Saturday, May 21, 2011

مسلم بہن کے نام

0 تبصرہ جات

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اے بہن
جس کا دل ایمان کی روشنی سے منور ہے۔ جسے اللہ اور اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔۔ جسے اللہ نے عقل ، حیا اور پاکیزگی جیسے پیاری پیاری نعمتوں سے نوازا ہے ۔۔ آپ وہ خاتون ہیں جو اللہ کے لئے رکوع کرتی ہیں اور اللہ کے لیے سجدہ کرتی ہیں اور اللہ کے لیے ساری عبادات کرتی ہیں۔
آپ مسلمان ہیں ۔ مومنہ ہیں ۔۔ پاک دامن اور عفیفہ ہیں ۔۔ آپ ہی وہ خوش نصیب ہیں جس کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو وصیت کی تھی کہ میں تمہیں عورتوں سے بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔۔۔ آپ وہ ذات ہیں جس کا بیوی ، بہن ، بیٹی اور ماں کی شکل میں مردوں کی زندگی میں بہت بڑا حصہ ہے۔
مجھے ایک سوال کرنے کی اجازت دیجیے؟
کیا آپ جیسی اچھی صفات کی حامل عورت کے لائق ہے کہ وہ نامحرموں کے سامنے بے پردہ پھرے ۔۔۔ ان کے سامنے خوشبو لگائے ۔۔۔ میک اپ کرکے نکلے ۔۔۔ چھوٹا اور تنگ گاؤن پہن کر پھرے ۔۔۔ یا چھوٹی سی چادر سے پردہ کرے؟
کیا ایسی صفات کی حامل عورت کی شان میں ہے کہ وہ چھوٹی قمیض پہنے ۔۔۔ تنگ پاجامہ پہنے ۔۔۔ پینٹ شرٹ پہنے ۔۔۔ یا مردوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے باریک نقاب پہنے ۔۔۔؟ یا بازاروں میں آوارہ پھرے اور غیروں سے ہنس ہنس کر باتیں کرے یا وہاں اپنی دوستوں کے ساتھ اونچی آواز میں باتیں کرے اور قہقہے لگائے؟

نہیں نہیں اللہ کی قسم ہرگز نہیں !! آپ جسی اچھی اچھی اچھی صفات والی عورت کے شایان شان نہیں کہ وہ حرام کام کرے۔۔

اے میری مومنہ بہن
یہ جان لو کہ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور ہر جگہ ہر وقت آپ اس کی نظروں میں ہوتی ہیں ۔۔۔۔!

کیا آپ چاہتی ہو کہ وہ آپ کو ایسے کام کرتے ہوئے دیکھے جن کاموں سے اس نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو منع کیا ہو؟ کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کے نبی پر یہ آیات نازل کر کے آپ پر حجاب فرض نہیں کیا؟
يا أيها النبي قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن
ترجمہ: "اے نبی اپنی بیویوں اور صاحب زادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔
کیا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ "جو عورت خوشبو لگا کر کسی کے پاس سے گزرے وہ زانیہ ہے"۔
(ترمذی ، کتاب الادب ، 2786

اے میری مسلمان بہن
کیا آپ کو اس بات پر یقین ہے کہ آپ جو کچھ کرتی ہیں ، چاہے چھوٹا عمل ہو یا بڑا ۔۔۔ اللہ کے پاس ریکارڈ ہو رہا ہے۔ اگر آپ کوئی نیکی کریں گی تو وہ نیکی ریکارڈ ہوگی اور اگر کوئی برائی کریں گی تو برائی ہی ریکارڈ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا 
يعلم خائنة الأعين وما تخفي الصدور
المومن (غافر) : 19
'' بےشک اللہ تعالی نظروں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جو سینوں نے چھپا رکھی ہیں'

اے بہنا !
کیا آپ اس بات پر راضی ہیں کہ شیطان آپ کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرے؟
کیا یہ بات آپ کو غم میں مبتلا نہیں کرتی کہ آپ کو مسلمانوں کے خلاف کافروں کی تدبیروں میں سے ایک تدبیر بنا لیا جائے؟
ہاں !! کیا آپ نے اس کافر کی بات نہیں سنی جب وہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک سجی دھجی عورت ہزار جنگجو کافروں سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہے؟

اے بہن !
کیا آپ اس بات پر راضی ہیں کہ آپ کی وجہ سے آپ کا مسلمان بھائی فتنہ میں پڑ جائے اور اللہ کی نافرمانی کرے؟
کیا آپ اس بات سے راضی ہیں کہ آپ کی وجہ سے ایک مسلمان اللہ کے غضب کا شکار ہو اور آگ میں ڈالا جائے؟؟
پیاری بہنا ! اللہ عز و جل نے آپ کو صحت ، خوبصورتی ، عقل اور اس طرح کی کئی دوسری چیزیں دے کر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ کیا آپ اس بات سے نہیں ڈرتیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے گناہوں کی وجہ سے ان نعمتوں میں سے کوئی نعمت چھین لے ؟

اے پاک دامن بہن ۔۔۔۔
قبر یا تو جنت کے محلوں میں سے ایک محل ہے یا آگ کے انگاروں میں سے ایک انگارا؟ آپ اپنی قبر کا حال کیا چاہتی ہیں؟
کیا آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی قبر روشنیوں سے بھری ہوئی ہو؟
کیا آپ چاہتی ہیں کہ وہ کھلی اور وسیع ہو؟
کیا آپ چاہتی ہیں کہ وہاں آپ کو آرام ملے؟؟
جنت آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہے ، کیا آپ اس میں داخل ہونا چاہتی ہیں؟

او بہنا ۔۔۔ !
حیران مت ہو ! ایسے بھی لوگ ہیں جو تکبر کرتے ہیں اور جنت میں داخلے کی پیشکش کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نہیں سنا کہ :
میری تمام امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔
پوچھا گیا : ایسا کون بدبخت ہے جو انکار کرے گا؟
فرمایا : جس نے میری اطاعت کی ، جنت میں داخل ہو گیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے (جنت میں داخلے سے) انکار کیا
(بخاری)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں میں سے ایک بہت بڑی نا فرمانی حجاب شرعی کو اختیار نہ کرنا ہے۔
آپ کے لیے حجاب شرعی کی چند شروط پیش کی جارہی ہیں تاکہ اس گناہ اور معصیت کو چھوڑ دیں اور یہ شروط آپ کے لیے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے۔
آپ کی چادر یا برقع پورے جسم (پاؤں اور چہرے سمیت) کو ڈھانپے۔
چادر یا برقع بذات خود زینت نہ ہو۔(اس پر کڑھائی نہ ہوئی ہو ، نہ ہی رنگ اور موتی لگے ہوئے ہوں)۔
چادر یا برقع موٹا ہو یعنی باریک نہ ہو کہ اس سے آپ کے کپڑے نظر آئیں۔
چادر یا برقع کشادہ کھلا ہو ، تنگ نہ ہو۔
اس چادر یا برقع پر خوشبو پرفیوم وغیرہ نہ لگی ہوئی ہو۔
یہ چادر یا برقع مردوں سے مشابہ نہ ہو۔
اس چادر یا برقع سے لوگوں کے درمیان شہرت مقصود نہ ہو۔

اور آخری بات ۔۔
وہ عورت عقل مند کیسے ہوسکتی ہے جس نے جنت کو اپنی خواہشات کے بدلے میں بیچ دیا؟؟

اے پیاری بہن ۔۔۔!
کیا آپ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھول چکی ہیں کہ:
فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور
(آل عمران 185)
"پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا بے شک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔"
وصلی اللہ علی سیدنا محمد و علیٰ آلہ وصحبہ وسلم
مراسلہ: ام عمارہ

اگر سبھی کلمہ پڑھنے والی عورتیں ان اسلامی احکامات پر عمل کریں تو ممکن نہیں کہ ہم دوبارہ ایک پاکیزہ اور بہترین معاشرہ نہ بن سکیں۔
اصل میں عورت ذات کی اگر بہترین تربیت کی جائے تو وہ آگے اپنی اولاد کی بھی بہترین تربیت کرتی ہے اور اگر ایک عورت کی تربیت ہی نہ کی جائے اس کو شرم و حیا کا درس ہی نہ دیا جائے اس کو اسلام کے احکامات کی تعلیم ہی نہ دی جائے وہ کیسے ایک پاکیزہ معاشرے کو تشکیل دے سکے گی؟؟؟

میں دوکاندار ہوں اور ایک پلازہ میں دوکان رکھتا ہوں جہاں امیر لوگ ہی آسکتے ہیں یقین کریں مجھے یہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ عورتوں نے ایسا لباس پہنا ہوتا ہے کہ جس کو پہن کر بھی وہ ننگی ہوتی ہیں اور کہنے کو وہ مسلمان ہیں مگر اس کی تعلیمات سے بےبہرہ اور ان کی اولاد بھی ایسے ہی لباس پہنتی ہے جن کو دیکھ کر ہمیں شرم آ جاتی ہے مگر ان کو کچھ بھی احساس نہیں ہوتا بہت دُکھ اور افسوس کا یہ مقام ہے ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

اس وقت انتہائی اہم کام یہ ہے کہ عورتوں کی تربیت صحیح اسلامی طرز پر ہو جیسا کہ اس بہن ام عمارہ نے ایک بہترین اور مختصر تحریر لکھ کر اس میں کام میں حصہ ڈالا ہے ہم سب کو بھی اس معاملے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Wednesday, May 18, 2011

چلتی بندوق کے ہم دھانے پہ ہیں ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں

1 تبصرہ جات

چلتی بندوق کے ہم دھانے پہ ہیں
ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں


قاتلو قتل گاہیں سجاتے رہو
سینے حاضر ہے گولی چلاتے رہو
ہم عقیدے پہ تن من لٹانے پہ ہیں
ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Monday, May 16, 2011

غزوہ احد

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پوری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ دنیا کی محبت میں مگن ہیں اور دوسرا ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم آپمس میں متحد نہیں ہیں جس کی وجہ سے کفار کو موقعہ ملا ہے ہم کو آپس میں لڑانے کا۔
ہم آخر کب کفار کی چالوں کو سمجھیں گیں؟؟؟
پہلا حصہ
دوسری حصہ

تیسرا حصہ

Wednesday, May 11, 2011

خوشامد ایک معاشرتی بُرائی

7 تبصرہ جات


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام میں خودپسندی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اس کی جہاں ممانعت بھی وارد ہوئی ہے وہاں ہی کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے کہ کہیں شیطان اس بندے کو مغرور، متکبر نہ بنادے، اسلام ایک انسان کی ہر معاملے میں بہترین رہنمائی کرنے والا دین ہے اسلام نہیں چاہتا کہ ایک انسان اپنی حدود کو پار کرئے کہ جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں خرابی آئے،اسلام نے ہر معاملے میں بہترین رہنمائے اصول دیئے ہیں اگر ان اصولوں کو فراموش کرکے ان کے خلاف اقدام کیئے جائیں تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے جو آخر کسی بڑے فتنے کا سبب بن جاتا ہے اور انہی اصولوں میں سے ایک اصول ہے کسی انسان کے سامنے اس کی تعریفوں کے پل باھندنا کہ جس کی وجہ سے وہ بندہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دینا ہے اور جس انسان میں تکبر آگیا تو سمجھ لو کہ اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔
ابلیس ::شیطان::بھی اسی تکبر کی وجہ سے برباد ہوا تھا، تکبر اللہ کو بہت ناپسند عمل ہے اس لیئے اسلام نے اس تکبر کو ایک انسان کے اندر آنے کے رستے بند کرنے کی طرف توجہ دی ہے جیسا کہ ایک حدیث شریف میں نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة حدثنا غندر عن شعبة عن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف عن معبد الجهني عن معاوية قال سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول إياکم والتمادح فإنه الذبححضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ توذبح کرنے کے مترادف ہے۔سنن ابن ماجہ:جلد سوم:باب:آداب کا بیان۔ :خوشامد کا بیان ۔اس فرمانِ رسولﷺ سے واضح ہوا کہ کسی انسان کے سامنے اس کی تعریف کرنا اس کو ذبح یعنی ہلاک کرنے کے مترادف ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ وہ شخص خودپسندی اور تکبر کا شکار ہوجائے اور شیطان کی طرح گمراہ ہوجائے۔
اسی طرح کی ایک حدیث مسند احمد میں بھی ہے
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہت کم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تھے، البتہ یہ کلمات اکثر جگہوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کرتے تھے کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔ منہ پر تعریف کرنے سے بچو کیونکہ یہ اس شخص کو ذبح کر دینا ہے۔مسند احمد:جلد ہفتم:باب: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مرویات
اس ارشاد رسولﷺ کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے معاشرے میں کچھ عجیب سی حرکات ہورہی ہیں اگر کوئی دین کے علم سے نابلد انسان ایسی حرکت کرئے تو دُکھ نہیں ہوتا کہ وہ جاہل ہے مگر افسوس کہ ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس مرض کے شکار ہوچکے ہیں کہ جب وہ کسی فورم پر تشریف فرما ہوتے ہیں تو ان کے سامنے ان کی خوب تعریف کی جاتی ہے اور وہ صاحب اُس تعریف کرنے والے کو منع بھی نہیں کرتے کہ بھائی منہ پر تعریف نہ کرو اس سے ہمارے پیارے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے اور اس مرض میں سیاسی اور مذہبی سبھی طرح کے لیڈران شامل ہیں، میں سبھی پر اس کا اطلاق نہیں کرتا مگر اکثریت اس کا شکار ہوچکی ہے، مثلاً جب کسی سیاسی پارٹی کا جلسہ ہوتا ہے تو وہاں پر موجود امیدوار برائے پارلیمنٹ کے سامنے اس کی خوب تعریف کی جاتی ہے اور اس کے نام وہ وہ کام لگائے جاتے ہیں جو اس نے کیئے بھی نہیں ہوتے ہیں اور وہ صاحب اس خوشامدی پر پھولے نہیں سماتے چلو یہ لوگ تو دین کے علم سے بےبہرہ ہیں ان کو ان احادیث کا علم نہیں ہوگا::ویسے یہ احادیث پرائمری کے نصاب میں شامل ہیں مگر افسوس کہ ہمارے اکثر حکمران جاہل اور ان پڑھ ہیں جعلی ڈگڑیاں لے کر ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں:: مگر دوسری طرف مذہبی رہنماء بھی کم نہیں ہیں ان کے سامنے ان کو ایسے ایسے خطاب سے نوازہ جاتا ہے کہ جو خطاب کسی صحابی رسولﷺ کے نام کے ساتھ بھی نہیں لگاتے ان کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں
مولانا، رہبر ملت، رہبر طریقت، رہبر معرفت، شیخ المشائح، مفکر اسلام، سند المفسرین، فیض ملت، ملک التحریر، امام المناظرین، شمس المصنفین، عمدۃ المفسرین، استاد العرب و العجم، غواث بحر حقائق، محدث وقت، ریئس التحریر، ولی نعمت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانہ شمع رسالت، مجدد دین و ملت، عالم شریعت، پیر طریقت، حامی سنت، ماحی بدعت، باعث خیر و برکت، امام عشق و محبت، حضرت شیخ الفضیلت، آفتاب رضویت، ضیاء ملت، مقتدائے اہلسنت، شیخ العرب والعجم اورقطب مدینہ۔ یہ صرف ایک مثال کے طور پر ہیں ورنہ اس سے بھی بڑے بڑے القابات سے نوازہ جاتا ہے مگر مجال ہے کہ وہ صاحب جن کو یہ القاب نوازے جارہے ہوں وہ ان لوگوں کو منع کریں کہ بھائی آپ کیوں میرے منہ پر میری تعریف کیئے جا رہے ہو؟ اس سے میرے پیارے رسولﷺ سے منع کیا ہے، میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ان حضرات کے سامنے سے یہ حدیث بھی نہیں گزری؟؟؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔ دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے لوگوں کو سکھایا اور قرآن کریم پڑھا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں جتوائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا پھر اسے دوسرں کو سکھایا اور تیری رضا کے لئے قرآن مجید پڑھا اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس کے لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو یہ کہا جا چکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسےمنہ لے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔۔۔۔۔الخصحیح مسلم:جلد سوم:باب:امارت اور خلافت کا بیان :جو ریاکاری اور نمود نمائش کے لئے لڑتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہوتا ہے ۔ایک اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا گیا لیکن میں نے اسے خود نہیں سنا کہ تم میں ایک قوم ایسی آئے گی جو عبادت کرے گی اور دینداری پر ہوگی، حتیٰ کہ لوگ ان کی کثرت عبادت پر تعجب کیا کریں گے اور وہ خود بھی خودپسندی میں مبتلاء ہوں گے، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔مسند احمد:جلد پنجم:باب:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی مرویاتان واضح احکامات کے ہوتے ایک مسلم کبھی بھی خودپسندی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنے سامنے کسی کو تعریف کرنے کی اجازت دینی چاہیے، مگر افسوس کہ اہلِ علم طبقہ بھی اس مرض کا شکار ہوچکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جس بندے نے اللہ کی رضا کے لیئے دین کا علم حاصل کیا ہوگا وہ ایسی حرکت کسی کو بھی کرنے نہیں دے گا اور جس نے علم حاصل ہی اس لیئے کیا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اس کو القابات سے نوازیں وہ بلا کیونکر لوگوں کو منع کرئے گا۔
اب دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر کیسا عمل تھا؟
ہمام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور اس نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان کے منہ پر تعریف کرنا شروع کردی۔ تو مقداد بن الاسود نے ایک مٹھی مٹی اٹھائی اور اس کے چہرے پر پھینک دی اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم منہ پر تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دیا کرو۔سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:ادب کا بیان :چاپلوسی وخوشامد کی برائی کا بیان

اور آج ہم کیا کررہے ہیں؟کیا آج تک مَیں نے آپ نے اس حکمِ رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کیا ہے؟اگر اتنی ہمت نہیں کہ مٹی منہ پر پھینک سکیں تو کم از کم کسی کو منہ پر تعریف ہی کرنے سےہی روک دیا کریں میرے خیال سے اس میں کوئی مشکل بات نہیں ہوگی۔
اب تعریف کرنے کا مسنون طریقہ بھی آپ بھائی لوگ نوٹ فرما لیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَالَ وَيْحَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ مِرَارًا إِذَا کَانَ أَحَدُکُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لَا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ وَلَا أُزَکِّي عَلَی اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ إِنْ کَانَ يَعْلَمُ ذَاکَ کَذَا وَکَذَاحضرت عبدالرحمن بن بکرہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی دوسرے آدمی کی تعریف بیان کی تو آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے کہ تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دہرایا کہ جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے ساتھی کی تعریف ہی کرنا چاہئے تو اسے چاہئے کہ وہ ایسے کہے میرا گمان ہے اور اللہ خوب جانتا ہے اور میں اس کے دل کا حال نہیں جانتا انجام کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ ایسے ایسے ہے۔صحیح مسلم:جلد سوم:باب: زہد و تقوی کا بیان :کسی کی اس قدر زیادہ تعریف کرنے کی ممانعت کے بیان میں کہ جس کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہو ۔اس حدیث میں بھی اس بات کا خدشہ پیش کیا کہ تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی یعنی تو نے اپنے بھائی کو ہلاک کردیا یہ الفاظ چھوٹے نہیں ہیں جو ان کو اگنور کردیا جائے بلکہ ہمارے پیارے رسولﷺکے ہر حکم میں ہزاروں دانائیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اور اس میں ایک یہ دانائی کی بات بھی ہے کہ کہیں وہ بندہ غرور و تکبر کا شکار نہ ہوجائے۔
اور اس حکمِ رسولﷺ سے بات بالکل واضح ہوئی کہ اگر تعریف کرنی ہے تو پہلے وہ کہے کہ میرا گمان ہے اور اصل حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ ایسے ایسے ہے یعنی اس میں فلاں فلاں اچھائی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایک کامل مسلم بنائے جو ہر معاملے میں قرآن و سنت کا پابند ہو آمین ثم آمین یارب العاملین۔

Friday, May 6, 2011

عاشقانِ رسولﷺ یاکہ محبانِ رسولﷺ

6 تبصرہ جات




بسم اللہ الرحمن الرحیم

برئے صغیر پاک و ہند میں اسلامی حلقوں میں ایک لفظ بہت پایا جاتا ہے کہ ہم عاشقِ رسولﷺ ہیں اور اس فقرے کو بہت اہمیت بھی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے سب خاص و عام یہی دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم عاشقِ رسول ﷺ ہیں۔ آج اسی فقرے کے بارے میں دلائل سے بات ہوگی ان شاءاللہ۔
اس سلسلے میں میری کافی دفعہ بات چیت ہوچکی ہے کیونکہ کبھی میں بھی یہی نظریہ رکھتا تھا اور آج بھی میرے عزیز رشتہ دار اور دوست ایسے بہت ہیں جو یہی فقرہ استعمال کرتے ہیں اس لیے ان سے بات چیت ہوتی رہتی ہے، میرا ان سب سے یہی سوال ہوتا ہے کہ آپ وہ الفاظ استعمال کیوں نہیں کرتے جو اللہ نے کہے اور نبیﷺ نے ادا کیئے ہیں؟ آپ لوگ اللہ اور نبیﷺ کی بات کو چھوڑ کر وہ بات کیوں کرتے ہیں جو کہ ہمارے معاشرے میں بھی بہت غلط تصور کی جاتی ہے؟مگر مجھے آج تک کسی مولوی صاحب یا کسی دوست عزیز نے اس کی دلیل نہیں دی ہے اور جو وجوہات پیش کی ہیں وہ آپ کے سامنے بھی رکھوں گا ان شاءاللہ، اس سے پہلے ہم اس لفظ عشق، عاشق اور معشوق پر بات کریں گے۔
عشق :۔گو کہ المنجد عربی اور درسی اردو لغت وغیرہ میں عشق کا معنی محبت کی انتہا لکھا گیا ہے مگر ہم نے دیکھنا یہ بھی ہے کہ اس لفظ کا استعمال قرآن و حدیث میں کس لحاظ سے کیا گیا ہے؟اب اس معنی کے مطابق جو بندہ نبیﷺ سے محبت بہت زیادہ رکھتا ہے اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ جی نبیﷺسے عشق کرتا ہے جیسے ایک شاعر نے کہا کہ
دل میں عشقِ نبی کی ہو ایسی لگن


اور جب کہ قرآن میں اللہ نے ایسا کوئی بھی فقرہ استعمال نہیں کیا ہے جس سے محبت کی انتہا عشق کا مفہوم لیا جائے بلکہ عشق کا لفظ پورے قرآن میں ہے ہی نہیں ہے۔ ایک آیت میں اللہ کا ارشاد مبارک ہے کہ 
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓااَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ۭ وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ ١٦٥؁
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے)۔البقرہ: ۱۶۵
اس آیت مبارکہ میں اللہ نے لفظ حب استعمال کیا ہے جو کہ اردو میں لفظ محبت کا معنی پیش کرتا ہے اور اس لفظ محبت سے پہلے شدید کا اضافہ فرمایا یعنی جو اللہ سے بہت زیادہ محبت کی انتہا سے محبت کرتے ہیں، اب اس آیت سے بات واضح ہوتی ہے کہ اگر محبت شدید بھی ہو تو بھی لفظ محبت ہی استعمال کرنا ہے نہ کہ اس کی جگہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جو اپنے معنی اور مفہوم میں کچھ ایسے مفاہم بھی رکھتا ہو جس سے سوچ کا رخ بدل جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 31؀
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ آلِ عمران: ۳۱
اس طرح قرآن مجید میں کافی زیادہ آیات مل جائیں گی جن میں لفظ محب، حب استعمال ہوا ہے اور اس آیت کو بھی اگر غور سے پڑھا جائے تو یہی سبق ملتا ہے کہ اگر سے محبت کا دعویٰ ہے تو صرف اور صرف محمدﷺ کی اتباع و پیروی کرو، یعنی کسی کا دعویٰ کرنا اپنی جگہ مگر محبت کی پہچان اتباع محمدﷺ میں ہے اب ہر معاملے میں آپﷺ کی ہی پیروی کرنے کا حکم ہےاور اگر عشق کا لفظ محمدﷺ نے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی آپﷺ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کبھی ایسا کہا کہ ہم نبیﷺ سے عشق کرتے ہیں تو ہمارے پاس کیا دلیل ہے جو ہم نبیﷺکے بارے میں کہیں کہ ہم عاشقِ رسولﷺ ہیں؟ اور دوسرا اگر یہ اتنا پاکیزہ لفظ ہے تو کوئی اس لفظ کو اپنی ماں اور بہن کے بارے میں استعمال کیوں نہیں کرتا؟کتنی حیران کن بات ہے کہ جو لفظ ہم اپنی ماں ، بہن کے ساتھ لگانا مناسب نہیں سمجھتے وہی لفظ ہم نبیﷺ کی ذات کے ساتھ استعمال کرتے ہیں؟ کیا یہ توہین نہیں ہے؟ کیا کبھی کسی بندے نے یہ بھی کہا ہے کہ میں اپنی ماں کا عاشق ہوں اوریا کہا کہ اپنی بہن کا عاشق ہوں؟ نہیں اور یقیناً نہیں کہا ہوگا کیونکہ ایسا کہنا معیوب سمجھا جائے گا اور لوگ اس کو پاگل کہیں گیں، کیا اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ شخص اپنی ماں اور بہن سے انتہا درجہ کی محبت نہیں رکھتا ؟ نہیں ناں بلکہ سبھی بھائی بیٹے اپنے بہن اور ماں سے شدید محبت کرتے ہیں اور یہ محبت قدرتی امر ہے جو سبھی کو ہوتی ہے، تو کیا وجہ ہے کہ وہ یہ لفظ عشق اپنی ماں بہن کے ساتھ نہیں لگاتا مگر وہ شخص یہی لفظ نبیﷺ کی ذات کے ساتھ لگاتا ہے؟اوریا پھر عشق مجازی کے ساتھ لگانا مناسب سمجھتا ہے اور اس بات کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ عشق مجازی کیا چیز ہے۔اور عشق کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس میں نفسیانی غلامی بھی شامل ہواسی لیے کسی غیر مرد کا کسی غیر عورت سے میل جول یا محبت کو اصل معنوں میں عشق کہا جاتا ہےکیونکہ وہ مرد یا عورت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات بھول کر اپنے نفس کے غلام اور اپنی نفسیانی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں
عاشق:۔ عاشق اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عورت کے عشق میں مبتلا ہو ۔
معشوق:۔ معشوق اس کو کہا جاتا ہے جس عورت سے کوئی شخص عشق کرتا ہے وہ جس عورت سے عشق کرتا ہے کو معشوق کہا جاتا ہے، یہ تینوں لفظ عشق، عاشق اور معشوق عشق مجازی کے زمرے میں آتے ہیں ان کو اللہ اور نبیﷺ کے لیئے استعمال کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے کہ جس طرح کوئی یہ کہنا مناسب نہیں سمجھتا کہ وہ یہ کہے کہ میری بہن میری معشوق ہے یا کہ میں اپنی بہن کا عاشق ہوں یا اپنی بہن سے عشق کرتا ہوں تو انہی الفاظ کو نبیﷺکی ذاتِ اقدس کے ساتھ کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ اگر ہم اثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی رہنمائی لیں تو بھی ہمیں ایسا لفظ نہیں ملے گا کہ کسی صحابی رسولﷺنے آپﷺسے کہا ہو کہ میں آپﷺ سے عشق کرتا ہوں بلکہ اس کے خلاف آپ کو ملے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ أَعْرَابِيًّا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَی السَّاعَةُ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْدَدْتَ لَهَا قَالَ حُبَّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا قیامت کب ہوگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے اس نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے محبت رکھتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:صلہ رحمی کا بیان :آدمی کا اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھے گا کے بیان میں
اس کے علاوہ سینکڑوں حدیثیں مل جائیں گی جن میں لفظ حب یعنی محبت استعمال ہوا ہے مگر کوئی ایک بھی ایسی حدیث یا اثر نہیں ملے گا جس میں عشق کو نبیﷺکے ساتھ نسبت دی گئی ہو۔
اب کوئی بھائی یہ نہ کہے کہ عربی زبان میں لفظ عشق ہے ہی نہیں بلکہ یہ حب کا معنی ہے جو اردو عشق کہلاتا ہے تو اس پر بھی ایک حدیث پیش کر دیتا ہوں تاکہ یہ مغالطہ ہی دفع ہو جائے
وعن حذيفة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اقرؤوا القرآن بلحون العرب وأصواتها وإياكم ولحون أهل العشق ولحون أهل الكتابين وسيجي بعدي قوم يرجعون بالقرآن ترجع الغناء والنوح لا يجاوز حناجرهم مفتونة قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم " . رواه البيهقي في شعب الإيمان
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم قرآن کریم اہل عرب کی طرح اور ان کی آوازوں کے مطابق پڑھواہل عشق اور اہل کتاب کے طریق کے مطابق پڑھنے سے بچو میرے بعد ایک جماعت پیدا ہو گی جس کے افراد راگ اور نوحہ کی طرح آواز بنا کر قرآن پڑھیں گے۔ ان کا حال یہ ہو گا کہ قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا (یعنی ان کا پڑھنا قبول نہیں ہو گا) نیز ان کی قرات سن کر خوش ہونے والوں کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ (بیہقی ، رزین)
مشکوۃ شریف:جلد دوم:باب:فضائل قرآن کا بیان :قرآن محض خوش آوازی کا نام نہیں
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لفظ عشق عربی زبان کا بھی لفظ ہے اور اس کا وہی تصور جو اردو میں لیا جاتا ہے عربی میں بھی لیا جاتا ہے یعنی عشقِ مجازی اور دوسرا اس حدیث میں اہلِ عشق کے طریق سے قرآن پڑھنے کی ممانعت آئی ہے کہ جس طرح عشاق اور شعراء اپنی نظمیں وغزلیں اور اشعار آواز بنا کر اور ترنم و سر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور موسیقی اور راگ کے قواعد کی رعایت کرتے ہیں تم اس طرح قرآن کریم نہ پڑھو۔
آخر میں ایک نبیﷺ کا ارشاد پیش کرتا ہوں کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک وہ مجھ سے اپنی اولاد اور والدین اور سب لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرئے ۔ متفق علیہ
صحیح مسلم:جلد اول:باب:ایمان کا بیان :اس بات کے بیان میں کہ مومن وہی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے گھر والوں والد اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت ہو۔
اس حکمِ رسولﷺ میں جو بات واضح ہوئی وہ یہی ہے کہ اگر کبھی ایسا ہوجائے کہ آپ کی اولاد یا والدین یا کوئی تیسری ہستی آپ کو کچھ ایسا کام کرنے کو کہے جو نبیﷺ کے حکم کے خلاف جاتا ہو تو ایسے موقعہ پر نبیﷺسے محبت کا ثبوت دیں اور وہ کام نہ کریں یہیں سے معلوم ہوگا کہ کوئی کس سے زیادہ محبت کرتا ہے ۔اور ابھی جو بات پیش کی ہے کہ کبھی بھی یہ نہ کہیں کہ ہم عاشقِ رسولﷺ ہیں بلکہ یہ کہیں کہ ہم محبانِ رسولﷺ ہیں کیونکہ ایسا حکم عشق عاشق اور معشوق ہم کو نبیﷺنے تعلیم نہیں فرمایا اس لیے ہم ان لفظوں کو اللہ اور نبیﷺکی ذات کے ساتھ منسوب نہیں کریں گیں بلکہ وہیں لفظ کہیں گے جو قرآن اور حدیث میں وارد ہوئے ہیں یعنی محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں محبت کرنے والا دل اور نبیﷺکی اتباع کرنے والا جسم عطاء فرمائے آمین۔