Saturday, April 30, 2011

کرکٹ اور جہاد

1 تبصرہ جات
حصہ اول
حصہ دوئم
حصہ سوئم

Friday, April 22, 2011

یونیورسل ڈرائیورز ڈاؤنلوڈ کریں

2 تبصرہ جات
Universal Drivers is a pack of 150000 Windows based hardware drivers.This pack is offered free of cost and without any kind of registrations. A one click download is offered by Virtual Zone Website. To download this pack please visit This URL and click on Download Link. Download size is 296 MB. It is in RAR format. To extract it you need WinRar software that is available for free.




Wednesday, April 20, 2011

اپنے جی میل ہوم پیج کو اردو میں فعال کریں

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اپنے جی میل ہوم پیج کو اردو میں فعال کریں
آج اردو ویب بلاگ سے اردو ٹرانسلٹریشن کی سپورٹ کے بارے میں علم ہوا۔ یہ یقیناً نہایت اہم پیشرفت ہے اور اس طرح اردو میں ای میل بھیجنا نہایت آسان ہو گیا ہے۔ میں اس پوسٹ میں جی میل میں اردو ٹرانسلٹریشن کی فیچر کو فعال کرنے اور اس کے استعمال کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا ہوں۔
اپنے جی میل اکاؤنٹ میں اردو ٹرانسلٹریشن کو انیبل کرنے کے لیے سب سے پہلے Settings پر کلک کرکے سیٹنگز والے صفحے کو سامنے لے آئیں۔ اس کے بعد ذیل کی تصویر کے مطابق Show all language options پر کلک کریں جس سے چند مزید آپشنز ظاہر ہو جائیں گی۔
اضافی لینگویج آپشنز ظاہر ہونے کے بعد Enable Transliteration چیک باکس کو چیک کر دیں اور اس کے سامنے والے ڈراپ ڈاؤن لسٹ باکس میں Urdu کا انتخاب کر لیں جیسا کہ ذیل کی تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دائیں سے بائیں ایڈیٹنگ کے لیے Right-to-left editing support on کو بھی منتخب کر لیں۔ اور اس کے بعد ان سیٹنگز کو محفوظ کر لیں۔
آپ کے جی میل اکاؤنٹ میں ٹرانسلٹریشن انیبل ہونے کے بعد جی میل کے ای میل ایڈیٹر کی ٹول بار میں ایک بٹن کا اضافہ ہو جائے گا جس پر کلک کرکے آپ اردو ٹرانسلٹریشن کا انتخاب کر سکتے ہیں جیسا کہ ذیل کی تصویر میں دکھایا گیا ہے۔
اردو ٹرانسلٹریشن کا انتخاب کرنے کے بعد آپ جی میل کے ایڈیٹر میں براہ راست ٹرانسلٹریشن کے ذریعے اردو لکھ سکتے ہیں جیسا کہ ذیل کی تصویر میں دکھایا گیا ہے۔



Sunday, April 10, 2011

نفاق کی نشانیاں (ضرور پڑھیں

0 تبصرہ جات




نفاق کی نشانیاں (ضرور پڑھیں)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


اس تحریر کی پی۔ڈی۔ایف فائل ڈاؤنلوڈ کریں


تمام تعریفیں اُس اللہ کے لیے جس نے سب جہانوں کو صرف چھ 6 دن میں پیدا کیا اور اُس سبحان اور اعلٰی ذات کو زرہ سی بھی تھکان نہیں ہوئی اور درود و سلام اور ہزاروں لاکھوں کروڑوں انگنت رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پر اُن کی آل پر اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم پر۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ Ď۝ۘ
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو (زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر مگر وہ ایمان دار ہیں نہیں 
يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝ۭ
وہ اللہ تعالٰی اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔
فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ ڏ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ 10۝
ان کے دلوں میں بیماری تھی اور اللہ تعالٰی نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
سورۃ البقرہ آیت نمبر ۸،۹،۱۰
جس طرح ایمان اور کفر کی مختلف قسمیں اور صورتیں ہیں اسی طرح " نفاق" کی بھی دو۲ قسمیں ہیں 
اعتقادی نفاق یہی حقیقی نفاق ہے یعنی بظاہر اللہ کی توحید ، رسالت، فرشتے، اور حشر و نشر کے اعتقاد رکھنے کا دعوی کرنا مگر دل سے اس کا انکار کرتا ہے۔ یہی وہ نفاق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔ اسی نفاق کو قرآن مجید نے کفر بھی کہا ہے اور اسی نفاق کے بارہ میں یہ وعید آئی ہے کہ دوزخ میں منافقین کا ٹھکانا کافروں سے بھی نیچے ہوگا، 
عملی نفاق
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص میں چار باتیں ہوں گی، وہ منافق ہوگا یا جس شخص میں ان چاروں میں سے کوئی خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق کی خصلت ہو گی، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔
اس حدیث سے عملی نفاق کی وضاحت ہوتی ہے کہ جس میں جتنی زیادہ نشانیاں ہونگی وہ اتنا ہی منافقین کے قریب ہوگا یعنی ایک مسلم کو ڈرایا کہ ان علامات میں سے اپنے اندر کوئی علامت پیدا نہ ہونے دے ورنہ آخرت میں آگ کا عذاب بھگتنا ہوگا۔
اب ان شاءاللہ اُن نشانیوں پر بات کریں گے جو منافقین کی قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔
بشیر بن خالد، محمد، شعبہ، سلیمان، عبداللہ بن مرہ، مسروق عبداللہ بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص میں چار باتیں ہوں گی، وہ منافق ہوگا یا جس شخص میں ان چاروں میں سے کوئی خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق کی خصلت ہو گی، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے، جب وہ گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے، اور جب جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے۔ 
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2297 حدیث مرفوع 
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو چار ۴ نشانیاں بتائیں ہیں۔
نمبر۱۔جھوٹ بولنامنافق کی بڑی نشانی ہے۔بعض لوگ لوگوں کو ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بول جاتے ہیں تو اس سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو منع کیا ہے۔ اس آدمی کے لیے تباہی ہے جو باتوں باتوں میں اس لیے جھوٹ بولتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کے لیے ہلاکت ہے۔
مسند امام احمد،جلد ۵ 
جھوٹا شخص ہر حال میں لعنتی ہے خواہ وہ سنجیدگی میں جھوٹ بولے یا مذاق میں۔
جھوٹا پن ایک مسلم کی پہچان نہیں ہو سکتا کیونکہ منافقین اسی جھوٹ کی بدولت اپنے کفر کو چھُپاتے ہیں ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ۔۔۔۔۔
صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ کیا مؤمن بودا بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر پوچھا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، پوچھا کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ 
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 2371 
یعنی مومن سے دوسرے گناہ تو ہو سکتے ہیں مگر مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
مگر افسوس بعض لوگ جھوٹ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور وہ بھی اس کو جائز سمجھتے ہوئے حالانکہ قرآن مجید میں اللہ نے جھوٹوں پر لعنت بھی کی ہے اللہ ہم کو ایسے جھوٹوں سے بچا کر رکھے،آمین۔
نمبر۲۔وعدہ خلافی ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان اپنا اعتماد دوسروں کی نظروں میں کھو دیتا ہے اور اعمال نامے میں نفاق کی ایک علامت کا اضافہ بھی کروا لیتا ہے اس لیے اگر آپ کسی سے کوئی وعدہ کریں ساتھ ان شاءاللہ کہیں اور ساتھ یہ وضاحت بھی کر دیں کہ یہ وعدہ نہیں ہے میں کوشش کروں گا کہ کام ہو جائے اگر نہ کر سکا تو معذرت چاہتا ہوں اس طرح اگر وہ کام آپ سے نہ ہو سکے تو آپ پر کچھ گناہ نہ ہوگا۔
نمبر۳۔عہد شکنی۔ چاہے کسی کافر سے بھی کوئی معاہدہ کرے تو بھی اس کے خلاف نہ کرے۔
عبد اللہ بن ہاشم، عبدالرحمن ابن مہدی، سفیان، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو کسی لشکر یا سریہ کا امیر بناتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خاص طور پر اللہ سے ڈرنے اور جو ان کے ساتھ ہوں ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت فرماتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو عہد شکنی نہ کرو اور مثلہ نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو اور۔۔۔۔۔الخ
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 25 حدیث مرفوع 
نمبر۴۔گالیاں دینا۔ یہ ایک بہت ہی بُرا فعل ہے گالی دینے میں پہل کرنے والا اصل میں اپنے والدین کو خود گالی دلوانے کا سبب بنتا ہے،
احمدبن یونس، ابراہیم بن سعد، سعد، حمیدبن عبدالرحمن، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت کرے، کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! آدمی اپنے ماں باپ پر کس طرح لعنت کرسکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی دوسرے کے باپ کو گالی دے تو وہ اس کے ماں اور باپ کو گالی دے گا۔ 
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 913 حدیث مرفوع 
سلیمان بن حرب، شعبہ، منصور، ابووائل، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کا ایک دوسرے کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے، 
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 982 حدیث مرفوع 
اور جو کچھ آج کل ہو رہا ہے اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ نبی علیہ السلام کے ساتھیوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دی جاتی ہیں وہ بھی دین اور ثواب سمجھ کر اللہ ان ظالموں کو ہدایت دے اور ان کے مذہب میں یہ لازمی ہے کہ وہ لعان طعان کریں نبی علیہ السلام کے ساتھیوں پر اصل میں یہی لعنت اُنہی پر لوٹ کر واپس آتی ہے ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر کسی نے کسی مسلم بھائی پر لعنت کی اور وہ لعنتی نہ ہوا تو وہ لعنت کہنے والے پر پلٹ جاتی ہے اور اسی طرح ایک اور ارشادِ نبی ﷺ ہے کہ اگر کسی نے کسی مسلم کو کافر کہا اور وہ کافر نہ ہوا تو کہنے ولا کافر ہو جائے گا 
زہیر بن حرب، عبدالصمد بن عبدالوارث، حسین ابن بریدہ، یحیی بن یعمر، ابواسود، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔ 
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 حدیث مرفوع 
اب اگر کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے تو یہ الفاظ اسی ظالم پر واپس آ جاتے ہیں اور وہ لعنتی کافر کرار پاتا ہے۔
اللہ ہم کو ایسے بُرے لوگوں سے،بُری صحبت سے بچا کر رکھے آمین۔
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢؁ۡۙ

بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں ۔سورۃ النسا ۱۴۲
اس ایک آیت میں منافق کی ۳ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔
۱۔عبادت میں کاہلی دیکھانا،
۲۔لوگوں کو دیکھانے کی خاطر نماز ادا کرنا،

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، سلمہ ابن کہیل حضرت جندب علقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی لوگوں کو سنانے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالی اس کی ذلت لوگوں کو سنائے گا اور جو آدمی دکھلاوے کے لئے کوئی کام کرے گا تو اللہ تعالی اس کی برائیاں لوگوں کو دکھلائے گا۔ 
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2980 حدیث مرفوع 
قیامت کے دن بھی اللہ ایسا کر سکتا ہے اور اس زندگی میں بھی ایسا کر سکتا ہے۔اس زندگی میں کرے تو بھی بدنامی آخرت میں کرے تو اس سے بھی زیادہ نقصان ہوگا۔ اور ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ریاکاری شرک خفی ہے۔
۳۔اللہ کا ذکر بہت کم کرنا،
یحیی بن ایوب، محمد بن صباح، قتیبہ و ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن، حضرت علاء بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر بصرہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ تو منافق کی نماز ہے کہ سورج کو بیٹھے دیکھتا رہتا ہے جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان میں ہوتا ہے تو کھڑا ہو کر چار ٹھونگیں مارنے لگ جاتا ہے اس میں اللہ تعالی کا ذکر نہیں کرتا مگر بہت تھوڑا۔ 
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1407 حدیث مرفوع 
منافق کی نشانی ہے کہ اللہ کو یاد تو کرتا ہے مگر بہت کم آج ہم کو اپنا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ ہم اللہ کا کتنا ذکر کرتے ہیں اگر اللہ کو دن میں بلکل ہی یاد نہیں کرتے تو کیا ہم مسلمان کہلانے کا حق رکھتے ہیں؟اللہ کا تو حکم ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ الاحزاب ۴۱
اللہ ہم سب کو ۵ وقت کا نمازی بنائے آمین۔
منافق کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ ایمان والوں پر طعنہ زنی کرتا ہے
اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ ۭ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ ۡ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 79؀

جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر نہیں، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے۔
بشر بن خالد، غند ر، شعبة، سلیمان، ابووائل، ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس وقت ہم لوگوں کو صدقہ خیرات کرنے کا حکم فرمایا تو ابوعقیل آدھا صاع لے کر حاضر ہوئے اور ایک آدمی زیادہ لے کر حاضر ہوا تو اس پر منافقین نے کہا کہ اس (ابو عقیل) کے صدقہ سے اللہ بے نیاز ہے (یعنی اس قدر معمولی صدقہ خیرات کی اس کو کیا ضرورت ہے؟) اور دوسرے شخص نے ریاکاری کے واسطے صدقہ خیرات کیا ہے اس پر یہ آیت تلاوت کی۔
سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 441 حدیث مرفوع 
افسوس کہ آج تک اُن منافقوں کی نسل چلتی آ رہی ہے جو منافق نبی علیہ السلام کی زندگی میں صحابہ کرام کی شان میں گستاخیاں کرنے سے نہیں ڈرتے تھے آج وہ کس سے ڈر سکتے ہیں۔الحمد للہ کہ اللہ نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے یہاں نہیں تو آخرت میں اپنے کیے کا اجر پا کر رہیں گے۔ان شا اللہ
تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـَٔـلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٤١؁ۧیہ امت ہے جو گزر چکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا وہ تمہارے لئے، تم ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے۔ سورۃ البقرہ ۱۴۱
اس اللہ کے حکم کے بعد ہمارے پاس کیا دلیل ہے کہ ہم گزرے ہوئے لوگوں پر لعن طعن کریں اور وہ بھی اصحابِ رسول ﷺ پر اللہ کی پناہ ایسے بُرے عمل سے۔
دین کی باتوں کا مذاق اُڑانا
آج کل جہالت کی بناہ پر بہت سے مسلمان کہلانے والے خود اپنے دین کا مذاق اُڑاتے ہیں، مثلا کوئی باحیا عورت پردہ کرتی ہے تو اس سے مذاق کیا جاتا ہے کہ وہ دیکھو ڈاکو جا رہی ہے،
اگر کوئی مرد سنت کے مطابق ڈارھی رکھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کیا سکھوں کی طرح ڈارھی رکھ لی ہے
)اللہ کی پناہ ایسے کفریہ الفاظ سے(
وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ۭ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُ وْنَ 65؀اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ ۭاِنْ نَّعْفُ عَنْ طَاۗىِٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَاۗىِٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَ 66؀ۧ

بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دینگے۔ کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں۔
سورۃ التوبہ آیت ۶۵۔۶۶
ایک اور بات یہاں کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ آجکل موبائیل پر ایسے لطیفے پوسٹ کیے جاتے ہیں جن میں جنت،جہنم،فرشتوں،نماز،مسجد وغیرہ سے مذاق کیا جاتا ہے اگر ایسا میسج آپ کو ملے تو اس کو فورا مِٹا دیں اور بھیجنے والے کو بھی سمجھائیں کہ یہ کفریہ کام ہے۔
جھوٹی قسمیں کھانا
منافقین کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں حالانکہ دل میں اُن کے کچھ اور ہوتا ہے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَاۗءُ ۭ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَهَاۗءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ 13۝

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں (یعنی صحابہ) کی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں، خبردار ہو جاؤ یقیناً یہی بیوقوف ہیں، لیکن جانتے نہیں ۔
وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا ښ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ 14۝

اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان والے ہیں جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں ، تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں۔ سورۃ البقرہ آیت ۱۳،۱۴
اِتَّخَذُوْٓا اَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ Ą۝انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پس اللہ کی راہ سے رک گئے ،بے شک برا ہے وہ کام جو یہ کر رہے ہیں۔
سورۃ المنافقون آیت ۲
ان آیات میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا بتایا گیا ہے۔ ایک مسلم کا ایسا رویہ نہیں ہوتا وہ دل سے ایمان لاتا ہے جیسا کہ کہا کہ ان جیسا ایمان لاؤ ظاہر ہے اشارہ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف تو اس جگہ بھی منافقین نے ان کا مذاق ہی اُڑایا یہ شروع سے ہی منافقین کی خاص پہچان رہی ہے کہ جیسے بھی ہو صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کی جائے تو آج بھی آپ اُن کو پہچان سکتے ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ایسے بُرے عمل سے بچا کر رکھے۔آمین
نماز با جماعت سے پیچھے رہنا۔
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشرعبدی، زکریا بن ابی زائدہ، عبدالملک بن عمیر، ابی احوص، حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم دیکھتے تھے کہ سوائے منافق کے نماز سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہتا تھا جس کا نفاق ظاہر ہو یا وہ جوبیما رہو اگر بیمار ہوتا تو بھی دو آدمیوں کے سہارے چلتا ہوا نماز پڑھنے کے لئے آجاتا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سنن ہدی سکھایا ہے اور سنن ہدی میں یہ کہ اس مسجد میں نماز پڑھنا کہ جس میں اذان دی جاتی ہو۔ 
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1482 حدیث متواتر حدیث مرفوع 
اس بندے کا معاملہ تو واضح ہے جو ایسے علاقے میں رہتا ہے جہاں مسلم کم ہیں یا جہاں مسجد نہیں ہے وہ گھر میں ہی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ نماز پڑھ لے مگر جہاں مسجد ہو وہاں باجماعت نماز کے لیے نہ جانا نفاق کی پکی علامت ہے۔
اللہ کو بھولنا
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ لْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَهُمْ ۭنَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ ۭاِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 67؀

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں، یہ لوگ برائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے ہیں، اور یہ بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو (ہر کار خیر سے) یہ بھول گئے اللہ کو، جس کے نتیجے میں اللہ نے ان کو بھلادیا بلاشبہ یہ منافق پکے بدکار ہیں
سورۃ التوبہ آیت ۶۷
اس ایک آیت میں اللہ نے نفاق کی ۴ نشانیاں بتائیں ہیں۔
۱۔بُرائی کا حکم دیتے ہیں،
آجکل میوزک ساز کو جائز اور حلال بتانے والوں کی آپ کو کمی محسوس نہیں ہو گی یعنی کہا جاتا ہے کہ قوالی میوزک کے ساتھ سُننا جائز ہے بلکہ میں نے کئی بار لوگوں کو منع کیا کہ بھائی میوزک اسلام میں حرام ہے تو جواب ملتا ہے کہ یہ قوالی میوزک کے ساتھ سُننا جائز ہے فلاں فلاں مولوی صاحب اس کو جائز کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ دینِ اسلام میں حرام پلید کام ہے مگر جاہل لوگ اس کو دین بنا کر پیش کر رہے ہیں یعنی بُرائی کا حکم دیتے ہیں وہ بھی دین بنا کر یہ اس سے بھی بڑی گمراہی پھلا رہے ہیں۔ 
" حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، راگ وگانا دل میں نفاق کو اس طرح اگاتاہے جس طرح پانی کھیتی کواگاتاہے۔ (بہیقی)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 741 
ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ میوزک کے جتنے بھی اوزار ہیں وہ سب شیطان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ مسلمانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ اس حدیث کا حوالہ مجھے ابھی یاد نہیں ہے اگر کسی بھائی کو معلوم ہو تو پلیز بتا دے جزاک اللہ۔
اس احادیث کو پڑھنے کے بعد سمجھ آتی ہے کہ میوزک کو کیوں یہ لوگ عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دلوں میں نفاق پیدا ہو جائے۔ اے اللہ تو ہم کو ان ظالموں کی چالوں سے بچا کر رکھنا آمین۔
۲۔بھلائی سے روکتے ہیں،
جب کوئی بُرائی کی دعوت عام کر رہا ہوتا ہے تو اصل میں وہ لوگوں کو بھلائی سے روک کر بُرائی میں لے جارہا ہوتا ہے۔
۳۔خیر کے کاموں سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھتے ہیں،
یعنی اگر کسی غریب کی مدد کا معاملہ آجائے تو کہیں گے کہ ہمارا آجکل گزارہ مشکل سے ہو رہا ہے مگر جب فضولیات کا معاملہ آتا ہے مثلا بسنت،کوئی میلہ ٹھیلہ،کسی دوست کی مہندی کی ہندوانہ رسم،اس طرح کے اور بہت سے کام تو پتا نہیں کہاں کہاں سے پیسے نکل آتے ہیں ہزاروں لاکھوں روپے اسی عیاشی کی نظر کر دیتے ہیں مگر کسی غریب مسکین کی مدد ان سے نہیں ہوتی۔
۴۔اللہ کو بھول گئے۔
جب ایک انسان اپنے مالک خالق کو بھول جاتا ہے تبھی وہ ایسے بُرے کام کرتا ہے اگر ان کو اللہ یاد ہوتا تو ایسے عمل کرنے سے اللہ سے ڈر نہ جاتے۔
اہلِ ایمان کی مشکل میں خوش ہونا۔
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۚ وَاِنْ تُصِبْكَ مُصِيْبَةٌ يَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَّهُمْ فَرِحُوْنَ 50؀

اگر آپ کو کوئی اچھی حالت پیش آئے تو ان کو یہ امر برا لگتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پڑجائے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنا کام پہلے ہی ٹھیک کرلیا تھا، اور یہ لوٹتے ہیں خوشیاں کرتے ہوئے، سورۃ التوبہ آیت ۵۰
جہاد نہ کرنا یا اس کی تمنا نہ ہونا نفاق کی ایک قسم ہے۔
عبدہ بن سلیمان، ابن مبارک، وہیب، عمر بن محمد بن منکدر، سمی ابوصالح، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اس حال میں مرا کہ نہ اس نے جہاد کیا اور نہ ہی اس کے دل میں جذبہ جہاد پیدا ہوا تو گویا وہ ایک طرح کے نفاق سے مرا۔
کتاب سنن ابوداؤد جلد 2 حدیث نمبر 730 
فحش گوئی اور فضول گپ شپ
حضرت ابوامامہ نبی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا شرم وحیا اورزبان کو قابو میں رکھنا ایمان کی دوشاخیں ہیں جب کہ فحش گوئی اور لاحاصل بکواس نفاق کی دوشاخیں ہیں۔ (ترمذی)
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 729
منافق بزدل ہوتا ہے۔
وَاِذَا رَاَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ ۭ وَاِنْ يَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۭ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۭ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۭ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ ۡ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ Ć۝

اور جب تم ان (کے تناسب اعضاء) کو دیکھتے ہو ان کے جسم تمہیں (کیا ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو تم ان کی تخریج کو توجہ سے سنتے ہو گویا لکڑیاں ہیں جو دیواروں سے لگائی ہوئی ہیں کہ (بزدل ایسے کہ) ہر زور کی آواز کو سمجھیں (کہ) ان پر (بلا آئی) یہ (تمہارے) دشمن ہیں ان سے بے خوف نہ رہنا۔ اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔سورۃ المنافقون آیت ۴
اس آیت مبارکہ میں منافق کی ۳ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔
نمبر ۱۔ ان کے جسم ظاہر میں بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔
ظاہر میں ان کے جسم تو بہت خوبصورت ہیں مگر دل کی حالت بنجر زمین سے بھی بدتر ہوتی ہے دل کی صفائی ستھرائی کی طرف بلکل ہی توجہ نہیں۔
نمبر ۲۔ جب بات کرتے ہیں تو چرب زبانی اور متکبرانہ انداز۔
نمبر۳۔ بزدل ایسے کہ ہر زور کی آواز سے ڈر جائیں۔

منافق بزدل ہوتا ہے اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے مگر جو ظالم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اس صف میں کھڑا کرتے ہیں وہ ظالم غزوہ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ حنین، غزوہ خندق اور نبی علیہ السلام کی زندگی میں جتنے بھی غزوے اور سریہ ہوئے اور آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی جتنی جنگیں ہوئیں اُن سب میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بہادری، شجاعت بھول گئے ہیں؟ کہاں ۳۱۳ اور کہاں ۱۰۰۰،کہاں ۳۰۰۰ مسلمین اور کہاں کفار ۱۰ ہزار، ایرانی آتش پرستوں اور رومیوں کے ساتھ جنگوں میں بھی ایک مسلم کا مقابلہ ۱۰۔۱۰ مشرکوں سے تھا پھر بھی الحمد للہ مسلمین کو فتح نصیب ہوئی اور ایرانی آتش پرستوں اور رومی عیسائیوں کو شکستِ فاش ہوئی یہ سب کچھ اللہ کی نصرت اور مدد سے ہی ممکن ہوا تھا اور اللہ کی مدد مومنین مسلمین کے ساتھ ہوتی ہے نہ کے منافقین کے ساتھ۔اصل میں جب انسان کی عقل پر تعصب کا پردہ پڑ جاتا ہے تو وہ خوبیاں نہیں بلکہ خامیاں تلاش کرتا ہے،
بیعتِ رضوان کے دن اللہ نے یہ خوشخبری نازل کی۔۔۔۔۔۔۔
لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا 18؀ۙ
بے شک الله مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پھر اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلو ں میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل کر دیا اور انہیں جلد ہی فتح دے دی
سورۃ الفتح آیت نمبر ۱۸
علی بن عبداللہ مدینی، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے دن صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا: آج تم تمام زمین والوں سے افضل ہو۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اس دن چودہ سو آدمی تھے۔ اگر آج میں بینا ہوتا تو تم کو درخت کی جگہ بتاتا اس حدیث کو سفیان کے ساتھی اعمش بھی بیان کرتے ہیں انہوں نے سالم بن ابی جعد سے سنا اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ چودہ سو آدمی تھے۔ 
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1323 حدیث مرفوع 

قتیبہ بن سعید، حاتم، یزید بن ابی عبید سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سلمہ بن اکوع سے کہا کہ تم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کس اقرار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی تھی وہ کہنے لگے ہم نے موت پر بیعت کی تھی۔ 
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1335 حدیث مرفوع 
آیت اور احادیث سے اس بات کی وضاحت ہوئی کہ اللہ ان ۱۴۰۰ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے دلوں میں ایمان کو جان لیا اور ان سے راضی ہوا اور آپ سب بھائی بہنیں جانتے ہونگے کہ عبداللہ بن ابی جس کو منافقوں کا سردار کہہ لیں وہ اپنے سب منافق ساتھیوں کو ساتھ لے کر واپس مدینہ چلا گیا تھا بیعت رضوان کے وقت ایک بھی منافق نبی علیہ السلام کے ساتھ نہیں تھا اللہ نے خود ہی حکمت سے ان کو مومنین سے علیحدہ کروا دیا تھا۔
۱۴۰۰ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے موت پر بیعت کی کیا کوئی بزدل ایسا قدم اُٹھا سکتا ہے؟ یقینا ڈرپھوک منافق ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے علاوہ اور بہت سی قرآن کی آیات اور احادیث مبارکہ ہیں جن میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی فضیلت بیان ہوئی ہے شانِ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم تھریڈ میں سب داخل کروں گا ان شاءاللہ۔
انصار (صحابہ کرام) سے دشمنی نفاق کی نشانی۔
ابوالو لید، شعبہ، عبد اللہ بن جبیر، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (نقل کرتے ہیں) کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے۔
کتاب صحیح بخاری جلد 1

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، ابن مہدی، شعبہ، عبد اللہ بن عبد اللہ بن جبیر حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا منافق کی علامت انصار سے بغض ہے اور ایمان کی علامت انصار سے محبت ہے۔
کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 237
نبی علیہ السلام کے ان ارشادات پر کوئی تشریح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نفاق سے بچنے کی دعا۔

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنَا ضُبَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السُّلَيْکِ عَنْ دُوَيْدِ بْنِ نَافِعٍ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَدْعُو يَقُولُاللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوئِ الْأَخْلَاقِ 


عمرو بن عثمان، ضبارہ بن عبد اللہ بن ابی سلیک، دوید بن نافع، ابوصالح سمان، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا کرتے تھے اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں عداوت سے، نفاق سے، اور بد اخلاقی سے۔
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1533 حدیث مرفوع

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے چلائے اور کفار اور منافقین کی چالوں سے،ان کی گمراہیوں سے ہم کو بچا کر رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

Thursday, April 7, 2011

Saturday, April 2, 2011

مظلوم بہن کی پکار

0 تبصرہ جات

Friday, April 1, 2011

قوم پرستی جاہلیت کی پکار

6 تبصرہ جات


بسم اللہ الرحمن الرحیم 
قوم پرستی جاہلیت کی پکار
آج پاکستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے باسیوں کو قوم پرستی کی دلدل میں پھنسایا جارہا ہے یہ وہ جہالت ہے جس میں مشرکینِ مکہ ہی نہیں پورا جزیرۃ العرب مبتلا تھا اور چھوٹی چھوٹی سی بات پر ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوجاتا تھا اور یہ لڑائی کئی کئی دن تک ہوتی رہتی اور جب دونوں طرف سے سینکڑوں لوگ قتل ہوجاتے تو خود ہی تھک ہار کر لڑائی وقتی طور پر ختم کردیتے تھے، یہ قوم پرستی کی انتہائی ذلت آمیز داستانیں ہیں جو کہ ہم سب کو علم ہونے کے باوجودآج پاکستان میں دوہرائی جارہی ہیں مگر بجائے ہم ان سے درسِ عبرت لیں ان کو فراموش کیے بیٹھے ہیں اور ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس جہالت سے پُر فتنے پر لکھتے اور بولتے نظر نہیں آ رہے۔
قوم پرستی ایک خطرناک موذی مرض ہے اس سے ہر مسلمان کو آگاہی ہونا بہت ضروری ہے تبھی ہم اس خطرناک مرض سے بچ سکیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی بیماری جو انسان کی جان لےسکتی ہے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ایسا مرض جو ایک انسان کی ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے موت کا پیغام ہے سے بچنے کی تدبیر نہیں کررہے؟؟؟
آج کتنے ہی گھر ہیں جو اس مرض نے تباہ و برباد کردیے ہیں،کتنے ہی معصوم لوگوں کو موت کے گاٹ اتار دیا ہے اس موذی مرض نے، مگر اس سب کے باوجود ہم اس موذی مرض کے خلاف کوئی بھی خاص مدافیت نہیں کررہے جوکہ ایک ایسے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا جو عقل و شعور رکھتا ہو۔ہم سب اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں مگر کبھی سوچا کہ اس قوم پرستی کی لعنت سے کیسے جان چھوڑائی جائے؟؟؟کہ جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری ذات بلکہ اسلام اور پاکستان کی بھی سلامتی کو خطرہ ہے، قوم پرست رہنماءصرف پاکستان کے ہی دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ اسلام سے بےبہرہ اور گمراہ ہیں کہ جو لوگوں کو اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں اور پاکستان کو توڑنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
اسلام سے پہلے عرب معاشرے کا کیا حال تھا اس بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ ١٠٣؁
اور مضبوطی سے تھام لو تم لوگ اللہ کی رسی کو سب مل کر، اور آپس میں مت بٹو ٹکڑیوں میں اور یاد کرو اللہ کے اس (عظیم الشان انعام و) احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے، تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے (پھٹے ہوئے) دلوں کو، پھر تم اس کے فضل و کرم سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم لوگ کھڑے تھے دوزخ کے (ہولناک گڑھے کے) عین کنارے پر، تو اس نے بچا لیا تم کو اس سے اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں، تاکہ تم لوگ سیدھی راہ پر رہو۔
آلِ عمران : ۱۰۳
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین باتوں سے اللہ رحیم خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اسی کے عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو دوسرے اللہ کی رسی:::قرآن و سنت:::کو اتفاق سے پکڑو، تفرقہ نہ ڈالو، تیسرے اپنے خلفاءکی خیر خواہی کرو، فضول بکواس، زیادتی سوال اور بربادی مال::فضول خرچی:: یہ تینوں چیزیں رب کی ناراضگی کا سبب ہیں، بہت سی روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں سے کہ اتفاق کے وقت وہ خطا سے بچ جائیں گے اور بہت سی احادیث میں نا اتفاقی سے ڈرایا بھی ہے، ان ہدایات کے باوجود امت میں اختلافات ہوئے اور تہتر فرقے ہو گئے جن میں سے ایک نجات پا کر جنتی ہو گا اور جہنم کے عذابوں سے بچ رہے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس پر قائم ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھے۔ پھر اپنی نعمت یاد دلائی، جاہلیت کے زمانے میں اوس و خزرج کے درمیان بڑی لڑائیاں اور سخت عداوت تھی آپس میں برابر جنگ جاری رہتی تھی جب دونوں قبیلے اسلام لائے تو اللہ کریم کے فضل سے بالکل ایک ہو گئے سب حسد بغض جاتا رہا اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ تعالٰی کے دین میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہو گئے، جیسے اور جگہ ہے آیت (ھوالذی ایدک بنصرہ وبالمومنین والف بین قلوبھم) الخ، وہ اللہ جس نے تیری تائید کی اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی،اور روایات سے ملتا ہے کہ یہودیوں نے ان دونوں قبیلوں کو سابقہ آپس کی جنگوں کی یاد دہانیاں کرواتے اور ان کے مقتولین کی یاد دلاتے اور ان کی نسلی عصبیت کو دوبارہ جگانے کی لاکھ کوشش کرتے مگر وہ یہود کبھی بھی اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوپائے، مگر آج یہود کی سازشیں کامیاب ہو گئی ہیں،کیا وجہ ہے کہ ہم یہود کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کرپارہے؟؟؟ اور اب کیا وجہ ہے کہ ہم کو پھر پہلے والی جہالت کی طرف دھکیلا جارہا ہے جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دیا تھا آج ہم یہود اور نصاری کے ایجنٹوں کی باتوں میں آکر اسی حرام کام::نسلی تعصب:: پر عمل کررہے ہیں؟
اللہ نے ہر انسان کو عقل و شعور سے نواز رکھا ہے مگر اب جو کوئی اس کا استعمال نہیں کرتا اور ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کررہا ہے جو کہ مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کررہا ہے تو ایسے لوگ اصل میں گدھے ہیں کہ کوئی جہاں چاہے ان کو ہانک کر لے جائے، ارے بھائیو اس عقل و شعور کا کیا فائدہ اگر اس کو استعمال نہیں کرنا تو؟؟؟
اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا ہے،یہ ایسی جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اسلام میں لوگوں کو قوموں کی سطح پر تقسیم در تقسیم کردیتی ہے اسلام جو واحدت و اتفاق کا درس دیتا ہے یہ قوم پرستی اسلام کی واحدت کو پاراپارا کردیتی ہے، اب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے یہ مختلف قبائل اور خاندان کیوں بنائے ہیں آیا اس لیے کہ ان کی بنیاد پر لوگ کو آپس میں لڑایا جائےاور ان کی نسلوں کوختم کیا جائے یا کہ صرف آپس میں پہچان کے لیے ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13؀
اے لوگوں یقینا ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں (محض اس لئے) تقسیم کر دیا کہ تاکہ تم آپس میں پہچان کر سکو بیشک اللہ کے یہاں تم میں سے سب سے بڑا عزت دار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی (و پرہیز گار) ہو بیشک اللہ پوری طرح جانتا ہے (تمہارے عمل و کردار کو اور وہ) پوری طرح باخبر ہے (تمہاری احوال سے)۴۹۔حجرات:۱۳ مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبوی ﷺ کی وجہ سے ہو گی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلےاور برادریاں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہاہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کرلیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ وسیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے ۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادی ہلکے ہو جاؤ گے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپﷺ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالٰی کی حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالٰی نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم علیہ السلام کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برُائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالٰی تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ برُی بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلح رحمی کرنے والا ہے ۔
ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ
علی، سفیان، عمرو، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک جنگ میں تھے اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ ہم ایک لشکر میں تھے تو مہاجرین میں سے ایک نے ایک انصاری کو مارا انصاری نے پکار کر کہا کہ اے جماعت انصار! اور مہاجرنے پکار کر کہا کہ اے جماعت مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو مارا آپ ﷺنے فرمایا جاہلیت کی اس پکار کو چھوڑو یہ برُا کلمہ ہے۔ 
صحیح بخاری:جلد دوم:باب: جاہلیت کی طرح گفتگو کرنے کی ممانعت
اس آیت اور احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو قوم پرستی کی کوئی حقیقت نہیں رہتی سوائے جاہلیت کے اور معلوم نہیں یہ قوم پرست رہنماء کس کے کہنے پر اُمت کو باہم متحارب کرنے کی ناپاک جسارت کررہے ہیں، یہ اس دنیا میں تو شاید کچھ ذاتی فوائد حاصل کرلیں مگر ان ظالموں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ ایک انسان کی زندگی بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے اور ایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنا گویا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے اور امت میں فتنہ پیدا کرناقتل سے بھی بدتر ہے اور قوم پرستی کی دعوت جاہلیت کی دعوت ہے یہ اتنی برُی دعوت ہے کہ جس کو سُن کر نبی علیہ السلام کو غصہ آیا اور اس طرح قوم پرستی کی آواز لگانے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی اس کو جاہلیت کی پکار کے ساتھ تشبہ دی۔
آج افسوس کے ساتھ کہنہ پڑتا ہے کہ مسلمانوں کو پہلے تو دین کے نام پر فرقوں میں تقسیم کی گیا تھا کہ تم حنبلی ہو، تم مالکی ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی ہو، اور یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے کئی کئی جماعتیں اور گروہ وجود میں لائے گے کہ ہر کسی کا اپنا امیر و امام مقرر کیا گیا اور اپنا ایک علیحدہ سسٹم چلایا گیا۔ اور پھر خلافت کے نظام کو بذریعہ جنگ ختم کرکے ملکوں میں تقسیم کردیا گیا تھا کہ تم انڈین ہو، تم پاکستانی ہو، تم عراقی ہو، تم سعودی ہو، تم فلسطینی ہو، تم ایرانی ہو، تم افغانی ہو، یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ اب صوبوں کے نام پر بھی تقسیم کی جارہی ہے کہ تم سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور اب اس بھی آگے کی جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور قبیلہ کے نام پر بھی امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ اتنے زیادہ ان کفار نے جال بھن دیے ہیں کہ ان کو کاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتاجارہا ہے اور مسلمانوں میں علم کی کمی کی وجہ سے اس عصبیت کو بہت چرچہ مل رہا ہے اور لوگ ان قوم پرست رہنماوں کی باتوں میں پھنس رہے ہیں۔
ایک مسلمانان سب باتوں سے پہلے ایک مسلم ہے کہ جس نے بھی اللہ کی ایکتائی کا اور محمد ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا اور اس کلمے کی شرائط کو پورا کیا وہ مسلم ہوگیا اب اس کا جان و مال دوسرے مسلمان پر حرام ہوگیا۔

نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
سوید بن سعید، ابن ابی عمر، مروان، ابومالک، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرما تے ہوئے سنا کہ جس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہا اور اللہ تعالی کے سواء اور چیزوں کی پرستش کا انکار کردیا اس کا جان ومال محفوظ ہوگیا باقی ان کے دل کی حالت کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہے۔ 
صحیح مسلم:جلد اول:کتاب: ایمان کا بیان :باب:ایسے لوگوں سے قتال کا حکم یہاں کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں
اس فرمانِ رسول ﷺ کے ہوتے ایک مسلمان کس طرح اپنے کلمہ گو مسلمان کو قتل کرسکتا ہے؟؟؟
اور وہ بھی صرف قبائلی تعصب کی وجہ سے کہ جس تعصب کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
آخر کیا ہوگیا ہے ہم لوگوں کو ، ہم کس دن ان نسلی دیواروں کو توڑیں گے؟؟؟
اور آپس میں بھائی بھائی بن کر اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کریں گے یہ بات یاد رکھیں جب تک ہم متحد نہیں ہوجاتے ہم مسلمان اسی طرح دنیا میں محکومی کی زندگی گزارتے رہیں گے اور یہود ، نصاری ، مشرک اور ان کے نام نہاد مسلمان ایجنٹ ہم کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر کےہم پر حکومت کرتے رہے گے۔ اور یاد رکھیں وقت کے ہر طاغوت اور فرعون کا یہی ایک حربہ ہوتا ہے حکمرانی کرنے کا کہ لوگوں کو فرقہ فرقہ اور گروہ گروہ کر کے حکمرانی کی جائے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا
حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔
۲۸::القصص۔آیت:۴
تو ہم جب تک ان گروہ بندیوں چاہے وہ دینی ہوں، ملکی ہوں، یا قبائلی ہوں سے نکل نہیں آتے اور ایک ملت ، ایک جسم،بن نہیں جاتے یہ کفار اور ان کے نام نہاد مسلمان ایجنٹ ہم پر ایسے ہی ظلم کرتے رہیں گے۔
اللہ سے دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کلمہ پڑھنے والوں کو قرآن و سنت پر متحد و مجتمع کردے اور ہم کو دینی قبائلی اور ملکی گروہ بندیوں سے نجات دے اور ہماری کھوئی ہوئی عظمت ہم کو واپس لوٹا دے۔
آمین یا رب العالمین