Tuesday, January 4, 2011

بیعت کی شرعی حیثیت؟ کیا مروجہ پیری مریدی اسلام میں سے ہے؟

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم

آجکل جہاں اور بہت سے اسلامی مسائل میں ایک عام آدمی صحیح فیصلہ نہیں کر پارہا ان میں ایک اہم مسئلہ بیعت کا بھی ہے کہ وہ کس کے ہاتھ پر بیعت کر کے جاہلیت کی موت سے بچ سکے کیونکہ اس پر احادیث موجود ہیں کہ جس نے بیعت نہ کی اور مرگیا تو اس کا مرنا جاہلیت کا سا مرنا ہے، اور یہ معاملہ ہے بھی بہت تشویش والا اس میں ہم سب کو پریشانی ہونی چاہیے کہ کہیں وہ جاہلیت کی موت نہ مارا جائے۔ تو بعض لوگوں نے اس کا غلط مطلب لے کر یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ اب بیعت ہے ہی نہیں ہےبیعت تو اسلام کی ہوا کرتی تھی اس کے علاوہ کون سی بیعت ہوتی ہے، تو اس طرح انہوں نے بیعت کا ہی انکار کر دیا ہےجو کہ اچھی بات نہیں ہے۔ اور بعض لوگوں نے اس بیعت کو ہرکسی کے لیے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آدمی کو جو کوئی بھی اچھالگے تو اس کی بیعت کر لینی چاہیے وہ جائز ہے، اور اب چاہے ایک ہی علاقے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہوں کہ جن کے ہاتھ پر بیعت کی گئی ہوئی ہو، تو یہ دونوں طریقے قرآن و سنت سے ہٹے ہوئے ہیں، اب یہ عرض بھی کرتا چلوں کہ اب کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں مولوی صاحب نے اس پیری مریدی کو جائز کہا ہے فلاں نے اس کو جائز کہا ہے بلکہ خود بیعت لیتے ہیں تو محترم بہن بھائیو ہم نے جس عظیم ہستی کی رسالت کا اقرار کلمے میں کیا ہے ہم کو چاہیے کہ اپنے عمل سے بھی اس کو ثابت کریں اور جو حقِ پیروی ان صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ کسی کو بھی نہ دیں، کیونکہ دین اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل ہو گیا تھا اگر تو کوئی قرآن و صحیح حدیث سے موجودہ پیری مریدی کو ثابت کردے تو صحیح ورنہ کسی کی بات کو جواز بنا کر ہم دین میں کوئی اضافہ کرنے کی جسارت نہ کریں تو یہ ہمارے حق میں اچھا رہے گا۔
ان شاءاللہ تعالي۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ قرآن و صحیح حدیث میں جو بیعت کا ذکر ہے وہ بیعت کس کی ہے اور اس کا مقصد کیا ہے، اللہ سے دُعا ہے کہ وہ حق بات کرنے، حق بات کو قبول کرنے اور حق بات پر عمل کرنے کی ہم سب کو توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
ابوالنعمان، ابوعوانہ، حضرت زیاد بن علاقہ کہتے ہیں کہ جس دن مغیرہ بن شعبہ کا انتقال ہوا، اس دن میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا (پہلے) وہ کھڑے ہو گئے اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی، پھر (لوگوں سے مخاطب ہو کر) کہا، کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں آپ سے اسلام پربیعت کرتا ہوں، تو آپ نے مجھ سے مسلمان رہنے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے کی شرط پربیعت لی، پس میں نے اسی پر آپ سے بیعت کی، قسم ہے اس مسجد کے پروردگار کی، بے شک میں تم لوگوں کا خیر خواہ ہوں اس کے بعد انہوں نے استغفار کیا اور (منبر سے) اتر آئے۔
صحیح بخاری:جلد اول:کتاب : ایمان کا بیان
اس حدیث سے ثابت ہو کہ اسلام کی بیعت بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیا کرتے تھے اور ساتھ ہر مسلم کی خیر خواہی چاہنے کی بھی، اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف باتوں پر بھی بیعت لی تھی مثلا شرک نہ کرنے،زنا نہ کرنے، چوری نہ کرنے، کسی پر بہتان نہ باندھنے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی نہ کرنے، جہاد سے نہ باگنے وغیرہ پر بھی بیعت لی گئی ہے دوسری سب بیعتیں اسلام کی بیعت کے بعدلی جاتی تھیں۔
حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ حرہ کے وقت جو یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں ہوا عبد اللہ بن مطیع کے پاس آئے تو ابن مطیع نے کہا ابوعبدالرحمن کے لئے غالیچہ بچھاؤ تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کو ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اسکی گردن میں بیعت کا قلادہ نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
اب بات آتی ہے کہ نبی علیہ السلام کے بعد بیعت کس کی کرنے کا حکم ہے کہ جس کو نہ کرنے سے مسلمان کی موت جاہلیت کی موت بن جاتی ہے، اور ہاں یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ جاہلیت کی موت کو کفر کی موت قرار دیتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے اس بیعت کے معاملے میں جتنی بھی احادیث ملتی ہیں سبھی میں جاہلیت کی موت ہی کہا گیا ہے نہ کہ کفر کی موت، اگر یہ کفر کی موت مراد لی جائے تو اس وقت کوئی بھی مسلمان نہیں رہے گا:::کیونکہ اس وقت خلیفہ کا وجود بظاہر کہیں نظر نہیں آ رہا کہ جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے::: بلکہ اس بات کو اتنا ہی لینا ہے جتنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سے تجاوز کرنا بھی جاہلیت ہے تو کیا اس کو کوئی کفر کہے گا؟؟؟ اس حدیث میں جو فرمایا گیا ہے کہ جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکالا، کا مطلب ہے کہ جس نے خلیفہ کی بیعت کو توڑا قیامت کے دن اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی عذاب سے بچنے کے لیے،
اصل میں معاملہ ہمیشہ تبھی خراب ہوتا ہے جب انسان اپنی ناقص عقل کو یا کسی اور کے فہم اور سوچ کو دین کے یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مقابلے پر استعمال کرتا ہے، اگر ہم بات کو اتنا ہی لیں جتنا کہ ہم کو بتائی گئی ہے تو ممکن نہیں کہ کوئی مسئلہ بنے۔
آگے چلتے ہیں۔۔۔۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوسرا خطبہ سنا جب کہ وہ منبر پر بیٹھے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا دوسرا دن تھا، انہوں نے خطبہ پڑھا اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ خاموش بیٹھے ہوئے تھے، کچھ نہیں بول رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ رہیں گے، یہاں تک کہ ہمارے بعد انتقال فرمائیں گے، پھر اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتقال فرما گئے تو اللہ نے تمہارے سامنے نور پیدا کر دیا ہے کہ جس کے ذریعے تم ہدایت پاتے ہو، جس سے اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کی بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو غار میں دوسرے ساتھی تھے مسلمانوں میں سے تمہارے امور کے مالک ہونے کے زیادہ مستحق ہیں، اس لئے اٹھو اور ان کی بیعت کرو، ان میں سے ایک جماعت اس سے پہلے سقیفہ بنی ساعدہ ہی میں بیعت کر چکی تھی، اور عام بیعت منبر پر ہوئی، زہری نے حضرت انس بن مالک، کا قول نقل کیا ہے، کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس دن سنا کہ حضرت ابوبکر سے کہتے ہوئے کہ منبر پر چڑھیے اور برابر کہتے رہے، یہاں تک کہ وہ منبر پر چڑھے اور لوگوں نے عام بیعت کی۔
صحیح بخاری:جلد سوم: کتاب: احکام کے بیان
عبد اللہ بن محمد بن اسماء، جویریہ، مالک، زہری، حمید بن عبدالرحمن، مسور بن مخرمہ سے روایت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا) میں اللہ اور اس کے رسول علیہ السلام اور آپ دونوں خلیفہ کی سنت پر آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بیعت کی اور تمام لوگوں نے مہاجرین و انصار، سرداران لشکر اور مسلمانوں نے بیعت کی۔
صحیح بخاری:جلد سوم: کتاب: احکام کے بیان
ان واقعات سے ثابت ہو رہا ہے کہ نبی علیہ السلام کے بعد بیعت خلیفہ کا حق ہے نہ کہ کسی اور کا اور اس پر بےشمار احادیث مبارکہ موجود ہیں کہ بیعت خلیفہ، امام، امیرالمومنین کے ہاتھ پر ہوتی ہے اس کی دلیل میں اور حدیث دیتا ہوں۔ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ کَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَائُ کُلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَکُونُ خُلَفَائُ تَکْثُرُ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
حضرت ابوحازم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا تو میں نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو اس کا خلیفہ ونائب نبی ہوتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے صحابہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وفاداری کرو پہلی بیعت ( کے حامل) کے ساتھ اور پھر پہلی بیعت کے ساتھ، اور احکام کا حق انکو ادا کرو بے شک اللہ ان سے انکی رعایا کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
یعنی کہ بنی اسرائیل میں ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرا نبی ہی آتا تھا جو ان کی سیاست و امارت کرتا تھا، ہمارے نبی علیہ السلام کے بعد کیونکہ کوئی نبی نہیں آنا تھا اس لیے فرمایا کہ میرے بعد خلفاء ہوں گے:::یہ بھی ممکن ہے اس سے مراد ایک کے بعد ایک خلیفہ مراد ہو::: تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ ایک وقت میں اگر زیادہ خلفاء ہوں تو پھر کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ:::فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ::: تم وفاداری کرو پہلی بیعت ( کے حامل) کے ساتھ اور پھر پہلی بیعت کے ساتھ، یعنی کہ اگر ایسا ہو تو جس کے ہاتھ پر پہلے بیعت ہوئی ہوگی اس خلیفہ کی اطاعت کی جائے گی اس سے یہ چیز بھی ملتی ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک وقت میں دنیا میں دو، تین یاچار خلیفہ اس وجہ سے ہوں کہ ایک دوسرے کے علم میں نہ ہو کہ کوئی اور بھی خلیفہ ہے تو پھر کسی طرح ان کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے پھر دونوں یہ بات دیکھیں گے کہ پہلے کس کے ہاتھ پر بیعت ہوئی ہے تو جو پہلا خلیفہ ہو گا اس کی خلافت قائم رہے گی دوسری کی ختم ہوجائے گی اور دوسرا خلیفہ خود اور اپنے مامورین کے ساتھ پہلی بیعت کے حامل خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرئے گا کیونکہ اب شرعی خلیفہ پہلا ہے نہ کہ بعد والا یہی طریقہ آخر کار تمام خلفاء اور مسلمانوں کو مجتمع کردے گا ایک امام کے ہاتھ پر، ان شاءاللہ
اسلام میں ایک وقت میں صرف ایک خلیفہ ، امام ، امیرالمومنین ہوتا ہے اگر کوئی دوسرا پہلے کے ہوتے بیعت لے تو اس کو قتل کرنے کا حکم نبی علیہ السلام نے دیا ہے، اسلام امت میں وحدت و اتحاد کا داعی ہے نہ کہ افتراق و انتشار کا، اسی لیے آپ علیہ السلام نے اتنا سخت حکم فرمایا ہے کہ دوسرے کو قتل کردیا جائے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےارشاد ات مبارکہ ہیں کہ
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو خلفاء کی بیعت کی جائے تو ان دونوں میں سے دوسرے کو قتل کردو۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
اس سے مراد یہ ہے کہ جس کسی نے پہلے خلیفہ کے ہوتے دوسری بیعت لی ہے اور اس کو علم ہو کہ پہلے ایک خلیفہ موجود ہے تو اس کو قتل کیا جائے گا کیونکہ اس نے امت میں تفرق پیدا کرنا چاہا ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا تو عبد اللہ نے کہا ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ رکے ہم میں سے بعض نے اپنا خیمہ لگانا شروع کردیا اور بعض تیراندازی کرنے لگے اور بعض وہ تھے جو جانوروں میں ٹھہرے رہے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز دی الصلوة جامعة یعنی نماز کا وقت ہوگیا ہے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف راہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو اور بے شک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں متبلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ میری ہلاکت ہے پھر وہ ختم ہو جائے گا اور دوسرا ظاہر ہوگا تو مومن کہے گا یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوگا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کے دیئے جانے کو اپنے لئے پسند کرے اور جس نے خلیفہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے:::یعنی وہ بھی بیعت لینا شروع کر دے::: تو دوسرے کی گردن مار دو راوی کہتا ہے پھر میں عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے قریب ہوگیا اور ان سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو عبد اللہ نے اپنے کانوں اور دل کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا میرے کانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا۔۔۔۔۔۔۔الخ
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان

حضرت عرفجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تم اپنے معاملات میں کسی ایک آدمی پر متفق ہو پھر تمہارے پاس کوئی آدمی آئے اور تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمہاری جماعت میں تفریق ڈالنا چاہے تو اسے قتل کر دو۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان

حضرت عرفجہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب میری امت میں فساد ہوگا، فساد ہوگا، پس جو شخص مسلمانوں کے متفق مجمع میں پھوٹ ڈالنے کا ارادہ کرے تو اسے تلوار سے مار ڈالو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:

احمد بن یحیی صوفی، ابونعیم، یزید بن مردانبة، زیاد بن علاقة، عرفجة بن شریح الاشجعی سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے بعد نئی نئی باتیں ہوں گی (یا فتنہ فساد کا زمانہ آئے گا) تو تم لوگ جس کو دیکھو کہ اس نے جماعت کو چھوڑ دیا یعنی مسلمانوں کے گروہ سے وہ شخص علیحدہ ہوگیا اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں پھوٹ ڈالی اور تفرقہ پیدا کیا تو جو شخص ہو تو تم اس کو قتل کر ڈالو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے (یعنی جو جماعت اتفاق و اتحاد پر قائم ہے تو وہ اللہ کی حفاظت میں ہے) اور شیطان اس کے ساتھ ہے جو کہ جماعت سے علیحدہ ہو وہ اس کو لات مار کر ہنکاتا ہے۔
سنن نسائی:جلد سوم:
ان ارشادات سے واضح ہوا کہ دوسری بیعت لینے والا واجب القتل ہے، تو آجکل جو کچھ ہورہا ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے کہ ایک ہی علاقے، شہر،قصبہ، گاوں میں کئی کئی لوگ بیعت لے رہے ہیں، جبکہ اسلام میں پوری دنیا میں ایک وقت میں صرف ایک امام خلیفہ ہوتا ہےکہ جس کے ہاتھ پر سب مسلم بیعت کرتے ہیں ، اور جو آجکل ہو رہا ہےآخر کس دلیل سے یہ کام دین بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس نے بیعت نہ کی اس کا جنازہ بھی جائز نہیں ہے، مجھے آج تک اس کی دلیل نہیں مل سکی جب کہ میں نے کئی علماء جو کہ اس کے قائل ہیں سے اس کی دلیل مانگی ہے مگر کوئی بھی صحیح سند سے اس مروجہ پیری مریدی کا ثبوت قرآن و صحیح حدیث سے نہیں دے سکا۔ اگر آپ میں سے کسی بھائی یا بہن کے پاس اس مروجہ پیری مریدی کی دلیل ہو تو مجھے ضرور دیں۔ جزاک اللہ
میں اس پیری مریدی کے سسٹم کو اس نظر سے بھی دیکھتا ہوں کہ کہیں یہ اس لیے تو نہیں چلایا گیا کہ لوگ خلافت کے نظام کو ہی بھول جائیں جو کہ اسلام کی روح و جان ہے اور وہ بس اس گورکھ دندھے کو ہی خلافت کا نظام سمجھنےلگیں، اسی لیے ان لوگوں نے پیری مریدی کے سسٹم میں خلیفہ کا نام استعمال کیا ہے کہ جی یہ فلاں سنسلہ کے خلیفہ ہیں اور یہ فلاں سنسلہ کے خلیفہ ہیں، یہی بات اس کی دلیل بنتی ہے کہ لوگوں کو بیوقوف بنایا جائے کہ دیکھو جی احادیث میں بھی یہی ہے کہ خلیفہ کی بیعت کی جائے تو ہمارا یہ خلیفہ ہے۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں یہ سب باتیں اپنے منہ کی کررہا ہوں نہیں بلکہ میں اس سارے سسٹم کا حصہ رہا ہوں۔
میں اس سارے سسٹم سے کیسے نکلا یہ لمبی کہانی ہے۔

کسی خلیفہ کی بیعت توڑنا کبیرا گناہوں میں سے ہے کہ جس کو جاہلیت بھی کہا گیاہے تو اس کا مطلب کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ خلیفہ اسلام میں کوئی ایسی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی ہر بات کو قبول کرنا فرض ہے اگر نہ مانی تو گناہ ملے گا تو اس بات کی وضاحت کے لیے نبی علیہ السلام کے فرمان پیش کرتا ہوں جس سے اس مسئلے کی وضاحت بھی ہوجائے گی ان شاءاللہ

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو امیر مقرر کیا اس نے آگ سلگائی اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس میں داخل ہو جاؤ، چناچہ کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونا چاہا، اور بعض نے کہا ہم تو آگ سے بچنے کے لئے اسلام لائے ہیں لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حال بیان کیا تو جن لوگوں نے اس آگ میں داخل ہونا چاہا تھا ان سے آپ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس میں رہتے اور لوگوں سے فرمایا کہ گناہ میں اطاعت نہ کرو، اطاعت صرف نیکی میں ہے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:باب:امام کا حکم سننے اور اطاعت کرنے کا بیان جب تک کہ گناہ کا کام نہ ہو

اسماعیل، ابن وہب، عمرو، بکیر، بسر بن سعید، جنادہ بن ابی امیہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم لوگ عبادہ بن صامت کے پاس گئے وہ بیمار تھے، ہم لوگوں نے کہا اے اللہ کے بندے آپ اصلاح کردیں آپ کوئی حدیث بیان کریں جو آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہو تاکہ اللہ آپ کو اس کا نفع پہنچائے، انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم لوگوں کو بلایا اور ہم نے آپ کی بیعت کی آپ نے جن باتوں کی ہم سے بیعت لی وہ یہ تھیں، کہ ہم بیعت کرتے ہیں اس بات پر ہم اپنی خوشی اور اپنے غم میں اور تنگدستی اور خوشحالی، اور اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی صورت میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور خلیفہ سے نزاع نہیں کریں گے لیکن اعلانیہ کفر پر، جس پر اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔
صحیح بخاری:جلد سوم: کتاب: احکام کے بیان

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ رُزَيْقِ بْنِ حَيَّانَ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خِيَارُ أَئِمَّتِکُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَکُمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْکُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَشِرَارُ أَئِمَّتِکُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَکُمْ وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَکُمْ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ فَقَالَ لَا مَا أَقَامُوا فِيکُمْ الصَّلَاةَ وَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْ وُلَاتِکُمْ شَيْئًا تَکْرَهُونَهُ فَاکْرَهُوا عَمَلَهُ وَلَا تَنْزِعُوا يَدًا مِنْ طَاعَةٍ
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے اماموں میں سے بہتر وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور تم ان کے لئے دعاۓ مغفرت کرتے ہو اور تمہارے خلیفہ میں سے برے خلیفہ وہ ہیں جن سے تم دشمنی رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہوں اور تم انہیں لعنت کرو اور وہ تمہیں لعنت کریں عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول کیا ہم انہیں تلوار کے ساتھ قتل نہ کردیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں اور جب تک اپنے حاکموں میں کوئی ایسی چیز دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو اس کے اس عمل کو ناپسند کرو اور اطاعت وفرمانبرداری سے ہاتھ مت کھینچو۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب : اچھے اور برے حاکموں کے بیان میں
ان ارشادات سے واضح ہوا کہ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے یعنی جو کام قرآن و صحیح حدیث سے ثابت ہو اس کو کرنا لازمی ہے اور ایسے کام کا حکم کہ جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو اس کو نہ سننا ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرنا ہے یعنی کہ خلیفہ کی اطاعت قرآن و حدیث کے ساتھ مشروط ہے۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ اگر امام خلیفہ عام مسلمانوں میں نماز قائم کرنا چھوڑ دے اور یا اس سے کوئی کفر بواح:::واضح کفر:::سرزد ہوجائے اور وہ توبہ نہ کرئے اور نہ ہی خلافت کو چھوڑئے تو اس کے خلاف بغاوت کرنا بھی جائز ہے بلکہ بغاوت کرنا فرض بن جاتا ہے۔
ان سب احادیث کو سامنے رکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیعت خلیفہ، امام،امیر المومنین کا حق ہے یہ حق کسی اور کے پاس ہے نہ ہی کسی اور کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ حق خلیفہ نے خود اپنے لیے مخصوص نہیں کیا بلکہ یہ نبی علیہ السلام کا حکم ہے کہ خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے اور یہ بھی حکم دے دیا گیا کہ اگر ایک خلیفہ کے ہوتے کوئی اور اُٹھے اور بیعت لے تو اس کو قتل کیا جائے تاکہ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور یہ آپس میں متحد رہیں قرآن میں بھی اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ اجتماعیت کو قائم کیا جائے اور تفرق سے بچا جائے بعض جگہ تفرق کو مشرکین کا فعل کہا گیا اور اس سے مسلمانوں کو ڈرایا گیا کہ مشرکین کی طرح متفرق نہ ہوجانا، ان سب احکامات کے ہوتے ہوئےپھر کس دلیل و نص کے ساتھ ایسا سسٹم ایجاد کیا گیا ہے کہ جس کی وجہ سے امت میں ہزاروں خلفاء بنا لیے گئے ہیں اور جو دین ہم کو ہر جگہ اتحاد کا درس دیتا ہے وہی دین ہم کو انتشار کا درس کس طرح دے سکتا ہے؟؟؟اور اس سے تو بیعت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے،بیعت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ امت کو ایک امام و خلیفہ دیا جائے جو لوگوں کی سیاست و امارت کرئےاور جس کے ذریعہ کفار سے جہاد کیا جائے اور جس امام کو امت کا سر:::ہیڈ:::قرار دیا گیا ہے اور ایک حدیث میں پوری امت کو ایک جسم کے مانند کہا گیا ہے کہ جس کا سر خلیفہ کو قرار دیا گیا ہے جو کے جسم کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے کہ جس کے بنا جسم زندہ نہیں رہ سکتا کہ جس نے پورے جسم کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے، اگر سر کو جسم سے جُدا کردیا جائے تو جسم کی موت واقع ہوجاتی ہے تو میرے بھائیو اور بہنو افسوس صد افسوس کہ ہم اس سر کے بغیر ہیں اسی لیے تو امت انتشار کا شکار ہے کہ اُمت کے پورے جسم کو مختلف بیماروں نے قابو کیا ہوا ہے،جسم کو فالج اور لقوا ہو چکا ہے، ہاتھ کہیں پڑا ہے تو پاوں کہیں، بازو کہیں پڑا ہے تو ٹانگ کہیں، الغرض پورا جسم اپنے آخری انجام کو پہنچ چکا ہے، اس کو سنبھالنے والا :::سر::: ہی نہیں ہے کہ اس جسم کا علاج کروا سکے اس کو پڑی ہوئی بیماریوں کا مناسب بندوبست کر سکے، آج امتِ محمدیہ کا یہ حشر اس لیے ہوا ہے کہ ان کے جسم کا سر یہود و نصاری نے پہلی جنگ عظیم میں اتار دیا تھا، اور پھر ان ظالموں نے اس امت کے اپنی مرضی کے مطابق ٹکرے کیے اور آج تک وہ اس کو مزید ٹکروں میں تقسیم کرتے جا رہے ہیں کہ پہلے تو امت میں صرف دین کی بنیاد پر فرقے بنائے گے اور جب خلافت کو ختم کردیا گیا تو پھر امت کو علاقوں،وطنوں، قوموں،برادریوں،زبان و رنگ و نسل میں بھی تقسیم کر دیا گیا ہے جو کہ امت میں مزید انتشار کا سبب بن گیا ہے، اور افسوس ایک ہم ہیں کہ پھر بھی ہمیں ہوش نہیں آرہا کہ ہم لوگوں کی جہالتوں کو سمجھیں اور حق :::قرآن و حدیث::: کو اپنا کر اپنا امام و خلیفہ قائم کریں کہ جس کی قیادت میں امت کو متحد کرنے کی کوشش کریں۔لوگوں کو سمجھائیں کہ اسلام میں ہم سب ہررنگ و نسل کے آپس میں بھائی بھائی ہیں وطن پرستی تو اسلام میں ہے ہی نہیں ہے کہ ساری زمین مسلمانوں کا وطن ہے رہ گئی قوم اور برادری تو یہ اللہ نے پہچان کے لیے بنائیں ہیں نہ کہ فخر و غرور کے لیے اور نہ ہی فرقہ بندی کے لیے۔
بات کہاں سے چلی اور کہاں نکل گئی معذرت، تو بھائیو بیعت اصل میں صرف خلیفہ کی ہے نہ کہ کسی پیر صاحب کی اور دوسرا اس کا مقصد مسلمانوں میں اتحاد قائم کرنا ہے جیسا کہ اوپر ثابت ہوچکا ہے تو اب اس بیعت کی بیس پر ہی اگر امت کو متفرق کیا جارہا ہے تو یہ اسلام کسی قیمت نہیں ہو سکتااس لیے بھائیو اصل دین:::قرآن و صحیح حدیث::: کی طرف قدم بڑھاہیں کہ جو ہمارے درمیان واحد متحد ہونے کا ذریعہ ہے ان دو چیزوں کے علاوہ امت کسی بھی تیسری چیز پر قیامت تک متحد نہیں ہوسکتی۔
اب میں نیچے کچھ احادیث پیش کر رہا ہوں ان احادیث پر سب غور و فکر کریں، جزاکم اللہ خیرا

یحیی ولید ابن جابر بسر ابوادریس سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ ایک روز میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے؟ فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہو گی؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کر کے اور لوگوں کو میری راہ کے خلاف راہ بتائیں گے تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ہیں۔ عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہو گی؟ فرمایا ہاں! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کو دوزخ میں دھکیل دیں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔ میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا مسلمانوں کی جماعت:::خلافت:::کو لازم پکڑو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کی اطاعت کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو۔ (تو کیا کروں) فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جا اگرچہ تجھے کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آ جائے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب:اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر وبھلائی کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں برائی کے بارے میں اس خوف کی وجہ سے کہ وہ مجھے پہنچ جائے سوال کرتا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم جاہلیت اور شر میں تھے اللہ ہمارے پاس یہ بھلائی لائے تو کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی شر ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے عرض کیا کیا اس برائی کے بعد کوئی بھلائی بھی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اور اس خیر میں کچھ کدورت ہوگی میں نے عرض کیا کیسی کدورت ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری سنت کے علاوہ کو سنت سمجھیں گے اور میری ہدایت کے علاوہ کو ہدایت جان لیں گے تو ان کو پہچان لے گا اور نفرت کرے گا میں نے عرض کیا کیا اس خیر کے بعد کوئی برائی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر جہنم کی طرف بلایا جائے گا جس نے ان کی دعوت کو قبول کرلیا وہ اسے جہنم میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ان کی صفت بیان فرما دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گےمیں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر یہ مجھے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کی جماعت :::خلافت:::کو اور ان کے امام:::خلیفہ:::کو لازم کرلینا میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام، آپ نے فرمایا پھر ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جانا اگرچہ تجھے موت کے آنے تک درخت کی جڑوں کو کاٹنا پڑے تو اسی حالت میں موت کے سپرد ہو جائے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:کتاب :امارت اورخلافت کا بیان :باب: فتنوں کے ظہور کے وقت جماعت کے ساتھ رہنے کے حکم اور کفر کی طرف بلانے سے روکنے کے بیان میں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو:::خلیفہ:::کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت :::خلافت:::سے علیحدہ ہوگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کی کسی عصبیت:::تعصب:::کی بناء پر غصہ کرتے ہوئے عصبیت کی طرف بلایا یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل کردیا گیا تو وہ جاہلیت کے طور پر قتل کیا گیا اور جس نے میری امت پر خروج کیا کہ اس کے نیک وبد سب کو قتل کیا کسی مومن کا لحاظ کیا اور نہ کسی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تو وہ میرے دین پر نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
یہ ایک مثال کے طور پر احایث پیش کی ہیں اس طرح کی اور بھی احادیث موجود ہیں کہ جن کو ہم جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے یا ہمیں ان کی واقعی ہی سمجھ نہیں آتی یا ان احادیث کو ہم اہمیت نہیں دیتے کچھ تو وجہ ہے جو ہم ان کو اگنور کرتے ہیں حالانکہ کہ ان احادیث میں اصل مسئلے:::امت کا آپس میں انتشار و افتراق::: کا حل موجود ہے بس تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔

0 تبصرہ جات:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔