اُسی کے پاس ہے اور اجر بھی اُسی نے عطا کرنا ہے۔ نبی ﷺ اورآپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جب نہ اپنے مطلعے میں چاند نظر آیا اور نہ ہی دوسرے مطلعے میں چاند طلوع ہونے کی گواہی بروقت مل سکی ، تب تک آپ ﷺ نے روزہ رکھا مگر جونہی آپﷺ کودوسرے مطلعے میں چاند ہونے کی گواہی ملی آپ نے روزہ افطار کر دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب تک باہر کی گواہی نہ پہنچے انسان وہی عمل کرے گا جو انتیس کی شام چاند نظر نہ آنے پر کرنا لازم ہے مگر جب گواہی پہنچ جائے ،خواہ وہ دوسرے مطلعے یادوسرے ملک سے آئی ہو، پھراس کے مطابق عمل کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔ اب چونکہ پاکستان میں دوسرے مطلعے یا ملک میں ہونے والی روئیت ِ ہلال کی گواہی فوراً پہنچ جاتی ہے اس لئے اسے قبول کرنا لازم ہے۔



اب تک کے دلائل وشواہد کی بنا پر حقیقت یہی سامنے آتی ہے کہ ’’ہلال‘‘ کے حوالے سے ہم پاکستان کے لوگ خطا کا شکار رہے ہیں اور خطا کی بنا پراُمت سے الگ رہے ہیں۔ اس خطا کو تلاش کرنا پھر اپنی درستی کرناہم سب پرلازم ہے تاکہ ہم اللہ کے احکام کی ٹھیک ٹھیک اطاعت کر سکیں اوراس کے نتیجے میں اُمت دوبارہ وحدت میں ڈھل سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی راہنمائی اور مدد فرمائے ۔ آمین


یہ تحریر’’ ہلال اور وحدت ِاُمت ‘‘کے معاملے میں غورتدبر کی دعوت کے طور پر ہے ، قارئین سے گذارش ہے کہ اس تحریر میں پیش کی گئی بات میں کوئی خطا پائیں یااس کے حق میں یا مخالفت میں کتاب و سنت سے دلائل پائیں تو راقم کو ضرور اطلاع کریں تاکہ معاملہ واضح ہو سکے ۔ جزاکم اللہ خیراً


وَمَا تَوْفِیْقِیْ ٓ اِلَّا بِاللّٰہِ ط عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ ﴿﴾