Friday, June 24, 2011

قبروں کی زیارت کا شرعی حکم

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمٰن الرحم

قبروں کی زیارت کا حکم
بے شک قبروں کی زیارت کرنا مشروع اور جائز ہے لیکن اس طرح نہیں جس طرح آج لوگ کرتے ہیں ۔ قبروں پر مردوں کیلئے جانا جائز ہے مگر عورتوں کو اجازت نہیں ہے ۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور الا فزوروھا فانھا تذکر الآخرۃ (ترمذی فی الجنائز ) 
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا ۔ توسن لو ۔ اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۔ 
حدیث میں لفظ فزوروھا (یعنی تم ان کی زیارت کر لیا کرو) عام ہے مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہے ۔ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث کی وجہ سے صرف مردوں کے لئے خاص ہے ۔ 
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لعن اﷲ زوارات القبور من النساء ۔ (ترمذی فی الجنائز وابن ماجہ و مسند احمد )
اللہ تعالیٰ قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کرے ۔ 
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ قبروں پر جانا صرف مردوں کے لئے مستحب ہے نہ کہ عورتوں کے لئے اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جنازے کے پیچھے چلنے سے منع فرمایا ۔ بات کا خلاصہ یہ ہے کہ عورتیں قبروں کی زیارت کی اجازت میں داخل نہیں ہیں اس کی دو وجھیں ہیں ۔ 
(۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فزوروھا : مذکر کے صیغہ کا استعمال کیا اور یہ عورتوں کو علی سبیل التغلیب شامل ہے اسی بناپر عورتیں بطریق عموم ضعیف کے داخل ہونگی جمہور علماء کے ہاں عام خاص کی دلیلوں کے مخالف نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ان دلیلوں کو نسخ کرتا ہے اگر عورتیں اس خطاب میں داخل ہوتی تو ان کے لئے بھی قبروں کی زیارت مستحب ہوتی حالانکہ ہم کسی امام کو نہیں جانتے جس نے ان کے لئے قبروں کی زیارت کو مستحب سمجھا ہو اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین ؓ کے زمانہ میں عورتیں قبروں کی زیارت کے لئے نکلتی تھیں ۔ 
(۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو اجازت دینے کی علت بیان فرمائی کہ قبروں کو دیکھ کر موت یاد آتی ہے ۔ دل نرم ہوتا ہے اور آنکھوں سے آنسوں بہتے ہیں ۔اسی طرح کی روایت مسند احمد میں بھی ہے یہ بات معلوم ہے کہ اگر عورت کو اجازت دی جائے تو اس میں صبر کم ہونے کی وجہ سے جزع ، فزع اور رونا پیٹنا زیادہ کرتی ہے ۔ ما قبل ذکر ہو چکا ہے کہ قبروں کی زیارت کرنے کا مقصد موت کو یاد کرنا ، میت کو سلام کرنا اور اس کیلئے دعا کرنا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم قبروں پر جاکر کیا پڑھیں ۔ 
جب ہم قبروں پر جائیں تو یہ دعا پڑھیں :
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الدَّیَارِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُؤْمِنِیْنَ یَرْحَمُ اﷲُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأخِرِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَائَ اﷲُ بِکُمْ لاَحِقُوْنَ ( مسلم و مسند احمد )
تم پر سلامتی ہو اے اس گھر والو مؤمنو اور مسلمانو اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور جو بعد میں آئیں گے او ربے شک ہم اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں ۔ 
یا اس طرح کی اور دعا پڑھنی چاہئے جو قرآن و سنت میں وارد ہے ۔ لوگوں کی اکثریت حدیث کے بالکل خلاف کر رہی ہے یہ وہاں جاتے ہیں اور ان کے لئے دعا کرنے کی بجائے اپنے لئے دعا کرتے ہیں اور قبروں کو ہاتھ لگاتے ہیں چومتے اور چاٹتے ہیں اور انکی طرف متوجہ ہو کر برکت حاصل کرنے اور خیر طلب یا مصائب کے دور کرنے کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔ 
یہ سب مشرکانہ حرکات اور بدعت افعال ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حرکات اورافعال پر تنبیہ کی ہے ۔ کیونکہ کبھی کبھار ایسا کرنے سے انسان شرک اکبر میں واقع ہو جاتا ہے خصوصاً جب قبر والے مردے سے یہ اعتقاد رکھ لے کہ یہ مردہ سنتا ہے اور دعا کو قبول کرتا ہے یاغیب جانتا ہے یا مصیبتوں کو دور کرتا ہے اب ان باتوں (کرتوتوں) پر تنبیہ کرنا واجب ہے اگرچہ قبروں کی زیارت کرنا مردوں کیلئے مستحب ہے لیکن زیارت کرنے کے لئے مستقل سفر کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی مسلمان اپنے شہر کے مسلمانوں کے قبرستان پر جائے کیونکہ یہ سفر میں شمار نہیں ہوتا ۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تشد الرحال إلا الی ثلا ثۃ مساجد المسجد الحرام و مسجدی ھٰذا والمسجد الاقصیٰ (بخاری فی الصلوۃ و مسلم فی الحج)
سفر زیارت تین مسجدوں کے علاوہ نہیں کیا جائے گا مسجد حرام اور میری یہ مسجد یعنی مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ۔ 
اب بڑی مصیبت تویہ ہے کہ قبروں کی تعظیم کی جارہی ہے اور انکو اونچا کرکے اوپر قبے بنائے جائے جارہے ہیں اور انکو سجدے کئے جارہے ہیں باوجود اس کے کہ کئی احادیث نبویہ ان چیزوں کی نہی میں وارد ہوئی ہیں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ احادیث یہاں ذکر کریں گے 
(۱) بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی مرض وفات میں تھے تو وہ اپنی چادر مبارک کو اپنے چہرہ مبارک سے ہٹا رہے تھے پس جب آپؐ اس سے مغموم ہوتے تو اسے ہٹا دیتے 
اورآپﷺ نے اسی حالت میں فرمایا: 
لعنۃ اﷲ علی الیھود والنصاری اتخذوا قبور انبیائھم مساجد ۔ (بخاری فی الانبیا ) 
یہود و نصاری پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا ۔ 
(۲) امام مسلم ؒ نے حضرت جندب بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انکی وفات سے پانچ دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنا ۔ 
ألا ! إن من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائھم مساجد ، ألا ! فلا تتخذوا القبور مساجد فانی انہاکم عن ذلک (مسلم فی المساجد )۔
سن لو ۔ تم سے پہلے والے لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا ۔ 
خبردار ۔ تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنا نا بالیقین میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں ۔ 

(۳) امام احمد ؒ نے حسن سند سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مرفوعاً نقل کیا ہے۔ 
إن من شرار الناس من تدرکہم الساعۃ وھم أحیاء ،والذین یتخذون القبور مساجد (مسند احمد )
بالیقین بدتر وہ لوگ ہوں گے جن کو قیامت پائے گی اور وہ زندہ ہوں گے اور وہ قبروں کو سجدہ گاہیں بنا رہے ہوں گے۔ 

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جو آدمی قبروں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت او رآپکے امر او رنہی اور صحابہ کرام ؓ کی عمل کے متعلق او رموجودہ زمانہ کے لوگوں کی اکثریت کے متعلق غور و فکر کرئے گا تو وہ ایک دوسرے کے مخالف اور جدا پائے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آج کے لوگوں کے عمل دونوں ایک ساتھ کبھی بھی جمع نہیں ہوں گے وہ کیسے ؟ آپ ذرا توجہ کریں ۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی طر ف منہ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے او ریہ لوگ قبروں کے پاس کھڑے ہو کر اور انکی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو مسجدیں بنانے سے منع کیا ہے اور یہ لوگ قبروں پر مسجدیں بناتے ہیں اور وہاں میلہ لگاتے ہیں اور قبروں کا طواف کرتے ہیں ، بیت اللہ کی مشابہت اختیا ر کرتے ہیں ۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کیا ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ ہیں جو جمعرات کو قبروں پر جاکر چراغاں کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر میلہ لگانے سے منع کیا ہے اور یہ لوگ بڑھ چڑھکر بڑی بے باکی کے ساتھ میلہ لگاتے ہیں اور وہاں اس طرح جمع ہوتے ہیں جس طرح مسلمان عیدالفطر اور عیدالاضحی کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو زمین کیساتھ برابر کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوالھیاج الاسدی ؓ کی روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے مجھ سے کہا :
الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم الا تدع تمثالاً الاطمستہ ولا قبراً مشرفاً الا سویتہ (مسلم فی الجنائز و ابو داؤد فی الجنائز و ترمذی )
کیا میں آپکو اس کام پر نہ بھیجوں جس کام پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا ؟ کہ آپ کسی تصویر کو نہ چھوڑیں مگر اسے مٹا دیں اور اونچی قبر دیکھیں تواسے زمین کے برابر کر دیں ۔ 

مسلم شریف میں حضرت ثمامہ بن شفی ؓ کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت فضالہ ابن عبید کے ساتھ ملک روم میں بردوس نامی جگہ میں تھے تو ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا (تو ہم نے جنازہ پڑھکر اسے دفنا دیا ) تو حضرت فضالہ ؓ نے اسکی قبر کو زمین کے ساتھ برابرکرنے کا حکم دیا ۔ پھر فرمایا کہ 
سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یامر بتسویتھا (مسلم فی الجنائز)
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر کو زمین کے ساتھ برابر کرنے کا حکم سنا ۔ 

موجودہ زمانے کے قبر پرست ان احادیث صحیحہ کی بڑھ چڑھکر مخالفت کر رہے ہیں اور قبروں کو گھروں کیطرح خوب اونچا کرتے ہیں اور ان پر قبے بناتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر چونالگانے او راس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓسے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :
نہی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عن تجصیص القبر وان یقعد علیہ و ان یبنی علیہ ونہی عن الکتابۃ علیہا ( مسلم ) 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر چونا لگانے اور اور اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے اور اس پر کتبے لکھ کرلگانے سے بھی منع فرمایا ہے ۔ 

اسی طرح کی روایت امام ابو داؤد ؒ نے بھی ذکر کی ہے امام ابو دؤد ؒ حضرت جابر ؓ سے روایت کرتے ہیں ۔ 
ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن تجصیص القبور و ان یکتب علیہا 
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چونا لگانے او ران پر لکھنے سے منع کیا ہے ۔ 
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ۔(ترمذی فی الجنائز ) 

یہ لوگ قبروں پر کتبے لگاتے ہیں اور ان پر قرآن کریم کی آیات وغیرھا لکھتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر ماسوائے مٹی کے اور کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع کیا ۔

جیسا کہ امام ابو داؤد ؒ نے حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے ۔
ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہیٰ ان یجصص القبر او یکتب علیہ او یزاد علیہ (ابو داؤد )
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر چونا لگانے اوراس پر کتبے لکھ کر لگانے اور اس پر (ماسوائے مٹی کے ) اور کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ 

یہ لوگ قبروں پر خوب زیادتی کرتے ہیں پکی اینٹیں ، چونا او رپتھر لگاتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم نخعی ؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ اپنی قبروں پر پکی اینٹیں لگانے کو مکروہ (تحریمی ) سمجھتے تھے ۔ 

(قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی کس قدر مخالفت ہو رہی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : 
وَ مَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدیٰ وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْراً 
(سورۃ النساء آیت ۱۱۴) 
او رجو کوئی ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مؤمنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستہ کی پیروی کرے گا تو ہم اس کی مرضی کے موافق پھیر دیں گے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے ۔ (مترجم)

Wednesday, June 8, 2011

اینٹی پورن سافٹ وئیر غیر اخلاقی ویب سائٹس کا یقینی خاتمہ

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ ایک ایسا سوفٹوئیر ہے جس کو انسٹال کرنے سے آپ کے کمپیوٹر پر کوئی بھی گندی ویب سائٹ اوپن نہیں ہوگی اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ آپ کو مفت میں ملے گا ویسے اس کی قیمت ہے مگر اس کا کریک ساتھ دیا گیا ہے بس آپ کو کرنا یہ ہے کہ پہلے سوفٹوئیر کو انسٹال کریں اس کے بعد کریک کو C پارٹیشن میں  جاکر پروگرام فائلز  اوپن کریں اس کے فولڈر میں NetDog کے نام سے ایک فولڈر ملے گا اس کی کریک فائل کو وہاںPaste  کردیں اس کے بعد اس  فائل پر ڈبل کلک کریں اور اوپن ہونے والے میسج پر Yes کریں اس کے بعد جو میسج آئے گا اس کو OK کر دیں لیں جی آپ کا کمپیوٹر گندی ویب سائٹ سے محفوظ ہو گیا، اب اگر کوئی ایسی سائٹ اوپن بھی کرنا چاہیے گا تو وہ اوپن نہیں ہوگی ان شاءاللہ۔
محمد عاصم مٹھو  

Sunday, June 5, 2011

wo hum men say nahi,وہ ہم میں سے نہیں

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمن الرحیم


آج میں آپ سب ساتھیوں کے لیئے وہ احادیث پیش کرنے جا رہا ہوں جن میں نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسا ایسا کام کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں، اس فقرے کی مراد مختلف علماء اور محدثین نے مختلف پیش کی ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہم اہل بیت میں سے نہیں ہیں، بعض نے کہا اس سے مراد مسلمانوں میں سے نہیں ہے، بعض نے کہا کہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے اور بعض نے کہا کہ وہ ہماری جماعت میں سے نہیں ہے، اب ان مفاہیم میں سے کوئی بھی فہم لیا جائے تو بھی بہت خطرناک معاملہ بنتا ہے اس لیئے بھائیو اور بہنو اپنی اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ان سبھی برُے کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی ہمارے اعمال میں موجود نہیں رہنا چاہیئے کہ کہیں اس ارشادِ نبویﷺ کی زَد میں ہماری ذات نہ آ جائے کہ
وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ویسے جہاں تک میں اس کو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر موقعہ پر اس کا معنی اور مفہوم بدل جاتا ہے یعنی جہاں معاملہ سنگین ہو وہاں اس کا معنی بھی سنگین ہوگا یعنی وہ ہم مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جہاں معاملہ ہلکی نوعیت کا ہوگا وہاں معنی بھی ہلکا ہوگا یعنی وہ ہماری سنت پر نہیں ہے، باقی صحیح معنی اور مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
حدیث:۔
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو اپنے
گا لوں کو پیٹے اور گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی پکار پکارے (جاہلیت کی سی بات کرے)
Narrated 'Abdullah: 

The Prophet said, "He who slaps the cheeks, tears the clothes and follows the tradition of the Days of Ignorance is not from us." 

صحیح بخاری:جلد اول:باب:جنازوں کا بیان :وہ شخص ہم میں سے نہیں جو اپنے گا لوں کو پیٹے ۔تشریح:۔
یعنی غم کے موقعہ پر ماتم کرنا، رخسار پر یا جسم پر ہاتھوں سے پیٹنا اور غم میں گریبان چاک کرنا اور ساتھ ساتھ جاہلیت کی باتیں کرنا مثلاً اکثر سننے میں آتا ہے کہ اگر کسی کا بھائی بیٹا یا کوئی عزیز رشتے دار فوت ہوجاتا ہے تو وہ غم میں بہت غلط باتیں اور بعض اقات کفریہ کلمات بولنا شروع ہو جاتا یا ہوجاتی ہے کہ یااللہ تم کو یہی ملا تھا مارنے کے لیئے، اس سے بھی زیادہ جاہلیت کی پکاریں سننے کو ملتی ہیں، اسی لیئے نبیﷺ نے ہمیں ایسی جاہلیت کی پکاریں پکارنے سے ہی منع کردیا ہے اور اگر کوئی پھر بھی کرتا ہے تو اس کو ڈر جانا چاہیئے کہ اس کا انجام بہت برُا ہے ایسے شخص کے لیئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

حدیث:۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام کو اس کے آقا سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب:طلاق کا بیان :عورت کو مرد کے خلاف برگشتہ کرنا

تشریح:۔
یہ ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوسکتا تھا اسی لیئے نبیﷺ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا کہ کوئی بھی اگر کسی عورت کو اس کے شوہر سے بدظن کرئے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسا فرما کر نبیﷺ نے اپنی اُمت کو اس گٹیا فعل سے روکا ہے اب جو کوئی بھی نبیﷺ سے سچی محبت کرتا ہوگا وہ کبھی بھی ایسا عمل نہیں کرئے گا کیونکہ اس کی وعید بہت سخت ہے اور دوسرا آقا کو غلام سے بدظن کرنے والے کے متعلق ہے،الحمدللہ کہ اسلام کی برکت سے آج غلام اور آقا کا نظام ختم ہوچکا ہے، اسلام نے ایسے اچھے اچھے اصول وضع کیئے تھے کہ جن کی وجہ سے غلاموں کی نسل ختم ہوتے ہوتے ایک مہذب شہری کی حیثیت میں بدل گئی ہے مثلاً ان اصولوں میں سے کچھ یہ ہیں۔
پہلا اصول:۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا جو ::ذی رحم::محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ رشتہ دار آزاد ہے۔
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب:غلام آزاد کرنے کا بیان۔ :جومحرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تو وہ (رشتہ دار) آزاد ہے۔مثلاً باپ نے اپنے اس بیٹے کو خریدا جو کسی دوسرے شخص کی غلامی میں تھا یا بیٹے نے اپنے غلام باپ کو خریدا یا بھائی نے غلام خریدا تو محض خرید لینے کی وجہ سے وہ غلام آزاد ہو جائے گا ۔ 
" ذی رحم " اس قرابت دار کو کہتے ہیں جو ولادت کی قرابت رکھے جس کا تعلق رحم سے ہوتا ہے ذی رحم میں بیٹا ، باپ ، بھائی چچا ، بھتیجا اور اسی قسم کے دوسرے قرابت دار شامل ہیں " اور محرم " اس قرابت دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز نہ ہو ۔

دوسرا اصول:۔حضرت شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مرہ سے درخواست کی کہ بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے مجھے اللہ کے رسولﷺ کی کوئی بات سنائیے۔ فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے مسلمان غلام کو آزاد کیا تو وہ غلام اس کے دوزخ سے چھٹکارے کا باعث ہوگا اس کی ہر ہڈی کے بدلہ میں (دوزخ کی آزادی کے لیے) کافی ہے اور جو دو مسلمان لونڈیوں کو آزاد کرے تو وہ دونوں باندیاں دوزخ سے اس کی خلاصی کا باعث ہوں گی ان میں سے ہر ایک کی دوہڈیوں کے بدلہ میں اس کی ایک ہڈی کافی ہوگی۔
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب: غلام آزاد کرنے کا بیان۔ :غلام کو آزاد کرنااس فرمانِ عالی شان میں لوگوں کے لیئے آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور ایک مسلم کے لیئے سب سے پہلی ترجع آخرت ہی ہوتی ہے اس لیئے اس اصول کی وجہ سے بھی بہت سے غلام آزادی کی نعمت حاصل کر گے۔

تیسرا اصول:۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب کسی شخص کی لونڈی اس کے ( نطفہ ) سے بچہ جنے تو وہ لونڈی اس شخص کے مرنے کے پیچھے ۔ یا یہ فرمایا کہ اس شخص کے مرنے کے بعد آزاد ہو جائے گی ۔ " ( دارمی ) 

مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان :ام ولد ، اپنے آقا کی وفات کے بعد آزاد ہو جاتی ہے

یہ ایک ایسا سنہری اصول ہے کہ جس کی وجہ سے ہزاروں باندیاں آزادی حاصل کر گئیں اور آہستہ آہستہ انہی اصولوں کی بدولت غلامی والا سسٹم ختم ہوگیا ہے۔الحمدللہ
کیونکہ ہمارا اصل موضوع یہ نہیں ہے اس لیئے صرف تین اصول ہی پیش کر رہا ہوں ورنہ اور بھی بہت سے اصول بیان کیئے گیے ہیں جن پر عمل کرنے کی وجہ سے لاکھوں غلام لوگوں کی نسل آج باعزت زندگی بسر کر رہی ہے اور یہ سب اسلام کے بہترین نظام کی ایک جھوٹی سی جلک ہے۔

حدیث:۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
Narrated 'Abdullah: 
The Prophet said, "Whoever carries arms against us, is not from us."

صحیح بخاری:جلد سوم:باب:خون بہا کا بیان :اللہ تعالیٰ کا قول ومن احیاھا کی تفسیر۔تشریح:۔
بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ جس نے بھی مسلمانوں پر ہتھیار اٹھایا یعنی مسلمانوں کا قتل کیا، آجکل کچھ اس کی وباء کچھ زیادہ ہی پھیلی ہوئی ہے ایک کلمہ گو اپنے کلمہ گو بھائی کو ہی قتل کر رہا ہے اس بارے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ
:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (قاتل تو خیر دوزخ میں ہی ہونا چاہیے) لیکن مقتول کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا صحیح بخاری:جلد سوم:::: اور یہ وقت شدید ترین فتنوں کا دور ہے ایک عام مسلمان سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ ہو کیا رہا ہے، اس وقت بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان نبیﷺ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے سبھی فرقوں سے لاتعلق ہوجائے اور اپنے آپ کو ان فتنوں سے بچالے ورنہ اگر کسی بھی فرقے میں ہوا تو کل قیامت کے دن اسی فرقے کے ساتھ اس کا حشر ہوگا۔
اور اس وقت کے مطابق جوجامع حدیث ہمیں ملتی ہے اس کو پڑھتے ہیں۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا اس خوف سے کہیں وہ مجھے نہ پالے چنانچہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم جاہلیت اور برائی میں تھے، اللہ نے ہمارے پاس یہ خیر بھیجی تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، میں نے پوچھا کہ اس شر کے بعد بھی خیر ہوگا، آپ نے فرمایا کہ ہاں اور اس میں کچھ دھواں ہوگا میں نے پوچھا کہ اس کا دھواں کیا ہوگا آپ نے فرمایا کہ وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ میرے طریقے کے خلاف چلیں گے ان کی بعض باتیں تو تمہیں اچھی نظر آئیں گی اور بعض باتیں بری نظر آئیں گی، میں نے پوچھا کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا ہاں، کچھ لوگ جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو ان کی دعوت کو قبول کرے گا وہ اس کو جہنم میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ان لوگوں کی کچھ حالت ہم سے بیان فرمائیں، آپ نے فرمایا کہ وہ ہماری قوم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے میں نے عرض کیا کہ اگر میں وہ زمانہ نہ پالوں، تو آپﷺ مجھے کیا حکم دیتے ہیں فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہو، میں نے کہا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہو تو فرمایا کہ ان تمام جماعتوں سے علیحدہ ہوجاؤ اگرچہ تجھے درخت کی جڑچبانی پڑے یہاں تک کہ اس حال میں تیری موت آجائے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:باب: فتنوں کا بیان :جب جماعت نہ ہو تو کیونکر معاملہ طے ہو؟


حدیث:۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص لفظ امانت کی قسم کھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
Narrated Buraydah ibn al-Hasib: 
The Prophet (peace_be_upon_him) said: He who swears by Amanah (faithfulness) is not one of our number.

سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب: قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان :لفظ امانت پر قسم کھانے کا بیانتشریح:۔
یہاں ایک بہت اہم اصول بتانا بھی مقصودنبیﷺ ہے اور وہ یہ کہ غیراللہ کی قسم نہ کھائی جائے اس فرمانِ عالی شان میں صرف ایک لفظ کا ذکر ہے باقی اسی موضوع کی احادیث بھی پیش خدمت کرتا ہوں ان شاءاللہ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اس وقت وہ گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنےباپ کی قسم کھا رہے تھے، آپ ﷺنے فرمایا خبردار اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ جس شخص کو قسم کھانا ہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:باب:قسموں اور نذروں کا بیان :اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤعبداللہ بن دینار حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو جو قسم کھانا چاہے تو اسے اللہ کے سوا کسی کی قسم نہ کھانا چاہئے اور قریش اپنے باپ دادوں کی قسم کھاتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اپنے باپ دادوں کی قسم نہ کھاؤ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:انبیاء علیہم السلام کا بیان :زمانہ جاہلیت کا بیان:: متفق علیہ:: حضرت سعید بن ابی عبید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا کہ۔ نہیں۔ قسم ہے کعبہ کی۔ (یعنی وہ کعبہ کی قسم کھا رہا تھا) تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ فرماتے تھے۔ جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔
سنن ابوداؤد:جلد دوم:باب:قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان :باپ داداکی قسم کھانے کی ممانعتان واضح احکامات کے ہوتے ہمیں چاہیے کہ آئندہ ہم اللہ کے سواء کسی اور کی قسم نہ کھائیں مثلاً بعض لوگ انجانے میں قرآن،نبی، ولی،ماں باپ اور اولاد کی قسم کھاتے ہیں تو آئندہ سے پہلے کی معافی مانگیں اور دوبارہ کبھی بھی اللہ کے علاوہ کسی اور کی وؤقسم نہ کھائیں۔جزاک اللہ

حدیث:۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کو خوش آواز سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے اور دوسرے لوگوں نے اتنا زیادہ بیان کیا کہ اس کو زور سے نہیں پڑھتا۔
Narrated Abu Salama: 
Abu Huraira said, "Allah's Apostle said, 'Whoever does not recite Qur'an in a nice voice is not from us,' and others said extra," (that means) to recite it aloud."

صحیح بخاری:جلد سوم:باب:توحید کا بیان :اللہ کا قول کہ تم اپنی بات آہستہ آہستہ کرو یا زور سے بے شک اللہ دل کی باتوں کا جاننے والا ہے۔تشریح:۔
یعنی کہ قرآن کی تلاوت اچھے لہجے میں نہیں کرتا بس اس کا مقصد ہو کہ کسی طرح قرآن کو ختم کرنا ہے اور جلدی جلدی میں تلاوت کرتے ہوئے الفاظ کی ادائیگی درست اور خوب صورت انداز میں نہیں کرتا ایسے شخص کے لیئے آپﷺ کی وعید ہے، اس لیئے بھائیو اور بہنو جب بھی تلاوت کرنے لگیں تو اچھے انداز میں اس کی تلاوت کریں بےشک چند آیات کی ہی تلاوت کریں مگر وہ ادا کرنا بہترین انداز میں ہو۔تلاوت کا اصل حق مَیں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ ہم قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ اس مقدس کتاب میں اللہ نے ہمیں کیا کیا احکامات دیے ہیں تاکہ ہم ان احکامات پر عمل کر کے ایک بہترین معاشرے کو تشکیل دے سکیں۔

حدیث:۔
ابوہریرہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہﷺ ایک ایسے آدمی کے پاس گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا آپﷺ نے اس سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح فروخت کرتے ہو اس نے آپ کو بتلا دیا (لیکن کچھ غلط بیانی سے بیان کیا) اس دوران آپ پر وحی نازل ہوئی کہ اپنا دست مبارک اس غلہ کے اندر داخل کریں جب نبیﷺنے اپنا دست مبارک اس غلہ میں داخل کیا تو وہ اندر سے گیلا اور تر نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ملاوٹ اور دھوکہ دہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:خرید وفروخت کا بیان :ملاوٹ کی ممانعت کا بیان

تشریح:۔
اسلام کسی کو بھی دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دیتا ہے اسلام بہترین اصولِ زندگی دیتا ہے مگر افسوس کہ ہم لوگ اسلام کے اصولوں کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں فراڈ، دھوکہ دہی ایک عام رواج بن چکا ہے اب تو حالت یہ ہے کہ جو جتنا دھوکے باز ہوگا اتنا ہی اس کو قابل سمجھا جائے گا، مگر کسی کو دھوکہ دینا کسی مسلم کا کام نہیں ہے ایک سچا مسلم کبھی بھی ایسا کام نہیں کرئے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ اگر میں نے کسی کو دھوکہ دیا تو اس کی سزاء تو مجھے ملے گی ہی اس کے ساتھ مجھ پر نبیﷺ کا یہ فرمان بھی چسپا ہوجائے گا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے اور کوئی بھی مسلم اپنے آپ کو نبیﷺ کی ذات پاک سے علیحدہ کرنا کسی بھی قیمت پر گوارہ نہیں کرسکتا بےشک اس کے بدلے دنیا جہاں کی دولت ہی اس کو مل جائے۔
ہماتے معاشرے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز نقص والی ہے تو اس کے نقص کو جان بھوج کر چھپایا جاتا ہے تاکہ کہیں وہ چیز فروخت ہونے سے روک نہ جائے، میں کیونکہ ایک دوکاندار ہوں اس لیئے میں یہ جانتا ہوں مگر الحمدللہ میں ایسا عمل نہیں کرتا اگر کوئی چیز خراب نکلتی ہے یا وہ تھوڑی سی ٹوٹ جاتی ہے تو وہ چیز کم قیمت میں لگا کر فروخت کردیتا ہوں مرمت اس کی کرواتا ہوں اور ساتھ گاہک کو بتا بھی دیتاہوں کہ اس میں یہ نقص ہے جس کی وجہ سے کم قیمت میں آپ کو مل جائے گی اور آپ لوگ یقین کریں کہ لوگ وہ خرید بھی لیتےہیں ان کو اس کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ جو چیز ایک ہزار میں ان کو ملنی تھی وہی ان کو آٹھ سو میں مل جاتی ہے، اس لیئے بھائیو اس ڈر سے کہ ہماری چیز فروخت نہ ہوگی کسی کو بھی دھوکہ نہ دیں۔ ان چھوٹے چھوٹے مگر اپنے اندر لاکھوں بھلائیاں لیئے ہوئے اصولوں کو نہ توڑیں، آج امت محمدﷺ کی یہ حالت صرف اسی لیئے روباذوال ہے کہ ہم لوگوں نے اسلام کے بہترین اصولوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے نفسہ نفسی کا دور چل نکلا ہے۔
اللہ ہم کو اسلام کے اصولوں کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔

حدیث:۔
حضرت عبدالرحمن بن شماسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔۔۔۔۔۔حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے تیراندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے یا اس نے نافرمانی کی۔
It has been reported by 'Abd al-Rahman b. Shamasa that Fuqaim al- Lakhmi said to Uqba b. Amir: You frequent between these two targets and you are an old man, so you will be finding it very hard. 'Uqba said: But for a thing I heard from the Holy Prophet (may peace be upon him), I would not strain myself. Harith (one of the narrators in the chain of transmitters) said: I asked Ibn Shamasa: What was that? He said that he (the Holy Prophet) said: Who learnt archery and then gave it up is not from us. or he has been guilty of disobedience (to Allah's Apostle).
صحیح مسلم:جلد سوم:باب: امارت اور خلافت کا بیان :تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میںتشریح:۔
اس فرمانِ رسولﷺمیں ہمارے لیئے نصیحت ہے کہ اگر کسی نے تیر اندازی سیکھی اور پھر اس کو چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں کیونکہ اس ہنر سے ہم دشمنانِ اسلام کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور تیراندازی میں نشانہ بازی بہت لازمی امر ہے ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ قوت تیراندازی میں ہے
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ) کفار کے خلاف اپنی استطاعت کے مطابق قوت حاصل کرو سنو قوت تیر اندازی ہے سنو قوت تیراندازی ہے سنو قوت تیر اندازی ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:امارت اور خلافت کا بیان :تیر اندازی کی فضلیت کے بیان میںاب کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ آج کے دور میں تیر کی کیا اہمیت ہے اصل میں تیراندازی سے مراد نشانہ بازی سیکھنا ہے آج کے دور میں بندوق، توپ، ٹینک ہیں ان سب میں بھی اہمیت ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے ٹھیک نشانے پر وار کرنا اور یہ ایک ہنر ہے جو ہر بندوق چلانے والا نہیں جانتا، اس سارے عمل میں نشانہ بازی بہت اہمیت کی حامل ہے۔
حدیث:۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں تھی تو وہ ہم میں سے نہیں ہےاور وہ دوزخ کو اپنا ٹھکانہ بنالے۔
It was narrated from Abu Dharr that he heard the Messenger of Allah say: "Whoever claims something that does not belong to him; he is not one of us, so let him take his place in Hell."
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:باب:فیصلوں کا بیان :پرائی چیز کا دعوی کرنا اور اس میں جھگڑا کرناتشریح:۔
یہ فرمانِ رسولﷺ بالکل واضح ہے مگر افسوس کہ ہم اس برُے فعل کے بھی مرتکب بن جاتے ہیں آج آپ عدالتوں میں جاکر دیکھیں گے تو آپ کو زیادہ مقدمات ایسے ہی ملیں گے کہ کسی نے کسی کے حق کو دبانے کے لیئے اس کے حق پر دعویٰ کیا ہوا ہے جو شریف النفس لوگ ہوتے ہیں وہ اپنا حق ہوتے ہوئے بھی کھو دیتے ہیں اور جو بدمعاش، بددیانت، وڈیرے، چوہدری، حکومتی افسران ہوتے ہیں وہ لوگوں کا مالِ ناحق کھاتے ہیں ان پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں،بالکل اسی طرح ہماری گیاراں ایکڑ زمین پر قبضہ کیا گیا ہے مگر ہم اس قبضہ گروپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے کیونکہ وہ چوہدری برادران کے زیرِ سایہ کام کرتا ہے۔جو ایسے کسی کا حق مارت ہیں ان کو جان لینا چاہیئے کہ نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسے لوگ ہم میں سے نہیں ہیں۔
ایسے لوگوں کا حال ایک اور حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ
حضرت سالم اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بیان کیا کہ جو شخص زمین کا کوئی حصہ بھی ناحق لے گا (یعنی کسی کی زمین کا کوئی بھی قطعہ ازراہ ظلم وزبردستی لے گا) تو قیامت کے دن اسے زمین کے ساتویں طبقہ تک دھنسایا جائے گا ( بخاری)
مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:غصب اور عاریت کا بیان :زمین غصب کرنے کی سزا


حدیث:۔
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مال لوٹنے (علانیہ زبردستی مال چھیننے یا اچکنے پر) ہاتھ نہیں کٹے گا اور جس شخص نے دھڑ لے سے کوئی چیز چھینی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
Narrated Jabir ibn Abdullah: 
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Cutting of hand is not to be inflicted on one who plunders, but he who plunders conspicuously does not belong to us.

سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:سزاؤں کا بیان :کوئی چیز اچکنے اور امانت میں خیانت کرنے پر ہاتھ کاٹنے کا بیانتشریح:۔
جیسے آجکل ڈاکوں لوگوں کو لوٹتے ہیں گو کہ ان کا ہاتھ نہ کاٹنے کا حکم ہیں مگر ان لٹیروں کے لیئے اس سے بھی بڑی سزاء رکھی گئی ہے یعنی کہ وہ ہم میں سے نہیں ہیں اگر کوئی صحیح مسلم ہوگا وہ ہرگز ایسا عمل نہیں کرئے گا کیونکہ وہ کسی طور بھی نہیں چاہے گا کہ اس کا ربط نبیﷺ سے ٹوٹے۔
حدیث:۔
حضرت عبداللہ بن عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کے حقوق کو نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:ادب کا بیان :رحمت وہمدردی کا بیان

تشریح:۔
اس فرمان میں چھوٹوں اور بڑوں دونوں کے لیئے نصیحت ہے کہ وہ ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں، بڑے چھوٹے بچوں پر ظلم نہ کریں ان کو بلاوجہ نہ ماریں، ان سے رحم کا رویہ اپنائے رکھیں الا یہ کہ بچے کچھ ایسا کریں جس پر مناسب مار جائز ہو مثلاً جب دس۱۰ سال کا بچہ ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو مناسب مار مارنا جائز عمل ہے۔
اور جھوٹوں کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ بڑوں کا ادب کریں ان کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں ان کے جائز احکام کو پورا کریں۔
 
حدیث:۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت پر لڑائی کی وہ ہم میں سے نہیں جس کی موت عصبیت پر ہوئی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب: ادب کا بیان :عصبیت بالکل حرام ہے

تشریح:۔
یہ حدیث بہت جامع احکام لیئے ہوئے ہے اگر ان احکام پر عمل کیا جائے تو ہمارا ملک پاکستان ہی کیا پوری دنیا میں امن قائم ہوجائے مگر افسوس کہ ہم کلمہ پڑھنے والے اور محبت رسولﷺ کا دعویٰ کرنے والے اپنے پیارے نبیﷺکے پیارے احکامات کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں جس کی وجہ سے آپ ہم آپس میں ہی دست و گریبان ہوچکے ہیں۔
عصبیت، تعصب ایک ایسا مرض ہے جس کو ختم کرنے کے لیئے نبیﷺ نے اس کے خلاف کافی ارشادات فرمائے ہیں۔
آپ ﷺ سے تعصب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
تعصب یہ ہے کہ آدمی (ناحق اور) ظلم میں اپنی قوم کا ساتھ دے۔سنن ابو داؤد
"عصبیت" کے معنی ہیں عصبی یا متعصب ہونا یعنی اپنے مذہب یا اپنے خیال کی پچ کرنا اور اپنی قوم کی قوت و سختی کے اظہار کے لیئے جدل و خصومت کرنا چنانچہ عصبہ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی بات یا اپنی قوم کی حمایت کرے اور یا اپنی قوم و جماعت کی بچ کے لیے غصہ ہو تعصب بھی اگر حق کے معاملہ میں ہو اور ظلم و تعدی کے ساتھ نہ ہو تو مستحسن ہے اگر تعصب کا تعلق حق بات کو نہ ماننے ،ظلم و تعدی اختیار کرنے اور اپنی قوت و شان و شوکت کے بیجا اظہار کی خاطر ہو تو مذموم ہے ۔
قوم پرستی کی وباء پاکستان میں پھیلائی جا رہی ہے یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اگر کسی نے اس پر تحریر پڑھنی ہے تو وہ اس لنک سے پڑھ سکتا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خلیفہ کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا جو شخص اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے تلے عصبیت پر غصہ کرتے ہوئے مارا گیا اور وہ جنگ کرتا ہو عصبیت کے لئے تو وہ میری امت میں سے نہیں ہےاور میری امت میں سے جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک اور برے کو قتل کرے مومن کا لحاظ کرے نہ کسی ذمی کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے تو وہ ہم میں سے نہیں۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب: امارت اور خلافت کا بیان :فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میںاس حدیث مبارکہ میں جو ارشادات ہیں وہ ہم سب کے لیئے لمحہ فکریہ ہیں آئیں ان کو پڑھتے ہیں۔
جو شخص خلیفہ کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگیا پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا آج وہ خلیفہ اور خلیفہ کی جماعت::دارالسلام:: کہاں ہے، اگر کہیں بھی نہیں ہے تو ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم امامِ شرعی یعنی خلیفہ کے تقرر اور دارالسلام کے قیام کے لیئے جدوجہد کریں؟
کیا یہ حکم رسولﷺ منقطع ہوچکا ہے؟
جو شخص اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے تلے عصبیت پر غصہ کرتے ہوئے مارا گیا اور وہ جنگ کرتا ہو عصبیت کے لئے تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے 
کسی کے جھنڈے تلے عصبیت کی بنا پر جنگ کرتے مارا گیا، اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ کئی ایک جھنڈے بنیں گے مگر کسی کے بھی جھنڈے تلے نہیں جانا بلکہ امامِ شرعی کے ساتھ وابسطہ رہنا ہے، آج آپ دیکھ لیں ہر جماعت اور گرو کا علیحدہ ہی جھنڈا ہوگا، اس کا رنگ، اس کا ڈیزائن، اس کا سائز دوسروں کے جھنڈوں سے جدا ہوگا تاکہ لوگ پہچان سکیں کہ یہ جھنڈا فلاں گروپ، جماعت یا تنظیم کا ہے۔ اللہ ہی ہم سب پر رحم فرمائے ہم کہاں جا رہے ہیں، ایک ہم مسلمان ہی ہیں جن کا نظام دنیا کے سبھی نظاموں سے بہترین نظام ہے کیونکہ یہ نظام اللہ کا نازل کردہ ہے مگر افسوس کہ ہم ڈیڑ ارب ہونے کے باوجود اس پاکیزہ و بہترین نظام کو قائم نہیں کر پا رہے ہیں اور ہم نے کفار کے نظامِ زندگیوں کو ہی اپنا لیا ہوا ہے افسوس صد افسوس اور کیا یہ افسوس کرنا ہمیں قیامت کے کافی ہوگا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میری امت میں سے جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک اور برے کو قتل کرے مومن کا لحاظ کرے نہ کسی ذمی کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے تو وہ ہم میں سے نہیں۔
کفار بھی آپس میں مل کر مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور مسلمان بھی آپس میں ہی جنگ و جدل کر رہے ہیں، اس سارے فتنے کی وجہ کیا ہے؟جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک مستحکم خلافت کا نظام نہیں رہا ہے یہود اور نصاریٰ نے مل کر پہلی جنگِ عظیم میں ہم سے یہ نظام چھین لیا تھا اور اس کے بعد سے ہمارے ٹکرے ہی کرتے آ رہے ہیں یہ کافر اقوام مگر تف ہے ہم پر کہ ہم پھر بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہے، ہم پھر بھی آپس میں متحد نہیں ہو رہے۔
حدیث:۔
حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمام سانپوں کو قتل کیا کرو جو ان کے انتقام سے ڈرجائے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
Narrated Abdullah ibn Mas'ud: 
The Prophet (peace_be_upon_him) said: Kill all the snakes, and he who fears their revenge does not belong to me.Narrated Abdullah ibn Abbas: 
The Prophet (peace_be_upon_him) said: He who leaves the snakes along through fear of their pursuit, does not belong to us. We have not made peace with them since we have fought with them.

سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب: ادب کا بیان :سانپوں کے قتل کا بیانتشریح:۔
آج کل بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سانپ کو ماریں تو اس کی بیوی سپنی انتقام لیتی ہے، اس حدیث میں اس توہم پرستانہ خیال کو باطل ثابت کرنے کے لیئے سانپوں کو ہلاک کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے اور فرمایا جو کوئی ان کے بدلہ سے خوف کرے گا اس کا تعلق ہم سے نہیں ہے۔
حدیث:۔
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مونچھ کے بال نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن نسائی:جلد اول:باب:پاکی کا بیان :مونچھ کترناتشریح:۔
ایک اور حدیث میں نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اپنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم
ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ مشرکوں کی مخالفت کیا کرو مونچھیں کتروا کر اور داڑھی کو بڑھا کر۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم
لہذا ایک مسلم کو چاہیے کہ وہ اس حکم رسولﷺ کی پاسداری کرتے ہوئے اور اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ان احکامات پر عمل کرئے کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن کسی کا دعویٰ محبت رسولﷺ اس کے منہ پر دے مارا جائے اور کہا جائے کہ تم تو ہم میں سے نہیں ہو۔
 
 

حدیث:۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کچھ لے لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ یہ حدیث حضرت انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
جامع ترمذی:جلد اول:باب:جہاد کا بیان :اس بارے میں کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کچھ لینا مکروہ ہے تشریح:۔
مالِ غنیمت یعنی جہاد کے دوران دشمنانِ اسلام سے ملنے والا مال و متاع، ایک اور حدیث میں اس کی کچھ تفصیل آئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں کھڑے ہو کر مال غنیمت میں خیانت کرنے کا تذکرہ کر کے اس کو بڑا بھاری گناہ ظاہر کر کے اور خیانت بڑا جرم بتا کر فرمایا مجھے قیامت کے دن کسی کو اس حالت میں دیکھنا محبوب نہیں کہ اس کی گردن پر میماتی ہوئی بکری سوار ہو اور اس کی گردن پر گھوڑا بیٹھا ہوا ہنہنا رہا ہو اور وہ کہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امداد فرمائیے تو میں کہہ دونگا کہ تیرے لیے مجھے کوئی اختیار نہیں ہے میں نے تجھے حکم الٰہی پہنچا دیا تھا اور اس کی گردن پر لدا ہوا اونٹ بلبلا رہا ہو وہ کہے یا رسول اللہ میری امداد فرمائیے تو میں کہہ دوں گا۔ میرے اختیار میں تیرے لیے کوئی چیز نہیں ہے اور اگر اس کی گردن پر سونا چاندی بلبلا رہے ہوں اور وہ مجھے کہے کہ یا رسول اللہ امداد فرمائیے تو میں کہہ دوں گا تیرے لیے میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے میں تو احکام الٰہی پہنچا چکا یا اس کی گردن پر کیڑے حرکت کر رہے ہوں اور وہ کہے یا رسول اللہ! میری فریاد رسی کیجئے تو میں کہوں گا تیرے لیے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا میں تو تجھے احکام الٰہی پہنچا چکا ہوں ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :مال غنیمت میں خیانت کرنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان جو شخص خیانت کرے گا تو بروز حشر اس چیز کو لاوے گا جس کی اس نے خیانت کی۔حدیث:۔
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " وتر حق::واجب:: ہے لہٰذا جو آدمی وتر نہ پڑھے
وہ ہم میں سے نہیں ہے" ۔ (سنن ابوداؤد)
مشکوۃ شریف:جلد اول:باب: وتر کا بیان :وتر پڑھنے کی تاکیدحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 2519 تشریح:۔
ان احادیث میں وتر پڑھنے کی اہمیت ثابت ہوئی اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے وتر کی قضاء ادا کی،بعض لوگ عشاء کی نماز کے ساتھ وتر نہیں پڑھتے کہ انہوں نے تہجد کی نماز پڑھنی ہوتی ہےتو اگر بندے کو جاگ نہ آئے اور فجر کی نماز کا وقت ہوجائے تو بھی پہلے وتر ادا کرئے پھر فجر کی نماز اداکی جائے۔ اور سنت طریقہ بھی یہی ہے کہ وتر تہجد کے ساتھ پڑھے جائیں ایک اور حدیث میں ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہے یعنی کہ وتر پڑھنے کے بعد نفلی نماز بھی نہیں پڑھی جائے گی، 
حدیث:۔
حضرت ابونجیح روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نکاح کی قدرت رکھنے کے باوجود نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 28تشریح:۔
نکاح سنتِ رسولﷺ بھی ہے اور نفس کا حق بھی ہے اس سے اجتناب کرنا نفس پر ظلم کرنا ہے، اور بعض اوقات نکاح نہ کرنے کی وجہ سے بندہ فتنے میں پڑ جاتا ہے ، مگر اب ایک فرقہ ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جو نکاح نہ کرنے کو بہت افضیلت کا درجہ سمجھتا ہے مگر شاید وہ اسلام کی تعلیمات سے نابلد ہیں کہ وہ اتنا واضح حکم رسولﷺکو بھی نہ جان سکے، نکاح کے فوائد بےشمار ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
نکاح سنت سمجھ کر کرنے سے نیکی کا ملنا۔
نکاح سے نسلِ انسانی کی بقاء ہوتی ہے۔
نکاح کرنے والا مرد اور عورت بے شمار گناہوں سے بچ جاتے ہیں۔
نکاح کرنے والے اولاد جیسی نعمت پاتے ہیں۔
اولاد کی اچھی تربیت کرنے والے والدین کو اولاد کے ہر اچھے عمل کا برابر ثواب ملتا ہے بےشک وہ خود وفات بھی پا جائیں۔
حدیث:۔
ایک غفاری صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے زیرناف بال نہ کاٹے ناخن نہ تراشے اور مونچھیں نہ کاٹے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3456

تشریح:۔
اسلام صفائی پسند دین ہے اور اسلام میں ایسے بےشمار احکامات ملتے ہیں جن میں صفائی ستھرائی کی طرف توجہ دی گئی ہے، ایک جگہ نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، اس حدیث میں بھی جو احکام دیئے گے ہیں وہ انسان کے جسم کی صفائی کے متعلق ہیں لہذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ سنت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرئے۔
حدیث:۔
حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قتل شبہ عمد کی دیت مغلظ ہے جیسے قتل عمد کی دیت ہوتی ہے البتہ شبہ عمد میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اور جو ہم پراسلحہ اٹھاتا ہے یا راستہ میں گھات لگاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 2576 

حدیث:۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو ہم پر تیر اندازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 1100

حدیث:۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے نسب کی نسبت کرتا ہے وہ کفر کرتا ہے اور جو شخص کسی ایسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارتا ہے حالانکہ وہ ایسا نہ ہو تو وہ پلٹ کر کہنے والے پر جا پڑتا ہے۔
مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 156