Thursday, January 6, 2011

ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

0 تبصرہ جات


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نے یہ سب کائناتیں صرف چھ۶ دن میں بنائیں اور اس عظیم ذات کو زرہ سی بھی تھکن نہ ہوئی،تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں،
اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔
نبی اکرم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے بلا شبہ ہزاروں پہلو ہیں اور بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے اعتبار سے ہر پہلو دوسرے پر سبقت لے جانے والا ہے۔
نبوت سے پہلے بھی آپ ؑ یقینا لوگوں کے لیے سرتا سر رحمت تھے مکہ میں صادق اور امین کے لقب سے مشہور ہونا اس بات کی دلیل ہے۔پہلی وحی کے بعد جب رسول اکرم ﷺ خوف کی حالت میں گھر تشریف لائے تو اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا اللہ آپ ﷺ کو ہر گزضائع نہیں کرےگا آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں،مصیبت زدہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں،بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں،مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق والوں کو حق دلاتے ہیں۔
اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہ گواہی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ نبوت سے پہلے بھی آپ ﷺ لوگوں کے لیے سرتا سر رحمت تھے۔
منصبِ رسالت پر فائز ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے اپنی اُمت تک دین پہنچانے کے لیے جس صبر و تحمل، عفو و درگزر اور شفقت و رحمت کا طرز عمل اختیار فرمایا وہ آپﷺ کی سیرت طیبہ کا ایک ایسا عظیم الشان پہلوہے جس کی رفعتوں اور بلندیوں کا ادراک کرنا کسی انسان کی بس کی بات نہیں ہے۔
غور فرمایئے کہ چالیس سال کے بعد اللہ نے آپﷺ کو منصبِ نبوت سے سرفراز فرمایا،عمر کا یہ وہ حصہ ہوتا ہے جس میں ہر انسان اپنی عزت اور احترام کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے
چالیس سال تک صادق اور امین کہلانے کے بعد جب آپ ﷺ کو لوگ جھوٹا،مجنوں،شاعر،کاہن،اور جادوگر کہتے ہوں گے تو آپ ﷺ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آپﷺان گالیوں اور طعنوں کے جواب میں کبھی بھی ایک غلط لفظ تک زبان سے نہیں نکالا۔
تین سال تک خفیہ دعوت کے بعد آپﷺ نے علانیہ دعوت کا علان فرمایا تو رسول اکرمﷺنے تمام قبائل کو جمع فرما کر توحید کی دعوت پیش کی، آپﷺ کے چچا ابولہب نے آپﷺ کی سخت توہین کی اور یہ کہہ کر ڈانٹ دیا تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا تو نے ہم کو اس لیے جمع کیا ہے‘‘‘آپ ﷺ نے چچا کے اس ہتک آمیز رویہ پر مکمل خاموشی اختیار فرمائی لیکن قرآن میں اللہ نے اس کا جواب دیا’’’ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ Ǻ۝ۭابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا ‘‘‘ کہہ کر دے دیا۔
امیہ بن خلف آپﷺ کو دیکھتے ہی گالیاں بکنا شروع کر دیتا تھا اور لعن طعن کرتا تھا لیکن آپﷺ نے اس کے جوب میں ہمیشہ خاموشی اختیار کی حتیٰ کہ اللہ نے قرآن مجید میں اس کا جواب دیا’’’وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ Ǻ۝ۙ بڑی خرابی (اور تباہی) ہے ہر ایسے شخص کے لیے جو خوگر (و عادی) ہو منہ در منہ طعن (و تشنیع) کا اور پیٹھ پیچھے عیب لگانے کا۔
جب رسول اکرم ﷺ کے صاحبزادے عبداللہ فوت ہوئے تو ابولہب،عاص بن وائل،ابوجاہل وغیرہ نے آپﷺ کو ـ’’’جڑ کٹا‘‘‘ہونے کا طعنہ دیا لیکن آپ ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اللہ نے قرآن میں اس کا جواب یوں دیا،’’’اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ Ǽ۝ یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے ۔
مکی زندگی کے ۱۳ سال اسی طرح کی مشکلات میں گزرے ہر کوئی اہلِ اسلام کو پریشان کرنے کا طریقہ سوچتا رہتا کوئی موقعہ ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے تھے مکی زندگی میں اور بھی بہت سی مشکلات کا سامنا تھا مگر یہاں صرف وہ واقعات پیش کرنے ہیں جس میں نبی علیہ السلام کی ناموس کو نشانہ بنایا گیا۔
تاریخ کے صفحات میں جہاں کفار کے گھناونے جرائم اور ظلم و ستم کی داستانیں محفوظ ہیں وہاں یہ خیرت انگیز حقیقت بھی محفوظ ہے کہ آپﷺ نے ان مظالم سے تنگ آ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کتنی دفعہ فرمایااور کن الفاظ میں فرمایا؟ تیرا ۱۳ سالہ طویل مکی زندگی میں صرف تین یا چار مواقع ایسے ملتے ہیں جب رسول اکرمﷺ نے کفار کےظلم و جور سے تنگ آ کر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ناراضی کا اظہار بھی آپﷺ کے کریمانہ اور شریفانہ اخلاق کا اعلیٰ ترین مظہر ہے۔
پہلا واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے ہمسائے میں ابولہب،عقبہ بن ابی معیط وغیرہ رہتے تھے جو شب و روز آپﷺ کے گھر غلاظت اور گندگی پھینک کر آپ ﷺ کو اذیت پہنچاتے تھے جب آپﷺ زیادہ پریشان ہوتے تو دیوار پر چڑھ کر یا دروازے پر کھڑے ہو کر بس اتنا فرماتے’’’’’اے بنو عبدمناف یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟‘‘‘‘‘
یہ تھا آپﷺ کا ردِعمل اس تکلیف اور اذیت ناک بدتمیزی پر۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ مسجد حرام میں آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے، ائمہ کفر نے مشورہ کر کے سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی آپﷺ کی کمر پر رکھ دی اور خود کھڑے ہو کر قہقہے لگانے لگے حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع ملی اور انہوں نے آکر اوجھڑی ہٹائی اس وقت آپ ﷺ نے تین بار فرمایا ’’اللھم علیک بقریش‘‘ یعنی ’’’یا اللہ تو قریش سے نپٹ لے‘‘‘ مشرکینِ مکہ کے ظالمانہ اور استہزایہ کرتوتوں پر یہ آپﷺ کا دوسرا ردِعمل تھا۔
تیسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک بار دورانِ طواف مشرکین نے آپﷺ کو لعن طعن کی اور ڈانٹا تو آپﷺ نے یہ جواب دیا’’’’’میں تمہارے پاس ذبح کا حکم لے کر آیا ہوں‘‘‘‘اس پر سارے مشرکین ساکت ہو کر رہ گئے۔
مصائب و مشکلات سے پُر آپ ﷺ کی تیرہ سالہ طویل مکی زندگی میں آپﷺکی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ ہیں سخت سے سخت الفاظ جو ہمیں تاریخ سے ملتے ہیں جس میں کسی کو گالی دی نہ لعن طعن کیا،کسی سے بدتمیزی کی نہ کسی کا مذاق اڑایا،کسی سے لڑائی جھگڑا مول لیا نہ کسی سے بحث کی، بلکہ انتہائی شائستہ اور مہذب الفاظ میں معاملہ اللہ کے سپرد کیا۔


جمہوریت دین ابلیس

1 تبصرہ جات
اللہ کے ساتھ شرک کامظہر نظام ِجمہوریت
نظام ِ جمہوریت اللہ کے ساتھ شرک کا واضح مظہر ہے اور اس کے درج ذیل دلائل وشواہد ہیں۔
۱۔ جمہوریت
غیراللہ کا’’ بلادلیل ِشرعی ‘‘نظام ہونے کی بناپرنظام ِ شرک ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے کہ!
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 21؀
کیا انہوں نے اپنے لیے (اللہ کے) کچھ ایسے شریکِ مقرر کر لیے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت کا ایسا کچھ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟ اگر فیصلے کی بات طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
۴۲: ا لشوریٰ۔آیت نمبر ۲
آیت ِبالاسے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین(اصول ،قانون و نظامِ زندگی؍کتاب وسنت) کی بجائے غیراللہ کاایسااصول قانون ونظامِ زندگی اختیار کرناکہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے دین سے دلیل نہ ملتی ہو اس غیراللہ کو اللہ کا شریک بنانا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ نظام ِجمہوریت غیراللہ؍کفار کا وضع کردہ نظامِ سیاست ہے کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے دین سے دلیل نہیں ملتی ہے۔
۲۔ جمہوریت
کو اللہ کے دیئے نظامِ سیاست ’’خلافت‘‘ کی
کتاب وسنت میں موجودگی کے باوجود اختیارکرناجہالت ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُج وَھُوَفِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴿﴾
جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ ( آلِ عمران۔آیت نمبر ۸۵ .3)
آیت اس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ’’ اسلام کے دیئے ہوئے قانون ونظام کے سوا کوئی اور قانون ونظام اختیار کرنا‘‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں قطعی قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ’’اسلام‘‘ایک مکمل نظام ِ حیات ہے جس میں اخلاقیات ،روحانیت ،معاشرت ، معیشت اور سیاست سمیت زندگی کے ہر معاملے کے حوالے سے قانون و نظام ملتا ہے ۔ اسلام میں اللہ نے اہل ِ ایمان کو ایک مکمل نظام ِ سیاست ’’ خلافت ‘‘ دیا ہے ۔ اللہ کے دیئے ہوئے نظام ِ سیاست’’ خلافت‘‘ کی کتاب وسنت میں موجودگی کے باوجودطاغوتوں کا وضع کردہ نظامِ سیاست ’’جمہوریت ‘‘ اختیار کرنا جہاں اللہ تعالیٰ کے ہاں قطعی قابل ِ قبول بھی نہیں ہے وہیں اللہ کے دیئے ہوئے نظام ِ سیاست کی کتاب وسنت میں موجودگی کے باوجودطاغوتوں کا وضع کردہ نظامِ سیاست اختیار کرنا واضح طور پرشرک بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآءَ ھُمْ مِّنْمبَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ لا اِنَّک اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْن ﴿﴾
اور اگر تم نے اس ’’علم ‘‘(کتاب وسنت )کے بعد ، جو تمہارے پاس آ چکا ہے ، ان کی اھواء کی پیروی کی تو یقینا تمہارا شمار ظالموں ( مشرکوں)میں ہو گا۔
۲: البقرہ۔آیت نمبر ۱۴۵
نظام ِجمہوریت اپنے وضع کرنے والوں (امریکہ، برطانیہ ، فرانس وغیرہ)کے لیے مقدس دین کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے اس دین کی ترویج و اشاعت میں و ہ صبح وشام لگے رہتے ہیں اور صرف اس سے راضی ہوتے ہیں جو ان کے اس دین کو اپنا لیتا ہے۔ پاکستان میں بحالی وترقی ِ جمہوریت کے لیے پاکستان کے عوام سے بھی بڑھ کر امریکہ، برطانیہ وغیرہ کا بے چین رہنااس کا زندہ ثبوت ہے اور ان کفار کے آئے روز اخبارات میں یہ بیان پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ہم نظام جمہوریت کو پوری دنیا میں قائم کریں گیں،
اللہ تعالیٰ بھی اہل ِ ایمان سے ارشاد فرماتا ہے کہ
وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ ط قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْھُدٰی ط وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآءَ ھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ لا مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ﴿﴾
یہودی اورنصرانی تم سے ہر گز راضی نہ ہونگے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگر اس ’’علم‘‘(کتاب وسنت) کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے تم نے ان کی اھواء کی اتباع کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہ ہوگا۔
۲: البقرہ۔آیت نمبر ۱۲۰
۳۔ جمہوریت کے بنیادی اُصول ’’شرکیہ ‘‘ہیں
نظام ِجمہوریت کے بنیادی اُصول اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا واضح اظہار ہیں مثلاً:
پہلا اُصول ِ جمہوریت
ملک کے مالک عوام !
آمریت میں ’’فردِواحد ‘‘ملک کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے تو جمہوریت میں’’عوام ‘‘ملک کے مالک قرار دیے جاتے ہیں جب کہ ملک صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ اس نے اس ملکیت میں نہ کسی فرد واحد کو شریک کیا ہے اور نہ عوام کو ،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهُ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا Ą۝
وہی (اللہ ) کہ جس کے لیے ملکیت (بادشاہی) ہے آسمانوں اور زمین کی اس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا نہ ہی ملکیت ِملک میں اس کاکوئی شریک ہے ،جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر تقدیر مقرر کی۔
۲۵: الفر قان۔آیت نمبر۲
اللہ پر ایمان کے بعد فرد یا افراد کو ملک کا مالک قرار دینا ان کو اللہ کا شریک بنانا ہے۔ اس سے مراد یہ نہ لی جائے کہ ایک انسان کو گھر، زمین وغیرہ کا مالک پھر کیوں کہا جاتا ہے تو بھائیوں یہاں بات نظام، قانون کی ہو رہی ہے نہ کے کسی کی جائیداد کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔
دوسرا اُصول ِ جمہوریت
اقتدار کا سرچشمہ عوام
جمہوریت میں اقتدار کا سر چشمہ عوام کو قرار دیا جاتا ہے جب کہ اﷲ تعالیٰ اقتدار کا سر چشمہ اپنی ذات کو قراد دیتا ہے جیساکہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 26؀
کہوکہ اے اللہ! ملک کے ما لِک ! دیتا ہے تُو ملک (حکو مت ) جسے چاہتا ہے اور چھین لیتا ہے جس سے چاہتاہے ۔اور تُو عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تُوذلت دیتا ہے جسے چاہتا ہے،تیرے ہی ہاتھ میں خیر ہے اور تُو ہر چیز پر قادر ہے۔
۳ّ۔آل عمران ۔آیت نمبر۲۶
اللہ پر ایمان کے بعد عوام کو یا کسی اور کواقتدار کا سرچشمہ قرار دینا اﷲ کی صفت میں غیر اﷲکو شریک کرنا ہے ۔
عوام کو اقتدار کا سرچشمہ قرار دینے والوں کے ہاں اس سے مراد اگرصرف عوام کی پسند کا حکمران مقرر کرنا ہے تب بھی یہ اُصول شرک ہے کیونکہ اہل ِایمان کے حکمران کے لئے پسند کا بنیادی اختیاربھی اللہ نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور حکمران کے تقررکے لئے شرائط اللہ نے خودطے کر دی ہیں اور اہل ِایمان کو اپنے معاملات مشورے سے طے کرنے کا بھی حکم دیا ہے یوں اللہ کی مقرر کردہ شرائط کی موجودگی میں تقرر ِحکمران کے لئے اہل ِایمان کا مشورہ شرائط ِخلافت سے مشروط ہوجاتا ہے نہ کہ انہیں اللہ کی شرائط سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنی پسندکا حکمران مقرر کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ اس کی تفصیل آگےجمہوریت اور شورائیت کے زمرے میں آئے گی ان شاءاللہ۔
تیسرا اُصول ِ جمہوریت
حکم، قانون اور فیصلے کا اختیار عوام کی اکثریت کے پاس
اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ
’’حکم ‘‘کا اختیار تو صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔
۱۲: یوسف۔آیت نمبر۴۰
مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ ۡ وَّلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِهٖٓ اَحَدًا 26؀
اُس کے سوا اُن کاکوئی ولی نہیں اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
۱۸: الکہف۔آیت نمبر ۲۶
حکم(حکم ، قانون اور فیصلے )کا اختیار صرف اللہ کے لیے خاص ہے جبکہ آمریت اللہ کی بجائے فردِ واحد کی اھواء سے اخذکردہ حکم ، قانون اور فیصلے کے نفاذ کا نام ہے اور جمہوریت اللہ کی بجائے اکثریت کی اھواء سے اخذ کردہ حکم ،قانون اور فیصلے کے نفاذ کا نام ہے اور یہ چیز ان دونوں نظاموں کے اللہ سے شرک وبغاوت کے علمبردار ہونے کی واضح دلیل ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اھواء فردِ ِواحد کی تمام افراد پر چلتی ہو یا اکثریت کی اقلیت پر یا اقلیت کی اکثریت پر ، کسی نہ کسی تعدا د میں بندوں پر بندوں کی حاکمیت کا ثبوت ہے جب کہ اللہ بندوں کو بندوں کی ہرطرح کی حاکمیت سے آزاد کرتاہے اوراور حاکمِ شرعی کو بھی یہ حکم دیتا ہے کہ
يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ 26؀ۧ
اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس تم حق کے ساتھ لوگوں کے مابین فیصلے کرو اوراھواء کی پیروی مت کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی ،جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا اُن کے لئے شدید عذاب ہے،کہ وہ یومِ حساب کو بھول گئے ہیں۔
۳۸: ص۔آیت نمبر۲۶
جمہوریت میں حکم ، قانون اور فیصلے کا بنیادی اختیارانسانوں کی اکثریت کے پاس ہے جبکہ انسانوں کی اکثریت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴿﴾
مگرانسانوں کی اکثر یت علم نہیں رکھتی۔ ۱۲: یوسف۔آیت نمبر۴۰
وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ
اور حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں سے اکثر ہماری آیات سے غفلت برتتے ہیں۔
( یو نس۔آیت نمبر۹۲)
وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ 49؀
اور حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔
۵: المائد ہ ۔آیت نمبر ۴۹
بَلْ جَاۗءَهُمْ بِالْحَقِّ وَاَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ 70؀وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۭ بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَ 71؀ۭ
بلکہ آیا ہے وہ(رسولﷺ)ان کے پاس حق لے کر اوران کی اکثریت ’’حق‘‘ کو ناپسند کرتی ہے۔اور اگر پیروی کرنے لگے’’ حق‘‘ ان کی خواہشات ِ نفس کی توفساد برپا ہو جائے آسمانوں میں اور زمین میں اور ان میں جو ان کے درمیان ہیں، بلکہ لائے ہیں ہم ان کے پاس انہی کا ذکر اور وہ اپنے ہی ذکر سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
۲۳: المؤمنون۔آیات نمبر ۷۰،۷۱
وَاِنَّ كَثِيْرًا لَّيُضِلُّوْنَ بِاَهْوَاۗىِٕهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِيْنَ ١١٩؁
اور حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگ بغیر علم کے اپنی اھواء کی بنا پر دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ بے شک تیرا رب ان حد سے گذرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
۶: الانعام۔آیت نمبر ۱۱۹
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁
اور اُن میں سے اکثر اللہ پہ ایمان نہیں رکھتے مگر یوں کہ وہ شرک بھی کرتے ہیں۔
(۱۲: یوسف ۔۱۰۶)
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! حقیقت یہ ہے کہ علماء اورپیروں میں سے اکثر ،لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔
۹: التوبہ۔آیت ۳۴
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ ١١٦؁
اگر تم لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلوگے جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض ظن کی پیروی کرتے ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔
۶: الانعام ۔آیت۱۱۶)
حکم ، قانون اورفیصلے کے لئے انسانوں کی اکثریت کی طرف رجوع کرنااور ان کی ا کثریت کے علمِ حقیقی سے جاہل، دین سے بے بہرہ اور فاسق ہونے کی بنا پران کی اکثریت کے فیصلے کو قانون کادرجہ دینا جاہلیت کے فیصلے کو قانون بنانے کے سواء اور کیاہو سکتا ہے، اور حالت یہ ہو تو جو لوگ بھی اس نظام کے تحت سلیکٹ ہوں گے ان کے بارے میں کیا امید کی جاسکتی ہے۝؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ 49؀اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ 50۝ۧ
اور حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔(اگر یہ اللہ کے فیصلے سے منہ موڑتے ہیں ) تو پھر کیا جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے۔
۵: المائد ہ ۔آیات :۴۹،۵۰)
شورائیت کے بہانے جمہوریت !
جمہوریت پسنددینی راہنماکہتے ہیں کہ جمہوریت تو حقیقت میں شورائیت ہے اور شورائیت کا حکم
قرآن میں ملتاہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ
وَ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص
اور ان (اہل ِ ایمان ) کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں۔
۴۲: الشوریٰ ۔آیت :۳۸)
ان دینی راہنماؤں کو پتہ ہونا چاہیے کہ قرآن میں شورائیت کا حکم ملتاہے تو ساتھ اس کا طریقہ بھی ملتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ
وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ ١٥٩؁
اور (اے نبی ﷺ)اِن سے مشورہ لیتے رہو معاملات میں، پھرجب تم پختہ فیصلہ کر لو تو پھر اللہ پر توکل کرو ۔
۳: آلِ عمران آیت: ۱۵۹
آیت سے شورائیت کا طریقہ واضح ہوتا ہے جس کے مطابق اس میں دو فریق ہوتے ہیں : مشورہ دینے والے اور مشورہ لے کر فیصلہ کرنے والا۔ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ فیصلہ کرنے والامشورہ لینے کے باوجوداپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔
نبی ﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا کرتے تھے لیکن فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتے تھے نہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورے کے لازماًپابند ہوتے تھے۔ آپ ﷺ مشورہ لینے کے بعدفیصلہ کرتے ہوئے حا لات کی نزاکت کو بھی دیکھتے تھے اوراللہ کے حکم کو بھی اور اللہ کے حکم کو ہر بات پرمقدم رکھتے تھے، آپﷺ مناسب سمجھتے تو مشورہ قبول بھی فرما لیتے تھے چاہے ایک ہی فردکی طرف سے مشورہ ملتا ، چند کی طرف سے یا اکثریت کی طرف سے اور مشورہ چھوڑنامناسب سمجھتے تو چھوڑ بھی دیتے تھے مثلاً نبی ﷺ نے غروہ ِبدر میں ایک صحابی حباب بن منذررضی اللہ عنہ کے مشورے سے لشکر ِ مجاہدین کے پڑاؤ کی جگہ تبدیلی کی، اُحد میں جب بعض صحابہ نے مدینہ سے باہر نکل کرلڑنے کے حوالے سے شدید خواہش اورجوش وخروش کا مظاہرہ کیا تو آپ نے اپنی رائے کے برعکس باہر نکل کر لڑنے کا فیصلہ کرلیا مگربعد میں صحابہ نے محسوس کیا کہ باہر نکل کر لڑنے کی خواہش کے اظہارکے حوالے سے اُن سے زیادتی ہوئی ہے تو انہوں نے تقریباً متفقہ طور پراس سے دستبرداری کا اظہار کردیا مگراب آپﷺ نے باہر نکل کر لڑنے کا اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا اور فرمایا کہ
کوئی نبی جب اپنا ہتھیار پہن لے تو مناسب نہیں کہ اُسے اتارے تاآنکہ اللہ اس کے درمیان اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ فرما دے ۔ احمد
شورائیت میں فیصلہ کرنے والے کے پاس لوگوں کا مشورہ آتا ہے نہ کہ فیصلہ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشورہ تب تک ہی مشورہ ہے جب تک چھوڑا بھی جا سکتا ہو، جب وہ چھوڑا نہ جاسکتا ہواوراُسے ماننا لازم ہو تو پھر وہ مشورہ نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ ہوتا ہے ۔
جمہوریت میں ’’عوام‘‘ کے ووٹوں کے ذریعے فیصلہ سامنے آتا ہے نہ کہ مشورہ کیونکہ عوام کے ووٹوں کی اکثریت جس بات کے ساتھ ہو اُسے ماننا لازم ہوتاہے، اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ، اسکانفاذ لازم ہوتا، چاہے یہ فیصلہ حالات کی نزاکت کے خلاف ہو ، فطرتِ انسانی کے خلاف ہو یااللہ کے حکم کے خلاف ہو۔ یوں بھی عوام کے ووٹوں کی اکثریت جوبات کہہ رہی ہواُسے ’’عوام کا فیصلہ‘‘ ہی کہا جاتا ہے نہ کہ ’’عوام کامشورہ‘‘۔ جمہوریت میں دو گنواروں کے ووٹ مل کر پروفیسرکے ایک ووٹ پر بھاری ہوتے ہیں، دوچرسیوں؍پوڈریوں کے ووٹ مل کر ڈاکٹر کے ایک ووٹ پر بھاری ہوتے ہیں، الیکشن کمیشن کا کام صرف عوام کے ووٹوں کے ذریعے آنے والے اکثریتی فیصلے (جاہلیت کے فیصلے )کو اقلیتی فیصلے سے الگ کرکے دکھانا ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دینی راہنماء اسلام کے نظام ِ’’شورائیت ‘‘ کے بہانے جمہوریت کو اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ شورائیت اور جمہوریت میں زمین وآسمان کافرق صاف نظر آتا ہے ۔
٭ جمہوریت پسند دینی راہنما جمہوریت اختیار کرنے کے لیے دلیل کے طور پرعثمان رضی اللہ عنہ کے بحیثیت خلیفہ تقرر کا واقعہ پیش کرتے ہیں کہ جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عام لوگوں میں چل پھر کر یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کو بحیثیت خلیفہ پسند کرتے ہیں یا علی رضی اللہ عنہ کو؟ ان راہنماؤں کے بقول اُس وقت بھی آئندہ حکمران کے حوالے سے لوگوں کی اکثریت کی رائے معلوم کی گئی تھی اور جمہوریت بھی آئندہ حکمران کے حوالے سے لوگوں کی اکثریت کی رائے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے اس لیے اسے اختیار کرنے میں کیا حرج ہے۔
اس حوالے سے گذارش ہے کہ بات اگر رائے معلوم کرنے ہی کی ہو تب بھی اسلام میں رائے کی حیثیت واضح ہے، وہ فیصلہ کرنے والے کے لئے ہوتی ہے اور فیصلہ کرنے والے کی طرف سے لوگوں کی رائے اختیار کی بھی جاسکتی ہے اور چھوڑی بھی جاسکتی ہے ، لوگوں کی رائے جب واجب الاطاعت قرارپائے تو وہ رائے نہیں رہتی ’’ حقیقت میں فیصلہ قرار پاتی ہے ‘‘ اگرچہ اسے رائے کانام دیاجاتارہے۔ جمہوریت میں ’’اکثریتی رائے‘‘ کسی فیصلہ کرنے والے کے لئے (فیصلہ کرنے کے لئے) نہیں ہوتی بلکہ الیکشن کمیشن سمیت سب کے لئے واجب الاطاعت ہوتی ہے اس لئے وہ واضح طور پر فیصلہ ہوتی ہے نہ کہ رائے۔
چوتھا اُصول ِ جمہوریت: حکومت کی حرص
جمہوریت کا ایک اور اُصول حکومت کی حرص میں مبتلا ہونا ہے کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت کی چکی چل ہی نہیں سکتی، حکومت کے حریص ایک دوسرے کے مقابل میدان میں اُتریں گے تب ہی لوگ اکثریتی فیصلے سے کسی ایک کو منتخب کریں گے۔ حکومت کی حرص میں مبتلا ہونے والے عام طور پرجذبہ ِ خدمت کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں اس کے برعکس اسلام میں ’’کسی کی طرف سے حکومت مانگنا اور اس کی حرص کرنا حرام ہے اورجس میں یہ چیز موجودہوتویہ حکومت کے لئے اُس کی نا اہلیت قرار پاتی ہے جیسا کہ نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ
ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا اے اللہ کے رسول ﷺہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دئیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔
(مسلم:کتاب الامارۃ۔)
تم لوگوں کو معدن (معدنی کان سے نکلی ہوئی چیز) کی مانند پاؤ گے جو جاہلیت میں اچھا ہوتا ہے وہی اسلام میں بھی اچھا ہوتا ہے جب وہ دین کی سمجھ پیدا کرلے اور تم اس امر(خلافت) کے لیے وہی آدمی زیادہ موزوں پاؤ گے جو اس کو بہت بری چیز خیال کرے تا آنکہ ایسا شخص اس (خلافت)میں مبتلا کردیاجائے۔
مسلم:کتاب فضائل الصحابۃؓ
کلمہ پڑھنے والے کے لئے مانگنے کی بنا پر ملنے والی حکومت دنیا میں بھی اللہ کی مدد سے محروم رہتی ہے اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنتی ہے۔
جیسا کہ نبی ﷺ کے ا رشادات ہیں کہ!
لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ فَاِنَّکَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ مَسْئَلَۃٍ وُّ کِلْتَ اَلِیْھَا وَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْئَلَۃٍ اُعِنْتَ عَلِیْھَا
حکومت مت مانگوکیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پرملی تو تم (بے یارومددگار) اسی کے حوالے کر دیے جاؤ گے اور اگر بغیر مانگے ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائیگی۔
مسلم : کتاب الامارۃ۔عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ
اِنَّکُمْ سَتَحْرِصُوْنَ عَلَی الْاِمَارَۃِ وَسَتَکُوْنَ نِِدَامَۃً یَوْمَ الْقیَامَۃِ فَنِعْمَ الْمُرْضِعَۃُ وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَۃُ
عنقریب تم حکومت کی خواہش کرو گے اور وہ قیامت کے دن باعثِ ندامت ہوگی پس وہ اچھی دودھ پلانے والی ہے اور بری دودھ چھڑانے والی ہے۔
بخاری: کتاب الاحکام۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
طلب کرنے کی بنا پر ملنے والی حکومت کے اللہ کی مدد سے محروم رہنے کے حوالے سے نبی ﷺ کا ارشاد کتنا حقیقت پر مبنی ہے اس کا ثبوت دنیا بھر میں کلمہ پڑھنے والوں کی ہر جمہوری حکومت کی مکمل ناکامی کی صورت میں سب کے سامنے ہے اس سے آخرت کی سزا کے حوالے سے آپ ﷺکے ارشاد کی سچائی کااندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
طلب ِحکومت اگر چہ عام گنا ہ ہے لیکن جب ایسا غیر اللہ کے نظام’’جمہوریت‘‘ کی اتباع میں کیا جاتاہے تو پھر شرک کا عظیم گناہ بن جاتاہے پھر طلبِ حکومت کے گناہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے لوگوں کی نظر میں بڑا ثابت ہونا ضروری ہو جاتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنی پارسائی اور خدمات کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جائے جب کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
فَلَا تُزَکُّوْآ اَنْفُسَکُمْ ط ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی
اپنی پارسائی کے دعوے مت کیا کرو، وہی جانتا ہے کہ متقی کون ہے۔
۵۳: النجم۔آیت :۳۲
پھر پارسائی اور خدمات ،ڈھنڈورے کے ذریعے جب لوگوں کے دکھاوے (ریاکاری) کی بھینٹ چڑھتی ہیں تو دین میں شرک ِ ا صغرقرار پاتی ہیں جیسا کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّ اَخَوِّفُ مَا اَخَافُ عَلَیکُمُ الشِّرْکُ الْا َ صْغَرُ قَالُوْا وَمَاالشِّرْکُ
الْا َ صْغَرُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ الرِّیَآءُ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ لَھُمْ یَوْمَ
الْقیَامَۃِ اِذَا جُزِیَ النَّاسُ بِاَعْمَالِھِمْ اِذْھَبُوْا اِلَی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ
تُرَاءُ وْنَ فِی الدُّنْیَا فَانْظُرُوْا ھَلْ تَجِدُوْنَ عِنْدَھُمْ جَزَاءً
مجھے تمہارے اوپر اصل خوف شرک اصغر کا خوف ہے ، پوچھا کہ اے اللہ کے رسول شرک ِاصغر کیا ہے ؟ فرمایا ’’ریا‘‘ ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دینے لگے گا تو ان(ریا کرنے والوں) سے کہے گا جاؤ اُن کے پاس کہ جن کے لئے تم دنیا میں ریا کیا کرتے تھے اور دیکھو کہ اُن سے تم کوئی جزا پا سکتے ہو؟
احمد: باقی مسندالانصار۔ محمود بن لبیدرضی اللہ عنہ
پانچواں اُصول ِ جمہوریت:پارٹی بازی
طاغوتوں کی یہ پرانی عادت رہی ہے کہ وہ لوگوں کو پارٹیوں گروہوں میں تقسیم کرکے رکھتے ہیں جیسا کہ فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا
حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔
۲۸::القصص۔آیت:۴
جمہوریت سازطاغوتوں نے اصول ِجمہوریت وضع کرتے ہوئے اسی فرعونی روش کا اعادہ کیا ہے اور پارٹی بازی کو جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں شامل کیا ہے۔ جمہوریت میں حکومت و اقتدار کے حریصوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ پارٹیوں میں تقسیم ہو جائیں، انہیں طاغوت کے پاس رجسٹر کرائیں اور اقتدار کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں ۔طاغوت لوگوں کو پارٹی بنانے اور انہیں اپنے پاس رجسٹرڈکروانے کی دعوت دیتے ہیں۔کلمہ پڑھنے والے جب طاغوتوں کی اطاعت میں پارٹیاں بناتے ہیں، انہیں طاغوت کے پاس رجسٹرڈ کرواتے ہیں اور اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں توایک طرف تو وہ طاغوت کی اطاعت کی بنا پرجہالت میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور دوسری طرف پارٹی بازی کی بنا پر اُمت کی وحدت کو پاراپارا کر دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرما چکا ہے کہ
وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴿﴾لا مِنَ ا لَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَھُمْ و کَا نُوْا شِیَعًاط
کُلُّ حِزْبٍم بِمَالَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ﴿﴾
اور نہ ہو جاؤ مشرکین میں سے، ان میں سے جنہوں نے اپنے دین میں تفرق اختیار کیا اور گروہوں میں بٹ گئے۔ اب جس گر وہ کے پاس
جو کچھ ہے اسی پر و ہ اِترا رہا ہے۔
۳۰::الروم۔آیات :۳۱،۳۲
٭پاکستان میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین ۷۳ء میں شامل قراردادِمقاصد میں درج ذیل پیرے کی موجودگی میں جمہوریت کے اصولوں کی وہی تشریح اختیار کی جائے گی جو اسلام نے بیان کی ہے اس لئے اس تشریح کے ساتھ جمہوریت اختیار کرنے میں کیا حرج ہے؟
قرارداد کامذکورہ پیرایوں ہے کہ
’’جمہوریت،آزادی ، مساوات ، رواداری اور عدل ِ عمرانی کے اصولوں کی،
اسلام کی بیان کردہ تشریح کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔‘‘
اسلام نے جمہوریت کے اصولوں کی کیا تشریح کی ہے اس کے حوالے سے گزارش ہے کہ جو نظام غیر اللہ نے وضع کیا ہو اس کے اصولوں کی تشریح بھی غیر اللہ ہی کی طرف سے آیاکرتی ہے ۔مثلاً پارلیمانی و صدارتی نظامِ جمہوریت کے اصول اور ان کی تشریح برطانیہ ، امریکہ اور فرانس سے ہی ملے گی نہ کہ اسلام سے۔ اسلام سے تو، جمہوریت کے غیراللہ کا، اللہ کے دین کی دلیلوں سے عاری اوراللہ کے دین کی دلیلوں کے مقابل نظام‘‘ ہونے وغیرہ کی بناپر، اسے اختیار کرنے اور نہ کرنے کے حوالے سے فیصلہ آئے گا جو کتاب و سنت کی روشنی میں یہی ہے کہ ’’اللہ کی بجائے غیر اللہ کا اور اللہ کے دین کے مقابل ومتضاد نظام ہونے اور اللہ کی بجائے اکثریت کو اختیارِ قانون سازی تفویض کرنے سمیت اپنے وجودمیں اللہ کے ساتھ شرک کی دیگر صورتیں سمیٹے ہونے کی بناء پر جمہوریت اختیار کرنا شرک ہے ‘‘۔
٭ دینی راہنماؤں میں سے جو لوگ جمہوریت اختیار کرتے اور اس کے ذریعے اقتدار میں آکر دین قائم کرنا چاہتے ہیں وہ اس کے لیے دلیل کے طور پرعثمان رضی اللہ عنہ کے بحیثیت خلیفہ تقرر کا واقعہ پیش کرتے ہیں کہ جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عام لوگوں میں چل پھر کر یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کو بحیثیت خلیفہ پسند کرتے ہیں یا علی رضی اللہ عنہ کو؟ ان راہنماؤں کے بقول اُس وقت بھی آئندہ حکمران کے حوالے سے لوگوں کی اکثریت کی رائے معلوم کی گئی تھی اور جمہوریت بھی آئندہ حکمران کے حوالے سے لوگوں کی اکثریت کی رائے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے اس لیے اسے اختیار کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ رہنما یہ بھول جاتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ کوجانے والے خلیفہ(امام ِشرعی)نے دیگر افراد کے ساتھ نامزد کیا تھا کہ آئندہ خلیفہ ان میں سے مقرر کیا جائے۔ وہ خود خلافت کے طلب گارنہ تھے نہ انہوں نے حصولِ خلافت کے لیے پارٹی بنائی تھی،نہ اس کے حصول کے لیے رائے عامہ ہموار کی تھی نہ اس کے لیے اپنی پارسائی کے دعوے کئے تھے، نہ اپنی خدمات کے ڈھنڈورے پیٹے تھے جب کہ جمہوریت میں درج بالا تمام حرام کام کرنے پڑتے ہیں۔
٭ بعض جمہوریت پسند دینی رہنماء کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کی پابندی کرنے سے جمہوریت پاک ہو کر اسلامی ہو جائے گی ۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ جب جمہوریت ہے ہی مجسم شرک تو یہ شرک نیک لوگوں کے اختیار کرنے سے اسلامی کیسے ہوجائے گا؟ مسلمانوں جیسا پردہ کرنے سے جیسے کوئی یہودن مسلمان نہیں ہوسکتی ‘ اسی طرح آرٹیکل ۶۲ اور۶۳ کا لبادہ اوڑھنے سے جمہوریت کا شرک بھی اسلامی نہیں ہوسکتا۔
٭ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم مغربی جمہوریت کے نہیں بلکہ اسلامی جمہوریت کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں گذارش ہے کہ اسلام کا مطلب تو ہے ’’غیراللہ کی اطاعت چھوڑکرصرف اللہ کی اطاعت‘‘ اور جمہوریت لوگوں کی اکثریت کی اطاعت کانام ہے اب اسلامی جمہوریت کے قائلین ذرا لوگوں کی اکثریت کی اطاعت (جمہوریت)کو صرف اللہ کی اطاعت (اسلامی) بنا کر بتائیں!․․․․․یقینا نہیں بنا سکیں گے تو وہ جان لیں کہ جیسے’’ اسلامی یہودیت ‘‘ یا ’’ اسلامی کیمونیزم ‘‘ کی اصطلاح کو حماقت کی دلیل سمجھا جائے گا اسی طرح’’ اسلامی جمہوریت‘‘ کی اصطلاح حماقت کی اعلیٰ ترین دلیل ہے۔
اکثریت کی اھواء
سے آئین و قانون سازی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط یَقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ﴿﴾
حکم کا اختیار تو صرف اللہ کے لئے خاص ہے، وہ ہی حق بات بیان کرتا ہے اور وہ ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
((۶::الانعام۔آیت نمبر ۵۷
اللہ تعالیٰ نے حکم، قانون اور فیصلے کا اختیار اپنے پاس رکھا ہوا ہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ بندوں کے لئے حقیقت پر مبنی حکم ،قانون اور فیصلہ اللہ ہی جاری کر سکتا ہے کیونکہ بندوں کا خالق اور اُن کا ربِّ حقیقی ہونے کی بنا پر و ہی بہتر جان سکتا ہے کہ بندوں کے لئے کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ۔
اَ لَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ﴿﴾
کیا وہ ہی نہ جانے گا جس نے تخلیق کیا ہے؟ حالانکہ باریک بین اور باخبر تو وہ ہی ہے۔
(الملک۔آیت: ۱۴::۶۷
اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت کی صورت میں مبنی بر حقیقت حکم ، قانون اور فیصلہ نازل کردیاہے جو بندوں کے لئے دستورِ زندگی اورآئین کی حیثیت رکھتا ہے اور بندوں کو حکم دیا ہے کہ
فَا حْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآاَ نْزَلَ اللَّہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَ ھْوَآءَ ھُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط
تم اللہ کے نازل کردہ کے ساتھ ان کے مابین فیصلے کرو اور ان کی اھواء کی پیروی مت کرو، اس حق سے منہ موڑ کے جو تمہارے پاس آچکا ہے۔
۵: المائدہ۔آیت نمبر۴۸
اللہ کی طرف سے دستور ِزندگی اور آئین (کتاب و سنت )آ جانے کے بعد اسے نافذ کرنے اور اس سے دلیل لیتے ہوئے معاملات زندگی میں فیصلے کرنے کے سوا مزید آئین وقانون سازی کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی لیکن کلمات ِشہادت ادا کرنے والوں میں اللہ کے نازل کردہ آئین ودستورِزندگی کی موجودگی کے باوجودنہ صرف نئے قوانین کی بلکہ آئین (مملکت کے اصول ِاساسی کی دستاویز)کی بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور آئین سازی اور قانون سازی کا مکمل اختیار(اگر کوئی جرنیل آکر چھین نہ لے اور اپنے تِھنک ٹینک کے سپرد نہ کر دے تو)پارلیمنٹ کو حاصل رہتا ہے جیسا کہ پاکستان میں ہے۔
پاکستان میں آئین کا دم بھرنے والے جمہوریت پسند دینی راہنماء پارلیمنٹ کے اختیارِ قانون سازی کے حوالے سے یہ بات فخریہ کہتے ہیں کہ ممبران ِ پارلیمنٹ کا اختیارِ قانون سازی تو آئین کے تابع ہے اورآئین میں درج ذیل شقیں آ جانے سے ممبران کا اختیارِ قانون سازی محدود ہو گیا ہے ،وہ بنیادی طور پر کتاب و سنت ہی کے مطابق قانون سازی کے پابند ہیں البتہ وہ اپنی رائے (اھواء)سے قانون جاری کرنے کا اختیارصرف وہاں استعمال کرسکتے ہیں جہاں کتاب و سنت سے کوئی راہنمائی نہ ملتی ہو۔آئین کی وہ شقیں یوں ہیں
شق ۲(ا) : چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکمِ مطلق
ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدودکے
اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے۔
شق۲۲۷(۱): تمام موجودہ قوانین کو قر آ ن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے
مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام ذکر کیاگیا ہے
اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکو رہ احکام کے منافی ہو۔
جمہوریت پسنددینی راہنماؤں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آئین کی مذکورہ بالا شقوں کے تابع قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا معاملہ تو اس قانون سازی کے حوالے سے ہے جو آئین کے علاوہ ہے مگرخودوہ آئین جواللہ کے آئین کی موجودگی کے باوجودگھڑا گیا ہے اس کی قانون سازی (جسے آئین میں ترمیم کا نام دیا جاتا ہے )وہ کس کے تابع ہے ،دینی رہنما آئین کی درج ذیل شق سے وہ بھی دیکھ لیں
شق ۲۳۹(۵):
آئین میں کسی ترمیم پر کسی عدالت میں کسی بنا پر چاہے جو کچھ بھی ہو
اعتراض نہیں کیا جائے گا۔
(۶)
ازالہ ِشک کے لیے بذریعہ ہذا قرار دیا جاتا ہے کہ آئین کے احکام
میں سے کسی ترمیم کے مجلس ِشوریٰ ( پارلیمنٹ) کے کسی بھی اختیار پر
کوئی پابندی نہیں۔
٭ آئین کی درج بالاشق کے دونوں پیروں سے ایک یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آئین ۷۳ء اختلافات سے پُر اور ناقص ہے اسی بنا پر اس میں ترمیم کی ضرورت رہتی ہے اور غیراللہ کے وضع کردہ آئین اوراپنی طرف سے نازل کردہ آئین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا 82؀
کیا یہ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ غیراللہ کی طرف سے ہوتا تو یہ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔
۴::النساء۔آیت:۸۲
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥؁
کامل ہے تیرے رب کی بات(کتاب و سنت) سچائی اور انصاف کے اعتبار سے،کو ئی اس کی بات کو تبدیل کرنے والا نہیں اور سب کچھ سننے اور جاننے والا وہی ہے۔
۶: الانعام ۔آیت: ۱۱۵
٭ آئین کی شق ۲۔الف اورشق۲۲۷(۱) کے تحت ممبرانِ پارلیمنٹ کی طرف سے قانون سازی(بقول دینی راہنماؤں کے) قرآن و سنت کے مطابق ہوگی مگراِن راہنماؤں کو معلوم ہونا چاہیے کہ خود آئین تو پھر بھی ممبران ِپارلیمنٹ کے اختیار ِ ترمیم کی زد میں رہے گا جس کی بنا پر وہ جب چاہیں شق ۲۔الف اورشق۲۲۷(۱) کو اُٹھا کر آئین ہی سے باہر پھینک سکیں گے اورآئین کے پاسدار دینی راہنما پھر کہیں اعتراض بھی نہ کر سکیں گے کیونکہ اس حوالے سے ان کے محبوب آئین کی اوپر بیان کردہ شق ۲۳۹(۵) اور(۶) خوب واضح کی گئی ہے۔ لیکن یہ طاغوت کبھی بھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ پھر یہ اسلامی رہنماۗۗوں کو دھوکہ کیسے دیں گیں۝۝؟
اپنی اس بات کے جوازمیں کہ ’’عوام کے نمائندے اپنی طرف سے قانون جاری کرنے کا اختیاروہاں استعمال کر یں گے جہاں کتاب و سنت سے کوئی رہنمائی نہ ملتی ہو‘‘ وہ دینی راہنمادرج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں کہ
اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لَمَّا اَرَادَ اَنْ یَّبْعَثَ مُعَاذًااِلَی الْیَمْنِ قَالَ کَیْفَ تَقْضِیْ اِذَا عَرَضَ لَکَ قَضَاءٌ قَالَ اَقْضِی بِکِتَابِ اللّٰہِ قَالَ فَاِنْ لَّمْ تَجِدْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ قَالَ فَبِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ قَالَ فَاِنْ لَّمْ تَجِدْ فِیْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَلَا فِی کِتَابِ اللّٰہِ قَالَ اَجْتَھِدْ بِرَاْیِیْ وَلَا آلُو فَضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَدْرَہُ وَ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَا یُرْضِیَ رَسُوْلَ اللّٰہِ
جب رسول ُاللہ ﷺ نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ فرمانے کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ نے اُن سے پوچھا کہ جب تمہارے پاس کوئی معاملہ آئے تو تم کیسے فیصلہ کرو گے ؟ انہوں نے کہا کہ کتاب ُاللہ سے فیصلہ کروں گا ۔ آپ ﷺ نے پوچھا اگر تم کتابُ اللہ میں نہ پاؤ تو ؟ انہوں نے عرض کیا ’’پھر سنت ِرسول ُاللہ کے ساتھ !‘‘ آپ نے پوچھا اگر تم سنت ِ رسول ُ اللہ میں بھی نہ پاؤ اور نہ کتابُ اللہ میں تو؟ توانہوں نے عرض کیا پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گااور کوتاہی نہ کروں گا۔پس رسول ُاللہﷺ نے اُن کے سینے پر ہاتھ مارااورکہا کہ سب تعریفیں اُس اللہ کے لئے ہیں کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کے فرستادے کو اس بات کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہے۔
(ابو داوٗد: کتاب ُالقضاء۔ اصحابِ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ)
حدیث ِبالا کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے ایک راوی حارث بن عمرو کو امام بخاری رحمۃاللہ علیہ سمیت دیگر چوٹی کے محدثین ضعیف قرار دے چکے ہیں یوں یہ ضعیف ترین حدیثوں میں سے ایک ہے ، رہی کسی معاملے میں کتاب و سنت سے راہنمائی نہ ملنے کی بات تو ان کے مکمل اور ہر ایک چیز کی وضاحت کے حامل ہونے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے ارشادات بہت واضح ہیں کہ
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ
آج کے دن ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پرپسند کر لیا۔
۵: المائدہ۔آیت: ۳
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ 89؀ۧ
اور نازل کی ہے ہم نے تم پر یہ کتاب جو وضاحت کرنے والی ہے ہر ایک بات کی اور ہدایت ورحمت اور بشارت ہے اطاعت کرنے والو ں کے لئے۔
۱۶: النحل۔آیت:۸۹
آیاتِ بالا کی بنا پر کتاب و سنت میں راہنمائی نہ ہونے کی بات قطعی ناممکن ثابت ہوتی ہے ہاں البتہ ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی ڈھونڈنے والا ایک وقت میں کسی معاملے کے حوالے سے کتاب و سنت سے رہنمائی ڈھونڈ نہ سکا ہو ۔ایسی صورت میں اس کے لیے حکم ہے کہ وہ اہل ِ ذکر یعنی کتاب و سنت کے علماء سے پوچھ لے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے کہ
فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 43؀ۙ
پس اہل ِ ذکر سے پوچھ لو اگر تمہیں پتہ نہ چلے تو۔
۱۶: النحل۔آیت:۴۳
یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ خصوصی طور پر’’ اہل ِذکر‘‘ کی طرف رجوع کرنے کا مقصد ہی یہ سامنے آتا ہے کہ اہل ِذکر اُس معاملے کے حوالے سے ’’ذکر‘‘ یعنی کتاب و سنت سے اللہ کے احکامات نکال کر بتائیں جس کا وہ علم رکھتے ہیں نہ کہ اپنی اھواء سے بتائیں اوراپنی پیش کی ہوئی بات کے لئے بھی کتاب وسنت سے دلیل پیش کریں کیونکہ اللہ کی طرف سے یہ ذکر نازل ہی اس لئے ہوا ہے کہ صرف اس کی اتباع کی جائے اور اس سے دلیل پیش کرتے ہوئے بات کی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً ۭ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ ۚ ھٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَّعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۙ الْحَقَّ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ 24؀وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25؀
کیا انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے الٰہ بنا رکھے ہیں۔ کہو لاؤ اپنی دلیل، یہ ذکر ہے(دلیل کی خاطر) اُن لوگوں کے لئے جو میرے ساتھ ہیں اور ان کے لئے بھی جو مجھ سے پہلے تھے مگر ان میں سے اکثر بے خبر ہیں اور حق سے منہ موڑتے ہیں۔ اور ہم نے تم سے پہلے بھی جو رسول بھیجا اُس کی طرف یہی وحی بھیجتے رہے کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں سو میری ہی عبادت کرو۔
۲۱: الانبیاء۔آیات: ۲۴،۲۵
لیکن کتاب و سنت سے راہنمائی خود ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے یہ راہنمائی لینے کے لئے اہل ِذکر کی طرف بھی رجوع نہیں کرتے بلکہ انسانوں کی اکثریت کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی رائے سے بتائیں اور انسانوں کی ا کثریت کے علمِ حقیقی سے جاہل، دین سے بے بہرہ اور فاسق ہونے کی بنا پر جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنے کے سواء اور کیاہو سکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ 49؀اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ 50۝ۧ
اور حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔(اگر یہ اللہ کے فیصلے سے منہ موڑتے ہیں ) تو پھر کیا جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے۔
۵: المائد ہ ۔آیات:۴۹،۵۰
اَفَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا وَّهُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا ۭوَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ١١٤؁وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ١١٥؁وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ ١١٦؁
کہو ) تو کیا میں اللہ کے علاوہ کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں حالانکہ وہی ہے جس نے تمہاری طرف یہ ’’کتاب ‘‘پوری تفصیل کے ساتھ نازل کی ہے اور جن کو ہم نے یہ کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے سو تم ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا ۔ کامل ہے تیرے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے،کو ئی اس کی بات کو تبدیل کرنے والا نہیں اور سب کچھ سننے اور جاننے والا وہی ہے۔اگر تم لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلوگے جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے وہ تو محض ظن کی پیروی کرتے ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔
۫ الانعام ۔آیات:۱۱۴․․۱۱۶
اللہ کامفصل ،جامع وکا مل اور واضح آئین ودستور ِزندگی آ جانے کے بعد اسے نافذ کرنے اور اس کی دلیلوں کے ساتھ فیصلے کرنے کے سوا مزید آئین وقانون سازی کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی تو جو ایسا کرتا ہے وہ لامحالہ ظن وگمان؍اھواء ہی کی بنا پر کرتا ہے یوں وہ خواہ مخواہ اللہ کی جگہ لوگوں کا راہنماء(اللہ کا شریک) بن بیٹھتاہے جبکہ پاکستان میں ممبران ِ اسمبلی کی اکثریت کے اھواء پر مبنی فیصلوں کو قانون کادرجہ دیا جاتا ہے اورجو لوگ ان کے اھواء کے فیصلوں اور قوانین کی اتباع کرتے ہیں تووہ انہیں اللہ کا شریک بنانے ہی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّهْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ ۭ قُلِ اللّٰهُ يَهْدِيْ لِلْحَقِّ ۭ اَفَمَنْ يَّهْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا يَهِدِّيْٓ اِلَّآ اَنْ يُّهْدٰى ۚ فَمَا لَكُمْ ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ 35؀وَمَا يَتَّبِعُ اَكْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا ۭ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔـا ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ 36؀
کہو! کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہو ؟کہو وہ صرف اللہ ہے جو حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے پھر بھلا بتاؤ جو(اللہ) حق کی طرف راہنمائی کرتاہے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے یا کہ اُس کی(اتباع کی جائے) جوخود راہ نہیں پاتا اِلَّا یہ کہ اس کی راہنمائی کی جائے ؟ آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسے اُلٹے فیصلے کرتے ہو ۔حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثرلوگ محض ظن کے پیچھے چلے جا رہے ہیں حالانکہ ظن حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا ۔جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے ۔
۱۰: یونس۔آیات: ۳۵،۳۶
٭انسانوں کے وضع کردہ آئین کے جواز کے سلسلے میں بعض لوگ میثاق ِمدینہ کی مثال پیش کرتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ میثاق ِمدینہ مسلمین اور کفار کے درمیان ایک معاہدہ تھااور اس میں ہر متنازعہ معاملے میں آخری فیصلے کا اختیار نبی ﷺ کے پاس تھایوں یہ میثاق کفار سے ایسے معاہدے ہی کے لئے دلیل بنتا ہے جوکتاب و سنت کے تحت ہو جبکہ آئین ۷۳ء مسلمین اور کفار کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں بلکہ مسلمان کہلانے والے لوگوں کااپنے لئے اختیار کردہ آئین ہے جس میں کفار کی حیثیت اقلیت کی ہے مگر اس میں آخری فیصلے کا اختیار نبی ﷺ(کتاب وسنت) کی بجائے پاکستان کی سپریم کورٹ کو حاصل ہے اوریہ کورٹ آئین کے حوالے سے فیصلہ دینے کے لئے نبیﷺ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اپنی اھواء کی طرف رجوع کرتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀
سوقسم ہے تیرے رب کی(اے نبی ﷺ) ! یہ مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک یہ آپس کے اختلافات میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ فیصلہ تم کرو اسے دل میں ذرا سی بھی تنگی محسوس کئے بغیر سر بہ سر تسلیم نہ کر لیں۔
۴: النساء۔آیت:۶۵
اللہ کے نازل کردہ آئین کی موجودگی کے باوجود انسانوں کے وضع کردہ آئین کی موجودگی ضروری سمجھنے والے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ کتاب و سنت پربہترین عمل کرنے والے لوگوں یعنی خلفائے راشدین نے بغیر کسی نئی آئین و قانون سازی کے صرف اللہ کے نازل کردہ آئین کے تحت فیصلے کرتے ہوئے ایسا بہترین نظام ِ حکومت چلا یا کہ دنیا آج تک اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ۔اس بنا پر یہ کہنا تو قطعی بے جا ثابت ہوتاہے کہ نیا آئین اورنئے قوانین وضع کئے بغیر نظام ِحکومت چلایا نہیں جا سکتا۔

طاغوتی آ ئین و
قوانین کی پاسداری کے حلف
کلماتِ شہادت اداکرنے والوں میں سے اکثر حکمران اور دیگرسیاست دان طاغوتوں کے وضع کردہ چارٹرز(مثلاًاقوام متحدہ کے چارٹر)،ان کے وضع کردہ ملکی آئین،دساتیر اورقوانین (مثلاً پاکستان میں آئین ۷۳ء،اوروفاقی وصوبائی قوانین کی فہرستوں)کی پاسداری کے حلف اٹھاتے ہیں ، ان حلفوں پر دستخط کرتے ہیں(پھر معاملات ِ زندگی انہی کے مطابق چلاتے ہیں) یوں اللہ کے ساتھ کئے گئے شرک و بغاوت کی پاسداری کا حلف اٹھالیتے ہیں۔
مذکورہ بالا حلف اُٹھانے والوں میں سے جو لوگ دین سے بے بہرہ ہیں ان کا معاملہ تو الگ ہے لیکن پارلیمنٹ میں پہنچنے والے جمہوری مذہبی سیاست دان بھی طاغوتی آئین و قوانین کی پاسداری کا حلف اُٹھاتے اوران کی اطاعت وپیروی پر کاربندہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایسااقامت ِدین کے لئے کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْ ۭ وَاَمْلٰى لَهُمْ 25؀ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ ښ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ 26؀فَكَيْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ 27؀ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَـــطَ اللّٰهَ وَكَرِهُوْا رِضْوَانَهٗ فَاَحْبَــطَ اَعْمَالَهُمْ 28؀ۧ
بے شک جولوگ ہدایت واضح ہو نے کے بعداُلٹے پھر گئے ، شیطان نے ان کے لیے یہ کام آسان بنا دیا اور ان کے لیے جھوٹی توقعات کا سلسلہ دراز کر دیا ۔ یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے کہا تھا ان لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے نازل کردہ کو ناپسند کیا ہے کہ ہم بعض معاملات میں تمہاری مانیں گے ، اللہ ان کی خفیہ باتیں خوب جانتا ہے ۔ پھراس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر مارتے ہوئے ان کی روحیں قبض کریں گے ۔ یہ اس لیے ہو گا کہ انہوں نے اس طریقے کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہے اور انہوں نے اللہ کی رضا کا راستہ ناپسند کیا ، چنانچہ اللہ نے ان کے سب اعمال کوضائع کر دیا۔
۴۷: محمد۔آیات : ۲۵..۲۸
حلف اُٹھانے والے دینی سیاست دان پاکستان کے آئین ۷۳ء کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں قراردادِ مقاصد(آرٹیکل ۲ ۔اے )کی صورت میں اللہ کے حاکم ِمُطلق ہونے کی بات شامل کرنے اور تمام موجودہ قوانین کو کتاب و سنت کے مطابق ڈھالنے کی بات (آرٹیکل ۲۲۷(۱) شامل کرنے سے یہ آئین اسلامی ہو گیاہے جب کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آئین میں شامل اوراس کے تابع(وفاقی اورصوبائی قوانین کی فہرستوں وغیرہ میں شامل) وہ تمام قوانین کہ جو سرکشوں کی اھواء سے وضع کردہ ہیں اور جن کو کتاب و سنت کے مطابق ڈھالنے کا وعدہ کیا گیا ہے اِ ن طاغوتی قوانین کی موجودگی میں آئین ۷۳ء اللہ کے ساتھ شِرک(اللہ کو حاکم ماننے مگر طاغوتی قوانین کو شامل رکھنے )کی بد ترین مثال ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
اِنَّآاَنْزَلْنَآاِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِاْلْحَقِّ فَاعْبُدِاللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ ﴿﴾
اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط
بے شک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے پس اللہ کی بندگی کرو دین کو اس کے لیے خالص رکھتے ہوئے ، خبردار اللہ کے لیے (قابل قبول)صرف دین خالص ہے ۔
۳۹::الزمر۔آیات: ۲،۳
اقامت ِدین کاعَلم بلند کرنے والے بعض لوگ پاکستان کے آئین میں قرار داد ِمقاصد کے شامل ہونے سے پہلے تک(آئین و قوانین کے طاغوتی ہونے کی بنا پر) گورنمنٹ آف پاکستان کی ملازمت کرنا، اسکی عدالتوں میں اپنے مقدمات لے جانا اور وکالت کرنا ناجائز سمجھتے تھے جو کہ اُن کا ایک زبردست مؤقف تھا لیکن جونہی آئین میں قرار دادِمقاصد شامل ہو گئی انہوں نے مذکورہ سب کاموں کو جائز قرار دے دیااور اب وہ دھڑلے سے یہ سب کام کرتے ہیں حتیٰ کہ طاغوتی نظامِ سیاست ’’ جمہوریت‘‘ اختیار کرتے ہوئے اسلام کے نام پر چند سیٹیں پارلیمنٹ کی بھی حاصل کر لیتے ہیں پھر پارلیمنٹ میں جا کر انہی طاغوتی آئین و قوانین کی پاسداری کا حلف اٹھالیتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کیا آئین میں قراردادِمقاصد کے شامل ہونے کے ساتھ وہ تمام طاغوتی قوانین ختم ہو گئے تھے جن کی وجہ سے پہلے مذکورہ بالا کام ناجائز قرار دئیے گئے تھے؟ اورزبان سے یا کسی قرار داد کے ذریعے سے اللہ کو حاکم ِمُطلق ’’ محض منوا لینے سے‘‘اور طاغوتی قوانین کو ختم کر دینے کا’’محض وعدہ آئین میں شامل کروالینے سے‘‘ کیا طاغوتی قوانین کی اطاعت جائز ہو جاتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جن کلمات کی شہادت دے کر انسان اللہ کے دین میں داخل ہوتا ہے وہ کلمات غیراللہ کی اطاعت اوراللہ کی اطاعت کے حوالے سے معاملہ بالکل واضح کر دیتے ہیں۔ ان میں ’’ لَآاِلٰہَ ‘‘ کا ’’ اِلَّا اللّٰہ‘‘ سے پہلے آنا اس بات کاپابند کرتا ہے کہ صرف اﷲ کو الٰہ ماننے اورصرف اس کی اطاعت (عبادت) پر عمل پیراہونے سے پہلے لازم ہے کہ طاغوت کی اطاعت سے انکار کر دیا جائے ۔ یوں ’’ لَآاِلٰہَ ‘‘ کے زیرِاطاعت لازم تھا کہ پہلے پاکستان کے پورے طاغوتی آئین اور دیگر کتب وفہرستِ قوانین کو اُٹھا کر پرے پھینک دیا جاتا پھر ’’اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘کے زیر اطاعت صرف اﷲکے نازل کردہ حکم ’’ کتاب و سنت‘‘ کو واحدآئین و دستور ِزندگی کے طور پر اختیار کر لیا جاتا ،، یوں باطل مکمل طور پر چلا جاتااور حق مکمل طور پر آ جاتا، لیکن پاکستان میں ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا حق ادا کئے بغیرطاغوتی آئین میں اللہ کے حاکم ِمطلق ہونے کی بات شامل کر کے اس طاغوتی آئین ہی کو اسلامی قرار دے لیا گیااور اس کی اطاعت شروع کردی گئی اور یوں حقیقت خرافات میں کھو کر رہ گئی ۔
طاغوتی آئین میں اللہ کے حاکم ِمطلق ہونے کی بات شامل کر کے اس آئین کی اطاعت اختیارکرلینے والوں سے سوال ہے کہ کیا کسی بت کے ماتھے پر لکھ دیا جائے کہ’’ اللہ حاکم ِمطلق ہے‘‘ تو کیا اس بت کو سجدہ جائز ہو جاتا ہے ؟
پہلے ہرطاغوتی آئین و قانون کو مکمل طورپرترک کرنااور پھر صرف ’’کتاب و سنت‘‘کوآئین و دستور ِزندگی کے طور پر اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ کلمات ِشہادت کی بناپرلازم قرارپاتاتھا بلکہ ذیل کی آیات بھی طاغوت کے حوالے سے ایسی ہی بات کا پابند کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ
الْوُثْقٰی ق لَاانْفِصَامَ لَھَا ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْم ٌ ﴿﴾
پس جس نے طاغوت سے کفر کیااور اللہ پر ایمان لایا وہ ایک مضبوط سہارے سے یوں وابستہ ہو گیا کہ کبھی اس سے جدا کیا جانے والا نہیں اور اللہ سنتا وجانتا ہے۔
۲: البقرہ ۔آیت:۲۵۶
وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَ اَنَا بُوْآ اِلَی اللّٰہِ لَھُمُ الْبُشْرٰی ج
جن لوگوں نے طاغوت سے اجتناب کر لیا کہ اُس کی عبادت کریں اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔
۳۹: الزمر۔آیت: ۱۷
آیات ِ بالا کی بنا پر’’ اللہ پر ایمان اوراُس کی بندگی‘‘ کے اللہ کے ہاں قابل ِقبول ہونے کے لئے ’’پہلے طاغوت پہ ایمان سے اور اس کی بندگی سے کفرواجتناب‘‘ شرط قرار پاتا ہے اس بنا پر پہلے طاغوتی آئین و قوانین کو مکمل طورپرچھوڑنا (طاغوت کی بندگی سے مکمل اجتناب اختیارکرنا) پھرصرف ’’ کتاب و سنت‘‘ کو آئین و دستور ِزندگی کے طور پر اختیار کر نا (صرف اللہ کی بندگی پہ قائم ہونا) لازم قرار پاتا ہے۔
طاغوت سے مذکورہ بالا اجتناب نہ صرف یہ کہ ’’کتاب وسنت ‘‘کو آئین و دستور ِزندگی کے طور پر اختیار کرنے(صرف اللہ کی بندگی پہ قائم ہونے) سے پہلے لازم قرارپاتاہے بلکہ یہ بات پھر ہمیشہ لازم رہتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوااللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج
ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
۱۶::النحل۔آیت: ۳۶
پاکستان میں جمہوریت پسند دینی راہنماؤں نے اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے نبی ﷺ کی طرح محض اللہ کے کلمات لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا سہارانہ لیا جو کہ ہر طاغوتی آئین وقانون کویکسر رَدّ اور صرف حق ( کتاب ُاللہ و سنت ِرسول اللہ ﷺ) کو مکمل طورغالب کرنے کی بات کرنے والے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَ یُحِقُّ اللّٰہُ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ ﴿﴾
اوراللہ اپنے کلمات کے ذریعے حق کو حق کردکھاتا ہے خواہ ناپسند ہی کیوں نہ کریں مجرم ۔
۱۰::یونس۔آیت: ۸۲
جمہوریت پسند دینی راہنماؤں نے محض اللہ کے کلمات کا سہارالینے کی بجائے اللہ کے حاکم ِمطلق ہونے کی بات پر مبنی اپنی وضع کردہ قرارداد کا سہارا لیا اور اسے طاغوتی آئین میں شامل کروانے کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیاپھر اسی قرارداد کی بنا پر طاغوتی آئین وقوانین کی پاسداری کے حلف اور ان کی اطاعت کے شرک کو جائزکرنے کا کارنامہ بھی سرانجام دے ڈالا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جو عوام پاکستان بنانے کے لئے ’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا نعرہ لگا کر لاکھوں جانوں کی قربانی دے سکتے تھے اور قراردادمقاصد کوطاغوتی آئین میں شامل کروا سکتے تھے وہی عوام صحیح راہنمائی ملنے پر اور ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘ کا حقیقی تقاضا جان کر’’ہر طاغوتی آئین وقوانین کے رَدّ اورصرف کتاب وسنت کے نفاذ‘‘ کو عملی جامہ کیوں نہیں پہنا سکتے تھے مگر دینی راہنماؤں نے عوام کواللہ کی صاف ،سیدھی اورآسان راہ پر ڈالنے کی بجائے اللہ کی راہ میں ٹیڑھ پیدا کردی اور’’دین کے حوالے سے سادہ لوح عوام‘‘ کوگمراہ کر کے طاغوتی آئین وقوانین کی اطاعت میں مبتلا کر دیایوں اللہ کے ساتھ شرک فی الحکم میں مبتلا کردیا۔ پاکستان کے حالات اگراللہ کے ساتھ اسی شرک کا نتیجہ ہیں تویہ بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کو موجودہ دگرگوں حالت تک پہچانے کے حقیقی ذمہ دار کون ہیں، انہیں دیکھ کر اہل کتاب سے کہا ہوا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد یاد آجاتا ہے کہ
قُلْ ٰٓیاَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْ نَھَا عَوَجًا
وَّ اَنْتُمْ شُھَدَآءُ ط وَمَااللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴿﴾
کہو ! اے اہل ِ کتاب آخر کیوں روکتے ہو تم اللہ کی راہ سے ہراُس شخص کو جو ایمان لاتا ہے ؟ چاہتے ہو تم اس(اللہ کی راہ)کو ٹیڑھاکرنا حالانکہ تم(اصل بات کے)خود گواہ ہو۔ اور نہیں ہے اللہ غافل ان حرکتوں سے جو تم کرتے ہو۔
اٰلِ عمران۔ آیت :۹۹:: ۳
اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے دینی راہنماؤں کی وضع کردہ قراردادِ مقاصد لوگوں کو بہت بڑی گمراہی میں مبتلاء کرنے کا باعث بنی جبکہ یہ قرارداد خود بھی گمراہی کا واضح مظہر ہے جو اس کے پہلے پیرے کے فوراً بعد سامنے آجاتا ہے
قرار دادِ مقاصدکا پہلا پیرا یوں ہے کہ
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے۔
قرارداد کے دوسر ے پیرے سے بات یوں شروع ہوتی ہے کہ
یہ پاکستان کے عوام کی مرضی ہے کہ وہ ایک نظام/ قانون بنائیں (جس میں)مملکت اپنے اختیارات عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
جمہوریت،آزادی ، مساوات ، رواداری اور عدل ِ عمرانی کے اصولوں کی، اسلام کی بیان
کردہ تشریح کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔
قرارداد کے پہلے پیرے میں اللہ کو حاکم ِمطلق ماننے اور اس کی مقرر کردہ حدوں کے اندرحاصل ہونے والے اختیارکے مقدس امانت ہونے کی بات کی گئی ہے اور لوگوں کے اختیار کے حوالے سے ’’حاکم ِمطلق ‘‘کے ارشاد ات واضح ہیں کہ
یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْامْرِ مِنْ شَیْءٍ ط قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ ط
پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارا بھی معاملے میں کوئی اختیار ہے ؟ کہو کہ اختیار توسارے کا ساراصرف اللہ کا ہے۔
۳: آل ِعمران۔آیت: ۵۴ا
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَمَنْ یّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلا مُّبِیْنًا ﴿﴾
کسی مومن مرد اور کسی عورت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ جب اللہ اور اُس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر اُسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیاررہے اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔
۳۳: الاحزاب۔آیت:۳۶
یوں جب ہر معاملے میں حکم قانون اور فیصلے کا اختیارصرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، مومنین کے پاس اللہ کے حکم قانون اورفیصلے کی بلاچون و چراء اطاعت کے سوا کوئی اختیار نہیں اور جب اللہ ان کے لیے مکمل قانون و نظامِ زندگی ’’اسلام‘‘کا فیصلہ دے چکا ہے جس میں نظام ِ سیاست ’’خلافت ‘‘بھی شامل ہے پھر اس کی موجودگی کے باوجود قرار دادِمقاصد میں عوام کی مرضی کے نظام وقانون کی اور جمہوریت کی سفارش کرناحاکمِ مطلق مانی ہوئی ہستی کے اختیارات میں عوام کو شریک کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس سے خود قراردادِ مقاصد اللہ کے ساتھ شرک کی واضح مثال کے طور پر سامنے آتی ہے۔
جمہوریت پسند دینی راہنماؤں کے سامنے جب مذکورہ بالا معاملہ رکھا جاتا ہے تو بعض کہتے ہیں کہ آپ محض سطحی قسم کی باتیں کرتے ہیں جب قرارداد میں ’’جمہورکے اختیارکے اللہ کی مقرر کردہ حدوں کے اندررہنے کی بات کر دی گئی ہے تو جمہور کااختیاروہیں استعمال ہو گا جہاں کتاب و سنت سے کوئی راہنمائی نہ ملتی ہو ‘‘ اور جب ’’جمہوریت کے اصولوں کی اسلام کی بیان کردہ تشریح کی پاسداری‘‘ کی بھی بات کر دی گئی ہے تو پھر اس قرارداد کو اختیار کرنے میں کیا حرج ہے ۔
ان سے سوال ہے کہ کیا کتاب و سنت میں معاملات زندگی میں راہنمائی کے حوالے سے کوئی رخنہ رہ گیاتھا جو اَب جمہور کے اختیارسے پُر کرنا ہے ؟ اور ’’جمہوریت کے اصولوں کی اسلام کی بیان کردہ تشریح کی پاسداری‘‘ کے حوالے سے گزارش پیچھے بھی کی جاچکی ہے کہ جو نظام غیر اللہ نے وضع کیا ہو اس کے اصولوں کی تشریح بھی غیر اللہ ہی کی طرف سے آیاکرتی ہے ۔مثلاً پارلیمانی و صدارتی نظامِ جمہوریت کے اصول اور ان کی تشریح برطانیہ ، امریکہ اور فرانس سے ہی ملے گی نہ کہ اسلام سے۔ اسلام سے تو، جمہوریت کے غیراللہ کا’’اللہ کے دین کی دلیلوں سے عاری اوراللہ کے دین کی دلیلوں کے مقابل نظام‘‘ ہونے کی بناپر، اسے اختیار کرنے اور نہ کرنے کے حوالے سے فیصلہ آئے گا جو کتاب و سنت کی روشنی میں یہی ہے کہ ’’اللہ کی بجائے غیر اللہ کا اور اللہ کے دین کے مقابل ومتضاد نظام ہونے اور اللہ کی بجائے اکثریت کو اختیارِ قانون سازی تفویض کرنے سمیت اپنے وجودمیں اللہ کے ساتھ شرک کی دیگر صورتیں سمیٹے ہونے کی بناء پر جمہوریت اختیار کرنا شرک ہے ‘‘۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک دم سارے اسلامی قوانین نافذ کرنا خلافِ سنت ہے کیونکہ نبی ﷺ نے یہ کام تئیس سالوں میں بتدریج کیا تھا ۔ اگرچہ ایساہی ہوا تھا لیکن ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کی اتباع میں یہ ا صول پہلے دن سے ہی طے ہو چکا تھا کہ غیراللہ کا حکم،قانون و فیصلہ تو ذرا سا بھی نہیں مانا جائے گا بلکہ صرف اﷲ کا ہرنازل شدہ حکم، قانون و فیصلہ پورے کا پورا مانا جائے گا ۔ اس اصول کی بناپررسول اللہﷺ اور دیگر ہر کلمہ پڑھنے والے نے کلمہ پڑھنے کے وقت ہی سے غیر اﷲ کااللہ کے دین کے مقابل ہر حکم ، قانون و فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا تھااور اس وقت تک اﷲ کے جتنے احکامات ، قوانین اور فیصلے نازل ہو چکے تھے ان سب کی اطاعت قبول کر لی تھی ۔ اللہ کے دین کی اقامت کے لئے آج بھی اسی سنت کی اتباع کرنا ہوگی اور ایک دم تمام طاغوتی قوانین کو رد کرنا ہو گا اورساتھ پوری ’’کتاب و سنت‘‘ کی اتباع اختیار کرنا ہو گی کیونکہ ہم تک دین مکمل ہوکر پہنچا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی ا لسِّلْمِ کَآ فَّۃً ص وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ﴿﴾
اے ایمان والو ! تم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم کی اتباع مت کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
البقرہ۔آیت:۲۰۸: ۲
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت، طاغوتی قوانین کے حلف اور ان کی پاسداری اگرچہ شرک ہی نظر آتے ہے لیکن ہم ایسا ’’ اقامت ِدین‘‘ کے لئے کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے ہم پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں اللہ کا کلمہ بلندکرتے ہیں، پھر اس کے ذریعے ہم ایک دن پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لیں گے اور دین قائم کر دیں گے۔ ان لوگوں سے سوال ہے کہ طاغوتوں کے آئین وقوانین کی پاسداری کے حلف اُٹھاتے ہوئے یعنی ان کی اطاعت کرتے ہوئے اقتدار میں آکر دین قائم کرنے کا طریقہ آخر نبیﷺ نے کیوں اختیار نہ کیا ؟ جبکہ آپﷺکو اس کی لالچ بھی دی گئی تھی کہ کیا آپ ﷺ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اقتدار دیتے ہیں، اگر مال و دولت چاہیے وہ دیتے ہیں، اگر کوئی خوبصورت عورت چاہیے وہ دیتے ہیں مگر یہ ایک اللہ کی دعوت دینی بند کر دو، تو کیا نبی ﷺ نے ان کی بات مان لی تھی کہ چلو جب مَیں ان کا حکمران بن جاوں گا تو پھر زور و زبردستی ان کو مسلمان کر لونگا، نہیں انہوں نے اس کا سختی کے ساتھ انکار فرمایا اور کہا کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر چاند اور ایک ہاتھ پر سورج بھی رکھ دو توبھی میں حق بات کرنے سے نہيں رکوں گا۔
تو نبیﷺ نے کفار کی ذرا سی بھی اطاعت قبول نہیں کی تھی مگرآج اقامت ِدین والوں نے اقتدار کی خاطر طاغوت کے قوانین کی اطاعت میں کوئی کسرنہیں رہنے دی ہے حتیٰ کہ آئین و قوانین کے دوسروں سے زیادہ پاسدارومطیع وفرمانبردار ہونے کا دعویٰ بھی یہی کرتے ہیں۔
ان سے گذارش ہے کہ ذیل کی آیات کو غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ نبیﷺ کا دین جس کی اقامت کا حکم ہے وہ حقیقت میں ہے کیا ؟ اورپھر بتائیں کہ جب مکہ میں طاغوت غالب تھا تو کیا نبی ﷺ نے اس دین پہ عمل موقوف کر دیا تھا؟کیا اس حالت میں آپﷺ کفار کی طرف ذراسے بھی جُھکے تھے؟ اور کیا آپﷺ نے اُن کے مقابل کوئی مداہنت اختیار کی تھی؟ اور ان کی ذرا سی بھی اطاعت قبول کی تھی جبکہ آپ اتناستائے جا رہے تھے کہ اتنا کبھی کوئی نہیں ستایا گیا تھا۔
نبی ﷺ کے دین کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ ښ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ١٠٤؀ۙوَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۚ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٠٥؁
کہو کہ اے لوگو ! اگرتمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے تو (سُن لوکہ) میں اُن کی بندگی نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے علاوہ بندگی کرتے ہوبلکہ میں تو صرف اُس اللہ کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں فوت کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان والوں میں سے ہو جاؤں اور یہ کہ میں ہر طرف سے کٹ کر یکسو ہو کرپنا رُخ اس دین کی سمت جما دوں اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤں۔
۱۰::یونس۔آیات:۱۰۴،۱۰۵
آیاتِ بالا سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دین جس پہ نبی ﷺ قائم تھے وہ تو ہے ہی ’’ اللہ پر ایمان کے ساتھ غیراللہ کی بندگی سے اجتناب کرنے اور صرف اللہ کی بندگی پہ قائم ہونے کا نام ‘‘پھر یہ آیات مکہ میں اُس وقت نازل ہوئیں تھیں جب وہاں طاغوت کا غلبہ تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ اس دین پہ اُس وقت ہی سے قائم ہو گئے تھے جب وہاں طاغوت کا غلبہ تھا اور پھرقائم بھی اس شان سے ہوئے تھے کہ نہ طاغوت کی طرف ذرا بھر جُھکے تھے، نہ اُن کی ذرا بھر اطاعت اختیار کی تھی اور نہ کوئی مداہنت اختیار کی تھی کیونکہ اللہ نے آپﷺ کو ایسے ہی ثابت قدم رہنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے مکہ میں نازل ہونے والے ارشادات ہیں کہ
فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۭ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ١١٢؁وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ١١٣؁
سو قائم رہو تم جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو تائب ہو کر تمہارے ساتھ ہیں اورسرکشی نہ کرنا، بے شک وہ تمہاے اعمال دیکھ رہا ہے ۔ اور مت جُھکنا اُن لوگوں کی طرف جو ظالم ہیں ورنہ تم بھی جہنّم کی لپیٹ میں آ جاؤ گے اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی سرپرست نہ ہو گا اور نہ تمہیں مدد ہی ملے گی۔
۱۱::ھود۔آیات:۱۱۲، ۱۱۱
فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّ بِیْنَ ﴿﴾ وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنوْنَ ﴿﴾
پس نہ اطاعت کرنا تم جھٹلانے والوں کی۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم مداہنت اختیار کرو(کچھ ڈھیلے پڑ جاؤ)تو یہ بھی مداہنت اختیار کر لیں۔
۶۸: القلم۔آیات:۸،۹
فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْ ھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا﴿﴾
سو ہرگز نہ اطاعت کرو کافروں کی اور ان کے ساتھ اس (قرآن) کے ذریعے جہادِ کبیر کرو۔
۲۵::الفرقان۔آیت: ۵۲
جمہوریت اور طاغوتی آئین و قوانین کی پاسداری کو شرک جاننے مگر اس کے ذریعے اقامت ِدین کرنے پر مُصر رہنے والوں میں سے بعض ’’حالت ِاِضطرار(بے بسی کی حالت)‘‘ کا بہانہ بناتے ہیں جبکہ قرآن میں مذکورجس حالت ِ اضطرار کا وہ بہانہ بناتے ہیں وہ بھوک کی انتہائی حالت کے حوالے سے ہے اور اس میں بھی ’’کھانے کے لئے حرام کردہ چیزیں ‘‘بقدرضرورت کھانے کی اجازت ہے نہ کہ شرک کرنے کی اجازت ہے۔ :::قرآن سے دیکھیں ۲: ا لبقرہ۔ ۱۷۳، ۶ : ا لانعام۔۱۴۵، ۵: ا لمائدہ۔۳:::
شرک ِجمہوریت کے لئے بعض لوگ ’’حالت ِا ِکرہ (طاغوتوں کی طرف سے زور و زبردستی کئے جانے کی حالت) ‘‘کا بہانہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ ذرا بتائیں کہ ’’ اسلامی+جمہوری پارٹی‘‘ تشکیل دینے، الیکشن کے لئے کاغذات ِنامزدگی داخل کرانے ، لوگوں سے ووٹ مانگنے پھر اسمبلی میں پہنچ کر طاغوتی آئین و قوانین کی پاسداری کا حلف اُٹھانے کے لئے طاغوت کی طرف سے اُن پر کوئی زور و زبردستی کی جاتی ہے؟ یا اپنا ’’جمہوری حق ‘‘قرار دیتے ہوئے مذکورہ تمام شرکیہ کام وہ خود اختیار کرتے ہیں؟
مذکورہ بالا لوگوں میں سے بعض حالت ِخوف کا بہانہ کرتے ہیں اورپارلیمانی شرک کی گنجائش نکالتے ہیں یہاں تک کہ غلبہ حاصل ہو جائے جبکہ اللہ تعالیٰ حالت ِخوف ہی میں شرک نہ کرنے اور ایمان و عمل ِصالح پہ قائم رہنے کے نتیجے میں غلبہ و اقتدار کا وعدہ فرما رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 55؀
وعدہ فرمایا ہے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور عمل کرتے رہے صالح کہ ضرور عطا فرمائے گا انہیں زمین میں خلافت جس طرح عطا فرمائی تھی ان لوگوں کو جو ان سے پہلے تھے اور ضرور قائم کر دے گا مضبوط بنیادوں پر ان کے لیے اس دین کو جسے پسند کر لیا ہے اللہ نے اور ضرور بدل دے گا ان کی حالت ِخوف کو امن سے ،بس وہ میری عبادت کرتے رہیں اور نہ شریک بنائیں میرے ساتھ کسی کو تو جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔
۲۴:النور۔آیت: ۵۵
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں رائج آئین و قوانین تو اسلام کے مطابق ہیں، اور پوچھتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہے تو بتایا جائے کہ ان میں سے آخر کون سے قوانین خلاف ِاسلام ہیں؟
ان سے پہلی عرض یہ ہے کہ اگرآئین و قوانین اسلام کے مطابق تھے( جو ابھی تک تبدیل نہیں ہوئے ہیں) تو پھر قراردادِ مقاصد پیش کرنے کی ضرورت کیوں درپیش آئی تھی؟ اور آئین میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ’’ تمام موجودہ قوانین کو قر آ ن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا (شق۲۲۷(۱) )۔
دوسری گذارش یہ کہ کسی ضابطے کے اسلامی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بِمَآاَ نْزَلَ اللّٰہُ ہو یعنی کتاب و سنت سے اخذ کردہ ہو اور اس بنا پر ساتھ دلیل(آیت یاحدیث)کا بھی حامل ہو۔
اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآاَ نْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَ ھْوَآءَ ھُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط
تم اللہ کے نازل کردہ کے ساتھ ان کے مابین فیصلے کرو اور ان کی اھواء کی پیروی مت کرو، اس حق سے منہ موڑ کے جو تمہارے پاس آچکا ہے ۔
۵:المائدہ۔آیت:۴۸
اَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَي الْبَنِيْنَ ١٥٣؀ۭمَا لَكُمْ ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ ١٥٤؁اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ١٥٥؀ۚاَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِيْنٌ ١٥٦؀ۙفَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ١٥٧؁
کیا اُس نے منتخب کیا ہے بیٹیوں کو بیٹوں پر ؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟کیسے فیصلے کرتے ہو؟کیا تم غور نہیں کرتے؟ کیا تمہارے پاس کوئی واضح دلیل ہے؟ اچھا تو لاؤ اپنی کتاب اگر تم سچے ہو !
( ::الصٓفٰت۔آیات: ۱۵۳۔۔۔۱۵۷37)
وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى ۭ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ١١١؁
اور کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں داخل ہو گا جنت میں مگر وہ جو ہو گا یہودی یا نصرانی۔ یہ باتیں ان کی تمنائیں ہیں۔ ان سے کہو کہ پیش کرو اپنی دلیل ،ا گر تم سچے ہو۔
۲: البقرہ۔آیت: ۱۱۱
آیات ِبالا میں سے پہلی آیت احکامات ، قوانین اور فیصلوں کو کتاب وسنت سے اخذ کرنے کا پابندکرتی ہیں اور دوسری اور تیسری آیت پیش کی گئی ہر بات کے ساتھ‘‘ کتاب و سنت سے دلیل پیش کرنے کا پابند کرتی ہے۔ کتاب و سنت میں اس سلسلے کی بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں جو مذکورہ چیزوں کا سختی سے پابند کرتی ہیں۔اب جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں رائج آئین و قوانین تو اسلام کے مطابق ہیں وہ بتائیں کہ کیاسارے قوانین بناتے وقت کتاب و سنت سے اخذ کئے گئے تھے؟ اوراس بنا پر کیا سارے قوانین کتاب و سنت کی دلیلوں(آیات یااحادیث)سے مزیّن ہیں؟

آج خلیفہ کیوں اور کیسے؟؟؟

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج خلیفہ کیوں اور کیسے؟؟؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 55؀
وعدہ فرمایا ہے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور عمل صالح کرتے رہے کہ ضرور عطا فرمائے گا انہیں زمین میں خلافت جس طرح عطا فرمائی تھی ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے اور ضرور قائم کر دے گا مضبوط بنیادوں پر ان کے لئے اس دین کو جو پسند کر لیا ہے اللہ نے ان کے لئے اور ضرور بدل دے گا ان کی حالت ِ خوف کو امن سے ، بس وہ میری عبادت کرتے رہیں اور نہ شریک بنائیں میرے ساتھ کسی کو تو جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں
( سورۃ النور۔ ۵۵)
آیت میں اللہ کی طرف سے اہل ِ ایمان کو زمین میں خلافت (اقتدار) دینے ، ان کے لئے پسند کئے گئے دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دینے اور ان کی حالت ِ خوف کو امن میں بدل دینے کے لئے شرک سے اجتناب کے ساتھ اعمال ِ صالح کی ادائیگی کو شرط قرار دیا ہے۔قرآن وسنت سے سامنے آنے والے اعمال ِ صالح میں سے صرف قرآن وسنت کی اتباع، اقامت ِ صلوٰۃ، ایتائے زکواۃ، امام کی بیعت ،اطاعت اور نصرت، ہجرت، جہاد فی سبیل اللہ اور حج وغیرہ اہل ِایمان کی وحدت اور ان کے غلبے کی جدوجہد کی کامیابی کے لئے بنیادی کردارادا کرتے ہیں مگر یہ اعمال اہل ایمان کی وحدت اور ان کے غلبے کے لئے تب ہی مؤثر ہوتے ہیں جب یہ صرف ’’ شرعی (قرآن وسنت کی دلیلوں کے حامل)اورایک امام‘‘ کی امامت میں ادا کئے جائیں، لیکن اگر یہ اعمال غیر شرعی اور بے شماراماموں کی امامت میں بٹ کر ادا کئے جائیں توایک تو اللہ کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں ، دوسرے وہ اہل ِایمان میں تفرقے کا باعث بنتے ہیں یوں ان کے غلبے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں، چنانچہ اللہ کی رضا اورزمین میں غلبے کے حصول کے لئے ’’ اعمال ِ صالح کی ادائیگی ‘‘ اوران امامت کے لئے ’’ شرعی امام کی موجودگی ‘‘لازم وملزوم ہیں۔
اعمال ِ صالح بغیراقتدارکی اور خوف کی حالت سے ’’اقتدار و امن‘‘ میں لانے کا باعث بنتے ہیں مگر چونکہ یہ’’ ایک امام ِ شرعی ‘‘کی امامت سے مشروط ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ اعمال ِ صالح کی امامت کے لئے امام ِ شرعی کی موجودگی بغیر اقتدارکی اورخوف کی حالت میں بھی ضروری ہے کہ بغیراقتدار کی اور خوف کی حالت میں امام ِ شرعی کی امامت میں اعمال ِ صالح ادا کئے جائیں گے تو وہ اقتدار وامن کی حالت میں لے جانے کا باعث بنیں گے ان شاء اللہ ۔
اپنی موجودگی میں نبی ﷺ خود اُمت کے شرعی امام تھے ، مزید بات سے پہلے دیکھا جانا چاہیے کہ نبیﷺکے بعداہل ِ ایمان کاشرعی قائد کون ہوتا ہے؟ اس حوالے سے نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ
کَانَتْ بَنُو اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَ نْبِیَاء کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبَیٌّ وَ اَنَّہٗ
لَا نَبِیَ بَعْدِی وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاء فَیَکْثُرُوْن فَمَا تَاْمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ
بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا اُس کے پیچھے نبی ہی آتا تھا میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا البتہ خلفاء ہوں گیاور بہت سے ہوں گے ، عرض کی، پھر آپ کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلی بیعت (کے حامل)کے ساتھ وفاداری کرو․․․
(بخاری: کتاب احادیث الانبیاء۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کے بعداہل ِ ایمان کا شرعی امام ’’خلیفہ‘‘ہوتا ہے ، دیگر آیات و احادیث سے اولی الامر، امیر، امام اور سلطان ’’ خلیفہ ‘‘ ہی کے دیگر نام ِ عہدہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
ذیل کی آیات واحادیث سے واضح ہوتا ہے کہ شرک سے اجتناب اور اعمال ِ صالح کی امامت کے لئے شرعی اولی الامر، امیر، امام اور سلطان یعنی ’’خلیفہ‘‘ کی موجودگی ، حالت ِ اقتدار اور حالت ِ خوف کا فرق کئے بغیر، ہر حال میں لازم ہے ۔
٭ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59؀ۧ
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا 60؀
اے ایمان والو ! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولۗۗۗۗ کی اوراولی الامر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں۔ اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے لوٹا دو فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو ۔ یہی چیز اچھی ہے اور انجام کے اعتبار سے بہترین بھی یہی ہے ۔تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر جوتم سے پہلے نازل ہوا ہے مگرفیصلہ کروانے کے لیے طاغوت کے پاس جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیاگیا ہے۔ شیطان انہیں راہ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی (شرک)میں لے جانا چاہتا ہے۔ سورۃ النساء۵۹،۶۰
آیات میں اہل ایمان کے لئے کتاب وسنت کے ساتھ فیصلوں کے لئے صرف اپنے اولی الامر یعنی خلیفہ کے پاس جانے اور طاغوت کے پاس قطعی نہ جانے کا حکم سامنے آتا ہے اور طاغوت کے پاس جانا شرک قرارپاتا ہے۔ اللہ کے حکم کی اطاعت میں فیصلوں کے لئے طاغوت کے پاس جانے (شرک کرنے )سے رُکنا اگر بغیر اقتدارکی حالت میں بھی لازم قرار پاتا ہے تو اسی حالت میں فیصلوں کے لئے اُس کے پاس جانا بھی لازم قرار پاتا ہے جس کے پاس جانے کا حکم دیا گیا ہے یعنی اپنا اولی الامر’’خلیفہ‘‘! اس سے بغیر اقتدارکی حالت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے تاکہ فیصلوں کے لئے طاغوت کی بجائے خلیفہ کے پاس جایا جا سکے ۔
٭ نبیﷺکا ارشادہے کہ
لَا یَقُصُّ اِلَّا اَمِیْرٌ اَ وْ مَامُوْرٌ اَوْ مُخْتَالٌ
خطبہ بیان نہ کرے گا مگر امیر یا مامور یا شیخی باز ۔
( احمد: باقی مسند الانصار۔ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ)
نبیﷺکے ارشادسے ’’خطبہ ِ جمعہ ‘‘ خلیفہ یا اُس کی طرف سے مامور کردہ فرد ہی کی طرف سے دیئے جانے کی پابندی سامنے آتی ہے، ان کے علاوہ خطبہ دینے والا شیخی بازقرارپاتا ہے ۔ جمعہ اگر بغیر اقتدارکی حالت میں بھی لازم قرار پاتا ہے تواس کی ادائیگی صرف خلیفہ یا اس کے مامور کی اقتداء میں لازم ہونے کی بناپر بغیر اقتدارکی حالت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے تاکہ جمعہ صرف خلیفہ یا اس کے مامور ین کی اقتداء میں ادا ہوسکے اور شیخی بازوں کی امامت سے بچا جاسکے ۔
٭ نبیﷺکے ارشادات ہیں کہ
وَمَنْ مَّاتَ وَ لَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً
اور جو اس حال میں مر گیا کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں وہ جاہلیت کی موت مر گیا۔
(مسلم: کتاب الامارۃ۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ)
وَاَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ
وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیلِ اللّٰہَ
میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے : جماعت کے ساتھ ہونے کا، حکم سننے کا، اطاعت کرنے کا، ہجرت کا اور جہاد فی سبیل اللہ کا۔
(احمد: مسندالشامیین۔ حارث الاشعری رضی اللہ عنہ)
حدیث میں ہجرت اور جہاد سے پہلے سمع اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے جس کے لئے پہلے بیعت ضروری ہے ، یہ بات واضح ہے کہ نبیﷺ کے بعد سمع و اطاعت صرف خلیفہ کی ہے ، ہجرت سے پہلے کی حالت کمزوری اور مغلوبیت کی ہوتی ہے ، اس حالت میں بھی اگر سمع و اطاعت کا حکم ہے تووہ خلیفہ کے سوا اور کس کی ہے ؟ اس سے کمزوری اور مغلوبیت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے تاکہ اس حالت میں اس کی سمع واطاعت میں ہجرت اور جہاد کے اعمال ِ صالح ادا کئے جا سکیں اور اللہ کی طرف سے اقتدار و امن کی امید رکھی جا سکے ۔
٭ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَّاُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ 13؀
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَــوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَكَفَرَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ ۚ فَاَيَّدْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلٰي عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِيْنَ 14؀ۧ
اور وہ دوسری چیز (بھی تمہیں دے گا) جسے تم چاہتے ہو، اللہ کی طرف سے نصرت اور جلد حاصل ہونے والی فتح، اور مومنین کو بشارت دے دو۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی نصرت کرنے والے بنو جیسا کہ کہا تھا عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہ کون ہے اللہ کی طرف میری نصرت کرنے والا؟ کہا تھا حواریوں نے کہ ہم ہیں اللہ کی نصرت کرنے والے پھر ایمان لے آیا ایک گروہ بنی اسرائیل میں سے اور انکار کردیا(دوسرے) گروہ نے سو مدد کی ہم نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں سو ہوکر رہے وہی غالب۔
(سورۃ الصف۔۱۳،۱۴)
آیت بالا سے، اللہ کی طرف سے نصرت و فتح پانے کے لئے ’’اللہ کی نصرت کرنا‘‘ شرط کے طورپر سامنے آتا ہے اور اس کے طریقے کے لئے عیسیٰ علیہ السلام اور آپ ؑ کے حواریوں کا واقعہ سنایا گیا ہے جس میں اللہ کی نصرت کرنے کا طریقہ یہ سامنے آتا ہے کہ وقت کے امام ِشرعی کی نصرت کی جائے ۔ جب عیسیٰ علیہ السلام امام ِ شرعی تھے تو اُس وقت کے مومنین ’’حواریوں‘‘نے آپ ؑ کی انتہائی مغلوبیت کی کیفیت میں آپ ؑکی نصرت کا اعلان کیاتھا اور آخرکار اللہ نے اُن کو غلبہ عطا فرمایا، جب نبی ﷺ شرعی امام تھے تو وقت کے مومنین نے آپ ﷺکی انتہائی مغلوبیت کی کیفیت سے آپ کی بھرپور نصرت شروع کی تھی اور غلبے سے سرفراز ہوئے ۔ آپ ﷺ کے بعدوقت کا شرعی امام’’خلیفہ ‘‘ ہوتا ہے چنانچہ اب مومنین پرخلیفہ کی نصرت لازم قرار پاتی ہے۔ یہ آیت قیامت تک کے مومنین کو اللہ کی طرف سے نصرت و فتح ملنے کایہ اُصول دیتی ہے کہ’’خلیفہ‘‘ کی نصرت کی جائے ، اگر نصرت وفتح مغلوبیت میں چاہیے تو پھرمغلوبیت میں بھی خلیفہ کی موجودگی لازم قرار پاتی ہے جس کی نصرت کر کے فتح حاصل کی جاسکے اور ذیل میں درج حدیث خلیفہ کے علاوہ ہرامام کی نصرت سے منع کرکے صرف خلیفہ کے جھنڈے تلے اکٹھے ہونے کا اہتمام کرتی ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ
مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَ مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ
رَاْیَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَِغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْ یَدْعُوْا اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ
جو شخص (خلیفہ کی )اطاعت سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے اور مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا۔ جو شخص اندھا دھند ( اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی گروہ کے لئے غضب ناک ہو ، یاگروہ کی طرف دعوت دے یا گروہ کی نصرت کرے اور قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے۔
(مسلم:کتاب الامار ہ۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
٭قرآن و سنت میں خلیفہ اورخلافت کے ایک سے زیادہ مفاہیم سامنے آتے ہیں ان میں سے خلیفہ کاایک فہم’’ سلطان و مقتدر‘‘اور خلافت کاایک فہم ’’سلطنت واقتدار‘‘ بھی ہے لیکن اکثر لوگ یہ فیصلہ کئے بیٹھے ہیں کہ خلیفہ لازماً وہی ہوتا ہے جو سلطنت و اقتدار اور مضبوط افواج کا حامل ہو اور یہ کہ خلیفہ مقرر ہی نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اہل ایمان کو سلطنت و اقتدار حاصل نہ ہو جائے چنانچہ وہ کسی سلطان ومقتدر خلیفہ اور سلطنت واقتدار اورمضبوط افواج والی خلافت کے انتظار میں ’’وحدتِ اُمت‘‘ کے فرض کو مؤخر کئے بیٹھے ہیں۔ اس حوالے سے درج ذیل سوالات قابل ِ غور ہیں :
(الف) قرآن وسنت سے خلیفہ’’ سلطان ومقتدر‘‘ کے علاوہ نائب، جانشین اور وارث کے طور پر بھی سامنے آتا ہے مگر خلیفہ سے لازماً سلطان ومقتدر ہی مراد لینے پر آخر کیوں زور دیا جارہا ہے ؟
(ب) کار ِ خلافت میں ’’اُمت کی سلطنت کی تدبیر ‘‘کے علاوہ ’’اُمت کی امارت اور ’’اُمت کی امامت ‘‘بھی آتی ہے ، پھر اُمت کے پاس سلطنت واقتدار نہ بھی ہو تب بھی اُمت تو موجود ہوتی ہے اور اُسے اپنی امارت وامامت کا مسئلہ درپیش رہتا ہے( کہ ایک امیر وامام ہو جس کی قیادت میں مجتمع ہو کر اقتدار کے لئے منظم جدوجہد کی جاسکے ) لیکن کار خلافت سے صرف تدبیر ِ سلطنت ہی مراد لینے کی آخر کیا وجہ ہے؟
(ج) اہل ِ ایمان یا اہل ِ حق جب تک مغلوبیت اور کمزوری کی حالت میں ہیں اور انہیں ایسا قائدنہیں مل جاتا جو سلطنت واقتدار کا حامل ہو تب تک:
۱۔ کیا اہل ِ ایمان ایک جماعت اور ایک امام کے بغیر رہیں گے؟
۲۔ کیا اہل ِ ایمان ہزارہا غیر شرعی امیروں، اماموں اور سلطانوں کی قیادت میں بٹ کر مغلوب، منتشر اور باہم متحارب رہیں گے ؟ اور کیا ان کا رب ان کی مغلوبیت اور کمزوری کی حالت میں انہیں ان چیزوں میں مبتلا رہنے کی اجازت دیتا ہے ؟ کہ جن کی بنا پر وہ غلبے سے مغلوبیت اور کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَ اَطِیْعُواللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیۗحُکُمْ وَاصْبِرُوْا ط
اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور تنازعہ مت کرو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی
( سورۃ الانفال۔ ۴۶)
۳۔ کیا تفرقے میں نہ پڑنے اور مجتمع رہنے ، جماعت وامام کولازم کرنے، بیعت کے بغیرمرنے پر جاہلیت کی موت مرنے والی آیات و احادیث حالت ِ مغلوبیت میں منسوخ ہو جاتی ہیں ؟
۴۔ اہل ِ ایما ن اگر حالت ِ مغلوبیت میں مجتمع ہونا چاہیں تو خلیفہ کے علاوہ کون سی قیادت ہے جس پر انہیں مجتمع ہونے کی اجازت ہے ؟ جبکہ نبی ﷺ کا ارشاد بہت واضح ہے کہ
وَ اِنَّہ‘ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَآءُ
میرے بعد کوئی نبی(اُمت کی سیاست کاذمہ دار) نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے۔
(بخاری: کتاب احادیث الانبیاء۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
۵۔ اگر خلیفہ وہی ہوتا ہے جو سلطنت واقتدار اور افواج رکھنے کی شرط پوری کرے اور کسی ایسے خلیفہ کے ہاتھ بیعت نہیں ہوسکتی جو یہ شرط پوری نہ کرتا ہو، تو اگر یہ اُصول ہے تو پھرتمام مومنین کے لئے اُصول ہے اور ایک بھی مومن ایسے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتا جو سلطنت واقتدار اور افواج نہ رکھتا ہو تو بتائیں کسی ایک بھی مومن کی بیعت سے پہلے جس خلیفہ سے سلطنت واقتدار اور افواج کا مطالبہ کے جارہا ہے اس حال میں وہ کس کی فوجیں لائے گا،فرشتوں کی؟ جنوں کی ؟ یا کسی اور مخلوق کی ؟
٭٭ درج بالا تمام سوالات ایک ہی جواب کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نہ ہی مومنین کی وحدت کافرض مؤخر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مومنین کا شرعی امام’’ خلیفہ‘‘ شروع ہی سے سلطنت واقتدار اورمظبوط افواج کا حامل ہو جبکہ کتاب وسنت سے واضح ہوتا ہے کہ ایک شخص صرف شرائط ِ خلافت رکھنے اور جانے والے خلیفہ کے بعدسب سے پہلے اپنے ہاتھ پر ایک مومن کی بیعت ہونے کی بنا پر خلیفہ بنتا ہے اور پھردیگر مومنین کی طرف سے اس خلیفہ کواپنی بیعت ، اطاعت اور نصرت دیئے جانے اوراپنے زیرانتطام علاقے اس کے سپرد کر دینے سے افواج اور سلطنت اقتدار کا حامل ہو جاتا ہے ، تمام خلفائے راشدین اسی طرح سے پہلے خلیفہ بنے پھرمومنین کی بیعت، اطاعت اور نصرت وغیرہ ملنے پرافواج اور سلطنت واقتدار کے حامل ہوئے جیسااس سے پہلے خود نبی ﷺ بھی اللہ کی طرف سے مومنین کی بیعت ، اطاعت اور نصرت میسر آنے کی بنا پر افواج اورسلطنت واقتدار اورملک کے مالک ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
فَاِ نَّ حَسْبِکَ اللّٰہُ ط ھُوَالَّذِیْ ٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِ ہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ ﴿﴾
پس یقیناً کافی ہے تمہارے لئے اللہ ۔ وہی تو ہے جس نے قوت بہم پہنچا ئی تمہیں اپنی نصرت سے اور مومنین (کی نصرت) سے۔
(سورۃ الانفال۔ ۶۲)
آج جو بھی مومن کتاب وسنت سے سامنے آنے والی شرائط ِ خلافت پوری کرتا ہے، اور اُس کے ہاتھ پر خلیفہ کے لئے بیعت ہوچکی ہے ، اور وہ گذشتہ خلافت ختم ہونے کے بعدہونے والی پہلی بیعت ہے تو وہ مومن تمام مومنین کے لئے خلیفہ ہے ، مومنین کی ذمہ داری ہے کہ اُس کی بیعت ، اطاعت اور نصرت کرتے ہوئے اُس کے جھنڈے تلے مجتمع ہو جائیں ، اُسی کی امامت میں اعمال ِ صالح ادا کریں پھر اللہ کی طرف سے زمین میں خلافت ملنے ، دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دینے اور حالت ِ خوف کو امن میں بدل دینے کا وعدہ جلد پورا ہوگا ان شاء اللہ۔
٭٭٭

Wednesday, January 5, 2011

قوم پرستی جاہلیت کی پکار

0 تبصرہ جات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قوم پرستی جاہلیت کی پکار
آج پاکستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے باسیوں کو قوم پرستی کی دلدل میں پھنسایا جارہا ہے یہ وہ جہالت ہے جس میں مشرکینِ مکہ ہی نہیں پورا جزیرۃ العرب مبتلا تھا اور چھوٹی چھوٹی سی بات پر ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوجاتا تھا اور یہ لڑائی کئی کئی دن تک ہوتی رہتی اور جب دونوں طرف سے سینکڑوں لوگ قتل ہوجاتے تو خود ہی تھک ہار کر لڑائی وقتی طور پر ختم کردیتے تھے، یہ قوم پرستی کی انتہائی ذلت آمیز داستانیں ہیں جو کہ ہم سب کو علم ہونے کے باوجودآج پاکستان میں دوہرائی جارہی ہیں مگر بجائے ہم ان سے درسِ عبرت لیں ان کو فراموش کیے بیٹھے ہیں اور ہمارے اہلِ علم حضرات بھی اس جہالت سے پُر فتنے پر لکھتے اور بولتے نظر نہیں آ رہے۔
قوم پرستی ایک خطرناک موذی مرض ہے اس سے ہر مسلمان کو آگاہی ہونا بہت ضروری ہے تبھی ہم اس خطرناک مرض سے بچ سکیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی بیماری جو انسان کی جان لےسکتی ہے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ایسا مرض جو ایک انسان کی ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے موت کا پیغام ہے سے بچنے کی تدبیر نہیں کررہے؟؟؟
آج کتنے ہی گھر ہیں جو اس مرض نے تباہ و برباد کردیے ہیں،کتنے ہی معصوم لوگوں کو موت کے گاٹ اتار دیا ہے اس موذی مرض نے، مگر اس سب کے باوجود ہم اس موذی مرض کے خلاف کوئی بھی خاص مدافیت نہیں کررہے جوکہ ایک ایسے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا جو عقل و شعور رکھتا ہو۔ہم سب اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں مگر کبھی سوچا کہ اس قوم پرستی کی لعنت سے کیسے جان چھوڑائی جائے؟؟؟کہ جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری ذات بلکہ اسلام اور پاکستان کی بھی سلامتی کو خطرہ ہے، قوم پرست رہنماءصرف پاکستان کے ہی دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ اسلام سے بےبہرہ اور گمراہ ہیں کہ جو لوگوں کو اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں اور پاکستان کو توڑنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
اسلام سے پہلے عرب معاشرے کا کیا حال تھا اس بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۠وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِھٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ ١٠٣؁
اور مضبوطی سے تھام لو تم لوگ اللہ کی رسی کو سب مل کر، اور آپس میں مت بٹو ٹکڑیوں میں اور یاد کرو اللہ کے اس (عظیم الشان انعام و) احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے، تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے (پھٹے ہوئے) دلوں کو، پھر تم اس کے فضل و کرم سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم لوگ کھڑے تھے دوزخ کے (ہولناک گڑھے کے) عین کنارے پر، تو اس نے بچا لیا تم کو اس سے اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں، تاکہ تم لوگ سیدھی راہ پر رہو۔
آلِ عمران : ۱۰۳
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین باتوں سے اللہ رحیم خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اسی کے عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو دوسرے اللہ کی رسی:::قرآن و سنت:::کو اتفاق سے پکڑو، تفرقہ نہ ڈالو، تیسرے اپنے خلفاءکی خیر خواہی کرو، فضول بکواس، زیادتی سوال اور بربادی مال::فضول خرچی:: یہ تینوں چیزیں رب کی ناراضگی کا سبب ہیں، بہت سی روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں سے کہ اتفاق کے وقت وہ خطا سے بچ جائیں گے اور بہت سی احادیث میں نا اتفاقی سے ڈرایا بھی ہے، ان ہدایات کے باوجود امت میں اختلافات ہوئے اور تہتر فرقے ہو گئے جن میں سے ایک نجات پا کر جنتی ہو گا اور جہنم کے عذابوں سے بچ رہے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس پر قائم ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھے۔ پھر اپنی نعمت یاد دلائی، جاہلیت کے زمانے میں اوس و خزرج کے درمیان بڑی لڑائیاں اور سخت عداوت تھی آپس میں برابر جنگ جاری رہتی تھی جب دونوں قبیلے اسلام لائے تو اللہ کریم کے فضل سے بالکل ایک ہو گئے سب حسد بغض جاتا رہا اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ تعالٰی کے دین میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہو گئے، جیسے اور جگہ ہے آیت (ھوالذی ایدک بنصرہ وبالمومنین والف بین قلوبھم) الخ، وہ اللہ جس نے تیری تائید کی اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی،اور روایات سے ملتا ہے کہ یہودیوں نے ان دونوں قبیلوں کو سابقہ آپس کی جنگوں کی یاد دہانیاں کرواتے اور ان کے مقتولین کی یاد دلاتے اور ان کی نسلی عصبیت کو دوبارہ جگانے کی لاکھ کوشش کرتے مگر وہ یہود کبھی بھی اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوپائے، مگر آج یہود کی سازشیں کامیاب ہو گئی ہیں،کیا وجہ ہے کہ ہم یہود کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کرپارہے؟؟؟ اور اب کیا وجہ ہے کہ ہم کو پھر پہلے والی جہالت کی طرف دھکیلا جارہا ہے جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دیا تھا آج ہم یہود اور نصاری کے ایجنٹوں کی باتوں میں آکر اسی حرام کام::نسلی تعصب:: پر عمل کررہے ہیں؟
اللہ نے ہر انسان کو عقل و شعور سے نواز رکھا ہے مگر اب جو کوئی اس کا استعمال نہیں کرتا اور ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کررہا ہے جو کہ مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کررہا ہے تو ایسے لوگ اصل میں گدھے ہیں کہ کوئی جہاں چاہے ان کو ہانک کر لے جائے، ارے بھائیو اس عقل و شعور کا کیا فائدہ اگر اس کو استعمال نہیں کرنا تو؟؟؟
اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا ہے،یہ ایسی جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اسلام میں لوگوں کو قوموں کی سطح پر تقسیم در تقسیم کردیتی ہے اسلام جو وحدت و اتفاق کا درس دیتا ہے یہ قوم پرستی اسلام کی وحدت کو پاراپارا کردیتی ہے، اب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے یہ مختلف قبائل اور خاندان کیوں بنائے ہیں آیا اس لیے کہ ان کی بنیاد پر لوگ کو آپس میں لڑایا جائےاور ان کی نسلوں کوختم کیا جائے یا کہ صرف آپس میں پہچان کے لیے ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13؀
اے لوگوں یقینا ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں (محض اس لئے) تقسیم کر دیا کہ تاکہ تم آپس میں پہچان کر سکو بیشک اللہ کے یہاں تم میں سے سب سے بڑا عزت دار وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی (و پرہیز گار) ہو بیشک اللہ پوری طرح جانتا ہے (تمہارے عمل و کردار کو اور وہ) پوری طرح باخبر ہے (تمہاری احوال سے)
۴۹۔حجرات:۱۳
مقصد اس آیت مبارکہ کا یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جو مٹی سے پیدا ہوئے تھے ان کی طرف سے نسبت میں توکل جہان کے آدمی ہم مرتبہ ہیں اب جو کچھ فضیلت جس کسی کو حاصل ہو گی وہ امر دینی اطاعت اللہ اور اتباع نبوی ﷺ کی وجہ سے ہو گی یہی راز ہے جو اس آیت کو غیبت کی ممانعت اور ایک دوسرے کی توہین و تذلیل سے روکنے کے بعد وارد کی کہ سب لوگ اپنی پیدائشی نسبت کے لحاظ سے بالکل یکساں ہیں کنبے قبیلےاور برادریاں صرف پہچان کے لئے ہیں تاکہ جتھا بندی اور ہمدردی قائم رہے۔ فلاں بن فلاں قبیلے والا کہا جاسکے اور اس طرح ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو جائے ورنہ بشریت کے اعتبار سے سب قومیں یکساں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو لوگوں نے کہا ہم یہ عام بات نہیں پوچھتے فرمایا پھر سب سے زیادہ بزرگ حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے نبی ذادے تھے دادا بھی نبی تھے پردادا تو خلیل اللہ تھے انہوں نے کہاہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ فرمایا پھر عرب کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ سنو ! ان کے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں ممتاز تھے وہی اب اسلام میں بھی پسندیدہ ہیں جب کہ وہ علم دین کی سمجھ حاصل کرلیں صحیح مسلم شریف میں ہے اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا خیال رکھ کہ تو کسی سرخ وسیاہ پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا ہاں تقویٰ میں بڑھ جا تو فضیلت ہے ۔ طبرانی میں ہے مسلمان سب آپس میں بھائی بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ ۔ مسند بزار میں ہے تم سب اولاد آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادوں کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادی ہلکے ہو جاؤ گے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر طواف کیا اور ارکان کو آپ اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے ۔ پھر چونکہ مسجد میں اس کے بٹھانے کو جگہ نہ ملی تو لوگوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اتارا اور انٹنی بطن مسیل میں لے جا کر بٹھایا ۔ اس کے بعد آپﷺ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالٰی کی حمدو ثنا بیان کر کے فرمایا لوگو اللہ تعالٰی نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ دادوں پر فخر کرنے کی رسم اب دور کر دی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر فرمایا میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم علیہ السلام کے لڑکے ہو کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے انسان کو یہی برُائی کافی ہے کہ وہ بدگو ، بخیل ، اور فحش کلام ہو۔ ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالٰی تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی علیہ السلام منبر پر تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز سب سے زیادہ پرہیزگار سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا سب سے زیادہ برُی بات سے روکنے والا سب سے زیادہ صلح رحمی کرنے والا ہے ۔
ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ
علی، سفیان، عمرو، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک جنگ میں تھے اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ ہم ایک لشکر میں تھے تو مہاجرین میں سے ایک نے ایک انصاری کو مارا انصاری نے پکار کر کہا کہ اے جماعت انصار! اور مہاجرنے پکار کر کہا کہ اے جماعت مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو مارا آپ ﷺنے فرمایا جاہلیت کی اس پکار کو چھوڑو یہ برُا کلمہ ہے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب: جاہلیت کی طرح گفتگو کرنے کی ممانعت
اس آیت اور احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو قوم پرستی کی کوئی حقیقت نہیں رہتی سوائے جاہلیت کے اور معلوم نہیں یہ قوم پرست رہنماء کس کے کہنے پر اُمت کو باہم متحارب کرنے کی ناپاک جسارت کررہے ہیں، یہ اس دنیا میں تو شاید کچھ ذاتی فوائد حاصل کرلیں مگر ان ظالموں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ ایک انسان کی زندگی بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے اور ایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنا گویا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے اور امت میں فتنہ پیدا کرناقتل سے بھی بدتر ہے اور قوم پرستی کی دعوت جاہلیت کی دعوت ہے یہ اتنی برُی دعوت ہے کہ جس کو سُن کر نبی علیہ السلام کو غصہ آیا اور اس طرح قوم پرستی کی آواز لگانے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی اس کو جاہلیت کی پکار کے ساتھ تشبہ دی۔
آج افسوس کے ساتھ کہنہ پڑتا ہے کہ مسلمانوں کو پہلے تو دین کے نام پر فرقوں میں تقسیم کی گیا تھا کہ تم حنبلی ہو، تم مالکی ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی ہو، اور یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے کئی کئی جماعتیں اور گروہ وجود میں لائے گے کہ ہر کسی کا اپنا امیر و امام مقرر کیا گیا اور اپنا ایک علیحدہ سسٹم چلایا گیا۔ اور پھر خلافت کے نظام کو بذریعہ جنگ ختم کرکے ملکوں میں تقسیم کردیا گیا تھا کہ تم انڈین ہو، تم پاکستانی ہو، تم عراقی ہو، تم سعودی ہو، تم فلسطینی ہو، تم ایرانی ہو، تم افغانی ہو، یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ اب صوبوں کے نام پر بھی تقسیم کی جارہی ہے کہ تم سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور اب اس بھی آگے کی جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور قبیلہ کے نام پر بھی امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ اتنے زیادہ ان کفار نے جال بھن دیے ہیں کہ ان کو کاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتاجارہا ہے اور مسلمانوں میں علم کی کمی کی وجہ سے اس عصبیت کو بہت چرچہ مل رہا ہے اور لوگ ان قوم پرست رہنماوں کی باتوں میں پھنس رہے ہیں۔
ایک مسلمان ان سب باتوں سے پہلے ایک مسلم ہے کہ جس نے بھی اللہ کی ایکتائی کا اور محمد ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا اور اس کلمے کی شرائط کو پورا کیا وہ مسلم ہوگیا اب اس کا جان و مال دوسرے مسلمان پر حرام ہوگیا۔
نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
سوید بن سعید، ابن ابی عمر، مروان، ابومالک، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرما تے ہوئے سنا کہ جس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہا اور اللہ تعالی کے سواء اور چیزوں کی پرستش کا انکار کردیا اس کا جان ومال محفوظ ہوگیا باقی ان کے دل کی حالت کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہے۔
صحیح مسلم:جلد اول:کتاب: ایمان کا بیان :باب:ایسے لوگوں سے قتال کا حکم یہاں کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں
اس فرمانِ رسول ﷺ کے ہوتے ایک مسلمان کس طرح اپنے کلمہ گو مسلمان کو قتل کرسکتا ہے؟؟؟
اور وہ بھی صرف قبائلی تعصب کی وجہ سے کہ جس تعصب کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
آخر کیا ہوگیا ہے ہم لوگوں کو ، ہم کس دن ان نسلی دیواروں کو توڑیں گے؟؟؟
اور آپس میں بھائی بھائی بن کر اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کریں گے یہ بات یاد رکھیں جب تک ہم متحد نہیں ہوجاتے ہم مسلمان اسی طرح دنیا میں محکومی کی زندگی گزارتے رہیں گے اور یہود ، نصاری ، مشرک اور ان کے نام نہاد مسلمان ایجنٹ ہم کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر کےہم پر حکومت کرتے رہے گے۔ اور یاد رکھیں وقت کے ہر طاغوت اور فرعون کا یہی ایک حربہ ہوتا ہے حکمرانی کرنے کا کہ لوگوں کو فرقہ فرقہ اور گروہ گروہ کر کے حکمرانی کی جائے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا
حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔
۲۸::القصص۔آیت:۴
تو ہم جب تک ان گروہ بندیوں چاہے وہ دینی ہوں، ملکی ہوں، یا قبائلی ہوں سے نکل نہیں آتے اور ایک ملت ، ایک جسم،بن نہیں جاتے یہ کفار اور ان کے نام نہاد مسلمان ایجنٹ ہم پر ایسے ہی ظلم کرتے رہیں گے۔
اللہ سے دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کلمہ پڑھنے والوں کو قرآن و سنت پر متحد و مجتمع کردے اور ہم کو دینی قبائلی اور ملکی گروہ بندیوں سے نجات دے اور ہماری کھوئی ہوئی عظمت ہم کو واپس لوٹا دے۔
آمین یا رب العالمین